ہمیں خوشی ہے کہ ہماری دعوت پر زندگی نو کے قارئین نے ہم سایوں کے بارے میں اپنی خوش گوار یادیں قلم بند کیں۔ ہم ان کی تحریروں کے کچھ اقتباسات یہاں نقل کریں گے۔ مکمل تحریروں کا ان شاء اللہ الگ مجموعہ مرتب کیا جائے گا۔
تحسین عامر، ناندیڑ (مہاراشٹر)
انہی دنوں ایک یادگار واقعہ پیش آیا۔ ایک رات ہمارے گھر کے پیچھے والے مکان سے بچے کے رونے کی آواز آنے لگی۔ پہلے تو سب نے دھیان نہ دیا، لیکن جب رونا بڑھ گیا تو بابا نے امی سے کہا:
”ذرا دیکھ آؤ، کیا ماجرا ہے۔“
امی فوراً پہنچیں تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ ایک فنکشن سے لوٹے ہیں۔ وہاں بچہ خوش رہا لیکن گھر آتے ہی نہ کچھ کھا پی رہا ہے نہ سو رہا، بس زور زور سے روئے جا رہا ہے۔ سب سخت پریشان تھے۔ امی نے بچے کو پیار سے گود میں لیا، سورہ فاتحہ اور معوذتین پڑھ کر دم کیا۔ چند لمحوں میں بچہ پرسکون ہو کر سو گیا۔ یہ دیکھ کر سب حیرت زدہ رہ گئے۔
دیشمکھ بائی تو خوشی سے کچھ رقم امی کو دینے لگیں اور بولیں:
””آپ نے تو منتر پڑھا ہے، بچہ فوراً سو گیا!“
امی مسکرا کر بولیں:
”اگر پیسے لوں گی تو منتر کا اثر باقی نہیں رہے گا۔ میں نے اللہ سے مانگا تھا، اسی نے قبول کر لیا۔ یہ اس کا کرم ہے، میرا نہیں۔“
یہ بات محلے میں مشہور ہو گئی کہ شیخ فیملی بڑی نیک ہے، پرارتھنا ( دعا ) سے علاج کرتی ہے۔ یوں ہمارے تعلقات میں مزید محبت اور اعتبار پیدا ہوا۔
ایک صبح جب کہس بابا شہر کے باہر تھے، ہمارے دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ ہمارے پڑوسی پاٹل سر تھے۔ ان کی آواز میں بے حد فکر مندی تھی۔ انہوں نے امی کو آواز دے کر کہا:
”شیخ بائی، آج حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ بچوں کو باہر نہیں بھیجنا۔ نہ اسکول، نہ مسجد، کہیں بھی نہیں۔“
امی نے ان کے مشورے پر بھروسہ کیا اور ہم سب کو گھر سے باہر جانے نہیں دیا۔ وہ محض ایک دستک نہیں تھی بلکہ تحفظ اور دوستی کی مضبوط آواز تھی۔
اگلے دن اخبار کے ذریعے ہمیں خبر ملی کہ 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہید کی گئی اور پورے ملک میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور خوف و ہراس کی فضا پھیل گئی۔ اس وقت ہم حالات سے بے خبر تھے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، ساتھ ہی دل سے باٹل سر کے لیے دعائیں نکلیں۔
عتیق احمد شفیق اصلاحی(بریلی)
میں علاقہ فیرو زآباد کے دورے پر تھا۔جسونت نگر سے آگرہ جانا تھا ۔ جسونت نگر میں عصر کی نماز پڑھنے کے بعد آگرہ جانے والی بس کے انتظار میں تھا۔ بس آئی اور میں چڑھ کر ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔ برابر میں ایک بزرگ آکر بیٹھ گئے۔ وضع قطع سے دیندار نظر آرہے تھے ۔ چہرے پر بڑی گھنی داڑھی تھی ۔ دل نے کچھ کشش محسوس کی ۔علیک سلیک کے بعد انہوں نے پوچھا کہا ں جارہے ہو ؟میں نے بتایا آگرہ جا رہا ہوں ۔ معلوم کیاکیوں ؟میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ جماعت اسلامی کے ایک پروگرام میں جارہا ہوں۔کنڈیکٹر ٹکٹ بنانے آیا تو انھوں نے مشورہ دیا کہ فیروز آباد کا ٹکٹ لے لیں ۔ مغرب کے وقت بس فیروزآباد پہونچے گی ۔اور جہاں بس چھوڑے گی وہیں قریب ایک مسجد ہے وہاں نماز با جماعت پڑھ کر آگرہ چلیں گے ۔ فیروزآباد میں بس سے اتر کر مسجد کی طرف روانہ ہوئے ۔وہ آگے آگے اور میں پیچھے پیچھے ۔چند قدم پر مسجد تھی ۔ مسجد میں داخل ہوئے اذان ہورہی تھی۔ وضو کیا۔ باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز مغرب ادا کی ۔ مسجد بڑی تھی اور کافی قدیم معلوم ہورہی تھی۔
نماز سے فارغ ہوکر ہم مسجد سے نکلے اور چوراہے پر پہونچ کر آگرہ کی بس پکڑی ۔اب سفر کے ساتھی نے میرا اور اپنا دونوں کا ٹکٹ لے لیا۔ میں بہت اصرارکرتا رہا مگر اس بندہ خدا نے کرایہ نہ لیا اور کہا کہ آپ نیک کام سے جارہے ہیں ہم کچھ نہیں تو اتنا تو کرسکتے ہیں ۔کرایہ کی اہمیت نہیں مگر ان کی سچی خیر خواہی اور حسن سلوک نے مجھے ایک اچھے ہم سفر کے کردار سے روشناس کرایا۔
صائمہ تکویر(حیدرآباد)
الحمدللہ، زندگی نے ہمیشہ اچھے پڑوسیوں سے نوازا۔ جہاں بھی رہے،اللہ کے فضل سے تعلقات اچھے ہی رہے۔ مگر ہماری موجودہ محیس ریسیڈنسی تو بہت ہی خاص ہے! یہ عمارت کوئی عام بلڈنگ نہیں، گویا ایک اسلامک سینٹر ہے۔ یہاں لڑکیوں کے لیے GIO، لڑکوں کے لیے SIO اور بچوں کے لیے CIO کے ہفتہ وار پروگرام ہوتے ہیں۔ خواتین کا قرآن اسٹڈی سرکل اور مردوں کا درسِ قرآن تو جیسے ہماری روزمرہ کے معمولات میں شامل ہیں۔ ماہانہ اجتماعات اور خاص مواقع پر رنگا رنگ پروگراموں سے بلڈنگ کا ماحول تہوار جیسا ہوجاتا ہے۔
رمضان اور عیدیں تو جیسے ہمارے لیے خوشیوں کا خزانہ لے آتی ہیں۔رمضان میں تو خوب رونق کا سماں رہتا ہے۔ تراویح کے بعد خواتین کی چہل پہل، بچوں کی چھوٹی چھوٹی محفلیں، اجتماعی افطاریاں اور دعوتیں – سب کچھ ماحول کو اتنا جاندار بنا دیتا ہے کہ لگتا ہے، ہم سب ایک بڑے خاندان کے رنگین میلے میں ہیں۔ اور ہاں، ایک بار تو ہماری بلڈنگ کے ایک پڑوسی کے رشتہ دار کی شادی ہماری عمارت میں ہی ہوئی۔ جب سادہ اور شرعی تقریب ہو تو فنکشن ہال کی کیا ضرورت؟ سب نے مل کر پارکنگ خالی کی، گاڑیاں ہٹائیں اور وہی جگہ کھانے پینے کے لیے سجا دی گئی۔ آرائش و زیبائش میں بھی سب نے تعاون کیا۔ بس پھر کیا تھا۔ شادی ایسی شاندار اور پرلطف ہوئی کہ یادگار بن گئی۔
بچوں کی بات تو دل کو چھو لینے والی ہے۔ وہ سب پڑوسیوں سے ایسے جڑے ہیں کہ بس، دیکھ کر پیار آتا ہے۔ ایک بار ہماری بلڈنگ کے دو رفقا حج سے واپس آ رہے تھے۔ ہمارے بچوں نے تو جیسے پورا پلان بنا لیا! رات گئے تک جاگ کر رنگ برنگے پوسٹراور کارڈ بنائے، صبح سویرے نہا دھو کر تیار ہوئے اور پارکنگ میں ”ویلکم بیک“کے پوسٹر لے کر کھڑے ہو گئے۔ جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو بچوں نے پوسٹر ان کے دروازوں پر چسپاں کر دیے۔ دیکھ کر لگا کہ یہ بچے پوری بلڈنگ کو اپنا خاندان ہی سمجھتے ہیں۔ کیسا پیارا احساس ہے یہ!
شیئرنگ کا تو یہاں الگ ہی رنگ ہے۔ کوئی شہر سے باہر جائے، تو واپسی پر بچوں کے لیے کھلونے، مٹھائیاں یا چاکلیٹ ضرور لاتا ہے۔کھانے پینے کی چیزیں شیئر کرنا،ایک دوسرے کو کھانے میں شریک کرلینا معمول کی بات ہے، مگر ہر بار نیا لطف دیتی ہے۔
اور ضرورت کی چیز مانگنا؟ وہ تو جیسے ہماری “ایمرجنسی ہیلپ لائن” ہے! ایک بار صبح سویرے ایک بہن نے گروپ میں میسیج کیا، “بچوں کے لیے دو کیلے چاہئیں ، کوئی لفٹ میں رکھ دے!” بس، پانچ منٹ نہ گزرے تھے کہ ہر گھر سے دو دو کیلے آگئے اور لفٹ میں آدھا درجن سے زیادہ کیلے ہو گئے، ” یہ چھوٹے چھوٹے لمحات ہماری زندگی کو کتنا مزے دار بنا دیتے ہیں!
نسیم فا طمہ (ظہیرآباد)
قادر بھائی علی الصبح اٹھ کر محلے کی مسجد میں نماز فجر ادا کرتے پھر کمپنی کے لیے روانہ ہوتے اور واپس آ کر محلے کی مسجد میں نماز عصر ادا کرتے تھے اور پھر جماعت کی مصروفیات اور لوگوں کی خدمت کے لیے نکل جاتے۔ وہ محلے کے ہر گھر کے لیے فکرمند رہتے ۔ ہر ایک کے کام آتے۔ تن من دھن سے کام میں جڑ جاتے ۔محلے کی مسجد کے معتمد بھی تھے۔ جب کہ محلہ تبلیغی جماعت سے جڑا ہوا تھا لیکن ان کی حیثیت نمایاں تھی۔ محلے میں درس قران کی محفل منعقد کرتے ۔ خواتین کے لیے علیحدہ انتظام ہوتا ۔ مسجد میں تراویح کے بعد ترجمہ رکھواتے اور خواتین بھی اس میں شریک رہتیں۔ ہماری بھی بھرپور تربیت کرتے۔ مطالعہ کے لیے کتابیں لا کر دیتے۔ بامقصد تحفے تحائف لا کر دینا ان کا معمول تھا ۔ اگر کوئی سرکاری اسکیم ہوتی مردم شماری کا کام یا ووٹر لسٹ یا راشن کارڈ وغیرہ بنانا تو سارے محلے کی نمائندگی کرتے ۔ اندر اجات صحیح طریقے سے کرواتے ۔فسادات میں ریلیف کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ لوگ ان تک خوراک پہنچاتے ۔ غیر مسلم خاندانوں میں بھی ان کا تعارف بہت تھا۔ کمپنی میں وہ ہر دل عزیز مانے جاتے۔ کمپنی کی یونین میں ایک خاص عہدے پر فائز تھے۔ مہرآپا کا بھی بہت ہی خاموش لیکن مسلسل کام تھا۔ اپنے گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر معاشرہ اصلاح کے لیے عمومی اجتماعات منعقد کرنے کے لیے نکل جاتیں۔ مہرآ پا اور ان کی ایک ساتھی سلطانہ آپا ، جس طرح کوئی روز ڈیوٹی پر جاتا ہے اسی طرح تقریبًا شہر کے کئی مقامات پر اجتماع منعقد کر تیں۔ کہیں نہ کہیں ہم بہنوں کی تربیت میں بھی ان کا نمایاں کرداررہا ہے۔
ان کی خدمت کا انداز دیکھیے۔ محلے میں ایک نو مسلم خاتون سعیدہ دیدی رہتی تھیں۔ ان کے شوہر سعودی عرب میں تھے ۔ ان کا ایک سال کا بیٹا تھا۔ ان کی مدد کے لیے تیار رہتی تھیں۔ سعیدہ دیدی کی مکان دار سلمی آنٹی تھیں۔ وہ ذیابطیس کے مرض میں مبتلا تھیں۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ شوہر بیوی رہتے تھے ان کی صحت کی فکر کرتیں۔ ان کے لیے پرہیزی کھانے بھجواتیں۔ علاج معا لجے کے لیے ہاسپٹل لے جاتیں۔ محلے میں ایک خورشید خالہ تھیں۔ وہ مطلقہ خاتون تھی ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ ان کی ہر طرح سے مدد کرتیں۔ ان کے پڑوس میں بینگلور والے تھے۔ ان سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ نیز محلے کے ہر گھر کے لیے ہر دل عزیز تھیں۔ ہر کوئی انہیں اپنا سمجھتا ۔
اسماء علیم صاحبہ (تلنگانہ)
مجھے ایک واقعہ آج بھی یاد ہے جب میرادسویں جماعت کا نتیجہ نکلا تو والد صاحب دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔ اس لیے گھر میں شیرینی فورًا نہیں آ سکی۔ جب میری کامیابی کی خبر انکل کو پہنچی تو انکل فورا ایک کلو جلیبی لا ئے۔ انکل اس طرح خوش ہوئے گویا ان کی کسی اولاد نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔
ایک مرتبہ کچھ یوں ہوا کہ عید الاضحی کا موقع آیا ۔ ہمارے گھر میں قربانی کے لیے جانور کا انتظام ہو گیا ۔لیکن میرے لیے نئے کپڑوں کا انتظام نہ ہو سکا۔ اسکی خبر آنٹی کو ہوئی تو آنٹی نے لیے نئے کپڑے بنوادیے۔ بہت سے واقعات ہیں جن کی بنا پر میں کہہ سکتی ہوں کہ انکل اور آنٹی میرے محسن پڑوسی ہیں۔ ان کے اس احسان کی وجہ سے دل میں کتابوں سے محبت پیدا ہوئی ،مطالعہ کا شوق بڑھا ،خیالات میں پختگی آئی اور وقت کا صحیح استعمال ہوا ۔
ہمارے محلے ہی میں نہیں پورے قصبے میں اگر کسی کا انتقال ہو جائے، یا کسی کے یہاں بچے کی ولادت ہو یا کوئی زیادہ بیمار ہو تو سوشل میڈیا کے ذریعے اطلاع دینے کا نظم ہے۔ اطلاع پاتے ہی جلد سے جلد ہماری دو چار بہنیں وہاں پہنچ جاتی ہیں اور ان کی ضرورت کے مطابق ان کی مدد کر نے کی کوشش کرتی ہیں۔
رات کاکھانا کھانے کے بعد محلے کی خواتین کی چہل قدمی کا وقت ہوتا ہے۔ اس وقت ساری خواتین اپنے اپنے بچوں کو گھروں سے باہر لے کر نکلتی ہیں ۔ اس وقت محلے کے مرد عام طور سے وہاں سے گزرتے نہیں ہے۔ اگر گزر ہو بھی تو نظر یں نیچی کر کے گزر جاتے ہیں۔
محلے میں تین گھر غیر مسلموں کے ہیں۔ ان کی خوشی اور غم میں ہم سب شامل رہتے ہیں۔ ضرورت کی ساری چیزیں ایک دوسرے سے شیئر کی جاتی ہیں۔کسی کے یہاں کوئی تقریب ہو تو سارے لوگ اپنی چیزیں اور خدمات پیش کرتے ہیں۔ دعوتوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹایا جاتا ہے۔ کسی کے اندر کوئی نقص نظر آنے پرتنہائی میں اصلاح کی جاتی ہے یا درگزر کیا جاتا ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر محلے کا ماحول بہت خوشگوار ہے اور سبھی پڑوسیوں کو خوب فائدہ پہنچتا ہے ۔
عبد الوحید(یمنا وہار، دہلی)
ہمارا خاندان کھنّہ جی کی نچلی منزل میں داخل ہو گیا۔ کھنّہ جی پہلی منزل پر رہتے تھے۔ اب ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہو گئے۔ بہت جلد ہمارے تعلقات خوش گوار ہو گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت اسلامی کے رکن کے خاندان کو RSS کے خاندان سے کسی خاص مقصد کے لیے ملوایا تھا۔ لوگوں کو جب معلوم ہو تاکہ میں کھنّہ جی کا کرائے دار ہوں تو بہت تعجب کرتے اور کہتے آپ کو کھنّہ جی نے کیسے اپنا مکان کرائے پر دے دیا۔
بہت کم عرصے میں دونوں خاندان ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے۔ کھنّہ جی کبھی بیمار ہوتے تو میں اپنے ڈاکٹر بیٹے کو لے کر فورا کھنّہ جی کے پاس پہنچ جاتا۔ اُن کا چیک اپ ہوتا اور دوا لکھ دی جاتی۔ کھنّہ جی اور ان کی فیملی بہت خوش ہوتے۔ بٹیا تو چلا جاتا مگر کھنّہ جی مجھے نہیں جانے دیتے۔ ساس بہو، باپ، بیٹا چاروں چاہتے کہ میں ہی بات کروں۔ میں حکمت کے ساتھ چاروں سے بات کرنے کی کوشش کرتا۔ کھنّہ جی اور رما دیدی کے علاوہ اس گھر میں ان کا بیٹا راہُل، بہو رچنا اور پوتا موہت ”گولو“ رہتے تھے۔
گولو ”موہت“یہ کھنّہ جی کا تقریبا ۳ سال کا پوتا تھا۔ جو میرا جگری دوست تھا۔ ہم ایک دوسرے سےبہت محبت کرتے تھے۔ گھر کے تمام لوگ گولو کو چاہتےتھے۔ لیکن مجھ پر اور میری تمام چیزوں پر صرف گولو کا حق تھا۔ اسکول سے آنے کے بعد میں اپنا پرس، چشمہ اور موبائیل ایک جگہ رکھ دیتا تھا۔ اس کے بعد گولو میری کوئی چیز کسی کو چھونے نہیں دیتا تھا۔ کوئی چھونے کی کوشش کرتا تو فورا روک دیتا اور کہتا یہ ان کا ہے۔
اذان ہوتے ہی گولو جا نماز بچھا دیتا اور کہتا ۔۔ اللہ میں مسجد چلا جاتا اور اس سے کہتا تم دیدی کے ساتھ پڑھ لو۔ ۔۔۔۔ گھر نماز ادا کرتا تو گولومیرے ساتھ پڑھتا۔ میرے آنے کے بعد گولو میرے پاس ہی رہتا۔ اس کو رچنا بڑی مشکل سے بہلا پھسلا کر لے جاتی یا روتا ہوا جاتا اور کہتا میں ان کے پاس سو جاؤں گا۔
دلاور حسین
بمبئی کی ۲۰-۲۵ سال کی مدت میں ان غیر مسلم پڑوسیوں نے ہماری بڑی خدمت کی۔ میری اہلیہ مشکل سے مارکیٹ کبھی جاتی تھیں۔ وہ غیر مسلم خواتین ہمارے گھر کے بہت سارے کام کردیتی تھیں۔ مارکیٹ سے ترکاری وغیرہ لانا، راشن کی ضرورت پڑنے پر وہ بھی لاکر دینا ۔ ایک خاتون تو راشن کی دکان پرنمبر لگاکردیر تک لائن میں ٹھہری رہتیں اور نمبر آنے کے بعد ہم کو اطلاع دیتیں۔ یہ کام وہ بڑی خوشی سے کرتی تھیں۔ میری کوشش رہتی کہ ان کو اسلام کے بارے میں بتاؤں۔ میں نے انھیں مراٹھی میں ترجمہ قرآن پڑھنے کو دیا۔ ان لوگوں کو ہم پر اتنا بھروسہ تھا کہ وہ اپنی امانتیں ہمارے پاس رکھتے اور مطمئن رہتے کہ اس میں ہم لوگ کبھی خیانت نہ کریں گے۔ رمضان اور عید کے موقعے پر ہمارے گھر سے بہت سے گھروں میں پکی ہوئی سویاں بھی تقسیم ہوتی تھی۔ وہ لوگ بڑے خوشی سے اس کو لیتے اور تناول فرماتے۔
نمازی عبدالکریم عارف (وانمباڑی ، تمل ناڈو)
آج میں پچپن سال کا ہوں۔ میرے والد مرحوم اکثر تجارت کے سلسلے میں دہلی رہا کرتے تھے۔ لیکن آج بھی وہ رات مجھے یاد ہے جب والدہ مرحومہ کی طبیعت تقریباً دو بجے شب ناساز ہوگئی تھی۔ پڑوس کی خالہ کو آواز دی گئی تو وہ فوراً دوڑی چلی آئیں۔ ان کے علاج معالجے کے تمام جتن ناکام ہوگئے۔ اب والدہ چاہتی تھیں کہ اُن کی ماں یعنی میری نانی کو بلا لیا جائے، جو ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر رہتی تھیں۔
اس وقت ہم بچوں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اکیلے جا کر نانی کو لے آئیں، کیوں کہ ہر طرف سنّاٹا چھایا رہتا تھا۔ تب پڑوس کے بھائی، جو عمر میں بڑے اور جوان تھے، آئے اور ہمیں ساتھ لے کر نانی کے گھر گئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا؛ نانی نے دروازہ کھولا، ہم نے سارے حالات سے انھیں آگاہ کیا۔ نانی نے چادر اوڑھ لی مگر خوف و اضطراب کے باعث وہ چلنے سے قاصر تھیں۔ وہ بیل گاڑیوں کا زمانہ تھا، لیکن اس وقت ایک گاڑی بھی میسر نہ تھی۔
ہمارے محسن پڑوسی بھائی نے ہماری نانی کو اپنی گود میں اُٹھایا اور پیدل چل کر ہمارے گھر لے آئے۔ نانی نے آکر والدہ کو کچھ عرق پلایا تو وہ نسبتاً بہتر محسوس کرنے لگیں۔ صبح ہوتے ہی ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا اور بفضلِ خدا علاج ہوگیا۔
نسیم خانم بنت نواب قاسم خان صاحب(ناندیڑ، مہاراشٹر)
صحن میں ہمارے مخلص کرائے دار پڑوسیوں کے دروازے کھلتے تھے۔باہر سے ان کے الگ دروازے تھے۔ ایک پڑوسی چچا جان چچی ماں۔ دوسرے خالہ جان خالو جان۔ تیسرے پھوپھی ماں اور پھوپھا صاحب۔بظاہر یہ پڑوسی تھے لیکن ان کا خلوص و اپنائیت حقیقی رشتوں سے کم نہ تھا۔یہ سب ایک دوسرے کے کام آتے، ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنا اپنا فرض اور انسانیت کی معراج سمجھتے تھے۔یہی وجہ تھی جب بھی کبھی چھوٹی سے چھوٹی چیز کی ضرورت ہوتی تو ہماری امی کہتیں ”چچی ماں کے پاس سے لاؤ۔“
ہم جاتے تو چچی ماں کہتیں”بیٹی! یہ اتنا ہی سا ہے۔میں اپنی ضرورت کا رکھ لیتی ہوں، باقی تم لے جاؤ۔ دونوں کا کام بن جائے گا۔بعد میں دیکھا جائے گا۔“حتی کہ کوتمیر ، ماچس کی ڈبی تک کا یہی حال تھا۔
ہماری پڑوسن خالہ جان کے بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔ جب صبح رونے کی آواز زیادہ آتی اور خالہ جان غصہ کرتیں تو ہماری امی فورا راہداری سے ان کے سر پر سوار ہو جاتیں۔ ہماری امی کو بچوں کو ڈانٹنا بالکل پسند نہ تھا ۔وہ خالہ جان سے کہتیں ” بچوں کو ڈانٹتی ہو!!! ”الہ جان جھنجھلا کر کہتیں” میں پکا رہی ہوں ، ان بچوں کو صبر نہیں۔“
امی فورًا اپنے باورچی خانے سے کچھ روٹیاں اور گلاس بھر دودھ لے جاکر دیتیں پھر کہتیں ” پہلے ان معصوموں کو کھلادو پھر آرام سے پکانا“۔
پھرانھی پڑوسن خالہ جان کا دوسرا رخ! ہم جیسے ہی نہا کر نکلے اور انہوں نے دیکھا ، توپھر ہماری خیر نہیں!! ہمارے سر وں کو اپنے قبضے میں لے لیتیں۔بال خشک کرنا، کنگھی کرنا، جوئیں مارنا پھر تیل لگا کر چوٹی گوندھنا ، جیسے ہم ان کی بیٹی ہوں!!
حامد اختر
وہ میرے انجینئرنگ کالج کے زمانے کا ساتھی تھا’ کالج کے زمانے میں تو اس سے بس شناسائی تھی مگر دیار غیر میں میرا پڑوسی ہو گیا ۔ غریب گھرانے سے تھا اور اس کے پاس ایک شام کو کھانے کے لیے بس تھوڑی سی دہی تھی۔ وہ مجھے گلاس میں دینے لگا ۔ میں نے پوچھا اور تم؟ اس نے کہا تھوڑی چھوڑ دینا بھئی میں وہی پی لوں گا۔ میں یہ واقعہ کبھی نہیں بھول سکتا ۔ خصوصی طور پہ جب کہ میں نے برادران وطن کے چھوا چھوت کے بہت سے خیالات سن رکھے تھے۔ شام کے وقت میں مغرب اسی کے کمرے میں صاف زمین پہ پڑھ لیتا۔ ایک دن ایک چٹائی نما جانماز وہیں کونے میں رکھ دی کہ اگلے دن اسی پہ نماز مغرب پڑھوں گا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ میں انڈین ریلویز میں اور نرنجن انڈین ایئر لائنز میں ملازمت کر رہا تھا۔ کئی سالوں کے بعد میں جب اپنے دوست کے گھر گیا تو اس کی شادی ہو چکی تھی اور بچے تھے۔ اس نے وہی جانماز نکالی اور کہا حامد نماز پڑھ لے۔ میرے تصور سے باہر تھا کہ شادی کے بعد جب پرانی بوسیدہ چیزوں سے لوگ چھٹکارا پالیتے ہیں، اس نے میری جانماز کو بڑی عقیدت سے اپنے پاس رکھا تھا اور جب میں وہاں جاتا ہوں تو اس کو وہ بچھاتا ہے کہ اس پہ نماز پڑھ لو۔
سیدہ دردانہ عتیقہ(بیدر، کرناٹک)
میرے گھر کی دائیں جانب چلیں ایک چھوٹی سی گلی کے بعد ایک بڑا سا میدان نظر آئے گا۔ جہاں بہت سے بچے، بڑے کھیل کود میں مصروف ہیں۔ ارے لیکن یہ کیا یہ عبدالقدوس انکل کس پر برس رہے ہیں؟
”تم عصر کی نماز میں نظر کیوں نہیں آئے آج؟ کھیل میں مگن ہو کر نماز نہیں چھوڑا کرتے۔ پندرہ سال کے ہو گئے ہو۔ اب تم اپنی نمازوں کے لیے اللہ کے آگے جوابدہ ہو۔ اگلی بار نماز چھوڑو گے تو تمہارے ابو سے شکایت کروں گا۔“اوہووو۔۔۔ یہ تو ہاشمی انکل کے بیٹے کو ڈانٹ رہے ہیں۔ لیکن ان کو کیا پڑی ہےبھئی؟
اوہ ہاں۔۔ پڑوسی کا بچہ بھی اپنا بچہ یہی تو مسلم معاشرے کا شعار ہے۔
وہ دیکھیں دو گھر چھوڑ کر ایک گلی میں ایک سامان سے بھری گاڑی جارہی ہے اس کے پیچھے چلتے ہیں۔ اچھا۔۔ سروری صاحب کے ہاں نئے کرایہ دار اترے ہیں۔ مگر ایک منٹ یہ سارے نوجوان میدان سے اپنا فٹ بال میچ چھوڑ کر یہاں کیوں چلے آرہے ہیں؟
السلام علیکم، لائیں انکل! آپ کا سامان ہم اندررکھ دیتے ہیں۔ یہ آفتاب بھیا ہیں۔
”ارے بیٹا! میں مزدوروں سے کروالوں گا، تمہارا شکریہ۔“
”ہمارے ہوتے ہوئے مزدور کیوں انکل؟ آپ بس بتائیں کہ سامان کہاں رکھنا ہے۔ ہم رکھ دیں گے۔“ فیروز بھیا متانت سے بولے تو انکل اگر مگر کرنے لگ گئے۔ لو جی ثاقب بھیا آگے بڑھ رہے ہیں اور ایک بڑا سا ڈبہ اٹھا کر یہ کہتے ہوئے چلے کہ پڑوسی کا بھی حق ہے یہ اگر مگر کیسا؟ آہ میرے مہذب پڑوسی۔
وہ دیکھو نسا آنٹی اپنے بیٹے کو اشارے سے بلا رہی ہیں چلو دیکھتے ہیں کیا کہہ رہی ہیں یہ بھی سروری انکل کے کرایہ دار ہیں۔
”بیٹا ساتھ والے گھر میں جو نئے لوگ آئے ہیں ناں جا کر ان آنٹی سے کہو کہ رات کا کھانا ہم اپنے یہاں سے بھیجیں گے، وہ لوگ کام کر کے تھک جائیں گے ناں ان سے کہنا کہ اگلے دو دن کھانا ہم بھیجیں گے اور یہ پانی کی بوتل ان کو دے دینا۔شاباش۔“
مشمولہ: شمارہ نومبر 2025






