صبرکو اسلامی تعلیمات میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ قرآن کریم میں کسی بھی نبی اوررسول کی دعوت کامطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ان کو اور ان کے پیروکاروںکو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جن ابتدائی چیزوں کی تلقین کی گئی،ان میں صبر بھی ہے۔ آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت کی ذمہ داری دینے کے بعد ہی حکم دیاگیا :
وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ﴿المدثر:۷﴾ ’’آپ اپنے رب کے لیے صبرکیجیے‘‘
وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا ﴿المزمل: ۰۱﴾
’’وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، آپ ان پر صبرکیجیے اور خوش اسلوبی سے ان سے کنارہ کش ہوجائیے‘‘
یہ دونوں آیتیں اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئیں۔ پھر جیسے جیسے اسلام کا مشن آگے بڑھتاگیا، مشکلوں اورمخالفتوں کے طوفان اٹھتے رہے۔ حالت ایسی ہوگئی کہ سرزمین عرب کا ذرہ ذرہ دین حق کے پیروکاروں کا دشمن بن گیا اور ساری باطل طاقتیں اسلام کے خلاف ہوگئیں۔ ان حالات سے نمٹنے کے لیے اہل ایمان کو حکم دیا گیا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿البقرہ:۳۵۱﴾
’’اے ایمان والوصبر اورنماز کے ذریعے اللہ سے مدد طلب کرو، اللہ صبروالوں کا ساتھ دیتاہے‘‘
صبروثبات کی یہ ہدایت برابر جاری رہی اوراس انداز سے جاری رہی کہ بالیقین صبروہ ہتھیار ہے جس سے مشکلات کو ختم کیاجاسکتاہے اور باطل طاقتوں کو بیخ و بُن سے اکھاڑ ا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں فرماتاہے:
وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا﴿آل عمران:۱۲۰﴾
‘‘ اگرصبراور تقویٰ اختیار کرو تو ان کا مکر تم لوگوں کو کچھ ضرر نہیں پہنچائے گا‘‘۔
قرآن کریم میں ۰۰۱سے زائد مقامات پر صبر اور اس سے مشتق الفاظ اصبِرْ ،اِصْبِرُوا، صَابرا، صَابِرِین، صَابرواآئے ہیں، جن میں مسلمانوں کو صبراختیارکرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ احادیث میں بھی صبر کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الصَبْرُ ضیائ ﴿مسلم، باب:فضل التقویٰ،۲۲۳﴾‘صبرروشنی ہے’ حضرت ابویحیٰ صہیب بن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:
عجبا الامرالمومن ان امرہ کلہ لہ خیر۔ ولیس ذلک لاحد الاللمومن۔ ان اضابتہ سرائُ شکر فکان خیراً لَہ وان اصابتہ ضرائُ صبر فکان خیرا ﴿مسلم، کتاب الزھد؛۲۹۹۹﴾
’’مومن کا معاملہ کیا ہی خوب ہے۔اس کے سارے معاملات اس کے لیے باعث خیرہیں اوریہ سعادت مومن کے علاوہ کسی اورکوحاصل نہیں ہے۔ اگراسے خوشی حاصل ہوتی ہے اوراس پر وہ شکر ادا کرتا ہے تو اس کے لیے خیر ہے اوراس کو تکلیف پہنچتی ہے اوروہ اس پر صبرکرتاہے تو یہ بھی اس کے لیے خیرہے‘‘۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: جب میں اپنے بندے کو اس کی دونوں چیزوں ﴿آنکھوں﴾ کے ذریعے آزمائش میںمبتلاکردوں اور وہ صبرکرے تو اس کے عوض میں اس کو جنت دوںگا۔‘‘
لفظ صبر کا استعمال مختلف معانی کے لیے ہوتاہے۔
معنی عرفی: ایک شخص مصائب وآلام سے دوچارہونے کے باوجود بے قراری کا اظہار نہ کرے، آہ وفغاں نہ کرے بلکہ جذبات کو اپنے قابومیں رکھے تو عرف میں اسے صبرکرنے والا کہتے ہیں۔
معنی لغوی: معنوی اعتبار سے صبرکا مفہوم اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ امام راغب اصفہانی نے لکھا ہے: الصبْرُ اساک النفس فی ضیق ﴿المفردات فی غریب القرآن:۷۷۲﴾
’’سخت حالات میں اپنے کو جمائے رکھنا صبرہے‘‘۔
معنی شرعی: لفط صبر کے شرعی معنی امام راغب اصفہانی نے یہ لکھا ہے:
حبس النفس علی مایقتضیہ العقل والسرع اوعما یقتخیان حسبھا عنہ’
’’عقل اورشرع کے مطالبات پر اپنے آپ کو ثابت قدم رکھنا اورجن چیزوں سے وہ رکنے کا تقاضا کریں ان سے اپنے آپ کو روکے رکھنا صبرہے‘‘۔
علامہ محمود آلوسی نے صبر کی تین قسمیں بیان کی ہیں:
﴿۱﴾ صبر علی الطاعات: جن چیزوںکا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے مثلاً نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، زکوٰۃ ادا کرنا وغیرہ ان پر ثابت قدم رہنا اور ان کو بجالانا خواہ ان کی پابندی نفس پر کتنی ہی شاق کیوں نہ ہو۔
﴿۲﴾ صبر عن المعاصی: یعنی جن چیزوں سے اللہ اوراس کے رسول نے روکا ہو ان سے رک جانا، خواہ وہ نفس کے لیے کتنی ہی مرغوب اورلذیذ کیوںنہ ہوں۔
﴿۳﴾ صبر علی المصائب: مصائب: اور تکالیف پر حد سے زیادہ پریشان نہ ہونا۔ ان کو پروردگار کی طرف سے سمجھ کر نفس کو بے قابونہ ہونے دینا۔
مصیبت اور آزمائش کبھی تو مال کی ہوتی ہے۔ مثلاً تجارت میں خسارہ ہوجاتاہے ،کھیتی برباد ہوجاتی ہے ، مال لٹ جاتاہے ،ملازمت ختم ہوجاتی ہے اورکبھی جان کی ہوتی ہے مثلاً ماں باپ ،میاں بیوی، آل واولاد اوردوست واحباب اوررشتہ داروں میں سے کسی کا انتقال ہوجاتاہے۔ کبھی جسمانی ہوتی ہے مثلاً انسان بیمارہوجاتاہے۔ کبھی دینی ہوتی ہے مثلاً انسان کو دین وایمان پر قائم رہنے اور فرائض اسلام پر عمل کرنے کی وجہ سے ستایاجاتاہے اورگھربار چھوڑنے پر مجبورکردیاجاتاہے۔ اس کی مثالیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں میں بھری پڑی ہیں۔ مثلاً ‘بعثت پہلے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوصاحبزادیاں ام کلثوم اوررقیہ کی شادی ابولہب کے بیٹے عتبہ اورعتبیہ سے ہوئی تھی لیکن بعثت نبوی کے بعد اس نے اپنے بیٹوں سے طلاق دلوادی تاکہ اس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت صدمہ پہنچے’۔ ﴿سید قطبؒ فی طلال القرآن:۰۲، ص:۲۸۲۰﴾
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل اوراس کے کچھ رفقائ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا: کون ہے جو نبی فلاں کے اونٹ کی اوجھڑی لائے اور جب محمد سجدہ کریں تو ان کی پیٹھ پر ڈال دے؟ اس پر قوم کا بدبخت ترین آدمی عقبہ ابن ابی معیط اٹھا اور اوجھڑی لاکر انتظارکرنے لگا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تشریف لے گئے تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر دونوں کندھوں کے درمیان ڈال دیا ، میں سارا ماجرادیکھ رہاتھا ،مگرکچھ نہیں کرسکتا تھا۔کاش میرے اندر بچانے کی طاقت ہوتی۔
حضرت عبداللہ بن سعود فرماتے ہیں اس کے بعد وہ ہنسی کے مارے ایک دوسرے پر گرنے لگے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے ہی میں پڑے رہے سر نہ اٹھاسکے۔ فاطمہ رضی اللہ علیہ عنھا اس وقت آئیں، انہوںنے اس کو ہٹایا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سراٹھایا۔
حضرت بلال بن رباح امیربن خلف جمی کے غلام تھے۔ جب دوپہر کی گرمی شباب پر ہوتی تو یہ ان کو مکہ کی وادی میں لے جاکر پیٹھ کے بل لٹادیتا اورسینے پر بھاری پتھر رکھ دیتاپھر کہتاتھا:
لاتزالُ ہٰکذا حتیٰ تموتَ اَوْ تَکْفُربمتحمدِ وتعبد اللات والعزیٰ ﴿ابن ہشام، سیرۃ النبی:۱/۹۳۳﴾
’’تو اسی طرح پڑا رہے گا یہاں تک کہ مرجائے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے پھرجائےاورلات اورعزیٰ کی پرستش کرے لیکن بلال رضی اللہ علیہ اس مصیبت میں بھی احد، احد کہتے تھے‘‘۔
حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ انہوںنے اوران کے والدین نے اسلام قبول کیاتو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ان کے قبیلے کے لوگ ان کو اوران کے والدین کو سخت دھوپ کے وقت انہیں پتھریلی زمین پر لے جاکر اس کی تپش سے سزادیتے تھے۔ ایک بار انہیں اسی طرح سزادی جارہی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘صبراً ال یاسیر توعدکم الجنۃ’ ۔ ’’اے آل یاسر صبرکرو تمہارا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘
حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا جو حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں، ان کی شرمگاہ میں ابوجہل نے نیزہ مارا اوروہ دم توڑگئیں ، یہ اسلام میں پہلی شہیدہ ہیں۔ ﴿قاضی محمد سلیمان منصورپوری، رحمۃ اللعالمین:۱/۵۵﴾۔‘ حضرت معصب بن عمیر کو ان کی ماں نے گھر سے نکال دیا تھا۔اس جرم میں کہ وہ اسلام لے آئے تھے ’ ۔
آزمائش خواہ دین کے راستے میں ہو خواہ اورکسی سبب سے، ہمیں اللہ کے فیصلے پر راضی رہناچاہیے۔ اس پر صبرکرنا چاہیے ۔ کوئی کلمہ شکایت زبان سے نہیں نکالنا چاہیے۔ ایسے لوگوںکے بارے میں اللہ کی طرف سے اجرعظیم کی بشارت ہے :
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ؐ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ؐ﴿البقرہ:۵۵۱﴾
’’ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری دیجیے جنہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم خود اللہ کی ملکیت ہیں اورہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘‘۔
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴿لزمر١٠﴾
’’ صبرکرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بے شمار اجردیاجاتاہے‘‘۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
‘اِنَّ عِظَم الجزائ مع عِظم التلائ وان اللہ تعالیٰ اذا احب قوماً ابتلاھم، فمن رضی فَلَہ الرضی، وَمن سخط فلہ السخط ﴿ترمذی، کتاب الزھد، باب ماجائ فی الصبر علی البلائ؛۸۹۳۲﴾
’’جتنی بڑی آزمائش ہوتی ہے اتنا ہی بڑا صلہ ملتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت کرتاہے تو اس کو آزمائش میں مبتلا کرتاہے پس جو اس آزمائش میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہواللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہوتا ہے اورجوناراض ہو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہوجاتاہے‘‘۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2010