اہل فلسطین سوشل میڈیا کی جنگ جیت گئے

میڈیا اسٹڈیز میں ’’میڈیا افیکٹس تھیوریز‘‘ ایک اہم شعبہ ہے۔ یہ نظریات اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ میڈیا کنٹینٹ کس طرح افراد اور معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔ چناں چہ ’’کلٹیویشن تھیوری‘‘ یہ کہتی ہے کہ  میڈیا کے مواد، خاص طور پر ٹیلی وژن کو لمبے عرصے تک اور بار بار دیکھنے سے رائے عامہ کو بدلا جا سکتا ہے۔ اسی طرح  ’’ایجنڈا سیٹنگ تھیوری‘‘ کے مطابق میڈیا بعض مسائل کو یا ان کے کسی خاص پہلو کو اجاگر کرکے عوام کے خیالات کو متاثر کر سکتا ہے۔

جنگ کے دوران کسی بھی حکومت کے لیے سیاسی حمایت، فوج کا حوصلہ اور اس میں بھرتی، معاشی استحکام، سفارتی اثر ورسوخ اور قومی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے رائے عامہ کی ہمواری بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ’’محبت اور جنگ میں سب جائز ہے (all is fair in love and war)‘‘ اس مقولے کی رو سے جنگ کے بارے میں عوام میں ایک مخصوص تاثر (perception) پیدا کرنے کے لیے، حکومتیں اپنے لیے ہر جائز و نا جائز حربے اور ہتھکنڈے کو استعمال کرنا ناگزیر سمجھتی ہیں۔ پروپیگنڈے میں مشغول حکومتیں ’’پرسویزو‘‘ (راغب کرنے والی) تکنیکوں، جذباتی اپیلوں، اور حقائق کی ’’من مانی‘‘ پیش کش کے ذریعے عوام کو کسی خاص سوچ یا اقدام کا حامی  بنانے  کی لگاتار کوششیں کرتی ہیں۔ نتیجتاً، کسی بھی جنگ میں پہلی ہلاکت سچائی ہی کی ہوتی ہے (truth becomes the first casualty in war)۔ پروپیگنڈے کے علاوہ، سینسرشپ، غلط معلومات (misinformation) اور ’’ایمبیڈیڈ‘‘ رپورٹنگ کو رواج دیتی ہیں۔ تصاویر اور فوٹیج کے ساتھ توڑ مروڑ کرنا، جنگی علاقوں تک رسائی سے روکنا، اموات کے اعداد وشمار چھپانا اور دشمن کو ظالم یا دہشت گرد بنا کر پیش کرنا یہ کسی بھی جنگ میں حکمت عملی کی اوّلین ترجیح  بن جاتی ہے۔

اسرائیل نے پروپیگنڈے کے فن میں خاصی مہارت حاصل کر لی ہے اور اسے نئی بلندیوں  پر پہنچا دیا ہے۔ 2006 کی لبنان جنگ اور ’’آپریشن کاسٹ لیڈ‘‘ کے بعد اسرائیل کی بین الاقوامی شبیہ کو شدید نقصان پہنچا۔ دو سال بعد اس نے ’’ہسبرا‘‘ (عبرانی میں جس کے معنی ‘‘وضاحت’’ کے ہیں) کے نام سے عالمی سطح پر اسرائیل کی مثبت  تصویربنانے کے لیے ایک پبلک ریلیشن مہم کا آغاز کیا۔ یہ مہم میڈیا کے ذریعے سفارت کاروں، سیاستدانوں اور عوام کو نشانہ  بناتی ہے۔ یہ متعدد اداروں اور سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ تحقیقی مراکز، یونیورسٹیوں، این جی اوز  اور لابی ساز فرموں کے ذریعے اسرائیل کے بارے میں مثبت رائے بنانے کی کوشش کرتی ہے۔  اس کے بعد اسرائیل نے سوشل میڈیا اور یوٹیوب جیسی ویب 2.0 ٹیکنولوجیوں کو اس میں شامل کر کے ’’ہسبرا 2.0‘‘ میں اپ گریڈ کیا۔ اسرائیل نے ہمیشہ اپنے آپ کو مظلوم اور فلسطینی دہشت گردی کے شکار کے طور پر پیش کیا۔ اسرائیل کا بیانیہ یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنے دفاع کے جائز حق کے لیے ایک اصولی جنگ لڑ رہا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خود اسرائیل نے اس خطے میں state terrorism (ریاستی دہشت گردی) کا آغاز کیا اور جدید ترین فضائی طاقت سے ہزاروں نہتے اور معصوم فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا۔

مشرق وسطی کے جید صحافی، رامی خوری نے الجزیرہ کے لیے لکھتے ہوئے اس بات کی نشان دہی کی کہ’’فلسطین-اسرائیل تنازع بنیادی طور پر تین محاذوں پر جاری ہے۔ (١) زمینی میدان جنگ (٢) میڈیا کا بیانیہ (narrative) اور (٣) عوامی سرگرمیاں  جیسے لیکچر، احتجاج، ریلیاں وغیرہ۔ ان تینوں  محاذوں میں میڈیا سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے، اسی لیے اس پر سب سے زیادہ کڑی نظر رکھنی چاہیے۔‘‘  غزہ پر تازہ ترین اسرائیلی حملے سے متعلق خبروں میں مین اسٹریم میڈیا (بنیادی طور پر ٹی وی چینلوں) اور سوشل میڈیا کے درمیان واضح فرق محسوس ہوتا ہے۔ مین اسٹریم ٹی وی چینل اسرائیل کے ترجمان اور اس کی پروپیگنڈا مشنری کے آلہ کار اور اوزار بن چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے موروثی ڈیزائن کی وجہ سے جابر حکومتیں اپنے ’’ہسبرا‘‘ اور ’’آئی ٹی سیل ‘‘ کی پوری طاقت جھونکنے کے باوجود اس پر مکمل غلبہ حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ آج بھی اپنی رائے اور حقائق کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا ایک بہترین اور مؤثر پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔

ہندوستانی مین اسٹریم میڈیا طویل عرصے سے قضیہ فلسطین و اسرائیل کو کور کر تا رہا ہے۔ تاہم یہ کوریج اتنا متعصبانہ اور یک طرفہ (one-sided) کبھی نہیں رہا جتنا اس وقت ہے۔ بھارتی میڈیا نے ابتدا ہی سے 7 اکتوبر کے آپریشن کو دہشت گردانہ حملہ بناکر پیش کیا۔ تقریباً تمام مین اسٹریم ٹی وی چینلوں نے حماس کے اس آپریشن کا ممبئی کے 26/11 دہشت گردانہ حملوں کے ساتھ موازنہ کیا۔ گودی میڈیا کے ٹی وی چینلوں کے اینکر ’’ہندوستانی مسلمان دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں‘‘ کا بیانیہ تیار کرنے میں مصروف رہے۔ چناں چہ اپنے منفرد انداز میں زہر اگلتے ہوئے ریپبلک ٹی وی کے ارنب گوسوامی نے اعلان کیا  ’’جہادی اور  اسلامی دہشت گرد سوچ رکھنے والے  لوگ اسرائیل کو نشانہ بنائے ہوئے  ہیں۔ اسرائیل ہم سب کی طرف سے یہ جنگ لڑ رہا ہے۔‘‘ فلسطینی کاز کی حمایت کو دہشت گردی سے تشبیہ دیتے ہوئے ارنب نے کہا ’’یہ جنگ دہشت گردی کے حامیوں اور ان لوگوں کے درمیان ہے جو اسلام پسند دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر مسلم دنیا دہشت گرد گروہ کے پیچھے متحد ہو جاتی ہے، اگر مسلم دنیا اس جنگ کو مذہبی جنگ قرار دیتی ہے، اگر یہ غلطی مسلم دنیا کرتی ہے، تو پھر ہم تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘

ہندوستانی نیوز چینل جو چند ماہ قبل ہندوستان ہی میں اپنے صحافیوں کو منی پور بھیجنے کے لیے تیار نہیں تھے، آج انھوں نے درجنوں اینکر اسرائیل روانہ کر دیے۔ جنگ میں کوریج کرتے ہوئے ہمارے کچھ نیوز اینکروں نے اپنی غیر سنجیدہ اور اوٹ پٹانگ حرکتوں سے جگ ہنسائی کا سامان فراہم کیا۔ مثلاً ہمارے ایک رپورٹر نے کوریج کی کوشش میں اتنی چیخ پکار کی کہ ایک اسرائیلی فوجی کو اسے اپنی آواز کم کرنے کو کہنا پڑا۔ ایک اور چینل کے رپورٹر نے پیراگلائیڈر پر اڑکر یہ بتانے کی کوشش کی کہ حماس نے بھی اسی طرح پیراگلائیڈروں کے ذریعے اسرائیلی سرحد عبور کی تھی۔ بھارتی نیوز چینل جھوٹی خبریں (fake news) بھی پھیلا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ نیوز چینلوں نے ایک ویڈیو بنایا جس میں کچھ لوگ ایک لاش کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ بیچ راستے میں وہ لوگ اس لاش کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو اکیلا پاکر وہ مردہ اٹھ کر چلنے لگتا ہے۔ چینلوں نے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ دنیا کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے فلسطینی اس طرح اپنے عوام کی موت کا ڈھونگ رچ رہے ہیں۔ تاہم یہ ویڈیو جعل ساز نکلا۔ یہ 2020 کا ویڈیو تھا جو کوویڈ لاک ڈاؤن کے دوران اردن میں شوٹ کیا گیا تھا۔ دراصل یہ جعلی ویڈیو ان لوگوں کے بارے میں تھا جو لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ 7 اکتوبر کے آپریشن کے دوران 40 اسرا ئیلی بچوں کے سر قلم کیے جانے کی جھوٹی خبریں پھیلانے میں بھارتی میڈیا پیش پیش رہا۔ یہ دعویٰ بعد میں غلط ثابت ہوا۔

دائیں بازو کے رسالے، اخبار اور پورٹل،ہندوتوا کے حامی کالم نگار، اور ’یو ٹیوبر‘  اسرائیل کی  حمایت میں جٹے ہوئے ہیں۔ نیز ہندوستانی فسطائیت پسند پارٹیوں کے ’آئی ٹی سیل‘ کی ’ٹرول آرمی‘ بھی اسرائیل کی تائید میں مصروف ہے۔ ان کا کام فلسطینی کاز  کی حمایت کرنے والوں کو ٹرول  اور ہراساں کرنا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہندوستان سے نکلنے والے ہزاروں ٹویٹ میں  اسرائیلی ڈفینس فورسز (IDF) کی تعریف اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔  ایک ٹرول نے ٹویٹ کیا:

’’حماس یرغمالوں کو رہا کیوں نہیں کرتی؟ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہر کوئی اسرائیل کو فلسطینی شہریوں پر حملے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ لیکن حماس سے کوئی سوال نہیں کرتا کہ اس نے ابھی تک یرغمالوں کو رہا کیوں نہیں کیا۔ IndiaSupportsIsrael‘‘

ایک اور ٹرول نے ایکس (ٹوئٹر) پر لکھا، ’’دلی پولیس نے بہت سے اسلام پسندوں کو گرفتار کیا جو اسرائیل کے خلاف اور حماس کے دہشت گردوں کے حق میں مظاہرے کر رہے تھے۔ دلی پولیس نے بہت اچھا کام کیا ہے۔‘‘

اس کے برعکس بہت سے سٹیزن جرنلسٹوں اور پیشہ ور فلسطینی صحافیوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر جنگ کے علاقوں سے تفصیلی کوریج دیا۔ بہت سے صحافی اس رپورٹنگ میں شہید بھی ہوئے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق غزہ کے اندر کم از کم 33 فلسطینی میڈیا ورکر ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ فلسطینی صحافی کسی فوج کے ساتھ ایمبیڈیڈ نہیں ہوئے اور نہ ہی انھوں نے war-zone تک رسائی کو مشکل بتایا۔ صرف سیل فون اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے محصور علاقوں میں پھنسے فلسطینی صحافیوں نے گراؤنڈ زیرو سے لائیو رپورٹنگ کی۔ جہاں اسرائیل اور مصر زیادہ تر صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں، وہیں یہ فلسطینی صحافی اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں کی تباہی کو shorts اور reels کے ذریعے ہم تک پہنچانے میں جٹے تھے۔ ان کی سوشل میڈیا پوسٹیں اور رپورٹس گرافک بہت موثرتھیں۔ کچھ غزہ کے باشندوں نے اپنی زندگی کی تصاویر پوسٹ کرنے کے لیے Snapchat کا استعمال کیا۔ ان کے ویڈیو میں لوگ بیکریوں یا پانی کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے ہوئے بتائے گئے یا اسپتالوں اور اسکولوں میں ہجوم میں جمع ہوتے دکھائی دیے۔ ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نمٹنے کے لیے جدجہد کرتے مقامی اسپتالوں کے مناظر انسٹاگرام اکاؤنٹس سے دکھائے گئے۔ سیکڑو ں مکانات کے ملبوں کے ڈھیر اور خوراک اور پانی کی کم ہوتی فراہمی کے درمیان فلسطینیوں کی زندگی کو دنیا کے سامنے ان جانباز صحافیوں نے پیش کیا۔

الشفا ہسپتال کے قریب تعینات ایک انسٹاگرام رپورٹر اپنی دوست کی کار میں سو رہی تھی۔ اس کے ساتھ دوسرے صحافی بغیر کسی شیلٹر کے باہر سو رہے تھے۔ مین اسٹریم میڈیا ان سوشل میڈیا رپورٹروں کی نشر ہونے والی تصاویر اور ویڈیو کو گرافک اور explicit قرار دے کر اسے سینسر کر دیتا ہے۔ یہ فلسطینی صحافی اس جنگ کو خود جی رہے ہیں اور اسے اسی حقیقت پسندانہ انداز سے پیش کر رہے ہیں، چاہے وہ مناظر بمباری سے بچنے کے ہوں، پانی اور کھانے کے لیے ترسنے کے ہوں  یا اسپتالوں میں پناہ گزیں بن کر رہنے کے ہوں۔ کچھ لوگ ان صحافیوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ حماس کے لیے پروپیگنڈا کر رہے ہیں اور حماس کے ساتھ ملے ہوئے  ہیں۔  اس سب کے باوجود وہ غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ جنگ کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ ان کا فوٹیج اسرائیل کے جنگی جرائم (war crimes) کودستاویزی ثبوت بنانےمیں معاون ثابت ہوگا۔  دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر لاکھوں ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرنے  اور اسرائیل فلسطین قضیہ کی حقیقت واضح کرنے کا کام ان سوشل میڈیا پوسٹوں نے بخوبی انجام دیا۔ ان سوشل میڈیا پوسٹوں اور فوٹیجوں کو الجزیرہ جیسے مین اسٹریم چینلوں نے کروڑوں ناظرین تک پہنچانے کا کام کیا۔

لوگ جان چکے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا جعلی خبریں پھیلا رہا ہے یا خبروں کو بہت زیادہ سینسر کر رہا ہے۔ مین اسٹریم ٹیلی وژن چینل اسرائیل کے حق میں پوری طرح متعصب (biased) ہیں۔ اس لیے کروڑوں لوگ آج مسئلہ فلسطین کو سمجھنے کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کے ہاتھوں اسرائیلی بیانیہ کو تباہ ہوتا دیکھ کر، یورپی یونین کے حکام نے ٹکٹاک، فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور ایکس کو وارننگ بھیجی۔ انھوں نے اپنے پلیٹ فارموں پر جنگ کے بارے میں گم راہ کرنے والی (misinformation) اور غیرقانونی (illegal) مواد کی رپورٹوں کو اجاگر کیا۔ انھوں نے سوشل میڈیا کمپنیوں کو متنبہ کیا کہ اگر تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ انھوں نے یورپی یونین کے ’’کنٹینٹ ماڈریشن قوانین‘‘کی خلاف ورزی کی ہے تو انھیں اربوں ڈالر جرما نے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

فلسطینی حامی میڈیا سوشل میڈیا کمپنیوں پر تعصب و جانب داری اور اسرائیلی کیمپ کے اشاروں پر کام کرنے کا الزام لگا رہا ہے۔ اپنے پوسٹ کو detection اور deletion سے بچانے کے لیے فلسطین کے حامی سوشل میڈیا کارکنان نت نئے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ اپنے ویڈیو کے سب ٹائٹل میں، وہ دہشت گرد (terrorist) اور تشدّد (violence) کے الفاظ کے بجائے ٹیرئیر (terrier) اور وائلن (violin) کے ایموجی استعمال کر رہے ہیں۔  ’P*les+in1ans‘ ٹائپ کرکے، deletion سے بچنے کے لیے algospeak کے ساتھ اپنی زبان تبدیل کر رہے ہیں۔ اپنے ویڈیو کے نچلے حصہ میں وہ ایک disclaimer کا اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پوسٹ صرف ’’تعلیمی مقاصد‘‘(education purpose) کے لیے ہے۔

الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر نادر ہاشمی کہتے ہیں ’’مغربی میڈیا اور سیاستداں دونوں کے لیے، یہ (جنگ) بنیادی طور پر اسرائیل کی کہانی ہے۔ فلسطینی اس کہانی کا محض ایک ضمیمہ ہیں۔ یہ مغربی یہودی دشمنی (anti-Semitism) اور نازی Holocaust کی طویل تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔  اس فریم  ورک کے اندر، فلسطینیوں کو انسان تسلیم کرنا اسکرپٹ کا حصہ نہیں ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد سے ہم نے مین اسٹریم میڈیا پر جو کچھ دیکھا ہے وہ اس سچائی کا ثبوت ہے۔‘‘

اسرائیلی پروپیگنڈا بیک فٹ پر ہے،کیوں کہ ان کے پرانے ہتھکنڈوں کا اب مغربی عوام  پر وہ اثر نہیں رہا۔ انگریزی رسالے اکنامسٹ کے مطابق ’’اسرائیل نے آن لائن کے مقابلے  میں اوپنین پول میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ YouGov کے سروے کے مطابق امریکہ میں سوشل میڈیا پر اسرائیل کے حامیوں کے مقابلے میں  فلسطینی حامیوں کی پوسٹیں دو گنی تھیں۔ اسی طرح برطانیہ میں، ایک اور YouGov سروے کے مطابق  فلسطینیوں نے برطانوی سوشل میڈیا میں سوشل میڈیا کی اس جنگ کو 6 بنام 1 کے فرق سے جیت لیا ہے۔‘‘

اسرائیل اور فلسطین کے حامیوں کے درمیان میڈیا کی لڑائی کے دو بڑے محاذ ہیں۔ ایک ٹی وی چینل اور اوپنین پول جہاں اسرائیل کا غلبہ ہے۔ دوسرا بڑا محاذ سوشل میڈیا ہے جہاں اسرائیل دل و دماغ کو جیتنے کی جنگ (winning the hearts and minds) ہار چکا ہے۔ اسرائیل کی سوشل میڈیا پر یہ پسپائی  میدانی کشمکش میں اسرائیل کی شکست میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2023

مزید

حالیہ شمارے

فروری 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223