قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کے زمانہ میں جب بنی اسرائیل کو سرزمین فلسطین میں داخلہ کا حکم دیا گیا تو انھوں نے عمالقہ کی موجودگی کو اپنے لیے زبردست خطرہ محسوس کیا اور وہاں جانے سے منع کردیا۔ جس کے بعد سزا کے طور پر چالیس سال کے لیے وادی تیہ میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیے گئے۔(المائدہ: ۲۱) اور پھر حضرت یوشع بن نونؑ کی قیادت میں ان کو وہاں جانا نصیب ہوا، ارض مقدس پر قبضہ کرنے کے لیے انھیں وہاں موجود طاقتوں سے خوں ریز مقابلہ بھی کرنا پڑا۔[1] ان کے بعد دوسری بار حضرت داؤد ؑ(۱۰۰۴-۹۶۳) نے۹۹۰ ق م میں القدس کو فتح کیا، اپنے زمانے کی تمام طاقتوں کو زیر کرکے انھیں جزیہ دینے پر مجبور کیا۔[2] فلسطین کی تاریخ میں پہلی بار یہ واقعہ پیش آیا کہ توحید کے علم بردار اس کے تمام علاقوں پر قابض تھے۔حضرت سلیمانؑ کے بعد فلسطین کی سلطنت دو حصوں میں بٹ جاتی ہے، ایک ’مملکت یہودا ‘ جس کی قیادت رحبعام بن سلیمان نے کی اور دوسری’ مملکت اسرائیل‘جس کی زمام یربعام بن سلیمان کے ہاتھ میں تھی؛دونوں مملکتوں کے درمیان خونی کشمکش جاری رہی۔یہاں تک کہ۷۲۱ ق م میں ایک آشوری گورنر سرجون ثانی کے ذریعے مملکت اسرائیل کا خاتمہ کر دیا گیا اور بنی اسرائیل کو حران، خابور، کردستان اور فارس کے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا گیا۔[3] دوسری جانب مملکت یہودا میں بت پرستی، اخلاقی جرائم، بدکاری جیسی سنگین بیماریاں پھیل گئیں۔ یہورام بن یہوشفاط(۸۴۹-۸۴۲ق م ) نے حکومت کی لالچ میں نے سرداران قوم کے ساتھ اپنے ۶؍ بھائیوں کو بھی قتل کر دیا؛ جب کہ یوحاز بن یوتام(۷۳۵-۷۱۵ق م)نے کھلے عام بت پرستی شروع کر دی۔ [4]
یہ مختصر داستان سر زمین فلسطین پر یہودیوں کی خانہ جنگی اور دینی اور اخلاقی جرائم سے متعلق تھی۔ اس کے علاوہ تاریخ میں جن خارجی عناصر نے ان پر مظالم ڈھائے ان میں ایک مشہور نام فرعون مصر شیشق کا ہے۔ اس نے ۹۳۰ ق م کے آس پا س رحبعام بن سلیمان کے خلاف لشکر کشی کی اور یروشلم کو تباہ وبرباد کر دیا۔ بائبل میں اس کاتذکرہ اس طرح ہے:
’’اور رحبعام بادشاہ کے پانچویں برس میں ’سیسق‘شاہ مصر نے یروشلم پر حملہ کیا۔ اور خداوند کے گھر اور شاہی محل کے سارے خزانے لوٹ کر لے گیا، جن میں سلیمان کی بنائی ہوئی سونے کی ڈھالیں بھی تھیں۔‘‘[5]
۵۷۸ ق م میں بابلی بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس پر چڑھائی کرکے ہیکل سلیمانی کو منہدم کردیا اور ۴۰-۵۰ ہزار یہودیوں کو اپنے ساتھ قید کرکے بابل لے گیا۔[6]
۱۳۵ء میں شاہ ہیڈرین کے فوجی افسر جولیوس سیفروس نے یہودیوں شکست دے کر ارض مقدس سے بالکل بے دخل کر دیا، انھیں اذیت ناک سزائیں دی گئیں،یروشلم کو منہدم کردیاگیا،ہیکل کی جگہ بت رکھوائے گئے۔ یہودیوں کے لیے بیت المقدس اور اس کے آس پاس بھٹکنا بھی ممنوع ہوگیا۔[7]
۳۳۵ء میں شاہ قسطنطین نے بیت المقدس پر قبضہ کیا،اس نے ہیکل کی جگہ پر رکھے ہوئے بت اٹھوادیے، تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں سے دشمنی کی وجہ سے ہیکل کی عمارت منہدم کرواکر انھوں نے اس جگہ کو کوڑے دا ن کے طور پر استعمال کیا۔
سرزمین فلسطین پر اسلامی فتح کا پرچم
حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد سے سرزمین فلسطین پر عیسائیت کا غلبہ شروع ہوچکا تھا، قسطنطین کے عیسائی بننے کے بعد فلسطین کی پوری رعایا بھی اسی مذہب سے وابستہ ہوگئی۔اس طرح عیسائیت وہاں کا غالب مذہب بن گئی اور اس کے بالمقابل جو قومیں وہاں پہلے سے آباد تھیں؛ بالخصوص یہود ان کا وجود ختم ہوتا گیا۔ قسطنطین نے’القدس‘کو دارالحکومت بنایا۔ قسطنطنیہ(استنبول)اسی کا آباد کیا ہوا ہے۔بعثت نبویﷺ کے وقت بھی وہاںرومن امپائر ہی کا تسلط تھا۔ خلیفہ ٔ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں حضرت عمرو بن عاصؓ نے ۱۵ھ مطابق۶۳۷ء میں ایلیا(یروشلم) پر لشکر کشی کی اوربیت المقدس کا محاصرہ کر لیا۔ وہاں کے عیسائی پادری اس شرط پر صلح کرنے کے لیے راضی ہوئے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ خود ان کے پاس تشریف لائیں، جس کے بعد آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فریقین کی رضامندی سے صلح نامہ تیارہوا۔
فلسطینی عیسائیوں کے ساتھ حضرت عمرؓ کا معاہدہ اور رواداری کا مظاہرہ
مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جو صلح نامہ تیار ہوا، وہ ’معاہدۂ عمری‘(Pact of Umat) کے نام سے مشہور ہے۔ تاریخ فلسطین کا یہ پہلا موقع ہے کہ اس کے مفتوح باشندوں کو قتل کرنے کے بجائے ان کے ساتھ اس طرح کا انوکھا سلوک کیا گیا،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انھیں ذمی کا درجہ دیتے ہوئے ان کی جان ومال، عزت وآبروکی حفاظت کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کی پوری آزادی دی گئی۔ معاہدہ کے الفاظ یہ ہیں:
’’ھذا ما کتبہ عمر بن الخطاب لأھل بیت المقدس: انکم آمنون علیٰ دمائکم وأموالکم وکنائسکم، لا تسکن ولا تخرب، الا أن تحدثوا حدثا عاماً۔‘‘[8]
یہ و ہ صلح نامہ ہے جو عمر بن خطاب نے اہل قدس کے نام لکھا ہے: بے شک تم سب اپنے خون، مال وجائداد اور چرچ کے سلسلے میں محفوظ ہو؛ تمھارے چرچ میں نہ کوئی رہائش اختیار کرے گا اور نہ ان کو منہدم کیا جائے گا، الا یہ کہ تم کھلم کھلا کوئی نئی چیز ایجاد کرلو۔
عہد نامہ کے یہ الفاظ تاریخ یعقوبی سے منقول ہیں، ان کے علاوہ امام طبری، امام ابن الجوزی، ابن البطریق، امام ابن عساکر نے بھی اس کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے؛ لیکن ان میں ایک دوسرے کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہے۔بالخصوص ابن عساکر کے الفاظ کسی بھی اعتبار سے درست نہیں معلوم ہوتے۔ ان کا ذکر کردہ عہد نامہ اس زمانے کے مختصر معاہدوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ طویل ہے،اسی طرح اس کے مضمون سے بھی اس کے غیر یقینی ہونے کا ثبوت ملتا ہے، چناں چہ اس میں عیسائیوں کی زبانی اس طرح کے الفاظ بھی آئے ہیں: ہم قرآن نہیں سیکھیں گے اور نہ اپنے بچوں کو اس کی تعلیم دیں گے،وغیرہ۔امام طبریؒ نے جو الفاظ نقل کیے ہیں، وہ بھی طویل ہیں۔ اس کا ابتدائی حصہ اس طرح ہے:
’’یہ امیر المؤمنین عمر ؓکی طرف سے اہل ایلیا کے لیے عہد نامہ ہے، جس کی رو سے ان کی جان ومال، ان کے چرچ، صلیب، مریض، تندرست اور تمام افراد ملت کو امان دی جاتی ہے، ان کے چرچ میں کسی کو رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، نہ ان کو منہدم کیا جائے گا،چرچ یا اس سے متصل جگہوں کے احاطہ کو کم نہیں کیا جائے گا، ان کے صلیب کو نہیں توڑا جائے گا، نہ ان کے مال پر کسی کا قبضہ ہوگا، دین کے معاملہ میں ان کے ساتھ زور زبردستی نہیں کی جائے گی اور کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچایا جائے گا۔ اور ان کے ساتھ یہود کا کوئی فرد نہیں رہے گا۔ ‘‘[9]
امام طبری کے نص کے مطابق حضرت عمر بن خطابؓ کی طرف سے بیت المقدس میں یہود کے داخلہ کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔یہود اس کو مسلمانوں کے دینی تعصب پر محمول کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے انھیں بیت المقدس سے نکال دیا اور وہاں داخلہ پر پابندی عائد کردی۔حالاں کہ اولاً تو اس شق کو معاہدۂ عمری کی طرف منسوب کرنا ہی مشکوک ہے۔
محققین کا خیال ہے کہ یہ الفاظ عیسائیوں نے بعد میں اپنی طرف سے بڑھائے ہیں۔ معاہدہ کرتے وقت اس شق کا وجود نہیں تھا، اور چوں کہ مسلمان معاہدہ کی کاپی اپنے پاس نہیں رکھتے تھے، اس لیے عیسائیوں کے لیے معاہدہ کی شق میں تحریف وترمیم کرنا اور آسان ہوگیا۔ اس قیاس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امام طبری کے علاوہ کسی نے بھی اس شق کو نقل نہیں کیا ہے، اورانھوں نے بھی ضعیف سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت القدس میں یہودیوں کا وجود ہی نہیں تھا تو پھر ان کو نکالنے کی شق کیسے درست ہو سکتی ہے۔ تاریخ فلسطین کے ماہر ڈاکٹر شفیق جاسر احمد محمود نے ابن طبری اور دگر مؤرخین کی روایتوں کے مقابلہ میں اول الذکریعقوبی کی روایت کو قرین قیاس مانا ہے۔[10]
بیت المقدس کے تقدس وعظمت کی بحالی
الفاظ اور روایتوں کے درمیان اختلاف کے باوجود یہ ثابت ہونے میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں نے وہاں کے عیسائیوں کے ساتھ حسن سلوک اور انسانیت کی بنیاد پر عدل وانصاف کا جو معاملہ کیا، ا س کا مشاہدہ اس سے قبل فلسطین کی تاریخ میں نہیں ہو سکا تھا۔ جب آپ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ’صخرہ ‘کو عیسائیوں نے یہود سے دشمنی کی وجہ سے کوڑے دان میں بدل دیا تھا ؛یہاں تک کہ عیسائی عورتیں اپنے ناپاک کپڑے اسی میں ڈالتی تھیں، حضرت عمرؓ نے دیگر مسلمانوں کے ساتھ خود بھی شریک ہوکر اپنے ہاتھوں سے اس کو صاف کیا اور بیت المقدس کے حقیقی تقدس کو بحال کیا۔[11] یہ وہی صخرہ ہے جس پر ساتویں صدی عیسوی میں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے گنبد(Dome of the Rock) تعمیر کرایا جواس سر زمین پر مسلمانوں کے عہد کی سب سے پہلی یادگار ہے، آج بھی یروشلم کی پہچان اسی گنبد سے ہوتی ہے۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب اہل فلسطین نے مسلمانوں کے سامنے سپر ڈال دی تو اس کے بعد ان میں سے کسی کے ساتھ زیادتی، مال وجائداد وغیرہ کے چھین جھپٹ یا کسی کے ساتھ بد سلوکی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
فتح بیت المقدس کے وقت حضرت عمرؓ نے استغناو بے نیازی کی جو عظیم مثال قائم کی اور عیسائی پادریوں کے سامنے آپ نے جس تواضع اور انکساری کا اظہار کیا اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سریانی مؤرخ Michael لکھتا ہے:
یہ کہنا بجا ہوگا کہ عمر عدل پرور تھے، ان کے اندر حرص ولالچ کا شائبہ تک نہ تھا،روم وفارس پر تسلط کے بعد جو خزانے مسلمانوں کے ہاتھ لگے، ان میں سے انھوں نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی نہیں لیا، اتنی بھی چیز نہیں لی کہ جس کے ذریعے وہ اپنے پرانے اورمعمولی کپڑے کو بدل سکیں۔ [12]
سلطان صلاح الدین ایوبی کا بے مثال کردار
اسلامی فتح کے بعد القدس مکمل طور پر مسلم حکم رانوں کے ماتحت رہا اور وہاں کی ذمی رعایا اپنے حقوق وتحفظات کے ساتھ زندگی بسر کرتی رہی، یہاں تک کہ ۱۰۹۷ء میں صلیبیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ قبضہ کے بعد انھوں نے ستر ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کیا،یہودیوں کو نیست ونابود کیا، ان کے جم غفیر کو ایک مکان میں جمع کرکے آگ لگادی،اور جو یہودی بچ گئے ان کو بازاروں میں معمولی قیمت پر بیچ دیا۔[13] لیکن اس کے برخلاف حطین کی فیصلہ کن جنگ کے بعد جب سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے القدس کو آزاد کرایا تو آپ نے ان کے وحشیانہ سلوک کے جواب میں اعلیٰ اسلامی اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ اپنے نبیﷺ کی پیروی کرتے ہوئے مفتوح ومغلوب قوم کے سامنے زبان حال سے ’’لا تثریب علیکم الیوم اذھبوا فأنتم الطلقاء‘‘کا اعلان کرتے ہوئے ان کو قتل کرنے کے بجائے واپس اپنے ملک جانے کی اجازت دیدی۔مزید شہر کے چاروں طرف معتبر حکام کو تعینات کر دیا کہ شہر سے جانے والوں کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی نہ ہوپائے؛ ایک عیسائی مؤرخ اس منظر کی تصویر کشی ان ا لفاظ میں کرتا ہے:
’’جب یروشلم مسلمانوں کے حوالے کیا جارہا تھا، اس کی سپاہ اور معزز افسر ذمہ دارنے جو اس کے تحت تھے، شہر کے گلی کوچوں میں انتظام قائم رکھا۔ یہ سپاہی اور افسر ہر قسم کی زیادتی کو روکتے تھے، اور اس کا نتیجہ تھا کہ کوئی وقوعہ جس میں کسی عیسائی کو گزند پہنچا ہو، پیش نہ آیا۔ شہر کے باہر جانے کے کل راستوں پر سلطان کا پہرہ تھا اور ایک نہایت معتبر امیر باب داؤد پر متعین تھا کہ جو زر فدیہ ادا کر چکا ہےاسے جانے دے۔‘‘[14]
جن قیدیوں کے پاس زر فدیہ نہیں تھا بعد میں ان کو بھی رہا کردیا گیا۔صلیبیوں نے بیت المقدس پر تسلط کے بعد مسجد اقصیٰ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اس میں بہت کچھ تبدیلی کر دی تھی، سلطان صلاح الدین نے حکم جاری کیا کہ جو عمارتیں پہلے جس حالت میں تھیں، اسی حالت میں دوبارہ تعمیر کر دی جائیں۔ مسجد اور صخرہ کو گندگیوں سے صاف کروایا۔[15] جو عیسائی باشندے وہاں پہلے سے مقیم تھے، یورپین صلیبیوں سے مذہبی ہم آہنگی کی وجہ سے ان کے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہیں کیا گیا، بلکہ اس کے بجائے انھیں یہ اجازت بھی مل گئی کہ اگر وہ یورپ کی طرف واپس جانے والے اپنے فرنگی بھائیوں کے سازو سامان خریدنا چاہیں تو مکمل آزادی کے ساتھ خرید سکتے ہیں۔
سلطنت عثمانیہ یہودیوں کی پناہ گاہ
رومن امپائر ( Hadrian۱۳۵ء) کے حملہ کے بعد یہودزمین کے مختلف گوشوں میں تتر بتر ہوگئے تھے۔پھر مسلمانوں ہی کے عہد سلطنت میں انھیں بیت المقدس کے آس پاس قیام کا موقع میسر آیا۔حضرت عمرؓ کے زمانے سے عیسائیو ں اور مسلمانوں کے ساتھ یہود کے چھوٹے چھوٹے خاندان بھی آبسے۔خاص طور پر صلیبی جنگوں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہا ں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور انھیں اپنے مذہبی حقوق بھی حاصل تھے؛ صلیبیوں نے مسلمانوں کے علاوہ ان کے ساتھ بھی درندگی کا معاملہ کیا، جس کی بنیادی وجہ حضرت عیسیؑ کے قتل کے سلسلے میں ان پر عائد الزام تھا۔
جو یہود اس وقت تک یورپین ممالک میں بسے ہوئے تھے، صلیبی جنگوں کے بعد ہی سے ان کو وہاں سے نکالنے کی مہم شروع ہو چکی تھی۔شاہ لویس (Lewis) جب صلیبی جنگ کے لیے روانہ ہو رہا تھا تبھی اس نے ۱۱۴۹ء میں اپنی مملکت سے تمام یہودیوں کو نکالے جانے کا فرمان جاری کر دیاتھا۔۱۲۴۱ء میں Frankfurt میں، ۱۲۵۸ء اور ۱۲۸۶ء کے درمیان Munih میں، اور۱۳۳۶ء تا۱۳۳۷ء Ameldor میں ان کا قتل عام ہوا۔[16] اسی طرح سولہویں صدی میں اسپین کے بادشاہ فرڈینند(Ferdinand) اور اس کی بیوی ازبیلا کے مذہبی تعصب نے وہاں کے مسلمانوں اور یہودیوں کو مشرق کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔[17] ان مہاجرین اور ملک بدر افراد کو جن میں یہودی بھی شامل تھے، سلطنت عثمانیہ کی پناہ ملی۔ فرانس، جرمنی اور انگلستان سے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں ہجرت کرکے آئی۔ چناں چہ سلطنت عثمانیہ کی پناہ میں قسطنطینیہ میں عیسائیوں کی ۳۲؍ فیصد اور یہوودیوں کی۱۰؍ فیصد آبادی مقیم تھی۔[18]
سلطان سلیم اول کے زمانے(۱۵۱۶ء) میں سینٹرل یورپ سے اشکنازی اور شمالی افریقا سے یہودیوں کی مختلف جماعتیں بڑی تعداد میں القدس کے آس پاس مقیم ہوگئیں۔[19] یہاں ان کو تجارت، مصنوعات کی خرید وفروخت اور دیگر تمام چیزوں کی کھلی آزادی تھی۔تجارتی مہارت کی وجہ سے یہاں انھوں نے خوب ترقیاں کیں اور اس پوزیشن میں آگئے کہ سلطنت عثمانیہ کو قرضہ دے سکیں، چناں چہ حکومت کو قرضے دے کر انھوں نے سلطنت عثمانیہ پر اپنا دباؤ بھی بنانے کی کوشش کی۔[20]
خلاصہ
فلسطین کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں مسلم فاتحین نے دیگر فاتحین کی روش سے ہٹ کر رواداری اور حسن سلوک کا رویہ اختیار کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے اور خوں ریزی کی داستانیں رقم کرنے کے بجائے امن و امان اور تعمیر و ترقی کو اپنی سیاسی ترجیح قرار دیا۔
[1] ملاحظہ ہو: یشوع۔ باب ۸-۱۲
[2] ظفر الاسلام خاں۔ تاریخ فلسطین القدیم منذ أول غزو یھودی حتیٰ آخرغزو صلیبی۱۲۲۰ ق م -۱۳۵۹م۔ دارالنفائس، طبع سوم۱۹۸۱ء، ص۴۳
[3] محولہ بالا، ص۵۳-۵۴
[4] محولہ بالا، ص۳۳
[5] سلاطین،باب ۱۴، ۲۵-۲۶
[6] ظفر الاسلام خاں، تاریخ فلسطین القدیم ص۵۸
[7] ڈاکٹر محسن محمد صالح، الطریق الی القدس ص۴۰
[8] ابن واضح الأخباری، تاریخ الیعقوبی۔ منشورات المکتبۃ الحیدریۃ ۱۹۶۳ء، جلد ۲، ص ۱۳۶
[9] ابن جریر طبری، تاریخ الطبری، دارالمعارف طبع سوم،جلد ۳، ص۶۰۹
[10] ملاحظہ ہو: دکتور شفیق جسر’العہدۃ العمریۃ‘
[11] ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ دارالریان للتراث، طبع اول ۱۹۹۸ء، جلد ۴، ص۵۷
[12] Saint Michael the great، تاریخ مار میخائیل الکبیر، عربی ترجمہ: مارغریغوریوس صلیبا شمعون، دارماردین، حلب، طبع اول ۱۹۹۶ء جلد دوم ص۳۲۰
[13] محمد شعبان ایوب، قصۃ الوجود الیھودی بالقدس أیام العثمانیین
https: //shorturl.at/moDRT
[14] ابو الحسن علی ندوی، تاریخ دعوت وعزیمت، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام، لکھنؤ ۲۰۰۸ء، جلدا، ص۲۶۸
[15] ڈاکٹر یاسین سوید۔ حروب القدس فی التاریخ الاسلامی، دارالملتقیٰ للطباعۃ والنشر۱۹۹۷ء، ص۱۰۶-۱۰۷
[16] ڈاکٹر خالد عبد القادر جندی،الاقلیات الدینیۃ فی ظل الدولۃ العثمانیۃ،IKSAD پبلشنگ ہاؤس، ص۱۴۲
[17] أیضا ص۱۴۸
[18] أیضا ص۱۵۲
[19] Stanford J. Shaw، یھود الدولۃ العثمانیۃ والجمھوریۃ الترکیۃ،عربی ترجمہ : ڈاکٹر صفصافی احمد۔ دارالبشیر للثقافۃ والعلوم۲۰۱۵ء ص۱۱۲
[20] اکرم بوغرا اکینجی، الیھود فی الدولۃ العثمانیۃ
https: //www.dailysabah.com/arabic/opinion
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2023