تمدن کے لیے جو فعل نقصان دہ ہو اس کو روکنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ اسے بس قانو نًا جرم قرار دیا جائے اور اس کے لیے سزا مقرر کر دی جائے بلکہ اس کے ساتھ چارقسم کی تدبیریں اور بھی اختیار کرنا ضروری ہیں۔
ایک یہ کہ تعلیم و تربیت کے ذریعے سے افراد کی ذہنیت درست کی جائے اور ان کے نفس کی اس حد تک اصلاح کر دی جائے کہ وہ خود اس فعل سے نفرت کرنے لگیں، اسے گناہ سمجھیں اور ان کا اپنا اخلاقی وجدان انھیں اس کے ارتکاب سے باز رکھے۔
دوسرے یہ کہ جماعتی اخلاق اور رائے عام کو اس گناہ یا جرم کے خلاف اس حد تک تیار کر دیا جائے کہ عام لوگ اسے عیب اور لائق شرم فعل سمجھنے اور اس کے مرتکب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں تا کہ جن افراد کی تربیت ناقص رہ گئی ہو یا جن کا اخلاقی وجدان کم زور ہو انھیں رائے عامہ کی طاقت ارتکابِ جرم سے باز رکھے۔
تیسرے یہ کہ نظام تمدن میں ایسے تمام اسباب کا انسداد کر دیا جائے جو اس جرم کی تحریک کرنے والے اور اس کی طرف ترغیب و تحریص دلانے والے ہوں اور اس کے ساتھ ہی ان اسباب کو بھی حتی الامکان دور کیا جائے جو افراد کو اس فعل پر مجبور کرنے والے ہوں۔
چوتھے یہ کہ تمدنی زندگی میں ایسی رکاوٹیں اور مشکلات پیدا کر دی جائیں کہ اگر کوئی شخص اس جرم کا ارتکاب کرنا بھی چاہے تو آسانی سے نہ کر سکے۔
یہ چاروں تدبیریں ایسی ہیں جن کی صحت اور ضرورت پر عقل شہادت دیتی ہے، فطرت ان کا مطالبہ کرتی ہےاور بالفعل ساری دنیا کا تعامل بھی یہی ہے کہ سوسائٹی کا قانون جن جن چیزوں کو جرم قرار دیتا ہے، ان سب کو روکنے کے لیے تعزیر کے علاوہ یہ چاروں تدبیریں بھی کم و بیش ضرور استعمال کی جاتی ہیں۔
(پردہ، سید ابوالاعلی مودودیؒ، ص ۱۲۲)
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2024