فلسفۂ اخلاق امام غزالی کی نظر میں

امام غزالیؒ  ﴿۴۵۰ھ-۵۰۵ھ /۱۰۵۸-۱۱۱۱﴾ کے علمی کاموں پر نظر ڈالیں تو وہ علوم وفنون کے چار میدانوں کا احاطہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ﴿۱﴾ فقہ ﴿۲﴾اصول فقہ ﴿۳﴾ فلسفہ وکلام ﴿۴﴾ تصوف واخلاق۔ ان چاروں میدانوں میں ان کا کام بڑا قابل قدر ہے۔ ان میں انھوں نے اپنے پیش رو مصنّفین کے کام پر اضافہ کیا ہے اور بعد کے زمانوں میں مشرق اور مغرب دونوں جگہ اس کے گہرے اثرات محسوس کیے گئے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان میدانوں میں ان کاکام توازن اور اعتدال سے متصف ہے۔ کسی بھی موضوع پر ان کا قلم جادۂ اعتدال سے نہیں ہٹنے پایا ہے۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے ان کے علمی کام پر بہ حیثیت مجموعی ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:

’’قانون وشریعت کے سانچوں پر اہل علم نے چار طریقوں سے غور کیا ہے۔ ایک اس طریق سے کہ مسائل وجزئیات کا تفصیلی نقشہ کیا ہے اور شریعت اسلامی کی وسعتیں کن کن جزئیات وتفریعات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں؟ یہ فقہ ہے… غوروفکر کا دوسرا نہج یہ ہے کہ ان جزئیات وفروع کے پیچھے جو اصول، جو قانونی روح اور قواعد کلیہ کار فرما ہیں ان کا سراغ لگایا جائے۔ اس فن کو اصول کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے… تیسرا نقطۂ نظریہ ہے کہ شریعت وفقہ کی جزئیات کو عقل وخرد اور فلسفہ وحکمت کی کسوٹیوں پر پرکھا جائے۔یہ علم کلام ہے… غوروفکر کا چوتھا مگر زیادہ اہم اسلوب یہ ہے کہ جزئیات، رسوم، شعائر اور عبادات واخلاق میں جو باطنی روح ہے اس کا کھوج لگایا جائے۔ اس فلسفہ کی نشان دہی کی جائے جس کا تعلق دماغ کی اوپری سطح سے نہیں، دل کی گہری اور عمیق کیفیتوں سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ اسلامی نظام حیات کے اندر ذوق وجدان کی جو مناسبتیں پنہاں ہیں ان کو اجاگر کیا جائے اور ان حقائق کو منظر عام پر لایا جائے جن کو عطردین یا روح دین قرار دیاجاسکتا ہے۔ غوروفکر کایہ انداز تصوف ہے۔ بشرطیکہ عمل ومجاہدہ کے لطائف بھی پائے جائیں۔ غزالی میں یہ چاروں صفات نہایت توازن اور اعتدال کے ساتھ موجود ہیں۔‘‘

﴿تعلیمات غزالی، محمدحنیف ندوی، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور،ص:۱-۲، مقدمہ﴾

یوں تو مذکورہ بالا چاروں علوم وفنون میں امام غزالی کا کام اہم ہے، لیکن خاص طور پر موخر الذکر دوموضوعات:فلسفہ وکلام اور تصوف واخلاق میں ان کی علمی کاوشیں بے نظیر ہیں اور ان میں بھی خاص طور سے ان کی شہرۂ آفاق تصنیف احیاء علوم الدین دونوں موضوعات کی جامع ہے۔ اخلاق کے موضوع پر امام غزالی سے پہلے فلسفیانہ طرز پر بھی متعدد کتابیں لکھی گئی تھیں اور مذہبی طرز پر بھی۔ فلسفیانہ طرز کی کتابوں میں یونانی حکمائ ارسطو اور جالینوس کی کتابوں کے عربی تراجم کے علاوہ ابونصر فارابی ﴿م ۳۹۹ھ﴾ کی آرائ المدینۃ الفاضلۃ، الشیخ الرئیس ابوعلی ابن سینا ﴿م ۴۲۸ھ﴾ کی کتاب البروالاثم اور ابن مسکویہ ﴿م ۴۲۱ھ﴾ کی تہذیب الاخلاق اور مذہبی طرز کی کتابوں میں ابوطالب مکی ﴿م ۳۸۶ھ﴾ کی قوت القلوب اور راغب اصفہانی ﴿م۵۰۲ھ﴾ کی الذریعۃ الی مکارم الشریعۃ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان کتابوں کو وہ مقبولیت نہ مل سکی جو احیائ العلوم کے حصے میں آئی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ امام غزالی کی یہ تصنیف دونوں طرزوں کی جامع ہے۔

احیائ العلوم کی تصنیف کے وقت امام غزالیؒ  کے سامنے قدماء کی یہ تمام تصانیف تھیں۔ اس کا کافی حصہ— جیسا کہ علامہ سبکی ﴿م۷۷۱ھ﴾ نے طبقات الشافعیہ میں لکھاہے— قوت القلوب، رسالہ قشیریہ اور الذریعہ سے ماخوذ ہے۔ خاص طور سے احادیث وآثار کا تمام ترحصہ قوت القلوب سے لے لیاگیاہے۔ لیکن علامہ شبلی نعمانی کے الفاظ میں : ’’ان تمام تصانیف کو احیائ العلوم سے وہی نسبت ہے جو قطرہ کو گوہر سے، سنگ کو آبگینہ سے، کاسۂ سفالین کو جام جم سے ہے۔‘‘ ﴿الغزالی، شبلی نعمانی، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، طبع ۲۰۰۸ء، ص:۶۰﴾

احیاء العلوم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی متعدد شرحیں اور تلخیصیں لکھی گئی ہیں۔ علامہ ابن الجوزی ﴿م ۵۹۷ھ﴾ نے منہاج القاصدین کے نام سے اس کی شرح کی۔ ابن قیم ﴿م۷۵۱ھ﴾ نے اس پر اعتراضات کیے تو قطب شعرانی ﴿م۹۷۳ھ﴾ نے الاجوبۃ المرضیۃ کے نام سے اس کا جواب دیا۔ زین الدین عراقی ﴿م۸۰۶ھ﴾ نے اس میں وارد احادیث کی تخریج کی اور ان کے شاگرد ابن حجر عسقلانی نے اس پراستدراک لکھا۔ مرتضیٰ زبیدی ﴿م ۱۲۰۵ھ﴾ نے دس جلدوں میں اس کی شرح لکھی۔ اسی طرح اس کی تلخیص کرنے والوں میں شمس الدین عجلونی ﴿م ۸۱۳ھ﴾ امام غزالی کے بھائی احمد بن محمد، شیخ محمد بن سعید یمنی، شیخ ابوزکریا یحییٰ، شیخ ابوالعباس احمد بن موسیٰ موصلی﴿م ۶۳۲ھ﴾ اور حافظ جلال الدین سیوطی ﴿م۹۱۱ھ﴾ قابل ذکر ہیں۔ ﴿حاجی خلیفہ نے کشف الظنون میں ان کا تذکرہ کیا ہے﴾

احیاءالعلوم چار حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ عبادات پر ہے۔ اس میں کتاب العلم، قواعد العقائد، اسرار الطہارۃ،اسرار الصلاۃ، اسرار الزکاۃ، اسرار الصیام، اسرار الحج، آداب تلاوۃ القرآن وغیرہ کی تفصیل ہے۔ دوسرے حصے میں عادات کا بیان ہے۔ اس میں آداب طعام ، نکاح، احکام کسب، حلال وحرام ، صحبت وعزلت ،سفر، وجدوسماع، امر بالمعروف اور اخلاق النبوۃ کا بیان ہے۔ تیسرا حصہ مہلکات پر ہے۔ اس میں عجائب القلب، ریاضۃ النفس، آفات الشہوتین، آفات اللسان، آفات الغضب، ذم دنیا، ذم جاہ و ریا وغیرہ کی وضاحت کی ہے۔ چوتھا حصہ مُنَجِّیات پر ہے۔ اس میں توبہ، صبر، شکر، فقر وزہد ، توحید، توکل ، محبت وشوق وغیرہ پر اظہار خیال ہے۔

احیاء العلوم کی تعریف وتوصیف میں بڑے بڑے علماء  رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ یہاں صرف علامہ نوویؒ  شارح صحیح مسلم کا مشہور جملہ نقل کردینا کافی ہوگا۔ انھوں نے فرمایا ہے:کَادَ اَنْیَّکُوْنَ قُرآناً﴿یہ کتاب تقریباً قرآن کے برابر ہے﴾ ۔

مولانا محمد حنیف ندوی نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے:

’’ان کی غرض غالباً یہ ہے کہ جس طرح قرآن حکیم کے مطالب براہ راست ان کو متاثر کرتے ہیں اور جس طرح ان کے انداز بیان میں تصنع اور بناوٹ کا عنصر نہیں پایا جاتا، اسی طرح ’احیاء‘ کے مضامین عقل وادراک کی موشگافیوں میں پڑے بغیر قلب میں جاگزیں ہوتے ہیں اور پڑھنے والے پرچھا جاتے ہیں۔‘‘ ﴿افکار غزالی، ص:۶۰﴾

علامہ شبلی نے احیاء العلوم کی پانچ خصوصیات بیان کی ہیں:

﴿۱﴾ امام غزالی نے اس کتاب میں حکمت اور موعظت دونوں کو ساتھ ساتھ نبھایا ہے۔ جس مضمون کو بھی ادا کیا ہے، باوجود سہل پسندی ، عام فہمی اور دل آویزی کے، فلسفہ وحکمت کے معیار سے کہیں نہیں اُترنے دیاہے۔

﴿۲﴾ فلسفۂ اخلاق کے مسائل اس طرح بیان کیے ہیں کہ دقیق سے دقیق نکتے لطائف بن گئے ہیں۔ پڑھنے والا نہ صرف یہ کہ ان کو آسانی سے سمجھ لیتا ہے، بلکہ اس کے دل پر کیفیت طاری ہوتی ہے اور وہ سرتا پا اثر میں ڈوب جاتا ہے۔

﴿۳﴾ اخلاق کی تعلیم اختلاف طبائع کے لحاظ سے دی ہے۔

﴿۴﴾ معاشرت واخلاق کی بنیاد اگرچہ مذہب پررکھی ہے، لیکن اس نکتہ کو ہر جگہ ملحوظ رکھا ہے کہ شارع کے کون سے افعال رسالت کی حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں اور کون سے معاشرت وعادت کی حیثیت سے۔

﴿۵﴾ محاسن اخلاق بیان کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ اخلاق کا پلّہ رہبانیت ، افسردہ دلی اور پست ہمتی کی طرف جھکنے نہ پائے۔‘‘﴿الغزالی، ص:۶۰-۶۶ بہ تلخیص﴾

امام غزالیؒ  نے فلسفۂ اخلاق پر جو کچھ بحث کی ہے وہ کسی حد تک حکمائے یونان سے ماخوذ ہے، لیکن ساتھ ہی انھوں نے اس پر خاطر خواہ اضافہ بھی کیا ہے۔ ان کے بیان کردہ فلسفۂ اخلاق کے ابتدائی اصول ابن مسکویہ کی کتاب تہذیب الاخلاق سے مستفاد ہیں، جو اصلاً حکمائے یونان کے فلسفۂ اخلاق کا خلاصہ ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے ابن مسکویہ کے مثل اخلاق کی قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’خلق کے بنیادی ارکان چار ہیں: علم، غضب، شہوت اور عقل ۔ان ہی قوتوں کے اعتدال کا نام حسن خلق ہے۔ علم کی قوت کے اعتدال کا نام حکمت ہے۔ غضب کی قوت اگر افراط وتفریط سے پاک ہو تو اس کو شجاعت کہتے ہیں۔ قوت کے مختلف مظاہر ہیں۔ ہر مظہر کا نام جدا ہے۔ مثلاً خود داری، دلیری، آزادی، علم ،استقلال، ثبات، وقار۔ یہ قوت جب افراط کی طرف مائل ہوتی ہے تو تہوّر بن جاتی ہے اور اس سے غرور، نخوت، خود پرستی، خود بینی وغیرہ پیدا ہوتی ہے اور تفریط کی طرف جھکتی ہے تو ذلت پسندی، کم حوصلگی ، بے طاقتی اور دنائ ت کے قلب میں ظاہر ہوتی ہے۔ شہوت کی قوت میں جب اعتدال ہوتا ہے تو اسے عفت کہتے ہیں۔ یہی صفت مختلف سانچوں میں ڈھل کر مختلف ناموں سے پکاری جاتی ہے، مثلاً جود، حیا، صبر، درگزر، قناعت، پرہیزگاری، لطیف مزاجی، خوش طبعی، بے طمعی وغیرہ۔ جب افراط وتفریط کی طرف مائل ہوتی ہے تو حرص، طمع، بے شرمی، فضول خرچی، ریا، اوباشی، رندی، تملق، حسد، رشک وغیرہ جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ عقل کی قوت معتدل رہتی ہے تو حسن تدبیر، جودتِ ذہن اور اصابت رائے پیدا کرتی ہے۔ جب اس میں افراط آتا ہے تو مکر، فریب، حیلہ سازی، عیاری کی صفات پیداہوتی ہیں اور تفریط ہوتی ہے تو حماقت، سادہ پن، نافہمی، عاقبت نااندیشی جیسے اوصاف رونما ہوتے ہیں۔‘‘﴿احیاء العلوم ۳/۳۹،۴۰﴾

فلاسفہ کے درمیان ایک مسئلہ یہ زیر بحث رہا ہے کہ اخلاق میں اصلاح وفساد کی قابلیت ہے یا نہیں؟ بہ الفاظ دیگر انسان بالطبع شریر پیدا ہوتا ہے یا شریف؟ اس سلسلے میں امام غزالی نے ارسطو کی رائے اختیار کی ہے کہ بداخلاقی یا خوش اخلاقی کوئی چیز انسان کی طبعی اور جبلّی نہیں، جو کچھ ہے تعلیم وتربیت کا اثر ہے۔ چوںکہ تربیت کی بنیاد بچپن میں پڑتی ہے اس لیے انھوں نے بچوں کی اخلاقی تربیت کے موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ حصہ بھی ابن مسکویہ کی کتاب تہذیب الاخلاق سے ماخوذ ہے۔

ان موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے امام غزالی نے جابہ جا اضافے کیے ہیں اور قیمتی معلومات پیش کی ہیں۔ مثال کے طور پر ابن مسکویہ نے اخلاقی امراض کی آٹھ قسمیں بیان کی ہیں: تہوّر،جبن، حرص، جمود، سفاہت، بلاہت، جوراور ذلت۔ ان میں سے صرف اوّل الذکر دو امراض کے علاج کے طریقے بتائے ہیں، بقیہ سے تعرض نہیںکیا ہے، جب کہ امام غزالی نے تمام اخلاقی امراض کا استقصاء کیا ہے اور ایک ایک مرض کی حقیقت وماہیت، تشخیص اور علاج کے طریقے تفصیل سے تحریر کیے ہیں۔انہوں نے حسد، جاہ پرستی، ریا، عُجب، غرور، غضب، بخل، غیبت، کذب، فضول گوئی، چغل خوری، مزاح وغیرہ میں سے ایک ایک کا مستقل عنوان قائم کیا ہے اور اس پر فلسفیانہ انداز سے بحث کی ہے۔ احیاء العلوم کا ایک اہم باب ذم الغرور کے عنوان سے ہے۔ اس میں انھوں نے علماء  زہاد، حجّاج، اصحاب مال اور دیگر طبقات کی اخلاقی خرابیوں پر تفصیل سے لکھاہے۔ بعض اخلاقی اوصاف میں بڑا دقیق اورنازک فرق ہوتا ہے، کہ ان میں امتیاز کرنا دشوار ہوتا ہے، مثلاً بخل اور کفایت شعاری، سخاوت اور اسراف ، پست ہمتی اور قناعت، دنائت اور تواضع، غرور اور خود داری۔ امام غزالی نے نہایت نکتہ سبخی سے ان کا تجزیہ کیا ہے اور ان کے درمیان فرق کی وضاحت کی ہے۔ اخلاقی امراض کی تشخیص کے بعد دوسرا مرحلہ ان کے علاج کا ہے۔ حکمائے یونان نے اس کے دو طریقے قرار دیے تھے۔ ایک علاج بالضد کا طریقہ ہے، یعنی جس وصف کا مرض ہواس کے برعکس وصف سے اس کا علاج کیا جائے۔مثلاً کوئی شخص بخل میں مبتلا ہو تو اسے بہ تکلف سخاوت کا عادی بنایا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تمام امراض کی بنیاد دو چیزیں ہیں: غضب اور جبن۔ اس لیے کوئی بھی اخلاقی مرض ہو، پہلے غضب اور جبن کا علاج کرنا چاہئے۔ امام غزالی علاج کے پہلے طریقے کے معاملے میں حکمائے یونان سے متفق ہیں۔ اس لیے اس موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال کرتے ہیں، لیکن دوسری رائے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ہر مرض کے اسباب جدا ہیں،چنانچہ وہ ہر مرض کے ذیل میں بڑی باریکی کے ساتھ اس کے مخصوص اسباب بیان کرتے ہیں، پھر اس کا علاج بتاتے ہیں۔ غیبت ، غیظ وغضب اور حسد وغیرہ پر انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ اس لائق ہے کہ اسے بار بار پڑھاجائے۔

فلسفۂ اخلاق کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اخلاق کی غرض و غایت کیا ہے؟ اچھائی کیوںاختیار کی جائے اور برائی سے کیوں بچا جائے؟ عموماً اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس کامقصد لذائذ جنت کا حصول اور شدائد جہنم سے نجات ہے۔ امام غزالی کو اس سے اتفاق نہیںہے۔ ان کے نزدیک جنت کا حصول اور جہنم سے نجات بلاشبہ تقویٰ کا لازمی نتیجہ ہے، لیکن یہ مقصود نہیں ۔ مقصود اصلی رضائے الٰہی کا حصول ہے۔

موجودہ دور میں اخلاقی زوال اپنی انتہا کو پہنچ گیاہے۔ کسی بھی معاملے میں اخلاق کی پابندی نہیں کی جاتی۔ یہ ملک کے تمام طبقات کا حال ہے اور افرادِ امتِ مسلمہ کا بھی کوئی استثناء نہیں ہے۔ مال دار ہوں یاغریب، تجارت پیشہ ہوں یا مزدور، سیاست داں ہوں یا عوام، روایتی علماء  ہوں یا دانش ور سب اس کا شکار ہیں۔ ایسے میں شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ امام غزالی کے ان افکار کو عام کیا جائے اور انھوں نے اخلاق کی درستی کی جو تدابیر بتائی ہیں ،ان کو روبہ عمل لایا جائے۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2012

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223