رسائل ومسائل

محمد رضی الاسلام ندوی

حضر میں جمع بین الصلوٰتین

سوال: کیا حضر میں بھی ظہر وعصر اورمغرب وعشا ء کوجمع کیا جاسکتا ہے ؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ کچھ احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔بہ راہ کرم صحیح صورت حال سے مطلع فرمائیں۔

جواب:  قرآن کریم میں ہے :

اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتٰبًا مَوْقُوْتَا  (النساء: ۱۰۳)

’’نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو پابندیٔ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان پر نمازیں ان کے اوقات میں فرض کی گئی ہیں۔ کسی نماز کو اس کا وقت شروع ہونے سے پہلے نہیں پڑھا جاسکتا اوراگر اس کے وقت میں اسے ادا نہیں کیا جائے گا تووہ قضا ہوجائے گی۔

یہ بات درست ہے کہ بعض صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ بغیر کسی عذر کے حضر میں دونمازیں جمع کی ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر سفر کے، ظہر اورعصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں۔‘‘ ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میںنے سعیدسے پوچھا کہ آپؐ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نےفرمایا  : آپؐ چاہتے تھے کہ میری امت میںسے کوئی شخص مشقت میں نہ پڑے ۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین ، باب الجمع بین الصلوٰتین فی الحضر ) صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ’سفر ‘کی جگہ ’بارش‘ کا لفظ ہے ۔

اس حدیث سے حضر میں جمع بین الصلوٰتین پر استدلال کرتے وقت یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ حضرت ابن عباسؓ نے صرف ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے کی روایت کی ہے ۔پوری حیاتِ طیبہ میںکسی اور موقع پر آپؐ سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے ۔ خود اس حدیث کے راوی حضرت ابن عباسؓ سے ثابت نہیں ہے کہ وہ حضر میں جمع بین الصلوٰۃ کرتے تھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک موقع پر کسی شدید ضرورت کے تحت ایسا کیا تھا ،ورنہ آپؐ نمازوں کو ان کے اوقات پر ہی ادا فرمایا کرتے تھے ۔

کیا طویل عرصہ تک شوہر سے علیحدہ رہنے سے طلاق ہوجائے گی؟

سوال: ایک عورت شوہر سے روٹھ کر بیرونِ ملک چلی گئی۔ دس سال تک ان کے درمیان فون پر لڑائی چلتی رہی ۔ عورت کا اپنے شوہر سے اصرار تھا کہ دوسری بیوی کوطلاق دو۔ ایک موقع پر میاں بیوی دونوں ایک شہر میں تھے۔ بچوں نے انہیں ملوانے کی کوشش کی ، مگر بیوی تیار نہ ہوئی ۔ اس نے بچوں کوبرا بھلا کہا اور شوہر کو گالیاں دیں۔اس صورت حال میں کیا میاں بیوی کے درمیان طلاق ہوگئی یا ابھی کچھ گنجائش ہے؟

جواب: نکاح ایک معاہدہ (Agreement)ہے ۔ جب تک اسے شعوری طور پر ختم نہ کیا جائے وہ ختم نہ ہوگا۔ طلاق کے ذریعے اس معاہدہ کوختم کیا جاتاہے ۔ قرآن کریم میں ہے :

بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ (البقرۃ: ۲۳۷)  ’’ اس (مرد) کے اختیار میں عقدِ نکاح ہے۔‘‘

بیوی کے لمبے عرصے تک شوہر سے علیحدہٰ رہنے یا اس کے اپنے شوہر کوبرا بھلا کہنے سے طلاق نہیں ہوجاتی ۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے ۔

میراث کا ایک مسئلہ

سوال: تین بھائی اورچار بہنوں میں وراثت کی تقسیم کا تناسب کیاہوگا؟ کیا سوتیلے بیٹے کو ماںکی جائیداد میں حصہ ملےگا؟

جواب: لڑکی اصحاب فرائض میں سے ہے ، یعنی میراث میں اس کا حصہ متعین کیا گیا ہے ،لیکن اپنے بھائی کی موجودگی میں وہ بھی عصبہ ہوجائے گی  اوراصحاب فرائض میں میراث تقسیم ہونے کے بعد بقیہ حصہ ان کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگا کہ لڑکی کو لڑکے مقابلے میں نصف ملے گا۔

صورت مسئولہ میں اصحاب فرائض نہیں ہیں ، اس لیے کل میراث کے دس حصے کیے جائیں گے ۔ ایک ایک حصہ چاروں بہنوں کو دیا جائے گا اور دو دوحصے تینوں بھائیوں کوملیں گے ۔

ماں کی جائیداد میں اس کے حقیقی بیٹے کی موجودگی میں سوتیلے بیٹے کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔

مشمولہ: شمارہ جون 2016

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau