اسلامی شریعت میں سنت نبوت کا مقام اور فقہ اسلامی پر اس کےاثرات دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دورِ صحابہ سے لے کر ائمہ مجتہدین تک کسی سے مخفی نہیں رہاہے۔ سنت نبوی ہی کے سبب فقہ اسلامی ایک ایسا عظیم قانونی سرمایہ ہوگیا ہے، جس کی مثال ماضی وحاضر میں کسی قوم کے پاس نہیں ملتی ہے۔
سنت نبویؐ کی شکل میں اس عظیم قانونی سرمایے نے دنیا بھر کے علماءِ قانون وفقہ کی نگاہوں کو خیرہ کردیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سنت مطہرہ اسلامی قوانین کے مصادر میں قرآن کریم کے بعد دوسرے درجے پر ہے اور اس کی کشادگی ووسعت کا عالم یہ ہے کہ اس نے چھوٹے سے چھوٹے جزئی اور فروعی مسائل کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ اگر کتاب اللہ شریعت اور مجموعی احکام کے قواعد عامہ پر مشتمل ہے تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قواعد کی شرح پر توجہ دی ہے اور کلی احکام سے جزئی مسائل اخذ کئے ہیں۔ اس سے کسی حال میں استغنا ممکن نہیںہے۔ یہ دراصل قول مسلم (اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّہِ) کی عملی تفسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خود سنت اور صاحب سنت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ کی تعیین کردی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
مَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی’’وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا ہے۔‘‘ (النجم ۳)
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ (الحشر:۷)
’’جوکچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جاؤ۔ اللہ سے ڈرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے بندوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے سلسلے میں رسول کی امانت داری پر زور دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ اپنی منصبی ذمہ داریوں سے سرموانحراف نہیں کرسکتا ہے۔ ارشاد ہوتاہے :
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ۴۴ۙ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِ۴۵ۙ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ۴۶ۡۖ فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِـزِيْنَ۴۷
(الحآقۃ:۴۴-۴۷)
’’اور اگر اس (بنیؐ) نے خود گھڑکر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی شہِ رگ کاٹ دیتے، پھر تم میں سے کوئی (ہمیں) اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا۔‘‘
ہم ایک ایسے زمانے میں رہ رہے ہیں جس میں عالمی نظام ہائے حیات اضطراب و بے چینی کا شکار ہیں۔ یہ اقوام عالم کے لیے امن وسلامتی اور فارغ البالی وخوش حالی فراہم کرنے سے عاجز ہیں۔ وہیں ہمارا عقیدۂ اسلامی اپنے جلو میں امن وسلامتی کا پیغام لے کر دنیا کے سامنے نمودار ہوا۔ اسلام میں ہر زمانے کے لوگوںکی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان ہے۔ اور اس کے اندر سارے انسانوں کے مسائل حل کرنے کے وسیع تر امکانات موجود ہیں۔
وہ لوگ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کو ماننے سے انکار کرتے ہیں، وہ دراصل قرآن کے منکر ہیں۔ وہ لوگ جو سنت صحیحہ کے من جانب اللہ ہونے کا اقرار نہیں کرتے ہیں، ان کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی شہادت ناقابل اعتبار ہے۔
وہ شخص جو دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن اس کے لیے کافی ہے اور وہ سنت رسول سے بے نیاز ہے، تو وہ دراصل استکبار وانحراف کے مرض میں مبتلا ہے۔ اس لیے کہ صحابۂ کرام جو زمانے کے اعتبار سے لوگوں کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ قریب تھے اور سب سے زیادہ آپؐ سے محبت کرنے والے تھے۔ وہ ہمہ آن سنت رسول کی تلاش میں رہتے تھے اور اپنی روز مرہ کی زندگی کے مسائل سنت ہی کے مطابق حل کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سے بھی سنت رسول کی اتباع کا مطالبہ کیا ہے اور اس امر پر زور دیتے ہوئے فرمایا ہے:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۳۱ (آل عمران:۳۱)
’’اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو، ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ وہ بڑا بخشنےوالا اور رحیم ہے۔‘‘ (آل عمران، ۳۱)
اس امر الٰہی کا تقاضا ہے کہ مسلمان لازمی طور پر سنت صحیحہ سے واقفیت حاصل کریں۔ اس کی تلاش وجستجو کے نتیجے میں صحیح حدیث پر عمل کرنااور غلط وبے بنیاد حدیث کو ترک کرناآسان ہوجائے گا۔
سنت رسول کی مخالفت
اسلام نے جب لوگوں کو ہدایت اور دین حق کی طرف دعوت دینے کا کام شروع کیا، اسی وقت سے دشمنانِ اسلام اس کی مخالفت پرکمربستہ ہوگئے۔ لیکن وہ اپنی تمام تر چالوں اور مکروعداوت کے باوجود مسلمانوں کو اپنے نبی کی سنت سے برگشتہ نہ کرسکے۔ کیوں کہ دین تو مذہب کے اصل نمائندے ’رسول‘ کے قول وفعل سے ہی اخذ کیا جاتا ہے۔ جب وہ مسلمانوں کو سنت رسول سے دُور کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے ایک دوسرا اسلوب اختیار کیا کہ ذخیرۂ حدیث کو مشکوک قرار دے دیا۔ حدیث کے راویوں اور ان سے نقل کرنے والوں کے خلاف فتنوں کا بازار گرم کیا اور ان کی امانت وصداقت کو ہدف طعن بنایا۔ انہوں نے اس عظیم سرمایے کو برباد کرنے کے لیے بہت سے علوم وفنون میں وسعت پیداکی، جس کاظاہری مقصد علمی تحقیق تھا اور باطنی مقصد اسے تباہ وبرباد کرناتھا۔ قدیم زمانے میں جب اسلامی تہذیب کا روشن دور تھا، اس وقت یہود اور اُن کے ہمنواؤں کی اسلام دشمنی کے پیچھے جو مقصد کار فرما تھا وہی آج کے دشمنان اسلام مستشرقین کا بھی مقصد ہے۔ وہ بھی بالعموم یہود ومسیحی ہیں یامغربی تہذیب کے فتنے کے شکار ان کے شاگرد ہیں۔ اسلام کے بنیادی مصادر کو متزلزل کرنے کی کوششوں کاایک لامتناہی سلسلہ ہے جو چودہ سوسال سےبغیر کسی انقطاع کے جاری ہے۔اور یہ سلسلہ اس وقت تک حق کے دشمن موجود ہوں گے ، جن کی آنکھوں کو اس کی چکاچوند کردینے والی روشنی بے نور کررہی ہوگی۔
مسلمانوں میں سے جو لوگ مستشرقین کے دام فریب کا شکار ہیں اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پیہم حملے کررہے ہیں۔ وہ درج اسباب میں سے ضرور کسی ایک سبب سے مستشرقین کے پھندے میں پھنسے ہیں۔
(۱) تراث اسلامی کے حقائق سے ان کی عدم واقفیت اور اس کے چشمٔ صافی سے ان کی بے خبری۔ (اور یہ اس تعلیمی نصاب کی دین ہے، جس نے نوجوان نسل کو ان مصادر ومراجع سے دُور کردیا۔)
(۲) نام نہاد سائنٹفک اُسلوب سے ان کی فریب خوردگی، جس کادعویٰ دشمنان اسلام کرتے ہیں۔
(۳) فکری آزادی کامظاہرہ اور شہرت حاصل کرنے کی رغبت۔
(۴) شہوت پرستی اور بے راہ روی کا شکار ہونا، جس کی تعبیر مستشرقین کی آڑلئے بغیر ممکن ہی نہیں۔ علاوہ ازیں تحریک ’’تشیع‘‘ جو بذات خود ایک باقاعدہ فکری مدرسہ ہے۔ یہ علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان فتنے کے قیام کے وقت سے موجود ہے۔ تحریک تشیع ہی کے نتیجے میں ان کے اندر سے ایک غالی فرقہ رونما ہوا، جن سے خلیفۂ رابع حضرت علی رضی اللہ عنہ ہوشیار رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’مجھ سے غلو کی حد تک محبت کرنے والی اور کینہ پرور نفرت کرنے والے ہلاک ہوجائیں۔‘‘ ان لوگوں نے بیشتر احادیث نبویؐ کی صحت کے متعلق فتنہ برپاکیا،اور آل بیت سے محبت کے پردے میں چپکے سے ذخیرۂ احادیث میں اقوال کاایک بڑا مجموعہ داخل کردیا۔ اور انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض اہل بیت سے منسوب کردیا۔ ان لوگوں نے بعض ایسے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے یہ خدمت انجام دی، جس کے ذکر کا یہاں موقع نہیں ہے۔ اس چیز نے اہل سنت والجماعت کے اندر مزید بیداری پیدا کردی۔ ان لوگوں نےسارے وسائل اختیار کرکے سنت نبویؐ اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صیانت وحفاظت کی گراں قدر خدمت انجام دی۔ اس کام کو ان لوگوں نے خالص علمی اسلوب میں بڑے شاندار طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ان لوگوں نے تدوینِ احادیث کے سلسلے میں جس طرح کے ضبط واحتیاط اور باریک بینی کااہتمام کیا۔ اس کی نظیر ہمیں دنیا کے دوسرے علوم ومعارف کی تدوین کے تعلق سے کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ ہم ان شاء اللہ اس بحث کے خاتمے میں کچھ نمونے آپ کے سامنے پیش کریں گے۔
وضع حدیث اور اس کے اسباب
خلافت عثمان وعلی رضی اللہ عنہما کے دور میں جو سیاسی اختلافات رونما ہوئے، انہوں نے سارے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ دراصل یہی اختلافات براہ راست وضع حدیث کاسبب بنے۔ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ جن لوگوں نے سب سے پہلے وضع حدیث کی جرأت کی وہ غالی ہیں۔ اور اس کام کاآغاز سرزمین عراق سے ہوا۔ ائمہ حدیث نے اس جانب اشارہ کیا ہے۔ امام زہریؒ کہتے ہیں: ’’یَخْرُجُ الْحَدِیْثُ مِنْ عِنْدِنَا شِبْرًا فَیَرْجِعُ اِلَیْنَا ذِرَاعًا‘‘ (ہمارے پاس سے حدیث نکلتی ہے اس حال میں کہ بالشت بھر ہوتی ہے اور جب ہمارے پاس لوٹتی ہے تو ایک ہاتھ ہوچکی ہوتی ہے۔) امام مالکؒ عراق کو ’’حدیث کا ٹکسال‘‘ کہتے تھے، یعنی عراق میں احادیث ڈھالی جاتی تھیں اور وہاں سے لوگوں کے پاس منتقل ہوتی تھیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے کھوٹے سکےڈھالے جاتے ہیں اور لین دین کے لیے لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ گرچہ وضع حدیث کابنیادی اور براہِ راست سبب سیاسی اختلافات ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیںکہ اس کے بعد کچھ دوسرے اسباب بھی رُونما ہوئے۔ اور احادیث موضوعہ کا دائرہ وسیع کرنے میں ان اسباب کا بڑادخل ہے۔ ہم ذیل میں ان اسباب کا ذکر کریں گے جن کے نتیجے میں وضع حدیث کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں حتی المقدور ایجازواختصار سے کام لیا ہے۔
(۱) سیاسی اختلافات
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑنے میں کم وبیش سارے ہی سیاسی فرقوں نے حصہ لیا۔ ان فرقوں میں رافضہ (شیعوں کاایک غالی فرقہ) کو جھوٹ گھڑنے میں یدِطولیٰ حاصل تھا۔ امام مالکؒ سے رافضہ کے بارے میں دریافت کیاگیا تو انہوں نے کہا: ’’ان سے بات نہ کرو اور نہ ان سے روایت کرو، اس لیے کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں۔‘‘ اور قاضی شریک بن عبداللہ جو اعتدال پسند شیعی مسلک کے حامل سمجھے جاتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ’’ میں رافضہ کے علاوہ ہر ایک سے حدیث لیتاہوں، اس لیے کہ یہ لوگ حدیث وضع کرتے ہیں۔ اور یہ لوگ اپنی گھڑی ہوئی حدیث کو دین کی بنیاد بناتے ہیں۔
(۲) الحاد و لادینیت
الحادولادینیت کے حامل لوگ اسلام کو بحیثیت نظام زندگی اور نظام مملکت کے سخت ناپسندکرتے ہیں۔ اسلام نے انصاری حکومتوں ریاستوں اور لیڈرشپ کاصفایاکردیاتھا۔ جو قوموں کی گمرہی، بدعقیدگی اور کرامت انسانیت کی پامالی کی بنیاد پر قائم تھیں۔ انہوں نے اپنی خواہشات نفس کی تسکین اور گھٹیا منفعت کے لیے قوموں کو مسخر کررکھا تھا۔ بادشاہوں اور سرداروں نے فتح اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے قوموں کو جنگ کی بھٹی میں دھکیل دیا تھا۔ لوگوں نے جب اسلام کے زیر سایہ فرد کی عزت، عقیدےکا احترام اور عقل کی آزادی دیکھا، اور دیکھا کہ اسلام اوہام واضالیل، شعبدہ بازیوں اور فریب کاریوں کا خاتمہ کرتا ہے تو انہوں نے اسلام کو قبول کیا۔ اور اس میں فوج درفوج داخل ہونے لگے۔ اس طرح اسلام کی سیاسی اور عسکری قوت غالب آگئی اور اس نے انسانیت دشمن قوتوں کا یکسر خاتمہ کردیا۔ یہاں تک کہ ان لیڈروں، امرا اور قائدین کے لیے زوال شدہ اقتدار اور کھوئے ہوئے مجدوشرف کی بازواپسی کی کوئی امید نہ رہی تو ان کے سامنے اسلام سے انتقام لینے کی اس کے علاوہ اور کوئی سبیل نہ رہی کہ عقائد اسلامی میں فساد پیدا کریں اور محسن اسلام کی تصویر مسخ کریں اور اس کے پیرووں اور علمبرداروں کی صفوں میں انتشار پیدا کریں۔
(۳) قوم، قبیلہ، زبان ومکان اور امام کی عصبیت
اس عصبیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ قوم پرستوں نے حدیث وضع کی: ’’اللہ جب ناراض ہوتا ہے تو عربی میں وحی نازل کرتا ہےاور جو خوش ہوتا ہےتو فارسی میں وحی نازل کرتا ہے۔‘‘ اسی طرح جہلائے عرب نے ان کا مقابلہ اسی کے مِثل حدیث سے کیا۔ وہ کہتے ہیں ’’اللہ جب ناراض ہوتاہے تو فارسی میں وحی نازل کرتا ہےاور جب خوش ہوتا ہے تو عربی میں وحی نازل کرتاہے۔ اسی طرح ابوحنیفہؒ کے طرف داروں نے حدیث وضع کی: ’’میری اُمت میں عن قریب ایک آدمی ہوگا، جس کا نام ابوحنیفہ النعمان ہوگا، وہ میری اُمت کا چراغ ہوگا۔‘‘ اور امام شافعیؒ سے متعلق انہیں لوگوں نے یہ حدیث وضع کی: ’’عن قریب میری اُمت میں ایک شخص ہوگا، جس کا نام محمد بنادریس ہوگا۔ وہ میری اُمت کے لیے ابلیس سے زیادہ ضرر رساں ہوگا۔‘‘ اسی طرح بعض شہروں، قبائل اور ادوار سے متعلق بھی احادیث وضح کی گئیں ہیں۔ ہمارے علماء کرام اور محدثین عظام نے ہر موضوع سے متعلق احادیث موضوعہ کو بیان کیا ہے اور انہیں چھانٹ کر احادیث صحیحہ سے بالکل الگ کردیاہے۔(جاری)
مشمولہ: شمارہ جون 2014