سیرت موسیٰ علیہ السلام
ایک سچا خدا پرست ، آدمی کوئی ایسا معاہدہ نہیں کرتا، جو خدا پرستی کے خلاف ہویا جس کو پورا کرنے اور نبھانے کا ارادہ نہ ہو۔ وہ جب کوئی معاملہ یا معاہدہ یا وعدہ کرتاہے تو وہ پورے احساس ذمے داری کے ساتھ کرتاہے۔ انفرادی معاملہ ہو یا قومی اور جماعتی ہو یا حکومتوں اور حکومتوں کے درمیان، معاہدہ اور پیکٹ ہو، ہر ایک، خدا پرستانہ کردار سچائی اورایمان داری پر مبنی ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰؑ نے جو معاہدہ اپنے خسر سے کیاتھا، وہ پوراکیا اور اُس مدت سے پہلے کبھی اپنے وطن واپسی کاارادہ نہیں کیا۔
ایک سچا خداپرست آدمی، ازدواجی اور عائلی زندگی گزارتاہے۔ آزاد شہوت رانی کاتصور تک اس کے نزدیک انتہائی گھناؤنا ہوتاہے۔ اس کا دل و دماغ اس سے نفرت کرتا ہے۔ اِسی طرح اُس کے نزدیک لنگوٹ بندھ ہونا، برہم چاری بننا، نن یا دیوداسی بننا، سچی خداپرستی کے خلاف ہے۔ البتہ وہ نکاح کے معروف طریقے سے خاندان بسانا اور اپنی ذمے داریاں محسوس کرنا اور قانون الٰہی کے مطابق مخلوقِ خدا کی پیدائش کاذریعہ بننا اور اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے بارے میں پوری دلچسپی، انہماک اور محبت و مشقت سے ذمے داریاں پوری کرنا، اپنے ایمان کاتقاضا سمجھ کر، انجام دیتا ہے۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے شادی کی اور بیوی بچوں والی زندگی اختیار کی۔ اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی، ذمے داریاں انجام دیں، اپنی اولاد کو اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنانے کی فکر کی۔
موسیٰ علیہ السلام بیوی اور بچوں، مویشی اور سواریوں کاقافلہ لے کر مصر واپس جارہے تھے، انھوں نے سوچاہوگاکہ وہ فرعون جس کے یہاں انھوں نے پرورش پائی تھی اور جس کے دور میں ایک قبطی کاان سے قتل ہوگیاتھا، شاید وہ مرچکاہوگا اور اتنے عرصے میں لوگ مجھے بھول بھی گئے ہوں گے، اس لیے اگر میں اپنے وطن واپس چلاجائوں تو شاید اب حکومت کاعملہ میرا پیچھا نہیں کرے گا۔موسیٰ علیہ السلام ایک شہزادے کی حیثیت میں بنی اسرائیل کی مظلوم قوم کے لیے کچھ نہ کچھ رعایتیں حاصل بھی کرچکے تھے۔ سوچاہوگاکہ مظلوم اور ستم رسیدہ قوم کے لیے مزید کچھ نہ کچھ، خدمات انجام دے سکوںگا اور پھر اپنا وطن کسے یاد نہیں آتا۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام اپنی بیوی اور بچوں کو لے کر اپنے وطن مصر جارہے تھے۔ راستے میں جنگل بیابان میں سخت اندھیری اور سرد رات میں، موسیٰ علیہ السلام کو ایک آگ سی نظر آئی۔ سوچا اگر آگ روشن کرنے والے مقامی لوگ ہوں گے تو ان سے راستہ معلوم ہوسکے گا اور اگر مسافر ہوں گے تو ان سے کم از کم آگ ہی لے آؤں گا۔ بیوی اور بچے آگ جلاکر تاپ ہی لیں گے اور جنگلی جانوروں سے حفاظت بھی ہوسکے گی اور ایک طرح کی راحت بھی حاصل ہوسکے گی۔ چنانچہ انھوں نے بیوی اور بچوں سے کہا: تم لوگ یہیں ٹھیرو، سامنے روشنی نظر آرہی ہے۔ میں ابھی آتا ہوں کچھ معلومات بھی کرآؤں گا اور آگ بھی لیتاآؤں گا۔ وادی کے ایک حصے میں پہاڑی کے اوپر، ایک آگ سی نظر آتی تھی۔ جس میں دھواں قطعاً نظر نہیں آتا، ایک روشنی اور نور ہی نور تھا جس سے علاقے کا علاقہ جگمگارہا تھا۔ وادی کی دائیں جانب سے بابرکت درخت سے آواز آئی: میں ’اللہ‘ تمام جہانوں کاخالق، مالک، حاکم اور ’رَب‘ ہوںاور تم سے مخاطب ہوں۔ ذرا اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دو۔ لاٹھی زمین پر گرتے ہی ایک اژدہا بن گئی، اژدہا اس قدر سریع الحرکت اور پھرتیلا تھا۔
پیام ربانی
حضرت موسیٰؑ انسان تھے اور بشری کم زوریاں رکھتے تھے۔ اژدہا اس کاعطیم جُثہ، بڑا منہ چوڑا پھن، اس کی تیزی، سریع الحرکتی، پھرتیلاپن، ہرلمحہ بل کھانا، دیکھ کروہ گھبراہٹ کاشکارہوگئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھا۔ آواز آئی: موسیٰؑ ڈرو نہیں، میری طرف آؤ، تمھیں کوئی گزند نہیں پہنچے گی، تم بالکل محفوظ رہوگے، امن وامان سے ہم کنار رہوگے۔ موسیٰؑ واپس آئے۔ آواز آئی ذر اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر بغل میں لے جائو، پھر نکالو۔ چمکتا ہو ا نکلے گا اور اس میں کوئی تکلیف یا بیماری کا شائبہ تک نہیں ہوگا، موسیٰؑ اگر تمھیں ڈر محسوس ہو تو، اس کے لیے ایسا کرلیاکرو کہ اپنا دایاں ہاتھ بائیں بغل کے نیچے لے جاکر اپنے بازو سے دبائو، اس طرح تمھارا خوف دور ہوجائے گا ۔اور اے موسیٰ یہ دونوںعصا اور یدِبیضا دو نشانیاں اور معجزے ہیں۔ یہ تمھارے رب کی جانب سے تمھیں عطا ہوئے ہیں۔ کیونکہ تمھارے رب نے تمھیں اپنا رسول بنایاہے۔ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت اور سرداران قوم اور اس کے لائو لشکر کی طرف جاؤ۔ یہ سب اللہ کے نافرمان اور عدول حکمی کے مجرم ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام کو منصب نبوت اور رسالت پرسرفراز ہوتے ہی اور دعوت و تبلیغ دین کی ذمے داریوں کا بوجھ اپنے کمزور کاندھوں پر محسوس کرتے ہی خیال آیاکہ میں تو ان کاایک مجرم ہوں، ایک شخص کامیرے ہاتھ سے قتل ہوگیاتھا اور وہ مجھ کو قتل کرناچاہتے تھے، مگرمیں وہاں سے نکل آیاتھا، اگر میں مصر میں گمنام انفرادی زندگی گزارتا،تو اس بات کاامکان تھاکہ میں ان کی نگاہوں سے بچ جاتا، لیکن اب جب کہ مجھے کارِ نبوت انجام دیناہے اور فریضہ ٔ رسالت ادا کرنا ہے اور خصوصیت سے فرعون اور حکومت مصر کے امرا ،وزرا اور سردار ہی میرے مشن کے اصل مخاطب ہیں۔ اب میں کیسے بچ سکوںگا۔ اس کا امکان بالکل واضح ہے کہ میں اپنا فریضہ ادا کرنے سے پہلے قتل کردیاجاؤں ، اور فریضہ ادا کرنے کی نوبت ہی نہ آسکے۔ اس لیے انھوں نے سب سے پہلے اپنی یہی الجھن اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھی۔ دوسرے ان کو اپنی اس کم زوری کااحساس ہواکہ اِس کارِ نبوت کے لیے جس اعلیٰ درجے کا، فصیح و بلیغ ،زبان وادب کا رمز شناس ہی نہیں، بلکہ ماہر اور کامل فن کا ہونا درکار ہے، ویسا فصیح و بلیغ اور خطیب وادیب، زبان آوراور طاقتِ لسانی کا مالک نہیں ہوں۔ البتہ میرے بھائی، ہارون مجھ سے زیادہ فصیح وبلیغ ہیں، اس لیے انھوں نے دعا کی کہ ان کو میرا معاون اور مددگار بنادے، تاکہ ہم دونوں مل کر یہ کارعظیم انجام دینے میں کامیاب ہوسکیں، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ جھٹلادیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دونوں درخواستیں قبول فرمالیں، ایک یہ کہ ان کے بھائی ہارونؑ کو معاون رسول بنادیا اور دوسرے یہ کہ وعدہ فرمایاکہ میں تمھیں اور تمھارے بھائی کو ایسا رعب و دبدبہ ، ایسی وجاہت اور شان و شوکت عطا کروںگا ۔ کہ وہ لوگ تم دونوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکیں گے۔ تم دونوں پر وہ جو بھی وار کریں گے، اس میں ناکام رہیں گے۔ میں نے جو علم و بصیرت ،حکمت و دانائی اور علم وحکمت کے خزانے دیے ہیں اور جو محسوس اور غیرمحسوس نشانیاں اور معجزے عطا کیے ہیں، میری اِن نشانیوں اور دلائل و شواہد سے تم اور تمھارے پیرو ہی غالب رہیں گے۔
فرعون کا رد عمل
اللہ کے فضل وکرم سے موسیٰ علیہ السلام کو حوصلہ ملا اور ہمت بندھی دونوں بھائی فرعون کے دربار میں پہنچ گئے اور اپنا تعارف کروایاکہ ہم دونوں ،آپ کے اور سارے انسانوں کے رب کے رسول ہیں، اس سے فرعون کے غرور اور خدائی کو ٹھیس لگی، وہ کہتاتھاکہ رب تو میں ہوں، مملکت مصر میں اَنا ولاغیری کا ڈنکا میرا بجتاہے۔ ساورنٹی اور حاکمیت مجھے حاصل ہے۔ میرے علاوہ دوسرا کون بااقتداراور حکم راں ہے جس کے یہ دونوں سفیر میرے دربار میں حاضر ہوئے ہیں۔ چنانچہ اس نے نشان ماموریت کے طورپر کچھ دکھانے کو کہا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا ڈال دیا، وہ عظیم الجثہ، بھاری بھرکم، مگر پھرتیلا اور تیز بل کھانے والا اژدہا بن گیا۔ فرعون گھبرایا، موسیٰ علیہ السلام نے اسے پکڑلیا تو وہ پھر ڈنڈا بن گیا۔ موسیٰ علیہ السلام گریبان میں ہاتھ دے کر بغل میںلے گئے اور نکالا تو وہ آفتاب کی طرح چمکنے اور نگاہوں کو خیرہ کرنے لگا۔ فرعون نے فوراً پینترا بدلا اور سیاسی چالاکی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا یہ تو تمھارا من گھڑت جادو ہے۔ کہیں سے کرتب سیکھ کر آگئے ہو، ہم نے اپنے باپ دادا سے یہ سب کچھ نہیں سناہے۔ جو تم دعویٰ کررہے ہو۔ فرعون اللہ کے متعلق کچھ نہ جانتاہو۔ یا اللہ نے رسول بھیجے، اس حقیقت سے وہ ناواقف ہو یہ مطلب نہیں ہوسکتا۔ بل کہ وہ یہ صرف یہ کہناچاہتا تھاکہ اگر تم دونوں واقعی اللہ کے رسول ہو، جیساکہ تمھارا دعویٰ ہے اور تم معجزے بھی دکھارہے ہو تو جاؤ اپنی نبوت جہاں چاہو کرو، ہماری شاہی، حکومت اور حاکمیت اور ساورنٹی سے اس کاکیا تعلق، یہ سیاست و جہانبانی سے جو تم اپنی نبوت کا رشتہ جوڑ رہے ہو اور سیدھے میرے پاس اپنا پیغام لے کر پہنچے ہو، یہ بات میں نے اپنے خاندان اور اپنے دَور کے حکمرانوں سے کہیں نہیں سنی۔ اس طرح وہ موسیٰ علیہ السلام کو خطاب کرکے اپنے اعیان سلطنت اور اپنی رعایا کو ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف بھڑکاناچاہتاتھا۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم میری نبوت اور رسالت کا انکارکرتے ہو کرو اور معجزوں کو جادوگری کہتے ہو کہو، مجھے اس کی کوئی پرو ا نہیں ہے۔ کیونکہ میرا رب اسے خوب جانتاہے جو اس کا رسول ہے اور اس کے پاس سے الہدیٰ لے کر آیا ہے۔ اس طرح موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار پھر فرعون پر حق واضح کرنے کی کوشش فرمائی ، کہ تم جو سیاسی اور قانونی ’’رب‘‘ بنے بیٹھے ہو اور اپنے کو عظیم حکمراں اور رب اعلیٰ کہتے ہواور یہ جو دعویٰ کرتے ہوکہ ’’تمھارے سوا کوئی دوسرا حاکم اور ساورِن نہیں ہے تو یا درکھو ’’رب‘‘ حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے اور ہم دونوں بھائی اللہ کے رسول ہیں، وہ اللہ جس نے کائنات کو اور کائنات کی ساری مخلوقات کو پیداکیاہے، اُسی اللہ نے اپنا پیغام بندگی ہم دونوں کے ذریعے تم تک بھیجا ہے الوہیت اور ربوبیت کے جھوٹے دعوے سے باز آجائو اور اللہ کے بندے بن کر رہو اور اس کی زمین پر اسی کا قانون نافذکرو، اُس کی بادشاہی ، حاکمیت کو تسلیم کرو ظلم و سرکشی سے بازآجاؤ جو تم نے انفرادی اور اجتماعی، سیاسی اور تمدنی زندگی میں، اختیار کررکھی ہے، کیونکہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی استقامت کا نوٹس لیا اور ان کو خطاب کرنے کی بجائے، اپنے اعیان سلطنت اور اہل دربار کو مخاطب کرکے کہا: سردارانِ قوم! مجھے تو معلوم نہیں ہے کہ میرے سوا کوئی اور تمھارا الٰہ ﴿معبود ، حاکم اور مطاع﴾ ہو۔ میں ہی تمھارا مطاع اور حاکم ہوں، حدودِ مملکت مصر میں میرے علاوہ کسی کو، حاکمیت اور ساورنٹی حاصل نہیں ہے۔ اس طرح اُس نے اپنے اہل دربار کو موسیٰ علیہ السلام کے خلاف بھڑکایا اور پھر اپنے وزیراعظم کو خطاب کرکے کہا: ہامان! ذرا ایک سرکاری بھٹہ لگواؤ اور اینٹیں تیارکراؤ، پھرایک عالیشان اور بلند ترین عمارت تیارکراؤ، اور اس میں بہت اونچا اور بلند ترین مینارہ بنواؤ تاکہ میں موسیٰ کے خدا کو جھانک کر دیکھ سکوں۔ وہ موسیٰؑ کی دعوت اورپیغام اور خدا پرستی کے پیام کا مذاق اڑانا چاہتاتھا، ورنہ وہ خود، خدا کا قائل تھا اور اپنی الوہیت اور ربوبیت کا دعویدار اس لیے تھا، کہ اپنے کو سورج دیوتا کا اوتار قرار دیتاتھا۔ اس نے مزید کہا: میں موسیٰ کو جھوٹا سمجھتاہوں۔ اس کی غرض یہ تھی کہ میں تو اس کو جھوٹا قرار دے ہی رہاہوں، تم بھی اس کو جھوٹا سمجھو اور تمام مملکت مصر میں اسے جھوٹا مشہور کردو، تاکہ اس کی نبوت اور رسالت کا جادو کسی پر نہ چل سکے اور اس طرح تمھاری حکومت اور سلطنت کو خطرہ لاحق نہ ہوسکے۔
فرعون کا انجام
فرعون اور اس کے اعیان سلطنت نے تکبر، غرور اور کبریائی کاطریقہ اختیار کیا۔تکبر کی چال میں فرعون اس قدر آگے نکل گیاتھا، کہ اپنے کوخدا کہلواتاتھا اور رشتہ سورج دیوتا سے جوڑتاتھا۔ حالانکہ بحیثیت مخلوق کے انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور اس کی پیدائش کا سلسلہ منی کے قطرے سے اور مرد و عورت کے ملاپ کے ذریعہ جاری ہے۔اس حقیر ورذیل مخلوق کو، اللہ کے مقابلے میں کھڑا ہونے ، اس کی خالقیت، مالکیت ، حاکمیت اور ساورنٹی کے انکارکا کہاں سے حق حاصل ہوگیا۔ بہرحال فرعون اور اس کے لائو لشکر نے بغیر کسی حق کے بڑائی اور کبریائی اختیار کی اورسوچا یا کم از کم اپنی عملی زندگی سے اس کا ثبوت دیاکہ ان کو اللہ کے دربار میں حاضر نہیں ہوناہے۔اسی لیے انھوں نے حکومت و سیاست میں، انفرادی اور اجتماعی زندگی میں، اپنے کو آزاد سمجھا اور شتر بے مہار بن کر، زندگی گزاری اور یہ نہیں سوچاکہ انھیں اپنے خیالات ، عقائد ، افکار ونظریات کا حساب دیناہوگا، اپنے اخلاق وکردار کا حساب دیناہوگا، اپنی سماجی زندگی اپنے معاملات اور تعلقات کا ، حساب دیناہوگا، اپنی معاشی پالیسی ، اپنے سیاسی، قومی، ملکی اور بین الاقوامی رول کا حساب دیناہوگا، غرض کہ فرعون، قوم فرعون اور سرداران قوم نے اللہ سے بغاوت اور سرکشی اختیار کی جب پانی سر سے اونچاہوگیا اور جب برسہا برس تک موسیٰ علیہ السلام ، فرعون اور اٰل فرعون اور قوم فرعون کے آگے، شہادت حق کا حق ادا کرتے رہے تب فرعون اور اٰل فرعون ، اس کے اعیان سلطنت کو اللہ نے گرفت میں لے لیا اور اٹھاکر سمندر میں ایسا جھونکا کہ انھوں نے سانس بھی نہیں لی۔ تو دیکھو ظالموں کا کیا حال ہوا؟ ظالم جو خدا کو مانتے ہوئے خدا کے منکر تھے، خداکے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے کافر تھے،غیراللہ کی پرستش میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اللہ کو فوق الفطری خدا ماننے کے باوجود، اس کو اجتماعی اور سیاسی زندگی کاخدا نہیں مانتے تھے، اللہ کے قانون، دستور اور شریعت کے بجائے اپنی بنائی ہوئی شریعت کو نافذ کرتے تھے، اللہ کے پیغمبروں کے نہیں، بل کہ شیطان کے پیچھے چلتے تھے اور آخرت سے غافل اور آخرت کے حساب اور جزائ و سزا اور حشر و نشر کے منکر تھے، دیکھو، ان کا کیا اور کیسا انجام ہوا۔
فراعنہ وقت
درحقیقت اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اٰل فرعون کو ان لوگوں کا اگوا اور لیڈر بنادیا، جو تاریخ میں اور آج کے دور میں بھی اولاد آدمؑ اور بنی نوع انسانی کو غلط افکار ونظریات اور اُن ازموں کی طرف بلاتے ہیں جو لوگوں کو جہنم کی طرف لے جانے والے ہیں، آج بھی بے شمار ایسے حکمراں ہیں،جوبالکل فرعون مصر کی طرح فرعون بنے ہوئے ہیں جن کا شیوا فرعونیت ہے، خواہ وہ نام کے کلنٹن، جان میجر اور بش یا ہلیری ہوں، جنھوںنے لاکھوں بے قصور انسانوں کو موت سے دوچار کیا، عراق اور افغانستان کو، ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:فرعونوںکو آخرت میں اللہ کے عذاب سے اس کی پکڑ اور گرفت سے بچانے والا کوئی نہیں ملے گا۔ فرعون صفت حکمران، خواہ نام کے مسلمان ہی کیوں نہ ہوں، وہ دنیا میں بڑے بنتے ہیں حتیٰ کہ اللہ کی شریعت سے بھی اپنے کو اونچا شمار کرتے ہیں۔ اسی قدر عقبیٰ میں خوار ہوں گے، دنیا میں غرور کاسر نیچا ہوتا ہے عقبیٰ میں بھی ا ن تمام مغروروں، گھمنڈیوں کا سرنیچا ہوگا اور بُرا حشر ہوگا، جو اللہ کے مقابلے میں اللہ کے رسول کے مقابلے میں اللہ کی شریعت کے مقابلے اللہ کے دین اور نظام الٰہی کے مقابلے میں غرور، تکبر اور کبریائی کا اظہاراعلان کرتے ہیں، عقبیٰ میں انتہائی ذلیل وخوار ہوں گے اور اللہ کی ان پر لعنت اور پھٹکارہوگی۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2011