ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ جون وجولائی 2015 کے شماروں میں ایک مضمون بعنوان ’’تکثیری سماج اور دعوت۔ چند اہم پہلو‘‘ شائع ہوا ۔فاضل مضمون نگا ر کا خیال ہے کہ پہلے اورآج کے زمانے اورحالات میںبہت فرق واقع ہوگیا ہے ۔ بھارت کے تکثیری سماج کے اندر’’ یہ بات سننے میں توبہت بھلی لگتی ہے کہ دعوت راست انداز میں دی جانی چاہیے لیکن بھارت کے حالات دعوت کے اس طریقہ کار کا نہیں بلکہ کسی اورطریقہ کار کا تقاضا کرتے ہیں ‘‘مزید ارشاد ہوتا ہے: ’’ ہم ابتدائی مرحلے میں ہی اگر مخاطبین کے عقائد اوردیوی دیوتاؤں کوتنقید کا نشانہ بنائیں گے بلکہ (نظریاتی ) بت شکنی کریں گے تونہ صرف یہ کہ وہ اسلام کے پیغام سے اورزیادہ متنفر اوربیزار ہوجائیں گے بلکہ اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ اس سے مزید فسادات رونما ہوں گے ۔‘‘
محترم مضمون نگار مزید ارشاد فرماتے ہیں ’’تکثیری سماج میں دعوتی کام کرنے والوں کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ مدعو کو اپنا سمجھیں اور اس کے دل میں اپنائیت کے احساس کواجاگر کریں۔ چنانچہ ہمیں بھی مدعوئین کواپنی قوم کہنا چاہیے کیوںکہ ہم میں سے اکثر افراد کے آباء و اجداد بھارت کے قدیم باشندے تھے ، جنہوںنے اسلام قبول کرلیاتھا ۔‘‘
فاضل مضـمون نگار نے اپنے اس دعویٰ (غیر مسلم مدعوئین کواپنی قوم کہنے ) کے ثبوت میں مولانا مناظر احسن گیلانی اورمولانا حسین احمد مدنی کے نظریہ ’’ قومیں اوطان سے بنتی ہیں ‘‘پیش فرمایا ہے اوراسے قرآن اوراحادیث سے ماخوذ قراردیا ہے ، اورمولانا مودودی کی تصنیف ’’ مسئلہ قومیت ‘‘ پر تنقید کی ضرورت کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں اس کتاب کے منفی اثرات پڑے ہیں ۔ انہوںنے غیرمسلموں کوالگ قوم سمجھا اوران سے دور رہے ، اور’’یہ دوری دعوتی کاز میں بھی روکاوٹ بن گئی جوآج تک برقرار ہے ۔‘‘
کچھو دنوں سے ہمارے تحریکی حلقے میں ’’تکثیری سماج‘‘ کوکچھ اس انداز سے پیش کیا جارہا ہے گویا کہ ان آدم تا ایں دم کسی دور میں ، کہیں اورکبھی کسی رسول کواورکسی داعی حق گروہ کوسابقہ ہی پیش نہیں آیا لہٰذا انبیاء کرام اورماضی کے داعیان حق کا طریقہ دعوت دور حاضر کے ’’تکثیری سماج‘‘ میں کار آمد اورموثر ثابت نہیں ہوسکتا ۔ قرآن حکیم اورسنت رسول میں جس طریقہ دعوت کاتذکرہ ہمیںملتا ہے اورجس پر داعیانِ حق اب تک عمل پیرا رہے وہ آج کے ’’ تکثیری سماج‘‘ میں لائق اتباع اورسود مند نہیں رہا۔ گویا نعوذباللہ اللہ رب العزت کو بھی معلوم نہ تھا کہ کرہ ارض پر ایک ایسا دور بھی آئے گا جس میں ’’تکثیری سماج‘‘ ہوگا اس کے لئے بھی وہ کچھ ہدایات دیتا اور ’’طریقہ دعوت کی نشاندہی کرتا نعوذباللہ من ذالک ۔
گستاخی معاف! اصل مسئلہ ’’دعوت کے طریقہ کار میں تبدیلی ‘‘ کاہے ہی نہیں ، فاضل مضمون نگار اوران کے طرزِ فکر کے کچھ ہمنوا دانشوروں کو در اصل ایک ایسی ’’ دعوت‘‘ (نہ کہ طریقہ دعوت) کی تلاش ہے جواس تکثیری سماج میں کفرو شرک، الحاد و دہریت اوردیوما لائی تصورات کے حاملین اورارباب من دون اللہ کے لیے باعثِ تشویش نہ ہو اور’’داعیانِ حق‘‘ کوبھی مکہ کی کسی گلی، ابوطالب کی کسی گھاٹی اور طائف کے کسی سفر سے سابقہ پیش نہ آئے اورنہ وہ المناک مناظر پیش آئیں جن میں صہیب ، سلمان بلال ، یاسر اورسمیہ آزمائش کی بھٹیوں میں تڑپتے نظر آرہے ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایسی کسی ’’دعوت‘‘ کا قرآن حکیم اورسنتِ رسول اورداعیانِ حق کی رب تک کسی تاریخ میں کہیں نام ونشان تک نہیں ملے گا ۔ اب توآج کے ان دانشوران ملت کواجتہاد سے کام لیتے ہوئے ایک ’’جدید دعوت‘‘ کی تخلیق کرنی ہوگی جوہمارے’’تکثیری سماج‘‘ کوراس آسکے۔
روشن چراغ اورتاریکی میں مفاہمت اوروصل اسی وقت ممکن ہے جب چراغ کوگل کردیا جائے ایسی حالت میں چراغ توباقی اورتاریکی کی آغوش میں موجود رہے گا ۔ مگر وہ بے نور ہوگا۔ٹھیک یہی کیفیت ’’دعوت‘‘ کی ہے ، اس دعوت کی جوبے آمیز اورقرآن وسنت میں جلوہ فگن ہے ، سراج منیر ہے اس کے سامنے تاریکی ایک پل نہیں ٹک سکتی ۔ یہاں تو کلمہ طیبہ ہی’’ لاالٰہ‘‘ سے شرو ع ہوتا ہے ، کفر بالطاغوت کے بغیر ایمان کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ شرک سے شدید نفرت کے بغیر توحید سے وابستگی ایک بے معنی شے ہے ۔
جوسماج کرپٹ ہوچکا ہو، جس میں خدا بیزاری اورآخرت فراموشی کا دور دورہ ہو۔ جس میں قیادت وسیادت خوف خدا سے غافل اورآخرت میں جوابدہی کے احساس سے نابلد اورخدائی ہدایات کی روشنی سے محروم ہو، جس میں فساد اوربگاڑکی کثرت سے انسانیت کراہ رہی ہواس میں دین اسلام کی دعوت پیش کی جائے اوروہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلی جائے ناممکن ہے۔ اس کی کوئی نظیر قرآن وسنت اورداعیانِ حق کی تاریخ میں نہیں ملتی اورنہیں ملنی چاہیے ۔ اگرآپ کے پاس ایسی کوئی ’’دعوت‘‘ ہے تووہ بجھا ہوا چراغ ہے نہ کہ سرا ج منیر۔
بلا شبہ اللہ کے رسول جس قوم میں مبعوث ہوئے اسے اپنی قوم کہا یا قوم اعبدواللہ مالکم من الہ غیرہ انہوںنے خاطر خواہ اپنائیت کا اظہار کیا اور اپنی قوم کے سامنےپیکر رحمت بنکر پیش ہوئے۔ جواب میں قوم نے اہلا وسہلا مرحبا اورخوش آمدید نہیں کہا اپنے رسول کے ساتھ اس کی قوم نے کیا کچھ کیا کون نہیں جانتا ؟ آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے سامنے سراپا رحمت بن کر آئے اوررہے۔ آپ کے اور آپ کے مبارک ساتھیوں کے ساتھ کیاکچھ نہیں ہوا کیا کوئی راز سربستہ ہے ؟ بالآخر جب آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے پروانۂ شمع نبوت پرمشتمل ایک خیر امت، امت وسط اورایک داعی گروہ کی تشکیل فرمادی جوآپ کے بعد رہتی دنیا تک کے لیے قائم مقام نبوت قرارپایا اس کے مقصد اورنصب العین کودو ٹوک انداز میں واضح فرمادیا ، توصورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ۔ اب اگراس امت کا کوئی فرد کفار و مشرکین کو’’ اپنی قوم ‘‘ قرار دیتا ہے ۔ نحن ابناء کفار و مشرکین اورنحن ابناء فراعنہ کا نظر یہ پیش کرتا ہے تووہ ایک فتنہ کوجنم دیتا ہے ۔ فاضل مضمون نگارکا یہ ارشاد کہ ’’ ہمیں بھی مدعوئین کواپنی قوم کہنا چاہئے کیونکہ ہم میں سے اکثر افراد کے آباءو اجداد بھارت کے قدیم باشندے تھے جنہوںنے اسلام قبول کرلیاتھا ‘‘ یہ قول اوریہ سوچ آر ایس ایس اینڈ کمپنی کے لیے تومزدہ جان فزا ہوسکتا ہے کہ وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ بھارت کے مسلمان اپنی روایات ، رسم و رواج کوبرقرار رکھتے ہوئے ہندوقوم میں ضم ہوجائیں اورخود کو ہندو کہیں کیونکہ ان کا ضمیر بھارت کے قدیم ہندوؤں ہی سے بنا ہے ۔ مگر رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے یہ قابلِ قبول نہیں بلکہ نفرت انگیز ہے۔
یہ بات بھی ناقابل فہم اور مضحکہ خیز ہے کہ ’’اے میری قوم‘‘ کہنے پر پیغمبروں کی قوموں نے توانہیں نہیں بخشا توآج ہندو قوم کو’’اے میری قوم ‘‘ کہنے پر امن ومسرت کی فضاء کیسے پیدا ہوجائے گی ۔ برا ماننے کی بات نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فاضل مضمون نگار نے نہ’’ مسئلہ قومیت ‘‘ کو سمجھا ہے اور نہ مولانا مدنی کے نظریہ ’’قومیں اوطان سے بنی ہیں ‘‘ کو سمجھا ہے ۔
جماعت اسلامی ہند اور دیگر داعیانِ حق نے مخاطبین (غیر مسلمون ) کے عقائد اوردیوی دیوتاؤں کوتنقید کا نشانہ کب بنایا ہے ؟ یہ موصوف کا خود ساختہ انداز ہے جسے وہ داعیانِ حق سے منسوب کررہے ہیں ۔ وہ تو روز اول سے انہیں ’’ برادرانِ وطن‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ان سے خوشگوار تعلقات کے لیے کوشا ں رہتے ہیں۔ بلا تفریق مذہب وملت رنگ ونسل ان سے دعوتی روابط قائم کرتے ہیں اوراس طرح ان تک دعوت پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ آپ نشان دہی توفرمائیںجماعت اسلامی نے یادیگر مسلم تنظیموں اور داعیانِ حق نے برادرانِ وطن کوکب اشتعال انگیز جملوں میں خطاب کیا ہے؟
آپ فرماتے ہیں ’’ نبیؐ نے مکی دور میں تصادم اورکشمکش سے گریز کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے جان ومال کا تحفظ کیا تھا ہمیں بھی دعوت دینے والے گروہ کا تحفظ ویسے ہی کرنا چاہیے ‘‘ بات واضح نہیں ہوئی ۔کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ اورآپؐ کے مبارک ساتھیوں کوشدید ترین آزمائشوں سے دوچار نہیں ہونا پڑا تھا ؟ آپ جس دعوت دینے والے گروہ کے تحفظ کی بات کررہے ہیں وہ ہے کہاں ؟ اورکس نے کب یہ کہہ دیا کہ داعی گروہ کے جان ومال کا تحفظ نہیں ہونا چاہیے ؟ مگر یہ تحفظ دعوت کوبے روح کرکے نہیں ہوسکتا ۔
ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ یہاں رہنے والے 20تا25کروڑ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ملک کوسماجی ارتقاء ، استحکام ، اور امن وامان سے مالا مال کردیں ‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بیس پچیس کروڑ مسلمان داعی حق گروہ کی شکل میں سرگرم عمل ہیں؟ اورقرآن وسنت نے ان کا فریضہ منصبی یہی قرار دیا ہے ؟ فاضل مضمون نگار نے اپنے مضمون کے اندر یہی تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جملہ مسلمانان ہند فی الواقعہ ایک داعی گروہ اورخیر امت ہیں جبکہ یہ تاثر درست نہیں ہے ۔
امت مسلمہ ایک عالمی گروہ ہے جس کی بعثت قائم مقام نبوت کے طورپر ہوئی ہے ۔ اس کے فرائض منصبی کو ہم قرآن وسنت میں اس طرح دیکھ رہے ہیں جس طرح نصف النہار کی روشنی میں صاف وشفاف طور پر کوئی شے دیکھی جاسکتی ہے ۔ یہ ملت رہتی دنیا تک باقی رکھی جائےگی ۔ اس کے اندر خواہ کتنا ہی بگاڑ پیدا ہوجائے، ذلت و رسوائی کی کسی بھی انتہا تک پہنچ جائے ،مجموعی طورپر گمراہ نہیں ہوسکتی۔آج اس ملت کی کیفیت یہی ہے۔ خود اپنے ملک میں یہ پچیس کروڑکی تعداد فکر وعمل کے انتشار کا شکار ہے ۔ کوئی عیب اوربرائی ایسی نہیں ہے جودیگر قوموں میں توہو مگر اس میں نہ ہو، مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ ملت راکھ کا ایک ڈھیر توضروربن چکی ہے مگر اس میں چنگاریاں موجود ہیں جو اپنا کام انجام دے رہی ہیں ۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ زبردست بگاڑ کے باوجود بگڑی ہوئی ملت میں ہر دور کے اندر اورہرایک خطے اورملک میں ایسے داعیانِ حق لازماً رہیں گے جوایک طرف اس ملت کی تجدید واصلاح کے لئے کوشا ں ہوںگے اوردوسری طرف باشندگان ملک کو اللہ وحدہٗ لا شریک کے پیغام سے روشناس کرائیں گے ۔ احقاق حق اورابطال باطل بالفاظ دیگر معرکہ حق وباطل میں سرگرم عمل ہوںگے اورمؤثر رول ادا کریں گے ۔ فاضل مضمون نگار توبیس پچیس کروڑکوفی الواقعہ’’ داعی گروہ‘‘ قرار دے رہے ہیں ۔ میں توعرض کروںگا کہ اگرجماعت اسلامی ہند کے آٹھ نو ہزار ارکان صحیح معنوں میں دین کے داعی اورعلمبردار بن جائیںاورسماج میں دین کی جیتی جاگتی اورچلتی پھرتی تصویر ہوجائیں اوردعوت کوبغیر کسی آمیزش کے باشندگان ملک کے سامنے پیش کریں تویقین جانئے کہ ملت کے اندر بھی احساس و شعور بیدار ہوگا اوربرادرانِ وطن بھی اللہ رب العٰلمین کے پیغام سے روشناس ہوسکیں گے اوران میں قبول حق کا جذبہ بیدار ہوگا ۔ مگر نہ بھولئے کہ آپ جب اپنی بگڑی ہوئی ’’قوم‘‘ کے اندر پروان چڑھنے والے موذی جراثیم کی نشاندہی کریں گے اوران کی اصلاح کے لئے کوشاں ہوںگے تویہ قوم بھی آپ کے ساتھ وہی سلوک روا رکھےگی جوپیغمبروں کی بگڑی ہوئی قوموں نے ان کے ساتھ روا رکھاتھا۔ اس کی ایک جھلک جماعتِ اسلامی ہند کے ابتدائی بیس پچیس سالوں کے اندرہم سب دیکھ چکے ہیں۔
فاضل مضمون نگار ایک طرف جہاںیہ چاہتے ہیں کہ ’’ دعوت‘‘ وہ ہونی چاہیے جوآج کے تکثیری سماج میں کفر و شرک اوردیو مالائی تصورات کے حاملین اوراربابِ اقتدار کے لیے بے خطر یا کم سےکم قابل گوارہ ہو ۔ حق وباطل کی کوئی کشمکش رونما نہ ہونے پائے ۔ تکثیری سماج ایک حسین گلدستہ کے مانند ہے جس میں رنگ برنگ اورنوع بنوع کفرو شرک ، الحاد ودہریت اوردیو مالائی تصورات کے دلفریب پھول کھلے ہوئے ہیں۔ اسی میں دعوت واصلاح کوبھی ایک دلکش پھول کے مانند مقام حاصل ہوجائے ۔ دوسری طرف جب ان کا ضمیر تقاضہ کرتا ہےتووہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انبیاء کرام کا طریقہ دعوت ہی درست ہے اورآج بھی راست دعوت دی جاسکتی ہے ۔ مگر اس کے نتیجہ میں جب آزمائشوں کا خیال آتا ہے توپھر…..اس تضاد بیانی کی یہی وجہ ہے سب کچھ جاننے اورسمجھنے کے باوجود طبیعت اس طرف مائل نہیں ہوتی۔
جانتا ہوں ثوابِ طاعت وزہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2015