بچوں کی جسمانی صحت کا خیال رکھنا بہت اچھی بات ہے، ان کے جسم کی بہتر نشوونما کے لیے اچھی غذا، صحت بخش فضا اور حسب ضرورت ٹانک اور دوا کا انتظام ضروری ہے۔ صحت مند دماغ کے لیے صحت مند جسم چاہیے۔ جس کا تقاضایہ ہے کہ دماغ کی صحت اور جسم کی صحت دونوں ہی پر خوب توجہ دی جائے۔
لیکن ہم اپنے بچوں کے سلسلے میں سخت کوتاہی کرتے ہیں جب ہماری ساری توجہ صرف جسم اور دماغ کی پرورش تک محدود ہوجاتی ہے۔ اپنے بچوں کے فربہ ہوتے ہوئے جسم دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں، اور ان کی یادداشت اور ذہانت کے مظاہرے ہمارے اندر مسرت بھری گدگدی کرتے ہیں۔ اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارے رنگین خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے سارے ہی مطلوبہ رنگ مہیا ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن اس خوشی میں ہم بچے کی شخصیت کے سب سے اہم عنصر یعنی دل کو فراموش کردیتے ہیں۔ اور پھر زندگی بھر اس کے برے نتائج کا سامنا کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جسم اور دماغ کی پرورش میں مگن ہوکر جب ہم بچے کے دل کی پرورش بھول جاتے ہیں تو یہ ہماری بہت بڑی کوتاہی ہوتی ہے۔ کیوں کہ دل کی پرورش کے بغیر ہم چالاک لومڑیاں، شریر بندر، تیز رفتار گھوڑے، سخت جان گدھے اور خوب کھاکرزور سے ڈکارنے والے بیل اور دوسرے بھانت بھانت کے جانور تو تیار کردیتے ہیں، لیکن درد مند اور شکرگزار انسان نہیں تیار کرتے ہیں۔
اگر آپ اپنے بچے کے دل کی پرورش کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر سنجیدگی سے سوچیں کہ آپ کے بچے کے دل کو کیسا ہونا چاہیے، اس کے دل کے اندر کن اوصاف کی آبیاری بہت ضروری ہے۔ وفاداری، ایمان داری، خود داری، سخاوت پسندی، شجاعت پسندی، طہارت پسندی، نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت اور ایسے بہت سے اوصاف مل کر دل کو کمال عطا کرتے ہیں۔ آپ ایک اچھے اور باکمال دل کا تصور کرکے اپنے بچے کے دل کی بہتر نشوونما پر پورا دھیان دیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ انسان کی اصل شخصیت تو اس کے دل سے عبارت ہوتی ہے۔
یقینی بنائیں کہ اللہ کی محبت، اللہ کی ناراضگی کا خوف، اللہ کی عظمت کا احساس، اللہ کی نعمتوں کا شعور، اور اللہ کی بندگی کا شوق بچے کے دل میں مسلسل پرورش پاتے رہیں۔ جان لیں کہ سورتیں اور دعائیں یاد کرانا، ناظرہ قرآن پڑھانا، نماز کا طریقہ سکھانا، یہ سب اپنی جگہ بہت مفید اور ضروری کام ہیں، لیکن صرف ان کاموں سے دل کی تعمیر نہیں ہوتی ہے۔ دل کے اوصاف پر الگ سے خصوصی توجہ دینا نہایت ضروری ہے۔
بچے کے دل میں انسانوں سے ہمدردی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھردیں۔ وہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر بے چین ہوجائے۔ کسی کو دکھ دینے کا خیال بھی اس کے دل میں نہ آئے، ظلم سے اسے شدید نفرت ہوجائے، انسانوں کی خدمت میں اسے خوشی محسوس ہو۔ ضرورت مندوں کی مدد کرکے اور بے سہاروں کو سہارا دے کر اسے بے بہا دولت پانے کا احساس ہو۔
اپنے بچے کی ایک ایک حرکت اور ایک ایک ادا کے پیچھے اس کے دل کی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ جیسے ہی محسوس کریں کہ دل میں کوئی منفی جذبہ پروان چڑھنے لگا ہے، فورا اسے خطرناک بیماری قرار دے کر علاج کریں۔
اگر آپ کے کسی بچے نے کوئی مزے دار چیز اکیلے ہی کھالی، تو سمجھ لیں کہ اس کے دل میں خود غرضی اور لالچ کے جراثیم پل رہے ہیں، جب کہ مزے دار چیز کو تقسیم کرکے کھانے کا مطلب ہے کہ اس کے دل میں سخاوت اور کشادگی آرہی ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے۔
اگر والدین یا گھر کے دوسرے بزرگ گھر اور باہر کے پرمشقت کاموں میں مصروف ہیں، لیکن بچے ان کے کاموں میں ہاتھ نہیں بٹاتے، اور اپنی تفریحات میں مگن ہیں، تو سمجھ لیں کہ ان کے دل میں نرمی اور سوز پیدا ہونے سے رہ گیا ہے۔ اگر فوری توجہ نہیں دی گئی تو ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہوسکتے ہیں۔
دھیان دیں کہ بچے اپنے رشتے داروں کے سلسلے میں کیا احساس رکھتے ہیں، کہیں ان کے دلوں میں رشتے داروں کے سلسلے میں نفرت کے جذبات تو نہیں پل رہے ہیں۔ وہ آپ کے سامنے کسی رشتے دار کی برائی اور شکایت کرتے ہیں، یا سب کے سلسلے میں اچھے جذبات رکھتے ہیں؟ کوئی رشتے دار آپ سے ملنے گھر آتا ہے تو بچے خوشی سے اس کا استقبال کرتے ہیں، یا بے زاری اور روکھے پن کا رویہ اختیار کرتے ہیں، آپ بچے کے رویے سے اس کے دل کی نشوونما کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ جو بچہ اپنے دل میں اپنے ہی عزیز واقارب سے نفرت پالتے ہوئے بڑا ہوگا، وہ بڑا ہوکر کس سے محبت کرے گا اور کس سے ہمدردی رکھے گا؟
گھر اور خاندان کے جس شخص سے آپ نفرت کرتے ہیں، اگر آپ کا بچہ بھی اس سے نفرت کا اظہار کرتا ہے، تو آپ کے نفس کی تسکین کا وقتی سامان ہوجاتا ہے، لیکن آپ غور سے دیکھیں کہ اس طرح اس کے دل میں نفرت کے جراثیم پل رہے ہیں، اور پھر سوچیں کہ یہ نفرت اس کے دل کی صحت کے لیے کتنی مہلک ہے۔ آپ اپنے نفس کی تسکین کے لیے اپنے بچے کے دل کی بربادی قبول کرلیتے ہیں، کیا یہ نفع کا سودا ہے؟
جس طرح جسم اور دماغ کی ہمہ جہت نشوونما پر دھیان ضروری ہے، اور کسی ایک پہلو کے سلسلے میں لاپرواہی خطرناک ہوسکتی ہے۔ اسی طرح دل کی پرورش میں بھی تمام پہلووں پر دھیان دینا ضروری ہے۔ اگر آپ نے بچے کے دل میں اللہ کی محبت اتنی زیادہ بڑھادی کہ وہ فرض نمازوں کے ساتھ تہجد کی بھی پابندی کرنے لگا، تو یہ بہت اعلی بات ہے آپ قابل تعریف ہیں۔ لیکن دوسری طرف اگر اس کے اندر خدمت وتعاون کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکا، اور وہ بس لوگوں سے فائدہ اٹھانے والا بن کر رہ گیا، لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا نہیں بنا، تو یہ دل کا بہت بڑا نقص ہے۔ ناقص دل والا انسان کامل جسم لے کر کیا کرے گا۔
یاد رکھیں دل کا ہر شعبہ اور ہر گوشہ الگ الگ خصوصی توجہ مانگتا ہے۔ ہوسکتا ہے انسانوں سے تعلقات کے سلسلے میں دل کی نشوونما بہت اچھی ہورہی ہو، لیکن اللہ سے تعلق کے سلسلے میں دل کی بالکل تربیت نہیں ہوسکی ہو۔ ہوسکتا ہے دل میں سخاوت کا جذبہ پروان چڑھا ہو، لیکن شکر اور احسان مندی کا پہلو کوتاہی کی نذر ہوگیا ہو۔ ہوسکتا ہے اپنی غلطی پر معافی مانگنے کے لیے آمادگی ہو، لیکن دوسرے کی غلطی پر معاف کرنے کے لیے دل میں گنجائش نہیں ہو۔ اس لیے آپ کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی تربیت کرتے ہوئے اس کے دل کے ہر پہلو پر توجہ دیں، اور دل کی پرورش میں کسی طرح کی کمی نہیں ہونے دیں۔
ایک بچے کے مزاج میں شرارت ہو اور وہ کسی بڑے کی شان میں گستاخی کربیٹھے۔ اور ایک بچے کے دل میں بغض اور کینہ ہو جس کے زیر اثر وہ کسی بڑے کے ساتھ گستاخی سے پیش آئے، دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ پہلی صورت کے لیے ” یہ اچھی بات نہیں ہے، ایسا نہ کرو” کی ہلکی سی تنبیہ کافی ہے۔ لیکن دوسری صورت کے لیے تنبیہ کافی نہیں ہے، بلکہ دل کی اچھی طرح صفائی کرنا اور دل کی سوچ کو بدلنا ضروری ہے۔
دل کے اندر بہت سے غلط جذبات اچھے ناموںکے ساتھ پنپنے لگتے ہیں، اس لیے ہر جذبے کا صحیح مفہوم بتانا بھی ضروری ہے۔ خودداری کا جذبہ بڑھائیں، مگر ساتھ ہی یہ بھی سمجھائیں کہ خودداری یہ نہیں ہے کہ غلطی ہونے پر بھی معافی نہیں مانگی جائے۔ خودداری یہ بھی نہیں ہے کہ اپنے بزرگوں کی خدمت نہیں کی جائے۔ دوسروں کی نصیحت سن لینا بھی خودداری کے خلاف نہیں ہے۔ خودداری کے خلاف یہ ہے کہ گھر میں کھانا تو کھائیں، لیکن گھر کا کوئی کام نہیں کریں۔ یہ بھی خودداری کے خلاف ہے کہ دوسروں سے فائدہ اٹھائیں اور دوسروں کے کام نہیں آئیں۔
بچے کو بہادری کی صحیح تعلیم دیں، اور اسے سمجھائیں کہ بہادری یہ نہیں ہے کہ ماں باپ سے اونچی آواز میں بات کرے، بہادری یہ بھی نہیں ہے کہ چھوٹے بھائی بہنوں پر چیخ پکار کرے، اپنی غلطی کو تسلیم کرنا بہادری ہے، غصے پر کنٹرول کرلینا بہادری ہے، مخالفت کے باوجود حق بات کہنا بہادری ہے، اور حق بات کی خاطر اپنا نقصان گوارا کرلینا بہادری ہے۔ ظلم کرنا بہادری نہیں ہے، ظالم کے خلاف کھڑے ہوجانا بہادری ہے۔ اپنے اگر زیادتی کررہے ہیں تو اپنوں کے خلاف فیصلہ دینا بہادری ہے۔
اپنے بچے کے دل کی اچھی تربیت کے لیے اپنے دل کی اصلاح پر توجہ ضرور دیں۔ کیوں کہ اکثر آپ کے دل کی بیماریاں آپ کے بچے میں منتقل ہوجاتی ہیں، خاص طور سے جب آپ بچوں کے سامنے ان بیماریوں کا کھل کر مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کبھی وہ بیماریاں بھی اس کے دل میں آسکتی ہیں جو آپ کے دل میں نہیں ہیں۔ بچے کی پرورش کے دوران آپ کو دونوں جہتوں سے خیال رکھنا ہوگا۔
بچے کے ساتھ آپ کا غلط اور غیر دانش مندانہ رویہ اس کے دل کی پرورش کو متأثر کرسکتا ہے۔ آپ اپنی پرسوز باتوں اور پر اثر برتاؤ سے بچے کے دل کو پگھلنے کا موقع بار بار دیں، لیکن کبھی بھی اپنے رویے سے اس کے دل کو ٹوٹنے نہ دیں۔ پگھل پگھل کر دل انمول ہیرا بن جاتا ہے، لیکن ٹوٹ کر تو ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ دوسروں کے سامنے بچے کو ڈانٹنے کی غلطی کبھی نہ کریں۔ غصے کا اظہار غلطی کے برابر ہونا چاہیے، غلطی سے زیادہ غصے کا اظہار بھی دل شکنی کا سبب بن جاتا ہے۔
آپ اپنے بچے سے محبت کرتے ہیں، یہ اچھی بات ہے، آپ کا بچہ آپ سے محبت کرتا ہے یہ بھی اچھی بات ہے، لیکن اس میں آپ کی تربیت کا زیادہ رول نہیں ہے، یہ انتظام تو اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ تاہم زیادہ اہم اور خاص بات یہ ہے کہ آپ کے بچے کے اندر انسانیت کا جذبہ پرورش پارہا ہے،اور آپ اسے عام انسانوں سے محبت کرنا سکھارہے ہیں۔ دل کا اصل کام ہے محبت کرنا،اور انسان کی اصل خوبی ہے انسانوں کے لیے دردمندی رکھنا۔ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ اس پر بہت زیادہ دھیان دیں، کہ یہ خوبی آپ کے بچے اندر کس طرح پروان چڑھائی جائے۔
آپ اپنے بچے کے سامنے جو کچھ کہتے ہیں یا کرتے ہیں، اس کا خیال ضرور کریں کہ اس سے بچے کے دل پر کیا نقوش مرتسم ہورہے ہوں گے۔ آپ جب اپنے بچوں کے سامنے اپنے بزرگوں کی خدمت کرتے ہیں، تو بچوں کے دلوں میں بزرگوں کی خدمت کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ آپ جب بچوں کے سامنے رشتے داروں سے محبت اور خیرخواہی کا اظہار کرتے ہیں، تو ان کے اندر بھی صلہ رحمی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ آپ جب بچوں کے سامنے اسلام اوراسلامی شخصیات اور اسلامی تحریکات کے بارے میں اچھے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، تو یہ جذبات ان کے دل میں جاگزیں ہوجاتے ہیں۔ آپ جب نماز کے وقت سارے کام روک کر نماز کی تیاری میں مصروف ہوجاتے ہیں، تو بچوں کے دل میں نماز کی اہمیت بیٹھ جاتی ہے۔ غرض آپ اپنے بچوں کے سامنے جو کام بہت اہتمام سے کرتے ہیں، وہ کام ان کے دل میں اپنی جگہ بناتے جاتے ہیں۔
جب آپ اپنے بچے کے دل کی اچھی پرورش کرتے ہیں، تو دراصل اپنی تربیت کرتے ہیں، اپنے بچے کے دل کی کیفیتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے آپ کو اپنے دل کے احوال جاننے اور سمجھنے کا موقع بھی ملتا ہے، اور اس طرح آپ اپنے بچے کے دل کو جتنا اچھا بنانے کی کوشش کرتے ہیں، خود اپنے دل کو بھی اتنا ہی اچھا بنانے لگتے ہیں۔
دل کی بیماریوں اور کمزوریوں کے سلسلے میں انسان اکثر کوتاہ نظر ہوتا ہے، اسے کچھ نظر آتا ہے، مگر بہت کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ ہوسکتا ہے ایک شخص دولت کی محبت پر قابو پالے لیکن شہرت کی محبت کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جاسکے، اور زندگی بھر اس میں مبتلا رہے۔ سب کچھ سے آگاہ ہونے کے لیے ہر طرف نگاہ رکھنا ضروری ہوتا ہے، جس طرح جنگل میں آدمی ہر طرف سے چوکنا رہتا ہے، کسی بھی سمت سے کوئی موذی درندہ حملہ آور ہوسکتا ہے۔ آپ بھی اپنے دل اور اپنے بچے کے دل سے پوری طرح آگاہ رہنے کی کوشش کریں۔
کچھ لوگ اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں، اور گھر کو تفریح کے سامانوں سے بھر دیتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ دوسرے بچوں کو دیکھ کر ہمارے بچوں میں کسی طرح کا احساس کمتری پیدا نہ ہو، کچھ لوگ بچوں کو بہت سے سامانوں سے یہ سوچ کر محروم رکھتے ہیں کہ ان کے اندر احساس برتری پیدا نہ ہوجائے، یہ دونوں طریقے درست نہیں ہیں۔ دل کو احساس کمتری اور احساس برتری دونوں سے بچانا ضروری ہے، لیکن اس کے لیے دل کے اندر جاکر تبدیلی لانا ہوگی، دل میں اعلی قسم کی قدریں استوار کرنی ہوں گی۔ باہر کی کارروائیاں زیادہ کارگر نہیں ہوں گی۔ دل کے احوال کو درست کرنے کے لیے دل کو مخاطب کرنا ہوتا ہے، صرف جسم کو مخاطب کرکے ہم دل کے احوال درست نہیں کرسکتے۔ ہوسکتا ہے آپ بچے کو طرح طرح کی لذیذ ترین چیزیں کھلاتے رہیں، اور وہ نہ آپ کا شکر گزار بنے اور نہ اللہ کا شکر گزار بنے، کیوں کہ آپ نے اسے کھلایا تو بہت زیادہ، لیکن اس کے دل میں شکر کے پودے نہیں لگائے۔
بچے کو اپنے دل کی سیر کرنا سکھائیں۔ وہ خود اپنے دل کی کمزوریوں اور بیماریوں سے واقف ہونا اور ان کا علاج کرنا سیکھے۔ اس کو معلوم ہوجائے کہ دل کی خوبیاں کیا ہوتی ہیں اور خامیاں کیا ہوتی ہیں؟ دل کے حوالے سے بچوں کے ساتھ کھل کر گفتگو کریں۔ جس طرح بچوں کو یہ بتاتے ہیں کہ گرم کے بعد ٹھنڈا مضر ہوسکتا ہے، زیادہ چکنائی کھانا نقصان دہ ہوتا ہے، اور تمباکو صحت کے لیے گھاتک ہوتی ہے، اسی طرح یہ بھی بتائیں کہ گھمنڈ دل کے لیے گھاتک ہوتا ہے، اور ناشکری سے دل کی موت ہوجاتی ہے۔ بچے کے دل کی صحیح نشوونما کی ذمہ داری آپ قبول کریں، اور پھر اس کے اندر حفظان صحت کی فکر پیدا کردیں، اس طرح کہ وہ زندگی بھر جسم کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی صحت کا بھی خیال رکھے۔
تقوی دل میں ہوتا ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین بار کہا:’’ تقوی یہاں ہوتا ہے‘‘۔ بچوں کے دل کی پرورش میں اس حدیث پاک سے بڑی رہ نمائی ملتی ہے۔ جب تقوی دل میں ہوتا ہے، تو اپنے بچے کے دل میں تقوی کا پودا لگانا، اور مسلسل آبیاری کرکے اسےایک تناور درخت بنانا ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بچہ اللہ سے اتنی محبت کرے، کہ اللہ کو ناراض نہ کرنا اس کی سب سے بڑی فکر ہوجائے۔ بچہ اللہ کی ناراضگی سے ڈرے، اس سے زیادہ جتنا وہ اپنے والدین کو ناراض کرنے سے گھبراتا ہے۔ بچے کو اللہ کی نگرانی کا ہر وقت احساس رہے، کہ کوئی نہیں مگر اللہ تو دیکھ رہا ہے، اور اللہ کی پکڑ سے کوئی بھاگ نہیں سکتا، اور اللہ کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے۔ دل میں تقوی پیداکرنے کا مطلب دل کی حفاظت کا بہترین انتظام کردینا ہے۔
دل کی اپنی زبان ہوتی ہے، وہی زبان دل پر اثر کرتی ہے۔ اگر دل کی زبان سے نصیحت نہیں کریں گے تو نصیحتیں ناگوار گزریں گی، اور دل پر ان کا الٹا اثر ہوگا۔ دل کی زبان استعمال کرنے کے نئے تجربات کرتے رہنا چاہیے، میں نے اپنے بچوں کے ساتھ ایک تجربہ کیا ہے، دسترخوان پر جب سب بیٹھ جاتے ہیں تو سب کی پلیٹوں میں کھانا میں نکالتا ہوں، جو چیزیں مزے دار مگر تھوڑی ہوتی ہیں، وہ سب میں برابر برابر تقسیم کردیتا ہوں، بسا اوقات دسترخوان پر میرے بچوں کے علاوہ دوسرے بچے بھی ہوتے ہیں، لیکن میں سب کا برابر حصہ لگاتا ہوں، مہمانوں اور بزرگوں کا خصوصی حصہ ہوتا ہے، اور اس تقسیم میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مجھے نہیں ملتا ہے یا سب سے کم ملتا ہے، ایسی صورت میں سب بچے مجھ سے ہمدردی کا اظہار کرکے اپنے حصے میں سے مجھے دینا چاہتے ہیں، مجھے ان کی یہ ادا بہت اچھی لگتی ہے۔ کم وبیش دس سال سے یہ سلسلہ جاری ہے، اس امید پر کہ شاید میرے اس چھوٹے سے عمل کو بار بار دیکھ کر یہ بچے سب کے ساتھ انصاف کرنے اور اپنے اوپر ایثار کرنے کی اعلی قدروں کو سیکھ لیں۔ آپ بھی تجربے کریں۔ اور اپنے کامیاب تجربات کوافادہ عام کے لئےشائع کریں۔
دل کی پرورش پر دھیان دینے والوں کے لیے بہترین اسوہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے تھے، عمر زیادہ نہیں دس سال کے آس پاس رہی ہوگی، آپ نے انہیںکچھ نصیحتیں کیں۔ یہ نصیحتیں کیا تھیں، ایمان اور توکل کے پودے تھے جو ان کے دل میں لگادیے تھے۔ آپ نے فرمایا : ’’اے لڑکے، اللہ کا خیال رکھو، اللہ تمہارا خیال رکھے گا، اللہ کا خیال رکھو اللہ کو اپنی طرف پاؤگے، اور جب مانگو تو اللہ سے مانگو، اور جب مدد کے لیے پکارو تو اللہ کو پکارو، سمجھ لو کہ سارے لوگ مل کر تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچاسکتے، مگر بس اتنا ہی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور جان لو کہ سارے لوگ مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچاسکتے مگر بس اتنا جتنا کہ اللہ نے لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھائے جا چکے ہیں، اور صحیفے سوکھ چکے ہیں‘‘۔ اس نصیحت کے ایک ایک لفظ پر غور کریں، اور سوچیں کہ نبی پاک ﷺ نے چند لمحوں میں اور چند جملوں سے ایک کم عمر لڑکے کے دل کی کتنی اعلی تربیت کردی تھی۔ اگر ہم اپنے بچوں کے دلوں کی نشوونما ان عظیم اور عالی شان قدروں اور عقیدوں کے ساتھ کریں، تو ان کی شخصیت کی بہترین تعمیر کا سامان کریں گے، اور اس طرح واقعی ان کے محسن بن جائیں گے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2019