اللہ کے رسول ﷺ بہترین مربی اور معلمِ اخلاق تھے۔ شخصیت کی تعمیر اور ذات کی تربیت کے سلسلے میں آپ کا اسلوب ہر زمانے کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اس نمونے کا ہر زاویہ اپنے اندر سیکھنے کا بہت سامان رکھتا ہے۔
آپ کی تربیت کا ایک پہلو یہ ہے جس کی طرف توجہ کم جاتی ہے کہ آپ نےجو دعائیں سکھائیں، ان میں تربیت کا بہترین سامان رکھ دیا۔ آگے کی سطور میں اسی پہلو کو تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔
مسنون دعاؤں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ یہ دعائیں اپنے اندر تربیت کا بڑا سامان رکھتی ہیں۔ وہ خودکو بنانے، سنوارنے اور خوبیوں سے آراستہ کرنے کے لیے مہمیز لگاتی اور شخصیت کے اصلاح طلب پہلوؤں کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔
ان دعاؤں کا کمال یہ ہے کہ وہ خوبیوں کو دلوں کی تمنا بنادیتی ہیں اور خرابیوں سے شدید نفرت پیدا کرتی ہیں۔
انسان کی دعائیں اس کی تمناؤں کا اظہار ہوتی ہیں۔ جب انسان تزکیہ نفس اور تربیتِ ذات کے لیے دعائیں کرتا ہے، تو خود اس کا اپنا دل اس کی طرف شوق کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی شخصیت کو جن خوبیوں سے آراستہ کرنے کی دعا کرتا ہے، وہ خوبیاں اس کے دل کے اندر بسیرا کرنے لگتی ہیں۔
ایک شخص جب شعور کے ساتھ دعا کرتا ہے کہ اللہ اسے کنجوسی کی صفت سے نجات دے دے، تو اس کے دل میں کنجوسی کے لیے جگہ تنگ ہونے لگتی ہے۔
ایک شخص جب سچے دل سےحسنِ عبادت کی دعا کرتا ہے تو اس کی طبیعت میں حسنِ عبادت کے لیے میلان بڑھنے لگتا ہے۔
جب کوئی اللہ سے گڑگڑا کردعا کرتا ہے کہ میرے خدا مجھے نیکیوں کی توفیق دے، تو وہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ مجھے نیکیوں سے عشق ہے۔ اور بار بار یہ کہنے سے نیکیوں سے اس کا عشق ترقی کرتاجاتا ہے۔
تعلق باللہ کی تجدید
مسنون اذکار کا ایک خاص تربیتی پہلو یہ ہے کہ یہ اذکار اللہ سے تعلق کو تازہ اور مضبوط کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ کے رسول ﷺ کا معمول تھا کہ آپ جب بستر پر جاتے تو کہتے: اللَّهُم بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْیا ’’تیرے نام سے میں مرتا ہوں اور زندہ ہوتا ہوں۔‘‘ اور جب اٹھتے تو فرماتے: الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی أَحْیانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیهِ النُّشُورُ ’’حمد ہے اللہ کے لیے جس نے ہمیں موت دینے کے بعد زندگی دی اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔‘‘(بخاری و مسلم)
صبح و شام کے عام اذکار اور مختلف مواقع کے خاص اذکار میں مشترک بات یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی کی قدرت کا اعتراف کرتا ہے۔ اس کا اعتراف کرتا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہورہا ہے اور اسے جتنی نعمتیں حاصل ہورہی ہیں وہ سب اللہ کی طرف سے ہیں۔
شعور کے ساتھ ورد کرنے سے اذکار کا عکس پوری زندگی پر پڑتا ہے۔ ایمان میں تازگی آتی ہے، توبہ و انابت کا جذبہ بڑھتا ہے اور اطاعت و عبادت کے لیے رغبت بڑھتی ہے۔
شخصیت کی تعمیر و حفاظت کے اہم گوشے
اللہ کے رسول ﷺ کی تربیت کا ایک انوکھا انداز یہ تھا کہ آپ اپنے ساتھیوں کی مجلس میں ذرا بلند آواز کے ساتھ ایسی دعائیں کرتے تھے، جن میں سننے والوں کے لیے یہ پیغام ہوتا کہ انھیں اپنی زندگی کےان پہلوؤں پر خاص طور سے توجہ دینی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ شاید ہی کبھی ایسا ہوتا ہو کہ اللہ کے رسولﷺ کسی مجلس میں ہوں اور اٹھنے سے پہلے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے یہ دعا نہ کرتے ہوں :
اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیتِكَ مَا یحُولُ بَینَنَا وَبَینَ مَعَاصِیكَ، وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ، وَمِنَ الیقِینِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَینَا مُصِیبَاتِ الدُّنْیا، وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْییتَنَا، وَاجْعَلْهُ الوَارِثَ مِنَّا، وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا، وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا، وَلَا تَجْعَلْ مُصِیبَتَنَا فِی دِینِنَا، وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْیا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا، وَلَا تُسَلِّطْ عَلَینَا مَنْ لَا یرْحَمُنَا۔ (سنن الترمذی)
’’اے اللہ ہمیں ایسی خشیت عطا کردے جو ہمیں تیرے نافرمانیوں سے روک دے۔ہمیں اپنی ایسی اطاعت کی توفیق دے جو ہمیں تیری جنت تک پہنچادے۔ہمیں ایسا یقین عطا کردے جس سے دنیا کی ساری مصیبتیں آسان ہوجائیں۔ہمیں جب تک زندگی دے اس وقت تک ہماری سماعتوں، بصارتوں اور قوتوں کی حفاظت فرما اورہم ہی میں سے ہمارا وارث بنا۔ جو ہم پر ظلم کریں تو ان کے خلاف ہو، اور جو ہم سے دشمنی کریں ان کے خلاف ہماری مدد فرما۔ اے اللہ ایسا نہ ہوکہ ہم اپنے دین کے معاملے میں کوئی نقصان اٹھائیں، ایسا بھی نہ ہو کہ یہ دنیا ہماری سب سے بڑی فکر بن جائے اور ہمارا علم اسی دنیا تک محدود رہے۔ ہم پر ایسے لوگوں کو مسلط نہ ہونے دے جو ہم پر رحم نہ کریں۔‘‘
اس جامع دعا کے ذریعے اللہ کے رسول ﷺ نے شخصیت کے نہایت اہم گوشوں کی طرف متوجہ کیا ہے:
زندگی کے ہر قدم پر اللہ کا خیال ہو تو زندگی ہر عیب سے محفوظ رہے گی
اللہ کی اطاعت سے بھرپور زندگی کام یابی کی ضمانت لے گی
اللہ کی قدرت پر کامل یقین سے زندگی کی ہر مشکل آسان ہوجائے گی
سمع و بصر اور تمام قوتیں اللہ کا عطیہ ہیں، ان کی حفاظت مطلوب ہے
اپنی قدروں کو اپنے بعد والوں تک منتقل کرنا ہماری ذمے داری ہے۔
ہم کسی پر ظلم کرنے والے نہ بنیں اور ظلم وعدوان کے خلاف ہمارا مضبوط اور بے لاگ موقف ہو۔
ایک مومن کی سب سے قیمتی متاع اس کا دین ہے۔ اسے ہر چیز سے زیادہ دین کی فکر ہونی چاہیے کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
دنیا سے تعلق ضرور رکھا جائے، مگر اسی حد تک جتنی کہ دنیا کی حقیقت ہے۔
جب دنیا سب کچھ نہیں ہے، تو ہمارا علم بھی دنیا پر قناعت نہ کرے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر آخرت کے بارے میں جاننے کی جستجو رہے۔
انسان کا دل آزادی اور عزت نفس کا شیدائی رہے اور کسی صورت غلامی و ذلت کو گوارا نہ کرے۔
یہ شخصیت کے وہ اہم پہلو ہیں کہ اگر ان کی طرف بار بار توجہ ہوتی رہے، تو انسان ہر طرح کے حالات کاسامنا کرتے ہوئے اور اندرونی و بیرونی خطروں سے بچتے ہوئے کام یابی کی شاہراہ پر گام زن رہ سکتا ہے۔
اور اگر ان میں سے کسی بھی پہلو کی طرف سے کوتاہی ہوئی تو انسان بڑے نقصان سے دوچار ہوسکتا ہے۔
شخصیت کو تباہ کردینے والی چیزیں
اللہ کے رسول ﷺکے خادم حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ میں آپ کو یہ دعا کرتے ہوئے بہت زیادہ سنا کرتا تھا۔
اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ وَالحَزَنِ، وَالعَجْزِ وَالكَسَلِ، وَالبُخْلِ وَالجُبْنِ، وَضَلَعِ الدَّینِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ (صحیح البخاری)
’’اے اللہ مجھے محفوظ رکھ فکروں اور غم سے، نکمّے پن اور کاہلی سے، کنجوسی اور بزدلی سے، قرض کے بوجھ اور انسانوں کے قہر سے۔‘‘
انسان کے کچھ اندرونی دشمن ہوتے ہیں، جو اسے اندر سے گھن کی طرح چاٹتے اور شخصیت کے جوہر کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کی اس دعا میں ان کی طرف سے خبردار کیا گیا ہے۔
مستقبل کے سلسلے میں اندیشے اور فکریں انسان کو جب اپنا اسیر بنالیتی ہیں، تو وہ اس مہلتِ عمل کو بھی ضائع کردیتا ہے جو اُسے مستقبل کی تعمیر کے لیے ملی ہوتی ہے۔ با عمل انسان مستقبل پر نگاہ رکھتا ہے، اندیشوں میں گرفتار نہیں ہوتا ہے۔ وہ موہوم اندیشوں کے چکّر میں حاصل مواقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہے۔
ماضی کا غم روگ بن کر انسان سے قوتِ عمل سلب کرلیتا ہے۔ ایک بار ہونے والے نقصان کو وہ بار بار محسوس کرتا اور بسترِ غم پر کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔
عجز و درماندگی وہ کیفیت ہے جب انسان میں عمل کی چنگاری بجھ جائے اور سستی و کاہلی وہ کیفیت ہے جب انسان ٹال مٹول کرکے حاصل مواقع کو ضائع کرتا رہے۔
بخیلی خیر کی دولت سے محروم کردیتی ہے۔ کنجوس انسان اس دنیا سے توشہ آخرت لیے بغیر رخصت ہوجاتا ہے حالاں کہ اس کے پاس زادِ آخرت جمع کرنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔
بزدلی انسان سے اس کا جوہر سلب کرلیتی ہے۔ حق بات کہنے اور حق کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات تو درکنار، وہ حق بات قبول کرنے تک کی ہمت نہیں کر پاتا ہے۔
قرض کا دباؤ انسان کے لیے بارِ گراں ہوتا ہے اور مسلسل ذلت کے احساس سے دوچار رکھتا ہے۔
انسانوں کا قہر حریتِ فکر و عمل چھین لیتا ہے۔
آخری دونوں چیزیں ہیں تو خارجی لیکن انسان کے اندرون پر ڈاکہ زنی کرتی ہیں۔
غرض یہ تمام چیزیں پاؤں کی زنجیریں ہیں، جب تک انسان ان سے آزاد نہیں ہوگا، کام یابی کی شاہراہ پر ایک قدم آگے نہیں بڑھے گا۔ ان زنجیروں کو توڑنے کا مطلب اپنی شخصیت میں انقلابِ عظیم برپا کردینا ہے۔
گناہ اور قرض دونوں سے بچیں
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نماز میں کثرت سے یہ دعا کرتے: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُبِكَ مِنَ المَأْثَمِ وَالمَغْرَمِ۔(صحیح البخاری) ’’اے اللہ گناہ اور قرض سے میری حفاظت فرمادے‘‘
کچھ گناہ آدمی اپنی خواہش سے کرتا ہے اور کچھ گناہ حالات سے مجبور ہوکر کرتا ہے۔ انسان اپنی خواہشات اور اپنے اخراجات پر کنٹرول کرکے دونوں سے بچ سکتا ہے۔
اس دعا میں دونوں کے سلسلے میں حساسیت پیدا کی گئی ہے۔ انسان کوشش کرے کہ اس کی زندگی قرضوں کے بوجھ سے آزاد رہے۔ اس کے لیے وہ ایک طرف حلال کمائی کے لیے جدوجہد کرے اور دوسری طرف اپنے پاؤں چادر سے زیادہ نہ پھیلائے، جہاں تک ہوسکے اپنے اخراجات کو کنٹرول میں رکھے۔
یاد رہے کہ پرہیز گاری والی زندگی گناہوں سے محفوظ رکھتی ہے اور قناعت والی زندگی قرض داری سے بچائے رکھتی ہے۔
گناہوں سے بہت دوررہیں
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ وَالهَرَمِ، وَالمَأْثَمِ وَالمَغْرَمِ، وَمِنْ فِتْنَةِ القَبْرِ، وَعَذَابِ القَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الغِنَى، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الفَقْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِیحِ الدَّجَّالِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ عَنِّی خَطَایای بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِی مِنَ الخَطَایا كَمَا نَقَّیتَ الثَّوْبَ الأَبْیضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَینِی وَبَینَ خَطَایای كَمَا بَاعَدْتَ بَینَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ۔ (صحیح البخاری)
اس دعا میں بہت سے فتنوں سے خبردار کیا گیا ہے۔ یہ تمام فتنے آدمی کی بد اعمالیوں کا شاخسانہ ہوں گے۔ انسان جس قدر برائیوں سے بچے گا، ان فتنوں اور عذابوں سے بچنے کا سامان کرے گا۔
ان فتنوں میں مال داری کا فتنہ اور غریبی کا فتنہ خاص طور سے قابل توجہ ہیں۔ بہت سی اخلاقی برائیاں مال داری سے جنم لیتی ہیں اور بہت سی تنگ حالی سے۔ انسان اگر اخلاق کی مضبوط زرہ میں ملبوس ہو تبھی ان برائیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
اس دعا میں کاہلی اور بڑھاپے سے بھی خبردار کیا گیا ہے۔ کاہلی سے ہر حال میں بچناچاہیے۔ یہ اپنا خوگر بنالیتی ہے تو کسی لایق نہیں چھوڑتی۔ لایف اسٹائل ایسا اختیار کرنا چاہیے کہ بڑھاپا جلد نہ آئے اور جب آئے توذلت ورسوائی کا سبب نہ بنے۔
اس دعا کے آخری جملوں میں تربیت کا ایک بہت اہم پہلو یہ سامنے آتاہے کہ انسان اپنی غلطیوں سے آخری حد تک پاک ہونے کی کوشش کرے۔ وہ توبہ و استغفار کے کچھ کلمات ادا کرلینے کو کافی نہ سمجھے بلکہ اپنی شخصیت کو اچھی طرح دھو ڈالنے اور ایک ایک دھبے کو صاف کردینے کی فکر کرے۔ وہ اپنی خطاؤں سے اتنی دوری اختیار کرلے کہ پھر کبھی دوبارہ سرزد ہونے کا امکان ہی نہ رہے، جس طرح مشرق و مغرب کبھی نہیں مل سکتے۔
شخصیت کی ہر جہت سے حفاظت ہو
فروہ بن نوفل نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ اللہ کے رسول ﷺکی کوئی دعا بتائیے، انھوں نے کہا آپ یہ دعا کرتے تھے:
اللهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ (صحیح مسلم)
’’اے اللہ میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے میری حفاظت فرما اور میں نے جو نہیں کیا اس کے شر سے بھی میری حفاظت فرما‘‘
کبھی انسان سے کوئی حرکت سرزد ہوتی ہے اور اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑتا ہےاور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اسے گناہِ ناکردہ کی سزا ملتی ہے۔کمال درجے کی دانائی یہ ہے کہ انسان ہر طرف سے محتاط رہے۔ خود ایسی غلطی نہ کرے جس کا نقصان اسے یا دوسروں کو اٹھانا پڑے، ساتھ ہی دوسروں کی غلطیوں سے بھی بچ کر رہے تاکہ ان کا نقصان اسے نہیں پہنچے۔
اس دعامیں انسان کو اپنی شخصیت کی ہر جہت سے حفاظت کی ترغیب ملتی ہے۔ وہ ایسا کوئی کام نہ کرے جس کا اس کی شخصیت پر خراب اثر پڑے۔ وہ اچھے کاموں کے منفی اثرات سے بھی اپنی شخصیت کو بچانے کی فکر کرے۔ دوسری طرف وہ شخصیت پر خراب اثر ڈالنے والے دوسرے عوامل پر بھی نگاہ رکھے۔ اپنے عمل کے اثرات سے خود کو بچانا آسان ہوتا ہے، لیکن دیگر عوامل کے اثرات سے خود کو بچانے کے لیے بڑی دانائی درکار ہوتی ہے۔
مثالی شخصیت کے چار ستون
نبی ﷺ کی ایک دعا یہ تھی:
اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى، وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى (صحیح مسلم)
’’اے اللہ میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، پاک دامنی اور بے نیازی مانگتا ہوں۔‘‘
یہ چار چیزیں وہ ہیں جو مثالی شخصیت کی تعمیر میں بہت اہم رول ادا کرتی ہیں۔
ہدایت مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ خوبیوں سے آراستہ کرنے کے لیے فکر مند ہے۔
پرہیز گاری مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان برائیوں سے نفرت کرتا ہے اور اپنی زندگی کو ان سے یکسر پاک رکھنا چاہتا ہے۔
پاک دامنی مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے سلسلے میں ایک اعلی اور پاکیزہ تصور رکھتا ہے اور اسے زندگی کے دامن پر کوئی داغ دھبہ گوارا نہیں ہے۔
بے نیازی مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اونچی پرواز کا طالب ہے اور وہ اپنی زندگی کو ایسی ہر زنجیر سے آزاد رکھنا چاہتا جو اس کی بلند پرواز میں رکاوٹ بنے۔
جس شخص میں یہ چاروں چیزیں جمع ہوجائیں وہ نہایت حسین، پاکیزہ، قد آور اور بلند پرواز ہوجاتا ہے۔
غموں کا مداوا قرآن مجید میں پائیں
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اگر کسی کو کوئی پریشانی یا غم لاحق ہو اور وہ یہ دعا پڑھے تو اللہ اس کی پریشانی اور غم کو دور کردے گا:
اللهُمَّ إِنِّی عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِیتِی بِیدِكَ، مَاضٍ فِی حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِی قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّیتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِی كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِی عِلْمِ الْغَیبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیعَ قَلْبِی، وَنُورَ صَدْرِی، وَجِلَاءَ حُزْنِی، وَذَهَابَ هَمِّی (مسند احمد)
’’اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تیرا حکم مجھ پر نافذ ہے، میرے بارے میں تیرا فیصلہ برحق ہے، میں تجھ سے دعا کرتا ہوں تیرے ہر نام کے حوالے سے، جس سے تو نے خودکو موسوم کیا، یا اپنی کسی مخلوق کو سکھایا، یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا، یا علم غیب میں اپنے پاس رکھا، تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور، میرے غموں کا مداوا اور میری پریشانیوں کو دور کرنے کا ذریعہ بنادے۔‘‘
غور سے دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ اس دعا میں اللہ کے رسول ﷺ نے پریشانی دور کرنے کے لیے یہ دعا نہیں سکھائی کہ یااللہ میری پریشانیوں کو دور کردے، بلکہ یہ دعا سکھائی کہ قرآن کو میری پریشانیاں دور کرنے کا ذریعہ بنادے۔ اس طرح آپ نے یہ عظیم پیغام دیا کہ انسانو! تمھاری پریشانیوں کا علاج اور تمھارے غموں کا مداوا قرآن مجید میں ہے۔ قرآن مجیدکے احکام و تعلیمات پر عمل کرکے تمھاری زندگی میں بہار آجائے گی اور غم کے سیاہ بادل چھٹ جائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں سعادت و مسرت سے بھرپور زندگی گزارنے کے انمول نسخے موجود ہیں، شرط یہ ہے کہ آدمی سچی طلب کے ساتھ قرآن مجید کی طرف رجوع کرے۔
اعلی اوصاف پیدا کریں، اللہ کی مدد آئے گی
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا کرتے تھے:
رَبِّ أَعِنِّی وَلَا تُعِنْ عَلَی، وَانْصُرْنِی وَلَا تَنْصُرْ عَلَی، وَامْكُرْ لِی وَلَا تَمْكُرْ عَلَی، وَاهْدِنِی وَیسِّرِ الهُدَى لِی، وَانْصُرْنِی عَلَى مَنْ بَغَى عَلَی، رَبِّ اجْعَلْنِی لَكَ شَكَّارًا، لَكَ ذَكَّارًا، لَكَ رَهَّابًا، لَكَ مِطْوَاعًا، لَكَ مُخْبِتًا، إِلَیكَ أَوَّاهًا مُنِیبًا، رَبِّ تَقَبَّلْ تَوْبَتِی، وَاغْسِلْ حَوْبَتِی، وَأَجِبْ دَعْوَتِی، وَثَبِّتْ حُجَّتِی، وَسَدِّدْ لِسَانِی، وَاهْدِ قَلْبِی، وَاسْلُلْ سَخِیمَةَ صَدْرِی (سنن الترمذی)
’’میرے رب میری مدد کر، میرے خلاف مدد نہ کر، میری نصرت فرما، میرے خلاف نصرت نہ فرما، میرے حق میں تدبیر کر، میرے خلاف تدبیر نہ کر، مجھے سیدھا راستہ دکھا اور ہدایت کو میرے لیے آسان کردے، جو میرے ساتھ زیادتی کرے اس کے خلاف میری نصرت فرما۔ میرے رب مجھے بار بار شکر کرنے والا بنا دے، بار بار ذکر کرنے والا بنادے، ہر وقت ڈرنے والا بنا دے، سراپا اطاعت گزار بنادے، تیرے حضور جھک جانے والا بنادے، تجھ سے آہ و زاری کرنے والا اور تجھ سے لو لگانے والا بنادے۔ میرے رب میری توبہ قبول کرلے، میرے گناہ دھودے، میری دعا سن لے، میری دلیل مضبوط کردے، میری زبان دلنشین کردے، میرے دل کو راہ یاب کردے اور میرے سینے کا روگ جڑ سے نکال دے۔‘‘
اس دعا کے ایک حصے میں اللہ سے مدد ونصرت مانگی گئی ہے، تو دوسرے حصے میں اللہ کو پسند آنے والے اوصاف مانگے گئے ہیں۔ یہ اوصاف انسان کو غیر معمولی عظمت عطا کرنے والے ہیں۔ ان کا ذکر مبالغے کے صیغے کے ساتھ کیا گیا ہے۔ گویا انسان کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ان اوصاف میں اونچے سے اونچا درجہ حاصل کرلے۔ کم پر اکتفا نہ کرے۔ وہ کبھی کبھی ذکر وشکر کرنے کے بجائے ذاکر اور شاکر بلکہ اور آگے بڑھ کر ذکّار اور شکّار بنے۔
اس دعا کا پیغام واضح ہے کہ اگراللہ کی مدد مطلوب ہو تو اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرو جو تمھیں اللہ کا محبوب بنادیں۔
انسان کی شخصیت کی چار اہم جہتیں
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ یہ دعا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ قَلْبٍ لَا یخْشَعُ، وَمِنْ عِلْمٍ لَا ینْفَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ دُعَاءٍ لَا یسْمَعُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَؤُلَاءِ الأَرْبَعِ۔ (سنن الترمذی)
’’اے اللہ مجھے بچائے رکھ ایسے دل سے جس میں نرمی نہ ہو، ایسے علم سے جو مفید نہ ہو، ایسے نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو، اور ایسی دعا سے جسے تیری بارگاہ میں قبولیت نہ ملے، مجھے ان چاروں چیزوں سے محفوظ رکھ۔‘‘
آدمی کی شخصیت کی یہ چار اہم جہتیں ہیں۔
اس کا دل، جو نرم ہو تو اللہ کے نور کا مسکن بنے اور سخت ہوجائے تو اس کی کوئی قیمت نہ رہے۔
اس کی عقل، جو مفید علم فراہم کرے تو سب کے لیے رحمت کا سامان ہو اور نقصان دہ علم جنم دے تو بہت بڑی زحمت بن جائے۔
اس کی خواہشات، جو اسے تمام جانداروں میں ممتاز کرتی ہیں اگر حد اعتدال سے تجاوز اور راہ راست سے انحراف نہ کریں۔ اور اگر وہ حد سے بڑھ جائیں تو انسان کو پستی میں ڈھکیل دیتی ہیں۔
اس کی دعا، جو سن لی جائے تو اس کی خوش نصیبی کا ٹھکانا نہیں رہتا ہے اور رد کردی جائے تو اس سے بڑی بدنصیبی کوئی اور نہیں۔
شخصیت کی ان چاروں جہتوں کی حفاظت انسان کو خود کرنی ہے اور اس کے لیے اللہ سے مدد مانگتے رہنا ہے۔
اچھائیوں کی طلب کام یابی کی شاہ کلید
شخصیت کے ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ انسان اچھی سے اچھی چیزوں سے محبت کرے اور کسی برائی کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دے، خواہ وہ کتنی چھوٹی ہو۔
اللہ کے رسول ﷺ کی اس دعا کے لفظ لفظ پر غور کیجیے:
اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَیرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ مِنْ خَیرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِیكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِهِ عَبْدُكَ وَنَبِیكَ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَیهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَیهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ قَضَیتَهُ لِی خَیرًا (سنن ابن ماجه)
’’اے اللہ میں تجھ سے سارے کا سارا خیر مانگتا ہوں، جو ابھی مل جائے وہ بھی اورجو بعد میں ملے وہ بھی، جو میں جانتا ہوں وہ بھی اور جو نہیں جانتا ہوں وہ بھی۔ اور میں سارے کے سارے شر سے پناہ مانگتا ہوں، حال کے شر سے بھی اور مستقبل کے شر سے بھی، جو مجھے معلوم ہے اس سے بھی اور جو معلوم نہ ہو اس سے بھی۔ اے اللہ میں تجھ سے وہ خیر مانگتا ہوں جو تیرے بندے اور نبی (ﷺ) نے تجھ سے مانگا، اور اس شر سے پناہ چاہتا ہوں جس سے تیرے بندے اور نبی نے پناہ چاہی۔ اے اللہ میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں اور ہر وہ قول اور عمل مانگتا ہوں جو جنت سے قریب کردے، اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں اور ہر اس قول یا عمل سے جو دوزخ سے قریب کردے۔ میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ میرے سلسلے میں جو بھی فیصلہ فرما اسے خیر بنادے۔‘‘
یہ دعا کیا ہے، خیر کے سارے خزانوں کی طلب ہے۔ اگر ایک انسان اپنی زندگی میں ہر طرح کے خیر کو تلاش کرنے لگےاور کسی طرح کے شر کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دے تو اس کی زندگی ستاروں بھرے آسمان سے زیادہ دل کش ہوجائے۔
غور کریں کہ اس دعا میں خیر کی طلب کتنے طریقوں سے کی گئی ہے۔ ویسے تو یہ کہنا کافی تھا کہ یا اللہ میں تجھ سے سارا خیر مانگتا ہوں، لیکن حال کا بھی اور مستقبل کا بھی، معلوم بھی اور نامعلوم بھی، وہ سارا خیر جو اللہ کے رسول نے مانگا، پھر جنت اور جنت سے قریب کرنے والا ہر قول اور ہر عمل۔ اس سب پر مزید یہ کہ تقدیر کے ہر فیصلے میں خیر ہو۔
اس دعا میں یہ تعلیم بھی بہت اہم ہے کہ آدمی کو اگر جنت کی طلب ہو تو اسے ہر اس عمل اور ہر اس قول کی جستجوکرنی چاہیے جو جنت سے قریب کرےاور اگر وہ دوزخ سے نجات چاہتا ہو تو اسے ہر اس عمل اور ہر اس قول سے دور رہنا چاہیے جو دوزخ سے قریب کرنے والا ہو۔ یہ دعا بتاتی ہے کہ زندگی گزارتے ہوئے آدمی اپنے قول و عمل کی بنا پر جنت یا دوزخ سے قریب ہوتا ہے۔اس لیے جھوٹی امیدوں کے سہارے جینے کے بجائے اپنی ساری توجہ اپنے قول وعمل پر رکھنی چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر اس دعا سے سچی تمنائیں اور سنجیدہ کوششیں جنم لیتی رہیں، تو انسان بہترین شخصیت کا مالک ہوجائے اور اس کو اس دنیا ہی میں آخرت کی کام یابی کی بشارتیں ملنے لگیں۔
ہر برائی سے نفرت کا سبق
نبی ﷺ یہ دعا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الأَخْلَاقِ، وَالأَعْمَالِ وَالأَهْوَاءِ۔ (سنن الترمذی)
’’اے اللہ! میری حفاظت فرما، برے اخلاق سے، برے کاموں سے اور بری خواہشات سے۔‘‘
خواہش، عمل اور اخلاق یہ انسانی شخصیت کے تین پہلو ہیں۔ خواہش دل میں رہتی ہے، اعمال کا تعلق اعضاء و جوارح سے ہےجب کہ اخلاق دوسروں کے ساتھ رویے کا نام ہے۔
اس چھوٹی سی دعا میں اخلاق کے تین ابواب کو سمیٹ دیا گیا۔ برائی کا ایک درجہ یہ ہے کہ وہ انسان کی خواہش بن کر اس کے دل میں پلتی رہے، ایک یہ ہے کہ وہ گاہے گاہے اس کے کاموں میں ظاہر ہوتی رہے اور برائی کا ایک درجہ یہ ہے کہ وہ آدمی کے اندر اس طرح سرایت کرجائے کہ اس کی عادت اور مستقل رویہ بن کر دوسروں کو تکلیف دے۔
برائیوں سے نفرت کرنے والا انسان اپنی خواہشات، اعمال اور دوسروں کے ساتھ اپنے رویے پر کڑی نگاہ رکھتا ہے۔
صورت بھی سنواریں اور سیرت بھی نکھاریں
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ یہ دعا فرماتے تھے:
اللهُمَّ أَحْسَنْتَ خَلْقِی، فَأَحْسِنْ خُلُقِی (مسند أحمد)
’’اے اللہ تو نے میری عمدہ تخلیق کی ہے، میرے اخلاق بھی عمدہ کردے۔‘‘
اس مختصر مگر بہت جامع دعا کا تعلق صرف آئینہ دیکھنے سے نہیں ہے، بلکہ یہ بار بار کی جانے والی دعا ہے۔ اس دعا میں شخصیت کے ظاہری حسن اور باطنی حسن دونوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو عمدہ جسم اور اچھی شکل و صورت سے نوازا ہے۔ یہ اللہ کی نعمت ہے، اس کی حفاظت ہونی چاہیے۔وہ اپنے جسم کو خراب ہونے دے نہ اپنی صورت کو بگڑنے دے۔ بلکہ اسے بنانے سنوارنے پر توجہ دے۔
دوسرا کام جس پر انسان کی توجہ زیادہ ہونی چاہیے وہ سیرت و کردار کو سنوارنے کا کام ہے۔ اللہ نے جسم کی نوک پلک کو تو درست کرکے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ لیکن سیرت و کردار کو سنوارنے کا کام انسان کو خود کرنا ہے۔ یہ کام فطرت میں ودیعت کی ہوئی تعلیم اور وحی کے ذریعے بھیجی ہوئی رہ نمائی کی روشنی میں کرنا ہےاور اس کے لیے اللہ سے بار بار مدد بھی طلب کرنی ہے۔
ثابت قدمی کے لیے ثابت قلبی ضروری ہے
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺکثرت سے یہ دعا کرتے تھے:
یا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَى دِینِكَ (سنن الترمذی)
’’اے دلوں کو الٹنے پلٹنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔‘‘
آخرت کی کام یابی کا راز یہ بتایا گیا ہے کہ آدمی اس دنیا میں ایمان اور استقامت کی زندگی گزارے۔ یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ نفس کی خواہشات اور شیطان کے وسوسے راستے سے بھٹکانے کے درپے رہتے ہیں۔ قدموں کے جمے رہنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے کہ انسان کا دل جما رہے۔ لیکن انسان کے دل کو اللہ نے ایسا بنایا ہے کہ وہ ہر وقت اپنا پہلو بدلتا رہتا ہے۔ کبھی کسی چیز کی خواہش کرتا ہے تو کبھی اسی سے بے زار ہوجاتا ہے، کبھی بیدار رہتا ہے تو کبھی غافل ہوجاتا ہے، کبھی محبت کرتا ہے تو کبھی نفرت، کبھی کسی کے خیال میں کھوجاتا ہے تو کبھی کسی اورکے۔
ایسے دل کو اللہ کے دین پر جمائے رکھنا بڑی ریاضت چاہتا ہے۔ انسان ہر وقت اس کی تدبیر اور سامان کرے تبھی یہ ممکن ہوپاتا ہے۔ اس کے لیے قرآن کی آیتوں پر تدبر اور کائنات کی نشانیوں پر غور و فکر بہت مفید ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ آدمی اپنے دل کی فکر کرتا رہے۔ یہ دعا انسان کو اپنے دل کی طرف متوجہ کرنے والی ہے اس لیے اس کا کثرت سے ورد ہونا چاہیے۔
ہوتا یہ ہے کہ آدمی دنیا کی بہت سی چیزوں کی طرف متوجہ رہتا ہے اور اگر دھیان نہیں دیتا تو اپنے دل کی طرف دھیان نہیں دیتا ہے۔
گھر کو بہترین ٹھکانا بنائیں
اللہ کے رسولﷺ نے تعلیم دی کہ آدمی گھر میں داخل ہوتے ہوئے یہ دعا پڑھے اور اپنے گھر والوں کو سلام کرے:
اللهُمَّ إنی أسألك خیرَ المَوْلَجِ وخیرَ المَخْرَج، بِاسْمِ الله ولجْنَا، وباسمِ الله خرجنا، وعلى الله ربنا توكلنا (سنن أبی داود)
’’اے اللہ میں تجھ سے بہتر سے بہتر اندر جانااور بہتر سے بہتر باہرنکلنا مانگتا ہوں۔ اللہ کے نام سے داخل ہوئے اور اللہ کے نام سے ہمارا نکلنا ہے، اور اپنے رب اللہ پر ہمارا بھروسا ہے۔‘‘
یہ دعا انسان کو یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ گھر میں جاتے ہوئے یہ نیت کرے کہ وہ گھر کی فضا کو بہترین بنانے کی کوشش کرے گا، اور جب تک رہے گا گھر کے ماحول کو خوش گوار بنائے رہے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ گھر سے باہر نکلے گا تو عمدہ کیفیت کے ساتھ نکلے گا۔
اگر گھر میں داخل ہونے والا انسان اس تمنا کے ساتھ داخل ہو کہ اسے گھر میں بہترین ماحول درکار ہے، تو اس کا رویہ بھی اسی طرح کا ہوگا۔ وہ ہر چیز پر مثبت ردّعمل ظاہر کرے گا اور ہر مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرے گا۔ اس دعا کے ساتھ گھر میں داخل ہونے والا اپنی انا کی خاطر گھر کا ماحول خراب ہونا گوارا نہیں کرے گا۔
گھر سے نکلیں تو اپنا خیال رکھیں
گھر سے نکلتے وقت یہ دعا سکھائی گئی:
بِسْمِ اللَّهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ. اللَّهُمَّ أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَضِلَّ، أَوْ أُضَلَّ، أَوْ أَزِلَّ، أَوْ أُزَلَّ، أَوْ أَظْلِمَ، أَوْ أُظْلَمَ، أَوْ أَجْهَلَ، أَوْ یجْهَلَ عَلَی (ترمذی، أبو داود، ابن ماجه)
’’اللہ کے نام سے، میں نے اللہ پر بھروسا کیا، کچھ کرنے کی طاقت اور کسی حرکت کی تاب نہیں ہے مگر اللہ کے اذن سے۔ اے اللہ مجھے اس سے محفوظ رکھ کہ میں بھٹک جاؤں یا بھٹکا دیا جاؤں، پھسل جاؤں یا پھسلا دیا جاؤں، ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے، نادانی کروں یا کسی کی نادانی کا نشانہ بن جاؤں۔‘‘
گھر کے اندر انسان قدرے عافیت میں رہتا ہے، لیکن جب وہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو وہاں طرح طرح کے انسانوں سے سابقہ پڑتا ہے، غلطیوں کے امکانات اور مواقع بڑھ جاتے ہیں، اس کا بھی اندیشہ رہتا ہے کہ اس کی غلطی کا کسی دوسرے کو نقصان پہنچے اور اس کا بھی ڈرہوتا ہے کہ کسی دوسرے کی غلطی کا ضرر اسے لاحق ہو۔ راہ گیر اپنا راستہ یا راہِ راست اپنی غفلت سے گم کربیٹھے یا کوئی اور اس کے بھٹکنے کی وجہ بن جائے۔وہ خود لغزش کھا جائے یا کسی شیطان کی شہ پر اس کے قدم پھسل جائیں۔
غرض گھر سے باہر کی دنیا میں قدم قدم پر احتیاط ضروری ہوتی ہے، سمجھ دار انسان دوسروں کے ساتھ اپنے رویے پر بھی کڑی نگاہ رکھتا ہے اور دوسروں کی طرف سے بھی محتاط رہتا ہے۔
یہ اسلام کی اعلی تعلیم ہے کہ وہ نہ ظالم بننے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی مظلوم بننے کو درست سمجھتا ہے۔وہ ہر شخص کو اس سے بھی خبردار کرتا ہے کہ کسی کے ساتھ نادانی سے پیش آئے اور اس سے بھی کہ کسی کی نادانی کا نشانہ بن جائے۔ غرض انسان اخلاق اور دانائی دونوں ہی سے آراستہ رہے۔کردار کی پستی اور عقل کا ضعف دونوں ہی ناقابلِ قبول ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ گھر سے نکلتے ہوئے اگر آدمی اخلاق و دانائی کا یہ سبق شعور کے ساتھ تازہ کرلے اور پھر اللہ کے نام سے اور اس پر بھروسا کرتے ہوئے کار زارِ زندگی میں قد م رکھے تو زندگی کی دوڑ دھوپ اس کے لیے خیر و بھلائی کا باعث ہوگی اور فتنوں کی آماج گاہ سے گزرتے ہوئے بھی اس کی شخصیت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔
حلال اور عزت کی کمائی
اللَّهُمَّ اكْفِنِی بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِی بِفَضْلِكِ عَمَّنْ سِوَاكَ (الترمذی)
’’اے اللہ ! مجھے حرام سے بے نیاز کردے اور حلال کو میرے لیے کافی کردے، اور مجھے دوسروں کا محتاج نہ بناکر اپنے فضل سے مالا مال کردے۔‘‘
اس دعا میں اللہ کے رسول ﷺ نے دو اہم باتوں کی تعلیم دی ہے، ایک تو یہ کہ حلال کے راستے بہت ہیں، اس لیے حرام کے راستے چھوڑ کر حلال کے راستے اختیار کرو۔
دوسری بات یہ کہ اللہ نے اس دنیا میں انسانوں کے لیے اتنا زیادہ سامان رکھا ہے کہ انسان کسی کا محتاج نہ بنے۔اس لیے اپنی خودی کا سودا کرکے اور دوسروں کے دست نگر ہوکر جینے کے بجائے ہر انسان روزی کے وہ راستے تلاش کرے جہاں اس کی خود داری اور عزت نفس محفوظ رہے۔
یہاں جینا ہے اور وہاں جانا ہے
اس دنیا میں رہتے ہوئے شخصیت کا سب سے بڑا توازن یہ ہے کہ انسان نہ تو دنیا کو ترک کرے اور نہ آخرت سے غفلت برتے، بلکہ آخرت کی تیاری کے لیے دنیا کو خوب خوب کام میں لائے۔ کیوں کہ اللہ کا فیصلہ یہی ہے کہ دنیا میں جینا ہے اور آخرت کی طرف جانا ہے۔ آخرت میں بہترین ٹھکانا بنانے کے لیے دنیا میں موجود سامان کو استعمال میں لانا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ یہ دعا کرتے تھے:
اللهُمَّ أَصْلِحْ لِی دِینِی الَّذِی هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِی، وَأَصْلِحْ لِی دُنْیای الَّتِی فِیهَا مَعَاشِی، وَأَصْلِحْ لِی آخِرَتِی الَّتِی فِیهَا مَعَادِی، وَاجْعَلِ الْحَیاةَ زِیادَةً لِی فِی كُلِّ خَیرٍ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِی مِنْ كُلِّ شَرٍّ۔ (صحیح مسلم)
’’اے اللہ میرے دین کو درست کردےجس پر میری کام یابی کا دارومدار ہے، میری دنیا اچھی کردے جس میں مجھے جینا ہے، اور میر ی آخرت کو سنوار دے جہاں مجھے جانا ہے۔ زندگی کو میرے لیے ہر خیر میں اضافے کا ذریعہ بنادے اور موت کو ہر شر سے چھٹکارے کا سبب بنادے۔‘‘
اس دعا میں تربیت کے نہایت قیمتی نسخے رکھ دیے گئے ہیں۔ آدمی اپنے دین کو سب سے زیادہ اہمیت دے، دنیا کو بہتر سے بہتر بنانے کی تدبیر کرے اور آخرت کی کام یابی کے لیے کوشاں رہے۔ دین، دنیا اور آخرت پر توجہ دینے کے نتیجے میں انسان کی شخصیت میں کمال درجے کا توازن پیدا ہوگا اور شخصیت ہر پہلو سے مکمل اور حسین نظر آئے گی۔
زندگی کے سلسلے میں اس سے بہتر کوئی اور تصور نہیں ہوسکتا کہ وہ خیر میں اضافے کا ایک ذریعہ ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ خیر میں اضافے کا ذریعہ بن جائے، یہ فکر پوری زندگی کو خیر سے معمور کردے گی۔ آدمی نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے گا۔
مرنے کے بعد ہر طرح کے شر سے راحت مل جائے، یہ فکر ہمیشہ خبر دار رکھے گی کہ نامہ اعمال میں برائیوں کا اندراج نہ ہونے پائے۔کیوں کہ مرنے کے بعد وہی برائیاں سانپ اور بچھو بن کر ڈسیں گی اور آگ کے شعلے بن کر جلائیں گی جو دنیا میں کی ہوں گی۔ جسے مرنے کے بعد شر سے راحت مطلوب ہو اسے مرنے سے پہلے کی زندگی کو شر سے پاک اور خیر سے مالا مال کرنا ہوگا۔
زندگی کی ترجیحات کیا ہوں ؟
حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب لوگوں کو دیکھنا کہ وہ سونے چاندی جمع کرنے میں مقابلہ کررہے ہیں تو یہ دعاکرنا:
اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِی الْأَمْرِ، وَأَسْأَلُكَ عَزِیمَةَ الرُّشْدِ، وَأَسْأَلُكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ وَالصَّبْرَ عَلَى بَلَائِكَ، وَحُسْنَ عِبَادَتِكَ، وَالرِّضَا بِقَضَائِكَ، وَأَسْأَلُكَ قَلْبًا سَلِیمًا، وَلِسَانًا صَادِقًا، وَأَسْأَلُكَ مِنْ خَیرِ مَا تَعْلَمُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا تَعْلَمُ (طبرانی)
’’ اے اللہ میں تجھ سے ہر موقع پر ثابت قدمی مانگتا ہوں، سیدھے راستے پر چلنے کاحوصلہ مانگتا ہوں، تیری نعمتوں پر شکر اور تیری آزمائشوں پر صبر کی توفیق مانگتا ہوں، تیری حسین واعلی عبادت اور تیرے فیصلے پر کامل رضامندی مانگتا ہوں، میں تجھ سے صحت مند دل اور راست گو زبان مانگتا ہوں، میں تجھ سے وہ خیر مانگتا ہوں جو تو جانتا ہے، میں تجھ سے اس شر سے حفاظت مانگتا ہوں جو تیرے علم میں ہے اور میں تجھ سے ان گناہوں کی معافی مانگتا ہوں جو تجھ سے پوشیدہ نہیں ہیں۔‘‘
یہ دعا ایک پاکیزہ انسان کی تصویر پیش کرتی ہے، جس کی ترجیحات بہت اعلی ہیں۔ وہ اس مادّی دنیا میں عزیمت و استقامت کی زندگی جینا چاہتا ہے۔اس کے نزدیک روگ سے پاک دل اور دروغ سے پاک زبان سب سے قیمتی متاع ہے۔وہ صابر و شاکر اور عابد وراضی رہنا چاہتا ہے۔
شخصیت کا حسن عبادت کے حسن میں ہے
حضرت معاذ بن جبلؓ بیان کرتے ہیں : اللہ کے رسولﷺ نے میرا ہاتھ تھاما اور کہا: اے معاذ میں تم سے محبت کرتا ہوں، میں نے کہا: اللہ کے رسول میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ہر نماز میں یہ کہنا نہ چھوڑنا:
رَبِّ أَعِنِّی عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ۔ (سنن النسائی)
’’میرے رب میری مدد کر کہ میں تیرا ذکر کروں، تیرا شکر کروں اور تیری عمدہ عبادت کروں۔‘‘
ذکر، شکر اور عبادت یہ تینوں ہی انسانی شخصیت کی معراج ہیں۔ جو شخص انھیں اپنا شیوہ بنالیتا ہے وہ اللہ سے قریب ہوجاتا ہے۔ اس دعا میں حسنِ عبادت کے الفاظ بہت اہم ہیں۔ جیسے تیسے عبادت کا فرض اتارنے والے اور پابندی و بے رغبتی سے بندگی کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں، لیکن جس کے اندر اعلی درجے کا ذوقِ عبادت ہوتا ہے، وہ اپنی عبادت کے اندر حسن پیدا کرنے کی فکر کرتا ہے اور بڑے اہتمام، سلیقے اور چاؤ سے ہر عبادت کو انجام دیتا ہے۔ عبادت تو زندگی کا سب سے حسین نغمہ ہے، اگر اسے گاتے ہوئے اس کے حسن کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو یہ اس حسین ترین نغمے کی توہین ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص سے کہا تھا کہ جاؤ پھر سے نماز ادا کرو، تم نے نماز ادا کرکے بھی ادا نہیں کی۔
توبہ واستغفار سے زندگی پاک وصاف ہوتی ہے
زندگی کو پاکیزہ بنانے کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ انسان کو اپنے گنہ گار ہونے کا شدید احساس ہو۔ اسے یہ بھی احساس ہو کہ گنہ گار بن کر اس نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے یہ بھی یقین ہو کہ اسے اپنے گناہوں کے وبال سے نجات مل سکتی ہے۔ مایوس ہونے کا موقع نہیں ہے، امید کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ اسے یہ بھی یقین ہو کہ گناہوں سے پاک ہونے کے لیے اللہ کی طرف سچے دل سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ اسے پورا یقین ہو کہ اس نے اللہ کی نافرمانی کی ہے تو اللہ کے سوا کہیں اور اسے معافی نہیں مل سکتی ہے، صرف اور صرف اللہ کے یہاں معافی مل سکتی ہے۔ اس احساس اور یقین کے ساتھ جب وہ اللہ کی ناراضی سے بھاگ کر اللہ کی رحمت میں پناہ تلاش کرے گا تو اس کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔
دراصل گناہوں سے توبہ واستغفار ایسا ہونا چاہیے جو دل میں گناہوں سے شدید کراہیت پیدا کردے، اور اللہ کی طرف پورے طور پر متوجہ کردے۔
یہاں ہم استغفار کی دو دعاؤں کا حوالہ دیں گے ، ایک وہ جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں اور دوسری وہ جسے اللہ کے رسول ﷺ نے سید الاستغفار قرار دیا اور صبح و شام پڑھنے کی ترغیب دی۔
نماز میں پڑھنے والی دعا کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے درخواست کی مجھے نماز میں کرنے کے لیے ایک دعا سکھادیجیے، آپ نے یہ دعا سکھائی:
اللَّهُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا كَثِیرًا، وَلاَ یغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِی إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِیمُ (صحیح البخاری)
’’اے اللہ میں نے اپنے اوپر بہت زیادہ ظلم کیا، اور گناہوں کو معاف کرنے والی بس تیری ذات ہے، تو اپنی طرف سے میری بخشش فرمادے اور مجھ پر رحم فرمادے۔ بلاشبہ تو بہت معاف کرنے والا اور سدا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
یہ مسنون دعاؤں کے کچھ نمونے ہیں، ایسی اور بہت سی دعائیں ہیں۔ بعض دعائیں ایمان کو تازہ کرتی ہیں اور بعض دعائیں عمل پر ابھارتی ہیں۔ بعض دعائیں خوبیوں کی ترغیب دیتی ہیں اور بعض دعائیں برائیوں سے نفرت پیدا کرتی ہیں۔
اگر شعور کے ساتھ ان دعاؤں کا ورد کیا جائے، تو ایک طرف یہ اللہ سے رشتہ مضبوط کرتی ہیں دوسری طرف خود اپنی ذات کو دیکھنے کا موقع دیتی ہیں۔ یہ شخصیت کو بنانے اور سنوارنے والی دعائیں ہیں۔تربیت کی فکر رکھنے والےان دعاؤں سے بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ان دعاؤں کو یکجا کرکے دیکھیں تو نہایت بلند، پاکیزہ اور دل نواز پیکر سامنے آتا ہے۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے، قارئین خود غور کرسکتے ہیں کہ ان دعاؤں میں جن چیزوں کو پانے کی طلب ہے وہ شخصیت کو کس قدر حسین و جمیل بنانے والی ہیں اور جن چیزوں سے دور رہنے کی طلب ہے وہ شخصیت کے لیے کس قدر تباہ کن اور قباحت خیز ہیں۔ قارئین اس پر بھی غور کرسکتے ہیں کہ یہ دعائیں ایک بندے کی پسند و ناپسند کے معیار کو کتنا بلند کردیتی ہیں، اسے کتنی اونچی تمنائیں دیتی ہیں اور کتنا اعلی خواب اور وژن عطا کرتی ہیں۔
اہلِ علم نے دعا کے آداب اور قبولیتِ دعا کی شرطیں ذکر کی ہیں۔ ان دعاؤں پر غور کریں تو دعا قبول ہونے کی ایک شرط یہ بھی سامنے آتی ہے کہ آدمی جس چیز کی دعا کررہا ہے، اس کے حصول کے لیے سنجیدہ کوششیں بھی کرے۔ وہ اپنی دعا کو اپنے دل کی سچی تمنا بنالےاور اس تمنا کی تکمیل کے لیے جتنے ممکنہ طریقے ہوں سب اختیار کرے۔ ایسا ہوگا تبھی ان دعاؤں کے ثمرات ظاہر ہوں گے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2022