امن ہردل کی آواز ہےاس لفظ کے سنتے ہی دل اطمینان وسکون کی کیفیت کی لذت سے سرشار ہوجاتا ہے ۔ اس کی تعریف مختلف اوقات میں مختلف انداز میں بیان کی جاتی رہی ہے ۔
قدیم عہد یونان میں امن کا تصور یہ تھا کہ جنگ نہ ہو ۔
(Absence of war)ان کے نزدیک حصول امن کا ذریعہ معاہدہ امن وصلح ہوتا تھا ۔
عہدِ قدیم میں روما کے نزدیک امن کا حصول صرف جنگ کے ذریعے ہوسکتا تھا اور اس کا نفاذ صرف فاتح قوم ہی کرسکتی تھی ۔
یورپ کے عہد وسطی میں جب رومی حکومت میں مذہب عیسائی کو سرکاری درجہ مل گیا اوراس کی رو سے عیسائی حکمراں چرچ کی نگرانی میں حکومت کے اندر امن کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ٹھہرے ۔ تواس وقت انہوںنے امن کے دو تصور پیش کیے۔
ایک’’ خدائی امن‘‘دوسرا’’ خدائی عارضی صلح‘‘کا تصور خدائی امن کا تصور سے مراد یہ لیا جاتا تھا کہ انسان خدا کی محبت میں ظلم سے بچے ۔ جولوگ اس کا عہد حلیفہ طورپر لیتے وہ اس کے پابند سمجھے جاتے اور جواس کوتوڑتا اس کو سزا دی جاتی تھی مگر یہ تصور لوگوں کوصرف انفرادی ظلم سے روکتا تھا اورحکومتی سطح پر لڑی جانے والی جنگیں اس کے دائرہ کار میں نہیں آتی تھیں۔
خدائی عارضی صلح کےمعنیٰ یہ لیے جاتے تھے کہ ایک مدت تک کے لیے ظلم ترک کردیا جائے ۔ مگر انصاف کے لیے جنگ کبھی بھی لڑی جاسکتی تھی۔
عہد نامہ قدیم کے اس تصور کہ خدا کہتا ہے کہ اپنے دشمنوں سے جنگ کرو تسلیم کیاگیا ۔ مگر عہد جدید میں اس کی تشریح یہ کی گئی کہ اس میں صرف انفرادی طورپر ظلم سے روکاگیا نہ کہ جنگ سے ۔ یورپ کا مشہور فلسفی سینٹ آگٹائن کےنزدیک امن یہ ہے کہ ’’نظم میں ہم آہنگی پیدا ہوجائے۔ اس کا اطلاق انسان کی مادی و روحانی دونوں قسم کے تعلقات پر ہوسکتا ہے ۔ اس نے امن کونظام حیات سے جوڑنے کی کوشش کی ۔یورپ کا ایک اورمشہور فلسفی دانتے کے نزدیک امن کےقیام کی صرف ایک صورت یہ ہے کہ پوری دنیا میں ایک حکومت قائم ہوجائے اورسارے لوگ ایک قوم بن جائیں ۔ اس کے نزدیک بدامنی کا سبب حکومت میں یوپ اور شاہ کے درمیان کشمکش ہے۔
انفرادی وقومی سطح پر امن کا مفہوم یہ لیا جاتا ہےکہ فتنہ وفساد اور انتشار وبدنظمی سے لوگ محفوظ رہیں اور مل جل کر رہیں۔جدید دور میں بین الاقوامی سطح پر امن کا مطلب یہ ہے کہ جنگ نہ ہورہی ہو ۔ جنگ معاہدہ کے ذریعے سے بند کردی گئی ہو ۔ بعض حضرات امن کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل کرتے ہیں کہ اس جنگ بندی کے درمیان افراد اور ملکوں کے درمیان آپسی تعلقات وروابط اچھے ہوں اورباہمی امداد وتعاون کا معاملہ رہے ۔
اسلام سے قبل تصور امن
عربوں کے یہاں چار ماہ ذی قعدہ ، ذی الحجہ، محرم الحرام اوررجب المرجب کومحترم مانا جاتا تھا اور ان مہینوںمیں وہ جنگ بند کردیتے تھے ۔ اس کے علاوہ ان کے یہاں قبائلی نظام تھا ۔ قبائلی مختلف اسباب کی وجہ سے صلح کراکر جنگ بندی کرادیتے تھے ۔ معاہدات کے ذریعے دو یا اس سے زائد قبیلے معاہدات کرلیتے تھے اورپھر آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرتے اور ہر معاملے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے۔
اسلام عربی لفظ ہے یہ س ، ل ، م سے بنا ہے اس کے معنی امن وسلامتی ، صلح وآتشی ہے ۔ اسی سے مسلم ہے یعنی جوفرد اپنی اور دوسروں کی سلامتی چاہتا ہے وہ مسلمان ہے ۔
اسلام نے تصور امن کے لیے چار الفاظ کا استعمال کیا ہے ۔
امن مسلم سلام صلح
ان چاروں الفاظ میں امن وشانتی وآستی کا مفہوم ہے ۔
سلام کے مفہوم میں یہ بھی ہے کہ ایک انسان کوبحیثیت انسان کو اس کے مقام لیاقت وصلاحیت کے لحاظ عدل وانصاف کے تقاضوں کوپورا کرتے ہوئے سارے حقوق دیے جائیں ۔جب کہ صلح کے مفہوم میں یہ ہے کہ جب دو افراد، دو گروپ جھگڑ پڑیں تو ہر فرد کو اس کے حدود میں رکھتے ہوئے اس کا حق پہنچانے دلانے کے لیے عدل وانصاف کے تقاضوں کوپورا کرنا ۔کسی بھی معاشرہ وسماج میں امن تبھی قائم ہوسکتا ہے جب کہ اس میں رہنے والے ہر فرد کو اس کے حقوق ملتے ہوں، مذہبی ، سماجی ، معاشی ، معاشرتی ، تعلیمی لحاظ سے مساوایانہ حقوق ملتے ہوں ، کسی کوبھی اپنے اوپر دست د رازی کا خطرہ نہ ہو کسی طرح کا ظلم وستم نہ ہوکسی کی حق تلفی نہ ہو ۔ عدل ومساوات قائم ہو اورزندگی ہواور زندگی گزارنے کے لیے تمام وسائل حاصل کرنے کی آزادانہ فضا ہو۔
جھگڑ، غارت گری، لوٹ مار، کشت خون، چوری ، ڈکیٹی ، اغوا ، عصمت دری ، آبروریزی، چور بازاری، بلیک مارکٹنگ ، سود، رشوت سے پاک سماج ہو ۔ تبھی امن قائم ہوسکتا ہے ۔ امن کی ضد بدامنی ہے قرآن بدامنی کے لیے فساد کا لفظ استعمال کرتا ہے اسلام انسان کوفساد سے روکتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ہی امن قائم ہوتا ہے ۔ ’’ اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا ۔‘‘ ( المائدہ:۶۴) ’’زمین میں فساد مت پھیلاؤ کیونکہ اللہ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے ۔‘‘ ( قصص ۷۷)زمین میں اصلاح وشانتی قائم ہوجانے کے بعد فساد مت پھیلاؤ۔‘‘ ( اعراف:۵۶)
اسلام فساد کو نہ صرف نہ پسند کرنے اور اس سےروکنے پر ہی اکتفا نہیں کرتا ہے بلکہ جولوگ اس سے نہیں روکتے ان کو دردناک عذاب سے ڈراتا ہے ۔’’جولوگ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہ لعنت کے مستحق ہیں اوران کے لیے آخرت میں برا ٹھکانہ ہے ۔‘‘(الرعد:۲۵)
کسی بھی سماج میں امن کے قیام کے لئے بنیادی چیز ہے یہ کہ وہاں عد ل وانصاف کا قیام ہو عدل وانصاف کے بغیر امن کا تصور ممکن ہی نہیں ہے ۔ اسلام عدل کا علمبردار ہے ایسے عدل کا جس کو نہ تو کوئی رشتہ وتعلق متاثر کرتا ہو، نہ کسی کی محبت اورنہ ہی کسی کی دشمنی ، نہ ہی مال ودولت کا لالچ اورنہ ہی منصب و عہد کی چاہت۔ اسلام کی تعلیمات میں عدل کی بنیادی حیثیت سے مسلمہ ہے ۔ عدل فکری وعملی دونوں سطح پر بلا کسی فرق کے دوسروں کے طور سے حقوق کو پہنچاننے اوران کی ادائیگی کا نام ہے ۔ عدل کی مختلف شکلیں ہیں ۔ ذات کے ساتھ عدل ، اللہ کے ساتھ عدل، اللہ کے بندوں کے ساتھ عدل کا رویہ اختیار کرنا۔عدل ایک ایسی صفت ہے کہ اس کی موجودگی میں ہی امن قائم برقرار رہ سکتا ہے اوراس کے بغیر افراد کی زندگی اور سماجی نظام دونوں میں انتشار وخلفشار پیدا ہوجائےگا۔ دنیا میں رسولوں کو روشن دلائل ، کتاب اورمیزان کے ساتھ ارسال کیے جانے کا مقصد صرف اورصرف انسانی سماج میں عدل کا قیام تھا۔لِیَقُوْمُ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (حدید :۲۵)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بیان فرمایا : ’’اے نبیؐ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے ۔ تا کہ جوراہ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تم بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو۔‘‘(النساء :۱۰۵)
اہل ایمان کوبھی اللہ تعالیٰ نے عدل وانصاف کے قیام کا حکم دیا ہے گویا مسلمان کا مقصد وجود عدل وانصاف کا قیام ہے ۔ ’ ’ اللہ عدل اوراحسا ن اورصلہ رحمی کا حکم دیتا ہے ۔‘‘ ( نحل:۹۰)
’’ اے لوگو! جوایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اورخدا واسطے کے گواہ بنو، اگرتمہارے انصاف اورتمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر ہو۔‘‘ ( نساء : ۱۳۵)
’انصاف کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے ۔‘‘ (المائدہ:۴۲)
’’ اے نبیؐ! ان سے کہومیرے رب نے توراستی وانصاف کا حکم دیا ہے ۔‘‘(اعراف:۲۹)
’’ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔‘‘ (النساء: ۵۸)
انصاف کرنے اورعدل کرنےمیں عام طور سے جوچیز رکاوٹ بنتی ہےوہ رشتہ وتعلق ہے قرآن نے بے لاگ انداز میں اس کی کمی وکمزوری کی نشاندہی کرتے ہوئے انصاف کا اورعدل کرنےکا حکم دیا ۔ ارشاد ربانی ہے :’’ جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دارہی کا کیوں نہ ہو۔‘‘ ( انعام:۱۵۳)
اسلام کی تعلیمات توبڑی اعلیٰ وارفع ہیں وہ انسانوں کوصرف اتنی ہی تعلیم نہیں دیتا ہے کہ وہ لوگوں سے برابر کا معاملہ کریں بلکہ وہ حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے وہ سکھاتا ہے کہ اگر کوئی ظلم کرے تب بھی اس سے اچھا سلوک کیا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا :’’ لوگوں کے مطابق عمل کرنے والے نہ بنو کہ یوں کہنے لگو کہ اگر لوگ اچھا سلوک کریں گے توہم بھی اچھا معاملہ رکھیں گے اوراگروہ ظلم کریں توہم بھی ظلم کریں گے ۔ نہیں، اپنے آپ کو اس بات کے لیے مستعد رکھو کہ اگر لوگ اچھا سلوک کرتے تو بھی تم حسن سلوک کروگے اوربد سلوکی کریں توظلم نہ کروگے۔‘‘(ترمذی)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ عدل وانصاف کی نہ صرف بات کرتے ہیں بلکہ امن کے قیام کے لیے نادر وسنہرے عملی نمونے ملتے ہیں۔ جب آپؐ نے ہجرت کی اورمدینہ منورہ تشریف لے آئے تو آپ نےامن وشانتی کے قیام کے لیے جوسب سے پہلا قدم اُٹھایا وہ معاہدات کا تھا ۔ میثاق مدینہ درج ذیل ہے:
یہودی اپنا خرچ اُٹھائیں گے اورمسلمان اپنا خرچ اُٹھائیں گے۔
اس معاہدے کے شرکا ء حملہ آور کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔
یہ کہ خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں گے۔
ان کے درمیان نیکی وحق رسانی کا تعلق ہوگا نہ کہ گناہ اورزیادتی کا ۔
اور یہ کہ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا۔
اوریہ کہ مظلوم کی حمایت کی جائے گی۔
اورجب تک جنگ رہے یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کے مصارف اُٹھائیں گے۔
اوریہ کہ اس معاہدے کے شرکاء پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ وفساد کرنا حرام ہے۔
اوریہ کہ اس معاہدے کے شرکاء کے درمیان اگر کوئی ایسا قضیہ یا اختلاف رونما ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تواس کا فیصلہ اللہ کے قانون کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے۔
اور یہ کہ قریش اوران کے حامیوں کوپناہ نہیں دی جائے گی۔
اوریہ کہ یثرب پر جوبھی حملہ آور ہواس کے مقابلے میں شرکاء معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے ۔ ہرفریق اپنی جانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہوگا۔
آپؐ نے ایک اورمعاہدہ کیا تھا جوتاریخ ساز تھا جوامن واماں کے قیام کےلیے کوششیں کرنے والوں کے لیے اپنے اندر پیغام رکھتا ہے ۔ وہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے ۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۶ ہجری کوکعبہ کی زیارت کے ارادے سے نکلے آپ کے ساتھ آپ کے ۱۴۰۰ چودہ سو صحابہ ساتھ تھے۔ ذوالحلیفہ میں قیام کیا اور قربانی کی ابتدائی رسمیں ادا کیںاور اہلِ مکہ کو اپنی آمد کی اطلاع اور حج کے ارادے سے مطلع کیا ۔ اہل مکہ نے حج سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومنع کردیا اورکہلا بھیجا کہ آپ مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے ۔آپؐ آگے بڑھتے رہے اورحدیبیہ کے مقام پر جاکر ٹھہر گئے ۔ قبیلہ خزاعہ کے سردار نے آکر خبردی کہ قریش نے لڑائی کی پوری تیاری کرلی ہے اوروہ آپ کو مکہ نہ جانے دیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بتادوکہ ہم صرف عمر ہ کرنے کے ارادے سے آرہے ہیں ہمیں خانہ کعبہ کے طواف کا موقع دیا جانا چاہیے ۔ مگر عرب کی شریر لوگوں نے کہا کہ ہمیں محمدسے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ مگر سنجیدہ لوگوں میں سے عروہ نے کہا کہ مجھ پر بھروسہ کرو میں بات کرکے آتا ہوں ۔ عروہ نبیؐ سے بات کرنے آیا ابھی معاہدہ طے نہیں ہوسکا کہ اسی درمیان قریش کے ایک دستہ نے مسلمانوں پر حملہ کردیا اورچھوڑدیا ۔ اس کے بعدآپؐ نے حضرت عثمان ؓ کومکے بھیجا لیکن قریش کسی طرح اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ مسلمانوں کوکعبہ کی زیارت کا موقع دیا جائے بلکہ حضرت عثمانؓ کوانہوںنے روک دیا پھر یہ خبر اڑگئی کہ حضرت عثمان ؓ شہید کردیئے گئے۔
اس خبر کوسن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب توعثمانؓ کے خون کا بدلہ لینا ضروری ہے یہ کہہ کر آپ ایک ببول کے پیڑ کے نیچے بیٹھ گئے اوریہاں آپؐ نے صحابہؓ سے اس بات پر بیعت لی کہ ہم مرجائیںگے لیکن لڑائی سے منہ نہ موڑیں گے اورقریش سےحضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لیں گے ۔ جب قریش کواس کی اطلاع ملی توقریش نے سہیل بن عمر و کواپنا سفیر بنا کر بھیجا ۔ تاکہ صلح کے بارے میں بات ہوسکے۔
۱۔ مسلمان اس سال واپس چلے جائیں۔
۲۔ اگلے سال آئیں اورصرف تین دن ٹھہر کر واپس چلے جائیں۔
۳۔ ہتھیار لگا کر نہ آئیں صرف تلوار ساتھ لاسکتے ہیں مگروہ بھی نیام میں رہے باہر نہ نکالی جائےگی۔
۴۔ مکے میں جومسلمان رہ گئے ہیں ان میں سے کسی کواپنے ساتھ نہ لے جائیں اوراگر کوئی مسلمان مکے میں واپس آنا چاہے تواسے بھی نہ روکیں۔
۵۔ کافروں یا مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص مدینہ چلا جائے تواُسے واپس کردیا جائے لیکن اگر کوئی مسلمان مکے میں لے جائے توواپس نہیں کیا جائے گا ۔
۶۔ قبائل عرب کواختیار ہوگا کہ وہ مسلمانوں یا کافروں میں سے جس کے ساتھ چاہیں معاہدہ کرلیں ۔
۷۔ یہ معاہدہ دس سال تک قائم رہے گا۔
ابھی معاہدہ طے ہی ہورہا تھا کہ حضرت ابوجندلؓ بیڑیوں میں جکڑے ہوئے حاضر ہوگئے اورحضورؐ سے درخواست کی کہ مجھے کافروں کے پنجے سے چھڑا کر اپنے ہمراہ لے چلیں۔ابوجندل کواپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے۔(اگر چہ کی ابھی معاہدے پر دستخط باقی تھے)ایک طرف معاہدہ کا پاس دوسری طرف ایک مظلوم آپؐ نے ابوجندل کوقریش کے حوالے کردیا آپؐ نے فرمایا ابوجندلؓ صبروضبط سے کام لو، اللہ تمہارے لیے اور مظلوم مسلمانوں کے لیے کوئی راہ نکال لے گا ۔ اب صلح ہوچکی ہے اورہم ان لوگوں سے بدعہد نہیں کرسکتے۔یہ مرحلہ مسلمانوں کے لئے بڑا اہم ہوگیا ۔ ایک طرف ابوجندلؓ کی حالت زار دوسری طرف بظاہر اسلام کی توہین تیسری طرف نبی ؐ کی اطاعت کا نازک مرحلہ ۔ الحمد اللہ مسلمان اس میں کامیاب ہوئے۔
وحدت الہٰ
اسلام تمام انسانوں کوایک خالق کی مخلوق قراردیتا ہے ۔ اوروہ انسانوں سےمطالبہ کرتاہے کہ اے انسانوں اس اللہ کی بندگی کرو جس نے اس دنیا کوپیدا کردیا ۔ وہ اکیلا ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی نے تم کوپیدا کیا وہی تمہارا پالنھار ہے ہر طرح کی ضرورتوں کووہی پورا کرتا ہے ۔ لہٰذا اس کومالک وحاکم مان کر اسی کی اطاعت کرو۔
’’ لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جوتمہارا اورتم سے پہلے جولوگ گزرچکے ہیں ۔ ان سب کا خالق ہے ۔‘‘(البقرۃ:۲۱)
جب سارے انسان ایک خدا کے بندے ہیں جب سب کواسی کی بندگی کرناضروری ٹھہری تو پھر ان میں یگانت واتحاد پیدا ہوجاتا ہے۔ ان میں کسی طرح کا بھی کسی بھی سطح پر بھید وبھاؤ کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی ہے ۔ لیکن جب انسان اس تصور سے خالی ہوتا ہے ۔ توکشمکش ہوتی ہے اورمحبت کی جگہ نفرت پیدا ہوتی ہے امن کی جگہ انتشار وخلفشار پیدا ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ زبردست حاکم وآقا بتا دینا چاہتاہے دوسرے انسانوں کوغلام ومحکوم بنانا چاہتا ہے ۔ اس تصور کی وجہ سے انسانیت طبقوں میں بٹ جاتی ہے اور دنیا فتنہ وفساد سے بھر جاتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ، اللہ تعالیٰ کوسب سے زیادہ پسند وہ ہے جواس کی مخلوق سے نیک سلوک کرتا رہے ۔‘‘
جس طرح سے ایک کنبہ کے لوگ آپس میں محبت کرتے ہیں ، ایک دوسرے کا خیال واحترام کرتے ہیں ، ایک دوسرے کی ضرورتوں کوپورا کرنے ، ان کے دکھ دردمیں شریک ہوتے ہیںٹھیک اسی طرح تمام انسان ایک کنبہ ہیں کیونکہ ان سب کا خالق ، مالک ، پالنہار ہے لہٰذا جب ایک خدا کے بندے ہیں توسب آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ جس سماج ومعاشرے میں اس طرح کے جذبات ہوںگے وہاں محبت ہوگی ، امن ہوگا شانتی ہوگی۔
وحدت انسانیت
دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے تووحدتِ انسانیت کے تصور کی بنیاد پر ہوسکتا ۔ یہ تصور صرف اورصرف اسلام میں ہے اسلام کے علاوہ دنیا میں جتنے بھی نظریات ، مذاہب پائے جاتے ہیں ان میں وحدتِ انسانیت کا تصور نہیں ہے ۔ وحدتِ انسانیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسان ایک جوڑے آدم وحوا کی اولادہیں ۔ اس لیے سب بحیثیت انسان برابر ہیں ۔ خاندان ، نسب وحسب ، رنگ ونسل، قبیلہ ، کالے گورے، زبان وعلاقے کی وجہ سے کوئی کسی سے کم تر نہیں کوئی اشرف وعشرت والا نہیں ۔ تمام انسان برابر ہیں ۔ سب کو یکساں عزت وانصاف کا حق حاصل ہے ۔
’’ اے لوگو! ہم نے تم کوایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اوربرادریاں بنادیں تا کہ ایک دوسرے کوپہنچانو ۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جوتمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘ (حجرات:۱۳)
قرآن کے نزدیک انسانوں میں رنگ ونسل کا جوفرق ہے وہ تعارف کے لیے ہے نہ کہ امتیاز وشرف عزت کے لیے۔ انسان اپنی اصل حیثیت واعتبار کے لحاظ سے سب کے سب برابر ہیں ان میں امتیاز وفرق کی کوئی بنیاد ہے تووہ اخلاق وکردار ہے قابل شرف مجدد وہ ہے جوخدا پرست ہے ۔ جواللہ اوراس کے بندوں کے حقوق کو پہنچان کران کوادا کرتا ہوتا ہو۔
’’ اے انسانوں! سن لو بے شک تمہارا رب ایک ہے اورتمہارا باپ ایک ہے ۔ سن لوکسی عربی کوکسی عجمی پر کسی عجمی کوکسی عربی پر ۔ کسی سفید کوکسی سیاہ پر اورکسی سیاہ کوکسی سفید پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے ۔‘‘ (مسند احمد)
احترام آدمیت وانسانیت
اسلام کہتا ہے کہ تم سب انسان محترم ہو ان کی عزت وآبرو، ان کی جائیداد، تمام انسان کویکساں دئے جانے چاہئے اور کسی بھی پہلو سے کسی بھی انسانوں یا کسی بھی طبقے کودبا کر رکھنایا ان کوخدمت گار بناکر رکھنا اسلام میں پسند نہیں ہے ۔
قرآن فرماتا ہے:’’ ہم نے بنی آدم کوبزرگی دی ۔‘‘(اسراء: ۷۰)
جب اللہ نے تمام انسانوں کوعزت وشرف کے ساتھ پیدا کیا ہے تو کوئی انسان کیسے حقیر وکمتر ہوسکتا ہے اورکیسے اس کی تحقیر وذلیل کیا جاسکتا ہے اسی لیے اسلام نے کسی پاک دامن عورت پر الزام لگانے پر بہت سزا متعین کی ہے۔
’’جولوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں ، ان کو اسی کوڑے مارو اوران کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں ۔‘‘ (نور:۴)
وحدت انسانیت کے عنوان کے تحت اوپر جوحدیث گزری ہے ۔ یہ اعلان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں کیا تھا ۔ یہ اعلان صرف ایک مصلح قوم کا اعلان نہ تھا ، بلکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ پورا غرب آپ ؐ کے زیر نگیں تھا ۔ آپ ؐ پورے عرب کے حاکم ومقتدر تھے یہ اعلان گویا حاکم وقت کی طرف سے تھا مساوات ، عدل ، وحدت انسانیت کا نعرہ کوئی سیاسی نعرہ وہتھکنڈہ نہیں تھا یہ چرم زبانی بھی نہیں یہ حاکم وقت کی رعایا کولبھانے والے کوئی اسکیم واعلان نہیںتھا بلکہ بالفعل قائم ونافذ تھا۔
خاندانی وسماجی مساوانہ سلوک کی ایک مثال زینب بنت جحش ؓ کا نکاح حضرت زید بن حارثہ ؓ کے ساتھ ہونا ہے ۔ آپؐ نے اپنی پھوپھی زاد بہن جوکہ عرب کے سب سے اشرف خاندان قریش سے تعلق رکھتی تھیں ۔ جب کہ زید بن حارثہ ؓ ایک حبشی غلام تھے۔ زمانہ جاہلیت میں کسی اعلیٰ خاندان کی لڑکی کا نکاح غلام کے ساتھ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کواس تصور کو توڑا اور اپنے گھرانے سے اس کا آغاز کیا ۔
زمانہ جاہلیت میں کعبہ کی چھت پر اعلیٰ خاندان کافرد ہی چڑھ سکتا تھا کیونکہ کعبہ کے لوگوں کے نزدیک ایک مقدس عبادت گاہ کی حیثیت رکھتا تھا جب مکہ فتح ہوا۔ توآپؐ نے حضرت بلال ؓ کوحکم دیا کہ خانہ کعبہ پر چڑھ کر اذان دیں۔ حضرت بلال بن رباحؓ کا ایک حبشی غلام تھے۔
یہ مثالیں سماجی وخاندانی نوعیت پر معمولی کی جائیں گی اس سے پہلے جوعدل وانصاف کے ذیل میں قبیلہ مخزوم کی فاطمہ نامی عورت کی چوری پر حضور ؐ نے جوفرمایا وہ ایک حاکم وقت کی حیثیت سے فرمایا تھا۔
خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب کا زمانہ خلافت ہے آپ ؐ امیر المؤمنین ہیں۔ آپ ؓ کی زرہ گم ہوجاتی ہے وہ کوفہ کے نصرانی کے یہاں برآمد ہوتی ہے۔ عدالت میں معاملہ پیش ہوتا ہے امیر المؤمنین عدالت میں ایک عام شہری کی حیثیت سے پہنچتے ہیں ۔ گواہی کا وقت آیا تو حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے کو گواہی کے لیے پیش کیا توقاضی شریح بن الحارثؓ نے بیٹے کی گواہی کویہ کہہ کررد کردیا کہ باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی معتبر نہیں ہے ۔ کوئی اور گواہ نہ پیش کرنے کی وجہ سے امیر المؤمنین اورعام شہری برابر ہیں ۔ تواس نے اقرار کرلیا کہ حضـرت علیؓ سچے ہیں زرہ انہیں کی ہے میری نہیں ہے ۔
ہر انسان بحیثیت انسان زند ہ رہنے کا حق رکھتا ہے اورکسی فرد واجتماعیت (کوبغیر کسی حق کے ) بے گناہ کوقتل کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے ۔ وہ تو ایک فرد کے قتل کوتمام انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے ۔
’’ جس نے کسی انسان کے خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کوقتل کردیا اورجس نے کسی کوزندگی بخشی اُ س نے گویا تمام انسانوں کوزندگی بخش دی۔‘‘ ( المائدہ: ۳۲)
اورمسلمانوں کی صفت یہ بتائی گئی ۔
’’ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے۔‘ ‘ (فرقان:۶۸)
مسلمان وہ ہےجس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں (بخاری
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ ( بخاری)
مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جانیں اوران کے اموال محفوظ رہیں۔(ترمذی)
اللہ نے نیکی کرنے کا حکم دیا ہے قریب کے ہمایہ اوربیگانہ ہمسایہ اورپہلو میں رہنے والے کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا :
’’ بخدا وہ مومن نہیں ، بخدا وہ مومن نہیں ، بخدا وہ مومن نہیں عرض کیا گیا : یا رسول اللہ کون مومن نہیں آپ ؐ نے فرمایا : وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی بدلی سے محفوظ نہ ہو۔(بخاری)
’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے شر وفساد سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو ۔‘‘(مسلم)
’’ وہ شخص مومن نہیں جوپیٹ بھر کھائے اوراس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہ جائے ‘‘ (بیہقی)
ان احادیث میں پڑوسی وہمسایہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا بغیر مذہب وملت کے اس بات کوایمان سے جوڑا گیا ۔ جس مذہب کی ایسی تعلیمات ہوں بھلا اس کے ماننے والے کیسے شرپسند ہوسکتے ہیں۔
احساس جواب دہی
انسان کو درست رکھنے ، ٹھیک ٹھیک بات کہنے انسانوں کے درمیان مساویانہ وعادلانہ نظام قائم رکھنے کے لیے اسلام احساس جواب دہی کا تصور پیدا کرتا ہے ۔ یعنی کہ یہ دنیا یوں نہیں ہے اوراس میں انسان بے غرض وغایت نہیں پیدا کئے گئے ہیں بلکہ انسان ذمہ دار ہے یہاں اس کومہلت عمل ملی ہے۔ یہاں اس کو آزادی فکر وعمل عطا کیا گیا ہے ۔ یہاں جو کچھ کرے گا ایک دن آئے گا اس دن اپنے رب کے حضور حاضر ہوکر اس کا جواب دینا ہوگا ۔ہر عمل کا خواہ اچھا ہو یا برا اس کا نتیجہ انسان دیکھ کر رہے گا۔
دنیا میں پولیس وکیلوں ، جج کوپیسہ دے کر بچ سکتا ہے ۔ صدر جمہوریہ اورایم. پی کی سفارش سے بچ سکتا ہے مگر آخرت میں کوئی کام آنے والا نہیں ہے ۔ کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا ۔ کوئی سفارش نہیں چلے گی ۔ نہ فدیہ قبول کیا جائے گا ۔نہ رشوت چلے گی ، کوئی کسی کے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتا ہے ۔ وہاں کوئی کسی کے عمل کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔
’’ کوئی جگر ی دوست اپنے جگری دوست کونہ پوچھے گا حالانکہ وہ ایک دوسرے کوکھائے جائیں گے ۔ مجرم چاہےگا کہ اس دن عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو، اپنے قریب تر ان خاندان کو جواسے پناہ دینے والا تھا ، اورروئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے اوریہ تدبیر اسے نجات دلادے ۔ ہر گز نہیں ۔‘‘( معارج : ۳۳۔۳۷)
اُس دن کے آنے سے پہلے ، جس دن کوئی لین دین ہوگا، نہ کوئی دوستی ہوگی اور نہ کوئی سفارش ہوگی ۔‘‘ (بقرۃ: ۲۵۴)
مَنْ ذَالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہُ اِلاَّ بِاِذْنِہٖ (زمر۔۴۴)
آپ ذرا غور فرمائیں دنیا میں عدل وانصاف کے قیام کے لیے بے شمار اصولوں وضوابط بناتے ہیں لیکن وہ نام کام ہوجاتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ ان کا معاملہ انسانوں ہی کے درمیان رہتا ہے ۔ اس لیے انصاف کےتقاضے پورے نہیں ہوپاتے ہیں اور جب عدل وانصاف ، مساوات انسانوں کے درمیان باقی نہیں رہتی ہے ۔لازماً اس کے کڑوے کسیل پھل انسانیت کوکھانےلگے ۔ اسلام ہر معاملہ کوخالق سے جوڑتا ہے ایسے خالق سے جوعالم الغیوب ، حصل ما فی الصدور ، حبل من ورید ہے اوراسی کے حضور پیشگی کا یقین پیدا کرتا ہے ۔ رب کے حضور پیشگی کا تصور ہی انسان کوعدل ، انصاف ، حق گوئی ، مساوات پر قائم رکھ سکتا ہے ۔
حدیث میں آتا ہے ایک مشہور صحابی رسول حضرت مسعود انصاریؓ کا ایک بار کسی غلطی پر اپنے غلام کومارنے لگے اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزرادھر سے ہوا آپ ؐ نے اس منظر کو دیکھ کر فرمایا اے ابومسعود جان لو کہ جتنی قدرت تم کواس غلام پر ہے اس سے زیادہ اللہ کوتم پر قدرت ہے ۔یہ سنتے ہی ابومسعود ؓ کے ہاتھ سے ڈنڈا گر پڑا اورانہوں نے غلام کوآزاد کردیا ۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2016