موضوع کا احاطہ کرنے والی یہ کوئی جامع تحریر نہیں ہے بلکہ مثالی رکن جماعت کے خدو خال واضح کرنے کے لئے چند پہلو پیش کیے گئے ہیں۔مثالی کسے کہتے ہیں- مثالی اسے کہتے ہیں جسے بطور مثال پیش کیا جاسکے۔ جہاں تک عام ارکان جماعت کا معاملہ ہے جنہوں نے دستور جماعت کو پڑھ کر ، نصب العین کو سمجھ کر ، طریقۂ کار سے واقف ہوکررکنیت اختیار کی ہے اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو بھی ادا کر رہے ہیں اور معمول کی دعوتی ، تحریکی اور تنظیمی سر گرمیاں بھی انجام دے رہے ہیں وہ تو عام ارکان جماعت ہیں، ایسے سب ارکان جماعت کو مثالی کہنا مثالی کے مفہوم کو کا لعدم کر دینے کے ہم معنی ہے۔ اس کے برعکس خدا نہ خواستہ ایسے ارکان جماعت بھی اگر جماعت میں موجود ہوں جو دستور جماعت کی بیان کردہ شرائط رکنیت کو بھی پورا کرنے میں کو تا ہی کر رہے ہیں تو ایسے ارکان جماعت قابل گرفت اور قابل اصلاح ہیںاور فوری طور سے ان کی کمی اور کوتاہی دو ر کرنے کے لئے ذمہ داروں کو توجہ دینی چاہئے اور اصلاح کی مطلوب و ممکن کوششوں کے باوجود اگر اصلاح پزیری کی صورت نہ پیدا ہو تو معطلی اور اخراج کی کارروائی کی طرف پیش قدمی کرنی چاہئے کہ جماعت کو اس کے دستوری معیار پر برقرار رکھنے کے لئے یہ عمل نا گزیر ہے۔
مثالی رکن جماعت تو اسی کو کہا جا سکتا ہے جو دستور جماعت میں بیان کردہ عقیدہ، نصب العین، طریقہ کار ،شرائط رکنیت اور ذمے داریاں -ان سب کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ ساتھ معیار مطلوب کی طرف قدم بڑھا رہا ہو اور اس بلندی کو چھو لینا چاہتا ہو جس بلندی پر پہنچنے کے بعد رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کا حصول آسان ہو جا تا ہے۔ بقول علامہ اقبال ؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پو چھے بتا تیری رضا کیا ہے
ایک رکن جماعت کا نصب العین اقامت دین ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی زندگی کا عزیز ترین اور عظیم ترین مقصد دین کی اقامت ہے جو ہر وقت اور ہر حال میں اس کے پیش نظر رہنا چاہئے۔ یہ چیزحنیفیت اور یکسوئی کے بغیر ممکن نہیں ۔اب دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ اس نصب العین کی محبت اس کے دل ودماغ میں کتنی جا گزیں اور کتنی زندہ و توانا ہے اور نصب العین سے محبت کی یہ روح اس کے خون میں کس تیزی سے گردش کرکے اسے اقامت دین کے لئے بے چین اور متحرک رکھتی ہے، یہی چیز اور یہی کیفیت اس کے مثالی یا غیر مثالی ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ اگر اللہ و رسولﷺ کی محبت اور دین کی اقامت کا جذبہ اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہوگا توا س کا مظاہرہ اس کے اعمال ،اس کی سرگرمیوں سے لازماً ہوگا اور وہ کبھی چین سے بیٹھنے پر راضی نہ ہوگا۔ بقول حضرت غالب ؎
رگوں میں دوڑنے پھر نے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
جہاں تک عقائد سے واقفیت اور اس پر ایمان لانے کا معاملہ ہے، مطالعہ و واقفیت کے ذریعہ ذہن و دماغ کے اطمینان اور دل کی قبولیت کے بعد یہ معاملہ حل ہو جاتا ہے، اور بلا شبہ ایک مثالی رکن جماعت کا یہ بھی ایک نمایا ں وصف ہے کہ اسے دین کی صحیح سمجھ حاصل ہو، لیکن ایک شخص صحیح تفقہ فی الدین اور اعلیٰ علمی صلاحیت کے باوجود اگر نصب العین کی محبت اور ایمان کی گرمی سے اپنے دل کو معمور نہیں رکھتا تو ایسا شخص مثالی رکن تو کجا ایک اچھا کارکن بھی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے صحیح عقیدہ و نصب العین سے مطمئن ہونے اور ایمان لانے کے بعد ایمان کی حفاظت کرنا اور اسے ترقی دینے کے لئے برابر فکر مند اور کوشاں رہنا وہ ضروری قدم ہے جس کے بغیر ایمان اپنی سابقہ حالت میں بھی بر قرار نہیں رہ سکتا بلکہ زوال پزیر ہو سکتا ہے۔ ایمان پارے کی مانند ہے جو ہمیشہ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ اگر ایمان کی ترقی کی فکر نہ کی جائے تو پھر اس کی تنزلی شروع ہو جاتی ہے۔آج دنیا میں کروڑوں مسلمان ہیں مگر ایمان کی گرمی اور تپش اندوزی کے لحاظ سے وہ زندہ لاش کی طرح ہیں ۔ بقول علامہ اقبال ؎
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
ایسے مسلمانوں سے انقلاب کی توقع رکھنا فضول ہے۔ ایسے لوگ تحریک اقامت دین کے کارکن اور سپاہی نہیں بن سکتے ، بلکہ اس تحریک کو ایسے لوگ درکار ہیں جن کا سینہ آرزوئوں اور امنگوں سے آباد اور جن کا دل خدا و رسول ﷺ کی محبت میں سرشار ہوا ور جو خدا کی رضا اور اللہ کی عظمت و کبریائی کا پرچم بلند کرنے کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوں ، جو مایوس کن حالات میں بھی دل شکستہ نہ ہوں بلکہ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ اللہ اپنے نیک بندوں کے اعمال کو ضائع نہیں کرتا بلکہ خدا کی خوشنودی کے لیے کیے گئے ہر عمل کا بہتر ین بدلہ عطا کرتا ہے ؎
مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار
ہر زماں پیش نظر لاتخلف المعیاد دار
ایک مثالی مومن اور مثالی رکن جماعت کی زندگی اس شعر کے مصداق ہونی چاہئے ؎
ٓٓٓآگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی ؓرکھتے ہیں
اعتدال و توازن اس کائنات کا حسن ہے ۔ انسان بھی اللہ کی شاہ کار اور حسین ترین مخلوق ہے اور اس کے حسن کا راز بھی اس کے توازن و تناسب ہی میں پوشیدہ ہے۔ اللہ نے انسان کی رہنمائی کے لئے جو نظام زندگی اور ضابطہ حیات عطا کیا ہے اس کا حسن بھی توازن ہی کامرہون منت ہے۔اسلام ایک متوازن نظام حیات ہے اور انسان کی فطرت سے با لکل ہم آہنگ ہے۔ افراط و تفریط سے بالکل پاک ، نہ زندگی کے تقاضوں سے کنارہ کشی اور نہ خدا اور رسول ﷺ کو فراموش کرکے دنیا اور حصول دنیا میں غرق ہوجانے کی تعلیم ، نہ رہبانیت نہ دنیا پرستی، نہ حقوق اللہ سے سر کشی اور نہ حقوق العباد سے بے نیازی بلکہ اسلام کے متوازن اور حسین ترین نظام زندگی سے اپنی ذاتی زندگی اور اپنے خاندان و معاشرہ کو میانہ روی کے ساتھ مزین کرنے کی لگاتار کوشش اور جدو جہد ہی اسلام کی روح اور جان ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا ’’ دین آسان ہے اور دین سے جب بھی کسی نے زور آزمائی کی اور اس میں شدت اختیار کی دین نے اسے ہرا دیا۔ پس میانہ روی اختیار کرو‘‘ ایک دوسری حدیث میں ہے ’’ اللہ کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگر چہ تھوڑا ہی کیوںنہ ہو۔ ‘‘ نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے آپ پر سختی نہ کرو ورنہ پھر اللہ بھی تم پر سختی کرے گا۔‘‘ ایک دوسرے موقع پر فرمایا —–’’ دین موزوں اور مضبوط ہے، اسے نرمی کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ ( خواہ مخواہ سختیاں ایجاد کرکے) خدا کی عبادت سے اپنے دل کو متنفر نہ کرو کیونکہ زیادہ تیز رو مسافر نہ سفر طے کر پاتا ہے اور نہ سواری بچ پاتی ہے‘‘۔
خلاصہ کلام یہ کہ ایک سچے مومن اورایک مثالی رکن جماعت کو توازن اور میانہ روی کے ساتھ دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسا نہ ہوکہ ایک پہلو پر اتنی توجہ ہو جائے کہ دوسرا پہلو چھوٹ ہی جائے۔ اسی افراط و تفریط کا نتیجہ ہے کہ معیشت و سیاست اور عدالت و حکومت سے متعلق قرآن کی تعلیمات امت مسلمہ کے درمیان سے آج خارج از بحث ہی ہو کر رہ گئی ہیں اور دین و دنیا کی تفریق کی ایک فرضی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے جسے قرآنی تصور دین سے کوئی نسبت نہیں۔
مشاہدہ بتاتا ہے کہ بعض ارکان جماعت دعوت دین کے کام میں اتنے سر گرم ہوتے ہیں اور باہر کی مصروفیتیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ وہ اپنے گھر اور بیوی بچوں کو بھول جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اقامت دین کے سلسلے میں نہ تو شریک حیات کی ذہن سازی ہو پاتی ہے اور نہ بچوں کی صحیح تعلیم و تر بیت -گویا چراغ تلے اندھیرا -جس رکن جماعت کو گھر سے قوت اور حمایت نہ ملے وہ باہر کی مخالفتوں کا ڈٹ کر مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ گھر میں خود ہی کشید گی اور دبی دبی مخالفتوں کاایک دل شکن ماحول ہوتا ہے۔ سو چئے ایسے میں کوئی شخص کیسے دل جمعی کے ساتھ باہر کی دنیا میں دعوتی کام انجام دے سکتا ہے، اور انجام دے بھی لے تو ایک ضروری پہلو اس سے چھوٹ ہی جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ جو شخص اپنے گھر سے تحریک کو کوئی کارکن فراہم نہ کرسکے اس کی دعوتی جد و جہد پر بھی ایک سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اسی طرح اس کے دینی فہم اور تحریکی شعور پر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ و رسولﷺ نے دعوت دین کی ترتیب یہ بتائی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائواور اس کے بعد ہی اہل خاندان ، قبیلہ اور معاشرہ پر توجہ دو تو آخر اس نے یہ ترتیب الٹ کیوں دی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے فہم دین میں نقص ہے اور ظاہر ہے کہ اس نقص کے ساتھ اقامت دین اور دعوت دین کی کوششیں صحت مند خطوط پر آگے نہیں بڑھ سکتی ہیں۔
رکن جماعت بننے کے بعد بالخصوص اپنی شخصیت سازی پر توجہ دینا پہلا ہدف اور اولین مر حلہ ہے۔ ایک مومن کو سب سے پہلے اپنی شخصیت پر دین قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر گھر پر توجہ دینی چاہئے ، پھر قرابت داروں ، پڑوسیوں اور قریب کی آبادی کو دیکھنا چاہئے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد ہی دوسری طرف رخ کرے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر پہلو پر ترجیحی بنیاد پر توجہ دے اور کسی پہلو سے غافل ہو کر اپنی کوششوں کو یک رخا اور غیر متوازن نہ بنا لے۔
بعض لوگ مطالعہ کے معمولات، علمی مشاغل اور درس و تقریر کی صلاحیت کے لحاظ سے قابل قدر ہوتے ہیں مگر فیلڈ ورک کے لحاظ سے صفر نظر آتے ہیں۔ اس کے بر عکس بعض افراد ایسے ہو تے ہیں جو فیلڈ کی سر گر میاں انجام دینے میں تو چاق و چو بند ہوتے ہیں مگر ان کا مطالعہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ ان کا دینی فہم بھی ناقص رہ جاتا ہے۔ یہ دونوں صورتیں ایک مثالی رکن جماعت کے لیے نا موزوں اور نقصان دہ ہیں ۔اس لیے عملی سر گرمیوں اور مطالعہ میں بھی ایک توازن ضروری ہے۔
بعض افراد جن میں ایک حد تک دانشوری بھی ہوتی ہے اور جن کی صلاحیتیں اور خدمات قابل قدر نظر آتی ہیں ان کی عبادت کا پہلو اتنا کمزور ہوتا ہے کہ نماز با جماعت کی پابندی میں بھی کوتا ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ نماز اللہ سے تعلق کا مضبوط ترین ذریعہ ہے ،ایک مومن اور داعی کے لیے یہ قوت کا سر چشمہ ہے، اس لیے ایک مثالی رکن جماعت کی کیفیت وہی ہونی چاہئے کہ جب اذان سنے تو دنیوی مشاغل اور مجلسی گفتگو سے اسی طرح بے تعلق ہو جائے جو اذان سننے کے بعد رسول اللہ ﷺ کی ہو تی تھی۔ تعلق با للہ کی مضبوطی کے بغیرکوئی شخص تحریک اقامت دین کا اچھا سپاہی اور کوئی رکن جماعت اچھا داعی نہیں بن سکتا ۔اس لیے نماز با جماعت کی پابندی کے ساتھ حتی الوسع تعلق با للہ کی مضبوطی کے لئے نماز تہجد کا بھی اہتمام کر نا چا ہئے۔نماز تہجداللہ سے تعلق استوار کرنے کا سب سے مستند ، آزمودہ اور بہترین ذریعہ ہے۔
ہر شخص کے اندر کچھ خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور کچھ کمیاں اور خامیاں بھی ۔ ایک شخص جب شرائط رکنیت کو پورا کرنے کے اقرار نامہ کے بعد رکن جماعت بنا لیا جا تا ہے تو یہاں سے اسے از سر نو اپنی تر بیت کے لیے جد و جہد کا آغاز کر نا چا ہئے کہ جو خامیاں اور کمیاں اس کے اندر پائی جاتی ہیں اسے دور کرے اور جو خوبیاں موجود ہیں انہیں پروان چڑھائے اور اس طرح اپنی شخصیت کو افراط و تفریط سے پاک کرکے ایک متوازن اور مثالی شخصیت بنانے کی کوشش کرے۔ باالفاظ دیگر احتساب و تزکیہ کے مراحل سے اپنے آپ کو گزارتے ہوئے قرآن حکیم میں ایک مومن کی جو شبیہ بیان کی گئی ہے اس شبیہ اور تصویر کو اپنی شخصیت میں اس طرح اتار نے کی کوشش کرے کہ اللہ کا رنگ اس کی شخصیت پر پوری طرح چڑھ جائے۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ بہت سے امید واران رکنیت رکن بننے کے بعد کچھ اس طرح مطمئن ہو جا تے ہیں جیسے انہوں نے منزل پالی اور اب انہیں کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں ، یہاں تک کہ ان کی سر گرمیاں بھی ماند پڑ نے لگتی ہیں ، در آنحالیکہ ابھی انہوں نے منزل پائی نہیں بلکہ ضروری شرائط پوری کرنے کے بعد اس ٹیم میں شمولیت اختیار کی ہے جو منزل کی یافت کے لیے بنی ہے۔ اس ٹیم میں شامل ہونے کے بعد انہیں از سر نو ایک نظم کی نگرانی میں اپنی اس جدو جہد کا آغاز کرنا ہے جو انہیں منزل کی طرف لے جائے اور انہیں دنیوی اور اخروی کامیابیوں سے ہمکنار کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ٹیم میں شامل ہوکر انہیںاپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنا، اپنی شخصیت کو اور زیادہ چمکانا اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنا ہے۔ایک مثالی رکن جماعت کو اس پہلو سے ہمیشہ فکر مند اور ہمہ تن کوشاں رہنا چا ہئے۔
ایک مومن کی میانہ روی نہ اسے فضول خرچ بناتی ہے اور نہ بخل سکھاتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ارکان جماعت کا نماز و روزہ اور ذکر و اذکار میں تو بہت جی لگتا ہے مگر جب دین کے لئے پیسہ خرچ کرنے کی نوبت آتی ہے تو ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی کمی اور خرابی ہے جس کے ساتھ نہ کوئی شخص خدا کی رضا حاصل کر سکتا ہے اور نہ کوئی رکن جماعت مثالی رکن جماعت بن سکتا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ نماز اور ذکر میں جی کا لگنا دین میں ایک مطلوب اور پسندیدہ صفت ہے۔لیکن اگر اسی ساتھ کسی رکن جماعت کے اندر مال کی اس درجہ محبت پائی جاتی ہو کہ خدا کی راہ میں پیسہ خرچ کرنے میں اس کی طبیعت خراب ہونے لگے تو اسے پہلی فرصٹ میں اپنی اس خرابی کو دور کرنے کی فکر کرنی چاہئے اور کثرت انفاق کے ذریعہ راہ خدا میں خرچ کرنے کا مزاج بنانا چاہئے کہ یہ ایک مومن اورمثالی رکن جماعت کے اہم ترین اوصاف میں سے ایک ہے۔ قرآن حکیم اور رسول ﷺ کے ارشادات میں کثرت سے اور تواتر کے ساتھ انفاق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
اگر کسی شخص کو فضول گوئی اور بہت زیادہ بولنے کا مرض ہے تو اسے اس مرض پر قابو پانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ کیونکہ جھوٹ ، غیبت، چغل خوری، بہتان تراشی، نجویٰ ، لعن طعن، برے القاب سے یاد کرنا ، بلا تحقیق باتوں کو پھیلانا، لوگوں کا مذاق اڑانا اور دل خراش گفتگو کرنا یہ سب فضول گوئی کے شا خسانے ہیں۔ مومن کو چاہئے کہ جب بو لے تو بھلی بات بولے ورنہ خاموش رہے۔ حضور ﷺ کے اس فرمان کو یاد رکھے’’ جو چپ رہا وہ نجات پا گیا‘‘۔ اور یہ کہ دو جبڑوں کے درمیان جو چیز ہے یعنی زبان اسکی حفاظت کی جو ذمہ داری لے گا تو اس کے لیے میں جنت کی ضمانت لوں گا۔
حسن اخلاق انسانی زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے جس سے پوری شخصیت تا بدار ہو جاتی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا تم میں سب سے اچھاوہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے، تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہے۔تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ رہیں۔ لہٰذا اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے اگر کسی کے اندر کمی ہے اور لوگوں کو گرویدہ بنانے کی صلاحیت سے کوئی شخص محروم ہے تو اسے (بالخصوص ایک داعی دین کو ) پہلے اپنی اس کمی کو دور کرنے کی فکر کرنی چاہئے تاکہ اسکی شخصیت دلکش ، دل پسند اور محبوب خلائق بن جائے۔ بے شک ایک مثالی رکن جماعت کے اندر حسن اخلاق کی خوبی نمایاں ہونی چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا ایک مقصد یہ بھی تھا۔ آپﷺ نے فرمایا:انما بعثت لمکارم الاخلاق’’ بے شک میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘۔
انسان کو جو زندگی ملی ہے وہ اس کی سب سے قیمتی دولت ہے۔ یہ دولت فضول کاموں اور لہو و لعب میں ضائع نہ ہو جائے۔ ادنیٰ فائدوں کے حصول میں لگ کر ہی نہ رہ جائے۔ اور معلوم ہونا چاہئے کہ دنیاکا بڑا سے بڑا فائدہ اور زیادہ سے زیادہ عیش و عشرت کا حصول بھی عقبیٰ کے مقابلہ میں ادنیٰ ہے۔ مگرواقعہ یہ ہے کہ بیشتر لوگ اس دنیا میں تکا ثریعنی زیادہ سے زیادہ حصول عشرت کے لئے ہی آخرت سے غافل ہیں۔دنیا ہی ان کا مطمح نظر ہے۔ وہی ان کا اول بھی ہے اور وہی ان کا آخر بھی۔ ایک مومن کو اپنے آپ کو اس تباہ کن نقطہ نظر اور طریق عمل سے بچانے کے لئے اپنے اوقات کو منظم کرنا چاہئے۔ زندگی کے حاصل شدہ لمحات کو پوری احتیاط اور منصوبہ بندی کے ساتھ خداکی رضا کے کاموں میںخرچ کر نا چاہئے کہ یہی سب سے بڑی دانشمندی ہے۔ پس اسے ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہئے کہ اس کا لمحہ لمحہ شخصیت سازی اور دعوت کے کام میںصرف ہو۔اس کے لیے وقت کی پابندی کی بڑی اہمیت ہے ۔ وقت کی پابندی ایک اخلاقی وصف ہے۔ یہ در اصل ایفائے عہد ہی کا ایک لازمی تقاضہ ہے، اور ایفائے عہد وہ چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سوال کرے گا۔ لہٰذا ایک مثالی کارکن کو چاہئے کہ وقت کی پابندی کو اپنا وتیرہ اور مزاج بنائے ۔ جو شخص وقت کی پابندی میں ممتاز ہو گیا سمجھواس کی شخصیت ممتاز ہو گئی ، سماج میں اس کا رتبہ بڑھ گیا، نما ز با جماعت کی پابندی اور تکبیر اولیٰ میں شریک ہونے کی سعادت اسے حاصل ہوگئی ، اجتماع میں ایک دو منٹ پہلے پہنچنے کی خصوصیت کا حامل وہ ہو گیا۔وقت کی پابندی افراد کو قیادت کی طرف اورقوموں کو امامت کی طرف لے جاتی ہے۔ ایک رکن جماعت کو دین کی اقامت کا بہت بڑاکام کرنا ہے۔ اس کی زندگی مختصر ہے ، اس کی صلاحتیں محدود ہیں، اس کی جمیعت چھوٹی ہے اور کام ہمہ گیر۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ وہ اپنے اوقات کی تنظیم کرے اور یہ طے کرے کہ کتنا وقت مطالعہ پر صرف ہوگا، کتنا دعوتی کام پر ، کتنا اہل خانہ کی تر بیت پر ، کتنا پڑوسیوں اور عام بندگان خدا پر اور کتنا نظم جماعت پر ۔
اقامت دین کا سپاہی اور جماعت کا کارکن ایک نظم سے وابستہ ہو تا ہے۔ نظم بھی ایسا جس کی مثال قرآن میں بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے دی گئی ہے۔ ایسے نظم کے رکن ہونے کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنے اندر ایسی خصوصیات پروان چڑھائے جو نظم کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنے، کوئی ایسی کمزوری پروان نہ چڑھنے دے جو نظم کوکمزور کرے۔Order Obey یعنی سمع و طاعت کسی بھی نظم کی جان ہو تی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے فرمایا: اطیعو اللہ و اطیعو الرسول واولی الامرمنکم ،’’ اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور ان کی اطاعت کرو جو تم میں صاحب امر ہوں‘‘۔ پس جسے امیر بنا دیا گیا خواہ وہ آپ کے مقابلے میں مفلوک الحال ہو یا کم علم ، کم عمر ہو یا ضعیف ، نکٹا ہو یا حبشی، تقریر و تحریر کے لحاظ سے معمولی ہی سہی، آپ کو پسند ہو یا نا پسند-مگر لازم ہے کہ آپ اس کی عزت کریں اور اس کی اطاعت کریں۔ایک مثالی رکن جماعت کو سمعناو اطعنا یعنی’’ ہم نے سنا اور اطاعت کی ‘‘کی مجسم تصویر بننا چاہئے۔ چوں و چرا اور قیل و قال کی گنجائش نہ ہو الّا یہ کہ امیر معصیت کا حکم دے۔ایک مثالی رکن جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اطاعت کا ہنر بھی جانتا ہو اور قیادت کے گر سے بھی واقف ہو۔جب مامور کی حیثیت سے ہو تو سر جھکا ئے رکھے اور جو حکم دیا جائے اسے خوش دلی سے بجا لائے گویا۔’’ سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے ‘‘اور جب قیادت کے منصب پر فائز کیا جائے تو ’’نگہ بلند، سخن دل نواز ، جاں پر سوز ‘‘کی تصویر بن جائے کہ ’’یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے‘‘
نظم جماعت کو مضبوط کرنے والی ایک اہم چیز رفقاء کے باہمی تعلقات ہیں ۔ اس تعلق میں پیوستگی اور شیر ینی ہو نی چاہئے۔ انما المومنون اخوہ ۔ ’’مومنین تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘۔ بھائیوں کے درمیان محبت ، تعاون اور خیر خواہی کا تعلق ہونا چاہئے۔ نفرت ، ناچاقی اور نفسانی اختلاف کا ماحول نہیں ہونا چاہئے۔ اپنی انا کے لیے جماعت کی یکجہتی کو پارہ پارہ نہیں کرنا چاہئے۔ مومنین راہ خدا کے مسافر ہیں، اللہ کی رضا کے طلب گار ہیں۔انہیں تواضع اورانکساری اختیارکرنا چاہئے اور عفو در گزر سے کام لینا چاہئے اور معاف کرنے کی ادا سیکھنی چا ہئے کہ یہ ادا اللہ غفور الرحیم کو بہت پسند ہے اور اس ادا میں بندے کے لئے بزرگی اور عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے ؎
آپ سے جھک کے جو ملتا ہوگا
اس کا قد آپ سے اونچا ہوگا
اسلامی تحریک کا رکن بننا ایک بڑا فیصلہ ہے ۔ یہ آزمائش اور عزیمت کی راہ ہے۔ اس راہ میں پورے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کہ یہ راہ آسان نہیں ہے۔اس راہ میں صبر و ثبات کا توشہ آپ کے ساتھ ہونا چاہئے۔؎
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
اور بقول غالب جس کوہو جان ودل عزیزاس کی گلی میں جائے کیوں؟اس لیے اگر آپ کو مال و متاع عزیز ہے ، دنیا مطلوب ہے، جان پیاری ہے اور آپ تزلزل اور بے یقینی کے شکار ہیں تو پہلے اپنے اندر یقین کی وہ قوت پیدا کیجئے جس سے چلنا آسان ہوجائے۔ آپ اللہ کی راہ میں قدم بڑھا چکے ہیں تو پیچھے مڑ کر مت دیکھے ،واپسی کی کشتیاں جلا دیجئے تب ہی اللہ آپ کو ثبات قدمی عطا فرمائے گااور وہ قوت بخشے گا جس سے آپ اندھیروں کا مقابلہ کر سکیں گے اور زبان حال سے یہ کہنے کی پوزیشن میں ہو سکیں گے کہ ؎
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مری سر شت میں ہے پاکی و درخشانی
تواے مسافر شب خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی
مولانا امین احسن اصلاحی نے الہ آباد ۱۹۴۶ء کے اجتماع میں تحریک سے معیاری وابستگی کی تین خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔اول وہ موجودہ ماحول میں غربت کا احساس کرے یعنی ہر چیز اسے اجنبی معلوم ہو جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسے کوئی درد آشنااور ہم خیال نظر نہ آئے۔ یہ غربت کا احساس اگر ترو تازہ ہے تو سمجھیے آپ کو تحریک اسلامی کے مقاصد کا سچا شعور حاصل ہو گیا۔تحریک سے وابستگی کا دوسرا معیار یہ ہے کہ آپ اپنی وابستگی اور دلچسپی ان لوگوں سے بڑھا ئیں جو آپ کے اصول و مقاصد میں آپ سے متفق ہوں ۔ تیسرا معیار یہ ہے کہ جو لوگ اصول اور مقصد میں آپ سے مختلف ہوں وہ آپ کو نرم چارہ نہ پائیں۔ وہ جب آپ کو ٹٹولیں تو انہیں محسوس ہوکہ ان کے لیے آپ کے اندر انگلی دھنسانے کی کوئی جگہ نہیں ہے کہ وہ آپ کو اپنے مقاصد کے لئے آلۂ کار بنا سکیں ۔ قرآن میں مومنین کا نقشہ کچھ یوں بیان کیا گیا: اشد اء علی لکفار رو رحماء و بینہم ’’کفار کے لیے سخت اور آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحیم ‘‘بقول علامہ اقبال ؎
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
قرآن میں مومن کی ایک تصویر یہ بیان کی گئی ہے۔
’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ؐ پر ایمان لائے۔ پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔(الحجرات)
اور رسولؐ کے الفاظ میں مومنین اور مثالی رکن جماعت کے لئے یہ پیغام ہے قل اٰمنت باللّٰہ ثم اثتقم’’کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور اس پر جم جائو‘‘
اقبال نے مومن اور مثالی رکن جماعت کی ایک تصویر یوں کھینچی ہے ؎
اس کی امیدیں قلیل ، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نوا دل نواز
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہوکہ بزم ہو پاک دل و پاک باز
مشمولہ: شمارہ جنوری 2015