رسول کا اندازِ تعلیم وتربیت

اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر بے شمار احسانات ہیں۔ اس نے اس ارضی کائنات میں ایک آبرومندانہ زندگی گزارنے کے لیے انسانوں کو لاتعداد نعمتیں عطا کیں۔ تاکہ وہ اس عارضی و فانی دنیا میں امن وسکون سے زندگی گزارسکیں۔لیکن انسان اس کی رنگ رلیوں میں غرق ہوکر ہمیشہ اپنے پیدا کرنے والے کو بھولتارہا۔ ایسے عالم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ایک عظیم احسان یہ بھی کیاکہ ان کو گمراہی سے بچانے کے لیے کتاب اور صحیفے نازل کرتارہا اور درس وتدریس کے ذریعے ان کو سمجھانے کے لیے رسول بھی بھیجتارہا تاکہ لوگ اپنا فراموش کردہ حقیقی سبق یاد کرسکیں، ہدایت یافتہ ہوسکیں اور ظلمت سے روشنی کی طرف آسکیں۔ اس سچائی کی روشنی میں یہ بات برملاکہی جاسکتی ہے کہ آسمانی کتابیںنصابِ الٰہی اور ان کی تعلیم دینے والے انبیا و رسل معلمین ہیں۔ جب دنیا سچائی اور صداقت سے مسلسل روگردانی کرتی رہی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل کی دُنیوی واخروی فلاح و سعادت کے لیے حق تعالیٰ سے تعمیرِ کعبہ کے وقت یہ دعا مانگی :

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ اِنَّکَ أَنتَ العَزِیْزُ الحَکِیْمُ ﴿البقرہ:۱۲۹﴾

اے ہمارے پروردگار! ﴿اپنے فضل وکرم سے﴾ ایسا کردے کہ اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول پیدا ہو جو انھی میں سے ہو۔ وہ تیری آیتیں لوگوں کو پڑھ کر سنائے۔ کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔ اور ﴿اپنی پیغمبرانہ زینت سے﴾ ان کے دلوں کو مانجھ دے۔ اے پروردگار! بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو حکمت والی اور سب پر غالب ہے۔

حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس دعا کاجواب حق تعالیٰ کی طرف سے یہ ملاکہ آپ کی دعا قبول کرلی گئی اور یہ رسول آخری زمانے میں بھیجے جائیں گے۔ اس دعا کے تقریباً ڈھائی ہزار سال بعد اس کائنات میں آپﷺمبعوث ہوئے۔ قرآن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کاتذکرہ کرتے ہوئے دوجگہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۶۴ اور سورہ جمعہ کی آیت نمبر ۲ میں انھی الفاظ کااعادہ کیاگیا ہے ، جو الفاظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں موجود ہیں۔ یہ اس حقیقت کی شہادت دیتے ہیں کہ آپﷺکی بعثت میں دعائے ابراہیمی شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی کہاکرتے تھے کہ ’انا دعوۃ ابراھیم‘ ﴿میں ابراہیم کی دعا ہوں﴾ سورہ ٔ آل عمران کی مذکورہ آیت میں ارشاد ہوتاہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ اٰ یَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِیْنٍ ﴿آل عمران:۱۶۴﴾

بلاشبہ یہ اللہ کا مومنوں پر بڑا ہی احسان تھا کہ اس نے ایک رسول ان میں بھیج دیا جو انھی میں سے ہے۔ وہ اللہ کی آیتیں سناتاہے۔ ہر طرح کی برائیوں سے پاک کرتاہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ﴿اس نے ہدایت کی راہ ان پر کھول دی﴾ حالاں کہ اس سے پہلے وہ گم رہی میں مبتلاتھے۔

اس حقیقت کو اس طرح منکشف کیاگیاہے:

ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ اٰیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ ﴿الجمعہ:۲﴾

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کی افادیت و اہمیت کو واضح کرتے ہوئے تقریباً یہی الفاظ دہرائے گئے ہیں:

کَمَآ أَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُولاً مِّنکُمْ یَتْلُو عَلَیْْکُمْ اٰیَاتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُواْ تَعْلَمُونَ ﴿البقرہ:۱۵۱﴾

یہ اس طرح کی بات ہوئی جیسے یہ کہ ہم نے تم میں سے ایک شخص کو اپنی رسالت کے لیے چن لیا۔ وہ ہماری آیتیں تمھیں سناتاہے ﴿اپنی پیغمبرانہ تربیت﴾ سے تمھارے دلوں کو صاف کرتا ہے، کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور وہ باتیں سکھلاتاہے جن سے تم یکسر ناآشنا تھے۔

ان آیاتِ بینات سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اندازِ تعلیم و تربیت صاف ظاہر ہے۔ آپﷺامت کے سامنے کلامِ الٰہی کی تلاوت فرماتے، اس کی شرح و ترجمانی فرماتے، امت کو حکمت و دانائی سے تلقین کرتے، احکام ومسائل اور آداب و اخلاق سکھاتے، ظاہری نجاستوں سے پاک کرتے اور باطن کو کفروشرک ، فاسد اعتقادات، تکبر وحسد بغض اور حب دنیا وغیرہ سے منزہ و مصفّا کرتے۔ گویا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت معلم اعظم کی بھی تھی اور مصلح اعظم کی بھی۔ اس سچائی کو آپﷺنے مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں خود بیان کیاہے : ’مجھے معلم بناکر بھیجاگیاہے۔‘ موطا امام مالک کی ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:’مجھے اس لیے بھیجاگیاہے تاکہ اخلاقی اچھائیوں کو تمام و کمال تک پہنچاؤں۔‘ آپﷺکی تعلیم و تربیت وحی الٰہی کے عین مطابق اور حکم الٰہی کے دائرے میں تھی۔ توحید، رسالت، آخرت، خلافتِ ارض، اخوت ومساوات، وحدتِ بنی آدم، آزادی، عقیدہ اور کائنات پر غورو فکر اس کے موضوعات تھے۔ آپﷺپوری ذمّے داری ، لگن، محنت اور انہماک کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام دیتے۔ آپﷺکی سیرت گواہ ہے کہ اپنے حقیقی مشن کی تکمیل کے لیے آپﷺنے ایک لمحہ بھی ضائع نہیںکیا اور تعلیم وتربیت کے انتہائی پتاماری کے اس فرض کو بہ خوبی انجام دیتے رہے۔حالاں کہ اس راہ میں آپﷺکو شدیدترین مشکلات ومصائب کا سامنا کرنا۔ اس کام میں آپﷺکے استغراق و انہماک کایہ عالم تھا کہ اللہ تعالیٰ آپﷺکی اس حالت کو دیکھ کر خود ارشاد فرماتاہے : لعلک باخغ نفسک ’شاید آپ اپنے کو ان کے پیچھے ہلاک کردیںگے۔‘ اس سلسلے کی مشہور کتابِ ’فن تعلیم وتربیت‘ کے مصنف جناب افضل حسین کے مطابق آپﷺکا طریقۂ تعلیم وتربیت، گفتگو، سوال جواب، اطلاعات اور خطابت پر مشتمل تھا جس کو موجودہ اصولِ تعلیم کی انگریزی اصطلاح میں اس طرح مماثلت دی جاسکتی ہے:

۱- Conversational Method            ﴿بات چیت کاطریقہ﴾

۲-  Question Anser Method           ﴿سوال وجواب کاطریقہ﴾

۳-  Narrativ Descriptive Method              ﴿اخباری یااطلاعی طریقہ﴾

۴- Lecture Method                        ﴿خطابت کاطریقہ﴾

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کے ان طریقوںسے سیرت اور احادیث کی تمام کتابیں آراستہ ہیں۔ آپﷺاپنے متعلمین کو جو کچھ بتاناچاہتے تھے اس کا بنیادی مقصد آپﷺکے دل و دماغ میں متعین تھا۔ آپﷺکسی بھی حالت میں ہوتے، جلوت میں، خلوت میں،گھر میں، مسجد میں یا میدانِ جنگ میں ، تعلیم و تربیت کے فطری مواقع ہاتھ آتے ہی ان سے پورا فائدہ اٹھاتے تھے اور باتوں باتوں میں ضروری معلومات بہم پہنچادیاکرتے تھے۔ حضرت ابوذرغفاریؓ کابیان ہے کہ میں ایک روز ایک مسلمان کے پاس بیٹھاہواتھا۔ ان کا رنگ کالاتھا اس لیے میں نے انھیں یا ابن السودا ﴿اے کالے رنگ والے﴾ کہہ کر خطاب کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو سخت ناگواری کااظہار کیا اور فرمایا:طف الصاع، طف الصاع ’پیمانہ پورا بھر، پیمانہ پورا بھر‘ یعنی سب کو ایک ہی پیمانے سے دے۔ ایسا نہ کرو کہ کسی کو اچھے الفاظ سے خطاب کرو اور کسی کو بُرے الفاظ سے۔ انسان کے ساتھ امتیاز نہ کرو۔ اس کے بعد آپﷺنے فرمایا: لیس لابن البیضاء  علی ابن السوداء  فضل ’ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔

فتح مکہ کے موقعے پر آپﷺنے حضرت بلال حبشیؓ کو اذان کاحکم دیاتو قریش مکہ میں سے ایک نے کہا:اللہ کاشکر ہے میرے والد یہ روزِبددیکھنے سے پہلے وفات پاگئے۔ حارث بن ہشام نے کہاکہ کیا محمد ﷺ کواس کالے کے سوا کوئی آدمی نہ ملا۔ اس گفتگو کی آپﷺکو خبر ہوئی تو طواف سے فارغ ہوکر آپﷺنے خطبہ دیا۔ جس میں یہ بھی فرمایا: یامعشرقریش ان اللّٰہ قداذہب عنکم نخوۃ الجاھلیہ وتعظمھا بالاباء ۔ الناس من اٰدم من تراب ’اے قوم قریش! اب جاہلیت کاغرور اور نسب کاافتخار خدا نے مٹادیا۔ تمام لوگ آدم کی نسل سے ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔

ایک روزآپﷺنے ایک مالدار مسلمان کو دیکھاکہ وہ اپنے پاس بیٹھے ایک غریب مسلمان سے بچنے کی کوشش کررہاہے اور اپنے کپڑے سمیٹ رہاہے۔ آپﷺنے فرمایاکہ اخشیت ان یعدوا الیک فقرہ ’کیا یہ ڈر ہے کہ اس کی غریبی تم کو لپٹ جائے گی؟‘ ایک یہودی نے اپنے قرض کامطالبہ آپﷺکے کندھے کی چادر اتارکر اور کرتا پکڑکر قبل از وقت سختی سے کیا۔ اس وقت حضرت عمر فاروقؓ آپﷺکے ساتھ تھے۔ اس بدتمیزی پر انھیں غصہ آگیا۔ انھوںنے یہودی کو ڈانٹا۔ قریب تھا کہ اسے مارتے۔ آپﷺنے انھیں مسکراتے ہوئے روکا اور فرمایا: عمر! میں اور یہ یہودی تم سے ایک اور برتاؤ کے زیادہ ضرورت مند تھے۔ مجھ سے تم بہتر ادائی کے لیے کہتے اور اس سے بہتر تقاضے کے لیے۔ پھر فرمایاکہ جاؤ فلاں شخص سے کھجوریں لے کر اس کا قرض ادا کردو اور بیس صاع زیادہ دینا کیوں کہ تم نے اس کو ڈانٹا ہے۔

کسی بیمارکی تیمارداری کو جاتے تو ناامیدی سے دور رہنے کی ترغیب دیتے اور فرماتے: تدارو عباداللّٰہ فان اللّٰہ لم یضع داء  الاوضع لہ دواء  غیرداء  واحدالالہرم ’اے اللہ کے بندو علاج کرو کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کے علاوہ ہرمرض کی دوا پیدا فرمائی ہے۔

نبی کریم ﷺاکثر کوئی سوال کرکے پہلے اپنے متعلمین کو اپنی طرف متوجہ کرتے اور ان کے تجسس کو ابھارتے پھر ان کے سامنے اپنی بات پیش کرتے۔ کبھی کچھ کہناہوتا تو اسے سوالات کی شکل میں رکھتے اور پھر صحیح جواب ارشاد فرماتے اور دوسروں کو بھی آزادی سے پوچھنے کا موقع دیتے ۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جوان کے پاس اس وقت کے آخری وقت میں جب کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہورہاتھا، تشریف لے گئے۔ آپ ﷺنے اس سے دریافت فرمایا: اس وقت تم اپنے کو کس حال میں پاتے ہو؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میرا حال یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید بھی رکھتاہوں اور اسی کے ساتھ مجھے اپنے گناہوں کی سزا اور عذاب کاڈر بھی ہے۔ آپﷺنے ارشاد فرمایا: یقین کرو جس کے دل میں امید اور خوف کی یہ دونوں کیفیتیں ایسے عالم میں ﴿ موت کے وقت میں﴾ جمع ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ ضرور عطا فرمائیں گے جس کی اس کی اللہ کی رحمت سے امید ہے اور اس عذاب سے ضرور محفوظ رکھیں گے جس کااس کے دل میں خوف ہے۔﴿جامع ترمذی﴾

صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر بکری کے ایک بوچے مردہ پرہوا راستے میں مراپڑاتھا۔ اس وقت آپﷺکے ساتھ جو لوگ تھے ان سے آپﷺنے فرمایا: تم میں سے کوئی اس مرے ہوئے بچے کو صرف ایک درہم میں خریدنا پسند کرے گا؟ عرض کیا: ہم تو اس کو کسی قیمت پر بھی خریدنا پسند نہیں کریںگے۔ آپﷺنے فرمایا:قسم ہے خدا کی کہ دنیا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ ذلیل اور بے قیمت ہے جتنا ذلیل اور بے قیمت تمہارے نزدیک یہ مرا بچہ ہے۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی سلسلے میں کچھ معلومات دیناہوتا تو اطلاعی اندازِ بیان اختیارکرتے۔ اس سلسلے میں اختصار کو ملحوظ رکھتے۔ اس کو واضح کرنے کے لیے برمحل تشبیہات وتمثیلات سے بھی کام لیتے اور اس کی ایسی موثر لفظی تصویر کھینچتے کہ حقائق آنکھوں کے سامنے آجاتے۔ مثلاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں: دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں بس ایسی ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی دریا میں ڈال کر نکال لے اور پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس میں لگ کر آئی ہے۔ ﴿واللّٰہ مالدنیا فی الآخرہ الامثل مایجعل احدکم اصبعہ‘، فی الیم فلینظر بم یرجع ﴿مسلم﴾ جو شخص دنیا دار ہوتاہے وہ گناہوں سے نہیں بچ سکتا۔ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے فرماتے ہیں: کیا کوئی شخص ایساہے کہ پانی پر چلے اور اس کے پاؤں نہ بھیگیں؟ عرض کیاگیا: حضرت ﷺایسا نہیں ہوسکتا۔ آپﷺنے فرمایا: اسی طرح دنیا دار گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ﴿صاحب الدنیا لایسلم من الذنوب۔ البیہقی فی شعب الایمان﴾

مکان کو صاف ستھرا رکھنے کے سلسلے میں فرمایا: اپنے مکان کو صاف ستھرا رکھو اور یہودیوں کی طرح نہ ہوجاؤ نظفوا افنیتکم ولاتشبہوبالیہود ﴿بخاری﴾جسم کی طہارت صحت وتندرستی کی ضامن ہے۔ اس کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: تمھارے جسم کا بھی تمھارے اوپر حق ہے ان لجسد علیک حقا﴿مسلم﴾ اسی طرح طبی تعلیم کے حصول کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ان اللہ عزوجل لم ینزل داء  الاانزل شفاء  علمہ وجہلہ من جہلہ ’اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری پیدا نہیں کی جس کاعلاج ممکن نہ ہو۔ البتہ اس کو کچھ لوگوں نے سیکھا اور کچھ لوگوں نے نہیں سیکھا۔‘﴿ابن ماجہ ونساء ی﴾

آپ کا اندازبیان عموماً خطیبانہ ، جوشیلا اور موثر ہوتا۔ آپ اجتماعی تعلیم و تربیت کے وقت اسی طریقے سے کام لیتے۔ جب آپ خطبہ دیتے تو مجلس میں سناٹاچھاجاتا۔ یہاں صرف ایک خطبے کاذکر کیاجاتاہے، جسے آپ نے فتح مکہ کے بعد غنائم کی تقسیم کے موقعے پر انصار کے نوجوانوں کے رنج و غم کی خبر سن کر تمام انصاری کو ایک چرمی خیمے میں جمع کرکے دیاتھا۔ یہ خطبہ بے انتہاجوشیلا، موثر اور فصاحت و بلاغت میں بے نظیر ہے۔ آپ نے فرمایا: ’اے گروہ انصار! کیا یہ سچ نہیں کہ پہلے تم گمراہ تھے، خدا نے میرے ذریعے تم کو ہدایت دی، تم منتشر تھے، خدا نے میرے ذریعے تم میں اتفاق پیداکیا۔ تم مفلس تھے، خدانے میرے ذریعے تم کو دولت مند کیا۔‘

آپﷺکے ہر فقرے پر انصار کہتے جاتے تھے کہ خدا اور رسول کااحسان سب سے بڑھ کر ہے۔ آپﷺنے فرمایا۔ نہیں تم یہ جواب دو کہ اے محمدﷺتجھ کوجب لوگوںنے جھٹلایاتو ہم نے تیری تصدیق کی۔ تجھ کو جب لوگوں نے چھوڑدیاتو ہم نے پناہ دی۔ تو مفلس آیاتھا، ہم نے ہر طرح سے مدد کی، یہ کہہ کر آپﷺنے فرمایا: ’تم یہ جواب دیتے جاؤ اور میں یہ کہاجاؤںگاکہ تم سچ کہتے ہو، لیکن اے انصارکیا تم کو یہ پسند نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں اور تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے گھر جاؤ۔‘‘ اس خطبے کو سن کر انصار بے اختیار چیخ اٹھے کہ ہم کو صرف محمدﷺدرکار ہیں۔ اکثروں کا یہ حال تھا کہ روتے روتے داڑھیاں ترہوگئیں۔

تعلیم وتربیت کے عمل میںمعلم کی شخصیت اور اس کی سیرت اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ متعلم شعوری یاغیرشعوری طورپر معلم سے متاثر ہوتاہے اور یہ تاثر اس قدر گہراہوتاہے کہ اسے متعلم کی زندگی بھر محسوس کیاجاسکتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و شخصیت جامع واکمل تھی۔ وہ تمام اخلاقی خوبیوں اور اچھائیوں کامجموعہ تھی۔ آپﷺکی شخصیت اس قدر دلکش اور محبوب تھی کہ آپﷺکو جو بھی دیکھتافوراً متاثر ہوجاتا۔ آپ کے شخصی رعب کایہ حال تھا کہ حضرت علیؓ کے قول کے مطابق جو آپﷺکو دیکھتا مرعوب ہوجاتا، جو آپﷺکے ساتھ بیٹھتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا۔ حضرت جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سرخ چادر اوڑھ کر چاندنی رات میں سورہے تھے۔ میں کبھی چاند کو دیکھتا اورکبھی آپﷺکو۔ بالآخر میں نے یہی فیصلہ کیاکہ آپﷺچاند سے زیادہ خوشنما ہیں۔

آپﷺبے انتہا نرم و شیریں گفتار تھے۔ آواز نہ بہت بلند تھی نہ پست بلکہ متوازی تھی جو کانوں کو بہت خوشگوار لگتی تھی، اس میں فطری بے ساختہ پن تھا، تکلف وتصنع بالکل نہیں تھا۔ آپﷺآواز میں حسبِ ضرورت اتارچڑھاؤ بھی لاتے تھے، بولتے وقت جملے بالکل صاف اور واضح ادا کرتے تھے، مخارج و تلفظ کی ادائی کابہت خیال رکھتے تھے۔ اس میں وضاحت وبلاغت کابہت خیال رکھتے تھے۔ کوئی بھی بات اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ فرماتے تھے۔ مثلاً یہ چند حدیثیں دیکھیے جو اپنے مفہوم کے اعتبار سے ضرب المثل کی حیثیت اختیارکرچکی ہیں:

الحیاء  من الایمان ﴿متفق علیہ﴾

حیا ایمان کاجز ہے۔

کلمۃ الحکمہ ضالۃ المومن ﴿ابن ماجہ﴾

دانائی کی بات مومن کاگم شدہ مال ہے۔

ان من الشعر حکمہ ومن البیان سحراً﴿بخاری﴾

بعض شعر حکمت ہوتے ہیں اور بعض باتیں جادو

لایلدغ المومن من جحر مرتین ﴿متفق علیہ﴾

مومن ایک ہی سوراخ سے دوبار نہیں کاٹا﴿ڈسا﴾جاتا۔

خیر کم خیرکم لاہلہٰ﴿ترمذی﴾

تم سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر سلوک کرتاہے۔

انماالاعمال بالنیات﴿متفق علیہ﴾

اعمال نیتوں کے ساتھ ہوتے ہیں

لکل امری مانویٰ﴿متفق علیہ﴾

﴿ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق پھل ملتاہے

یہ اور اس قسم کی سیکڑوں حدیثیں آپﷺکی فصاحت و بلاغت اور اختصار گوئی کا درخشاں نمونہ ہیں۔ آپﷺکی حیرت انگیز کامیابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات میں سچائی، معاملہ فہمی، حسنِ سلوک، جذبۂ قربانی، صبر، شکر، عفو ودرگزر، قناعت، توکل اور تحمل حددرجہ پایاجاتاتھا۔ آپﷺکی شخصیت ذکاوتِ احساس، قوتِ برداشت، قوتِ فیصلہ اور قوتِ عمل سے مزین تھی۔ آپﷺکے قول وفعل میں تضاد نہیں تھا۔ آپ حکمِ الٰہی کے مطابق جن باتوں کی تعلیم وحیِ الٰہی کی روشنی میں دیتے تھے ان پرخود سختی سے عمل کرتے تھے۔ مولاناابوالکلام آزاد اپنی کتاب تذکرہ میں لکھتے ہیں:

’دراصل قرآن اور حیاتِ نبوت معناً ایک ہی ہیں۔ قرآن متن ہے اور سیرت اس کی شرح۔ قرآن صفحات وقراطیس مابین الدفتین میں ہے اور یہ ایک مجسم و ممثل قرآن تھا جو یثرب کی سرزمین پر چلتاپھرتانظرآتاتھا۔‘    ﴿مطبوعہ ساہتیہ اکادمی، ص:۱۹۷﴾

آپ ﷺنے خوشی کی راہ کو چھوڑکر غم کی راہ اختیار کی تھی حالاں کہ آرام کی زندگی گزارنے کے امکانات آپﷺکے لیے پوری طرح کھلے ہوئے تھے۔ آپﷺاس قدر عبادت کرتے کہ پاے مبارک پرورم آجاتے، پڑوسیوں کاحددرجہ خیال رکھتے اور ان کی خبرگیری کرتے۔ اپنے بدترین دشمنوں کو معاف کرتے، محتاجوں، مسکینوںاور ضرورت مندوں کی مدد فرماتے۔ خداکی ہیبت سے عجز وبندگی کی تصویر بنے رہتے۔ کم بولتے، ادب کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے، بچوں کو پیارکرتے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ امتیاز نہ کرتے۔ ایک دن سفر میں تھے کہ اپنے ساتھیوں کو ایک بکری تیارکرنے کاحکم دیا۔ ایک شخص نے کہا: میں اس کو ذبح کروںگا، دوسرے نے کہا: میں اس کی کھال اتاروں گا، تیسرے نے کہا: میںاس کو پکاؤںگا۔ آپﷺنے فرمایا: میں لکڑی جمع کروںگا۔ لوگوں نے کہاکہ اے خدا کے رسول! ہم سب کام کرلیںگے۔ آپﷺنے فرمایا: میں جانتاہوں کہ تم لوگ کرلوگے مگر میں امتیاز کو پسند نہیںکرتا۔ اللہ کو یہ پسند نہیں کہ اس کاکوئی بندہ اپنے ساتھیوں کے درمیان امتیاز کے ساتھ رہے۔

یہ اور اس قسم کے بے شمار واقعات سیرت کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ انھی عملی واقعات اور آپ کی مشفقانہ تعلیم وتربیت نے مخاطب کے دلوں کو جیت لیا۔ آپ کے اخلاق حسنہ اور بے مثل تعلیم وتربیت کاان پر براہِ راست اثر ہوا اور تئیس ﴿۳۲﴾سال کے قلیل عرصے میں دنیا کی جاہل ترین قوم متمدن ترین اور سب سے زیادہ تہذیب یافتہ قوم بن گئی، جس نے اخلاقی، ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے ایک ایسا فکری انقلاب برپاکیا جس کی نظیر تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔ اس معلم اعظم کی معلمی کے کمالات کااعتراف کرتے ہوئے دی ہنڈریڈ (the Hundred)کامصنف ڈاکٹر مائیکل ایچ ہارٹ (Dr. Michael H. Hart)لکھتاہے کہ آپ ﷺتاریخ کے وہ تنہا شخص ہیں جو مذہبی اور دنیوی دونوں لحاظ سے بے انتہا کامیاب رہے۔

‘He was the only man in history who was supremely successful on the both the religious and secular level.’

اسی طرح آپﷺکے پیغمبرانہ مشن اور آپ کی بے مثل تعلیم و تربیت کاتجزیہ کرنے کے بعد مشہور مورخ پروفیسر فلپ کے ہٹی (PK.Hitti) حیرت کی دنیا میں ڈوب جاتاہے اور اپنی مشہور کتاب ہسٹری آف عربس (History of the arabs) میں اس سچائی کا برملااعلان کرتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسا معلوم ہواکہ عرب کی بنجر زمین جادو کے ذریعے ہیروؤں کی نرسری میں تبدیل کردی گئی ہو۔ ایسے ہیرو جن کی مثل ، تعداد یا نوعیت میں، کہیں اور پانا سخت مشکل ہے۔

‘After the death of Prophet, Sterile Arbia seems to have been converted as if by magic into a nursery of heroes the like of whom both in number and quality is hard to find any where.’

(1979-P.142)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ یہی وہ صحابہ تھے جو ہر طرف ابرِ رحمت بن کر چھاگئے اور ہر شعبۂ فکر پر حاوی ہوگئے۔ اسی فکری انقلاب سے متاثر ہوکربعد کو پیروان اسلام نے علم نبوت کی ترویج و اشاعت کے علاوہ سائنسی علوم کو بھی فروغ دیا اور ان میں نئے نئے انکشافات کیے۔ ایسے انکشافات جو جدید سائنسی علوم کی عمارت کا سنگ بنیاد بن گئے۔ یوں بقول ہنری پرین (Nenri Prenne)اسلام نے کرۂ ارضی کی صورت ہی بدل دی۔ اس نے تاریخ کے روایتی ڈھانچے کو اکھاڑ کرپھینک دیا۔

‘Islam changed the face of the globe. The tradditional order of the history was overthrown.’

کم وبیش تمام ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم کامقصد انسان کی سیرت اور اس کی زندگی کی تشکیل ہے۔ چنانچہ امریکا کے سب سے بڑے تعلیمی مفکر پروفیسر ڈیوئی (Prof. Dewey)لکھتے ہیں:

’تعلیم سے مراد تجربہ کی ازسرنو تشکیل ہے، جس میں فرد کو اپنی قوتوں پر زیادہ تسلط پانے کے قابل بناتے ہوئے اس کے تجربے میںوسعت پیدا کی جاتی ہے اور اسے سماجی لحاظ سے زیادہ مفید بنایاجاتاہے۔‘

اسی طرح پروفیسر فنڈلے (Prof. Findlay)اپنی کتاب دی اسکول (The School)میں تعلیم کی یہ تعریف کرتے ہیں:

’تعلیم ان تدابیراور وسائل کے مجموعے کا نام ہے جو نوعمروں کو تمدنی زندگی کااہل بنانے کے لیے بالارادہ کام میں لائے جاتے ہیں اور جن کے ذریعے ان کے دماغوں کو بعض خاص اثرات اور مقاصد سے متاثر کیاجاتاہے۔‘

پین اور مانٹین کے نزدیک انسان کی تکمیل، کامینیس کے نزدیک مکمل انسان کی تربیت اور فرد بل کے نزدیک کھری، پُرخلوص، بے عیب اور پاک زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا تعلیم کامقصد ہے۔ ایک اور ماہر تعلیم ایڈمسن کہتاہے کہ اس طرح سنگ مرمر کے ٹکڑوں کے لیے سنگ تراشی ہے، بالکل اسی طرح انسانی روح کے لیے تعلیم ہے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ ان تعریفوں کاحق کس معلم نے کتنا ادا کیا۔ لیکن ہم یقین کے ساتھ اعداد وشمار کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ آج سے ۰۳۴۱ برس پہلے معلمِ اعظم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کارِ معلمی میں یہ تمام تعریفیں جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ جس سال آپﷺکا یہ فرض درجۂ تکمیل کو پہنچ رہاتھا اور آپﷺحج کامقدس فریضہ اداکررہے تھے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار متعلمین آپ کے اطراف تھے۔ کیا تاریخ اس حقیقت کو رد کرسکتی ہے۔ چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل کی تقلید پیروان اسلام کے لیے ضروری ہے اس لیے امت مسلمہ کے متعلمین کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ اسی مقدس طریقۂ تعلیم و تربیت سے روشنی حاصل کرکے اپنے فرائض کو انجام دیں اور دنیوی و اخروی فلاح وسعادت حاصل کریں۔ ایسا ہی معلم، معلم خیر کے زمرے میںآتاہے اور ترمذی شریف میں محفوظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق معلم خیر کے لیے کائنات کی تمام چیزیں دعائے مغفرت کرتی ہیں:

معلم الخیر یستغفرلہ‘ کلُّ شیِٔ

آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معلمین کے لیے جو حدیثیں ارشاد فرمائی ہیں یہاں ان میں سے چند نقل کی جاتی ہیں:

من سُئِلَ عن علمِ علمہ‘ کتمہ‘ الجمہ یوم القیامۃ بلجامِ من النار ﴿ترمذی، ابو داؤد﴾

جس شخص سے علم کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جس کو وہ جانتاہے اور وہ اس کو چھپائے ﴿یعنی نہ بتائے﴾ تو قیامت کے دن اس کے منھ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔

علموولاتعنفوافان المعلم خیرمن المعنف ﴿بیہقی﴾

علم سکھاؤ اور سختی نہ کرو۔ معلم سختی کرنے والے سے بہتر ہے۔

کلموالناس علی قدرعقولہم ﴿بیہقی﴾

لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات کرو۔

یسرّوولاتعسروا وبشروا ولاتنفروا ﴿بیہقی﴾

آسانیاں بہم پہنچاؤ، شدائد میں مبتلا نہ کرو۔ خوش خبری دو،متنفرنہ کرو۔

اگر ہمارے معلمین صرف ان چاروں احادیث پر ہی عمل کرلیں تو ہمارے معاشرے کی تعلیمی پسماندگی دور ہوسکتی ہے۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau