اسلام کے ظہور سے کچھ پہلے سرزمین عرب میں شاعری فکری وفنی اعتبار سے انتہائے شباب پر تھی اور شعراء کو بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اُن کی عزت وتوقیر کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے قبیلے سے جو کچھ طلب کرتے، اُن کی ہرآرزو پوری کی جاتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ لوگ شعراء کو اپنی قوم کی آبروسمجھتے تھے۔ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ یہی وہ ذات گرامی ہے جو ان کے حسب نسب اور زبان وادب کی محافظ ہے۔ شاعر جس کی مدح لکھ دیتا اس کی شہرت ہر طرف پھیل جاتی اور اگر کسی کی ہجو کرنے پر اتر آتا تو اسے سارے زمانے میں ذلیل ورسوا کردیتا۔ وہ انتقامی کارروائی کے وقت اس قدر پرجوش کلام کہتا کہ پورا قبیلہ اس سے متاثر ہوکر اپنے فریق سے بدلہ لینے پر آمادہ ہوجاتا یا قاتل سے مقتول کا خوں بہا وصول کرتا۔
اس دور کے شعرا کے موضوعات فخر، بہادری، مہمان نوازی، تعریف وتوصیف (قصیدہ) مرثیہ، زندگی کے عام تجربات اور اخلاقیات تھے۔ گویا یہ شاعری عربوں کی سماجی زندگی کا آئینہ تھی۔ زمانۂ جاہلیت کی شاعری کی یہ خوبی اورتاثیر ایک طرف۔ دوسری طرف بعض شعراء کلام میں اپنی نفسانی خواہشات و جذبات کا اس طرح بے محابا اظہار کرتے کہ شرم وحیا کادامن تارتار ہوجاتا۔ ان کی فحش نگاری کا یہ حال تھا کہ وہ محبوب کے عریاں سراپا کی تصویر اپنے اشعار میں کھینچتے اور اس کے حسن وجمال کی مصوری اور اپنی جنسی خواہشات اور سفلی جذبات کی ترجمانی فخریہ انداز سے کرتے۔ مناظر قدرت کی عکاسی، شراب نوشی کا لطف اور بازاری عورتوں سے جسمانی اختلاط ان کے محبوب موضوعات تھے۔ گویا بداخلاقی اورفکری کثافت سے ان کا کلام مملو تھا۔ یہ فتنہ و شر کے احساسات سے بھرا ہوا کلام تھا۔
ایسے پراگندہ ماحول میں رسول اکرم ﷺ نے یہ اعلان کیا کہ خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ اپنی ذات وصفات میں یکتا وتنہا ہے۔ وہی ہر مخلوق کا خالق ومالک ہے۔ اسی کے دست قدرت میں سب کی موت وحیات ہے۔ دیوی اور دیوتا جن کو تم پوجتے ہو ایک بے جان پتھر کے سوا کچھ نہیں ہیں اس لئے ہرچیز خدا سے طلب کرنا چاہئے۔ اسی کے حضور میں دست سوال دراز کرناچاہئے۔ تو اس نئی آواز کو سن کر مشرکین آپﷺ کے جانی دشمن بن گئے۔ اسی طرح آپؐ نے ان کو ہر قسم کی اخلاقی برائیوں سے روکااور انہیں نیکی کی تعلیم دی اور اخلاق فاسدہ کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ آپؐ کے اس عمل سے عرب معاشرے کے مشرکانہ رسم ورواج اور تہذیب وثقافت پر شدید ضرب پڑی ۔ چنانچہ مشرکین انتقامی کارروائی پر اتر آئے۔ آپؐ کی ہجویں لکھیں اور آپؐ پر طرح طرح کے الزامات بھی عائد کئے۔ وہ کبھی آپؐ سے نبوت کی کوئی نشانی طلب کرتے۔ کبھی آپؐ کا سرِ عام مذاق اڑاتے اور تکلیفیں پہنچاتے۔ کبھی آپﷺ کو شاعر وکاہن قرار دیتے اور وحی الٰہی کو معاذ اللہ کسی شیطان یا جن کا کلام کہتے۔ ان حالات میں آپؐ کی مکی زندگی کے وسطی دور میں سورہ الشعراء کا نزول ہوا جس میں اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تمام اعتراضات کا مدلل جواب دیا اور اس سورہ کی آخری چار آیات میں حق وباطل کے ترجمان شاعراور شاعری کے درمیان یہ گہری لکیر کھینچ دی۔
وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُہُمُ الْغَاوٗنَ۲۲۴ۭ اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّہِيْمُوْنَ۲۲۵ۙ وَاَنَّہُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ۲۲۶ۙ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللہَ كَثِيْرًا وَّانْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا۰ۭ وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۲۲۷ۧ (الشعراء ،آیت نمبر ۲۲۴ تا ۲۲۷)
’’رہے شعرا تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہروادی میں بھٹکتے ہیں۔ اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں۔ بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کئے اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیاگیا تو صرف بدلہ لے لیا۔ اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔
ان چار آیات ربانی میں پہلی آیت میں اس حقیقت کو بیان کیاگیا ہے کہ شعراء کی پیروی وہ لوگ کرتے ہیں جو ہدایت کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ دوسری آیت میں یہ بات کہی گئی ہے کہ چونکہ شعراء خود راہِ ہدایت سے منحرف ہیں اور ان کے راستے کا کوئی تعین نہیں ہے اس لئے ان کا فکر ہر وادی میں بھٹکتا رہتا ہے۔ یہ وہ شعراء ہیں جو اپنے جذبات کے تابع ہوکر ایسے خیالات پیش کرتے ہیں جن کا صداقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تیسری آیت بیان کرتی ہے کہ اس قسم کے شعرا کا عمل ان کے قول کے بالکل خلاف ہے۔ وہ اگر کوئی اچھی بات بھی کہتے ہیںتو اس پر خود عمل نہیں کرتے اور چوتھی آیت میں ایسے شعراء سے ان شعرا کو علاحدہ کیاگیا ہے جن میں یہ چار صفات پائی جاتی ہیں: (الف) وہ خد اور اس کے احکام پر صدق دل سے ایمان لائے ہیں۔ (ب) وہ اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کے احکام کے دائرے میں رہ کرگزارتے ہیں۔ (ج) خدا کو کثرت سے یاد کرتے ہیں۔ (د) ذاتی مفاد کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیتے اور نہ ہی نفس کی خوشنودی کے لئے کسی کی ہجو کرتے ہیں۔ اس چوتھی آیت کے آخر میں یہ تہدید بھی ہے کہ جو شعرا ظلم اور ہٹ دھرمی کرنے والے ہیں اور نبی کریم ﷺ پر الزام لگانے والے ہیں ان کاانجام دردناک ہوگا۔ وہ دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔
فتح الباری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ آیت (والشعراء یتبعہم الغائون) نازل ہوئی تو حضرت حسان بن ثابتؓ اور حضرت کعب بن مالکؓ جو شعراء صحابہ کرام ؓ میں مشہور ہیں روتے ہوئے سرکار دوعالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ خدائے ذوالجلال نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور ہم بھی شعر کہتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آیت کے آخری حصے کو پڑھو ۔ مقصد یہ تھا کہ تمہارے اشعار بیہودہ اور غلط مقصد کے لئے نہیں ہوتے اس لئے تم اس استثنا میںداخل ہو جو آخر آیت میں مذکور ہے۔ حضرت کعب بن مالکؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض گزار ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے شعر کے بارے میں حکم نازل فرما دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن اپنی تلوار اور اپنی زبان کے ساتھ جہاد کرتا ہے ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ ان کے ذریعے تم مشرکوں پر یوں تیر اندازی کرتے ہو، جیسے تیروں کی بوچھار ۔ یہ روایت شرح السنہ میں ہے اور ابن عبدالبر کی الاستیعاب میں ہے کہ وہ عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعر کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا کہ مومن اپنی تلوار اور زبان کے ساتھ لڑتا ہے۔ (مشکوٰۃ ، حدیث نمبر : ۴۵۸۴)
ان آیات کی حضرت مولانا شبیر احمدعثمانی ؒ نے جو تشریح کی ہے وہ حق کو باطل سے بالکل علاحدہ کردیتی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
’’کافر لوگ پیغمبر ﷺ کو کبھی کاہن بتاتے کبھی شاعر۔ سو فرمایا کہ شاعر کی باتیں محض تخیلات ہوتی ہیں۔ تحقیق سے ان کو کوئی لگائو نہیں ہوتا اس لئے اس کی باتوں سے بجز گرمی محفل یا وقتی جوش یا واہ واہ کے کسی کو مستقل ہدایت نہیں ہوتی۔
(اس نے) جو مضمون پکڑ لیا اسی کو بڑھاتے چلے گئے۔ کسی کی تعریف کی تو آسمان پر چڑھا دیا۔ مذمت کی تو ساری دنیا کے عیب اس میں جمع کردیے۔ موجود کو معدوم اور معدوم کو موجود ثابت کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ غرض جھوٹ، مبالغہ اور تخیل کے جس جنگل میں نکل گئے پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔
(اس کے ) شعر پڑھو تو معلوم ہو کہ رستم سے زیادہ بہادر اور شیر سے زیادہ دلیر ہوں گے اور جاکر ملوتو پرلے درجے کے بزدل اور ڈرپوک۔ کبھی دیکھو توہٹے کٹے ہیں اور اشعار پڑھو تو خیال ہو کہ نبضیں ساقط ہوچکیں، قبض روح کا انتظار ہے۔ غرض ایک پیغمبر خدا اور وہ بھی خاتم الانبیاء کو اس جماعت سے کیا لگاؤ۔ اس لئے فرمایا: (اور ہم نے نہیں سکھایا اس کو (نبی کریم ﷺ کو)شعر کہنا اور یہ اس کے لائق نہیں) آپﷺ کی جو بات تھی (وہ ) سچی، جچی تلی، پائو تولے پائورتی، تحقیق کی ترازو میں تلی ہوئی تھی۔ پھر جوبات زبان مبارک سے سنی جاتی تھی وہ ہی عمل میں آنکھوں سے نظر آتی تھی۔ بھلا شاعر ایسے ہوتے ہیں اور شاعری اسے کہتے ہیں۔ حاشا ثم حاشا۔
مگر جو کوئی (شاعر) شعر میں اللہ کی حمد کہے یا نیکی کی ترغیب دے یا کفر کی مذمت یا گناہ کی برائی بیان کرنے یا کافر اسلام کی ہجو کریں تو اس کا جواب دے۔ یا کسی نے اس کو ایذا پہنچائی اس کا جواب بحداعتدال دیا۔ ایسا شعر عیب نہیں‘‘۔
ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے شاعری کو کلی طور سے رد نہیں کیا ہے بلکہ وہ معیار بتایا ہے جس کی روشنی میں مقبول و مرد ود شاعر اور شاعری کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ اسی کسوٹی کی بنیاد پر کسی عالم، خطیب، مقرر اور دانشور کی فکر کو بھی پہچانا جاسکتا ہے اور یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ حق ہے یا باطل۔ مقبول ہے یا مردود۔ یہ آیتیں سب کو اپنی گرفت میں لیتی ہیں۔ اسی معیار کی روشنی میں نبی کریم ﷺ نے شاعری کے بارے میں اظہار خیال فرمایا ہے۔ آپﷺ نے کبھی اس کی تعریف وتوصیف کی ہے تو کسی موقع پر سخت مذمت کی ہے۔
شاعری کے متعلق نبی کریم ﷺ کے احساسات و اعمال قرآن کے متعین کردہ معیار کے عین مطابق ہیں۔ شعروں کے بارے میں آپؐ کا اظہار خیال دیکھیے کہ کس قدر جامع ہے۔ حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے: ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بے شک بعض شعروں میں دانائی ہوتی ہے۔ (بخاری،حدیث نمبر:۱۰۷۷)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ حکمت سے مراد سچی بات ہے جو حق کے مطابق ہو۔ ابن ابطال عرض کرتے ہیں کہ جس شعر میں خدا کی وحدانیت، اس کا ذکر، اسلام سے الفت کا بیان ہو وہ شعر مرغوب ومحمود ہے اور حدیثِ مذکور میں ایسا ہی شعر مراد ہے اور جس شعر میں جھوٹ اور فحش بیان ہو ، وہ مذموم ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے شعر کا ذکر ہوا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی کلام ہے۔ اچھا ہوتو اچھا ہے اور برا ہوتو برا ہے۔ اس حدیث کو دارقطنی اور شافعی نے عروہ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: ۴۵۹۵)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریش کی ہجو کہو کیوں کہ یہ ان پر تیروں کی بوچھار سے بھی زیادہ سخت ہے۔ (مشکوٰۃ، حدیث نمبر : ۴۵۷۹)
ان ہی سے مروی ہے کہ حضرت حسان ؓ کے لئے رسول اللہ ﷺ مسجد میں منبر رکھواتے جس پر وہ اچھی طرح کھڑے ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مدافعت کرتے ہیں۔ (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: ۴۵۹۳) ان سے یہ بھی روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا کہ روح القدس برابر تمہاری مدد کرتا رہے گا جب تک تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے مدافعت کرتے رہوگے اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ان کی (مشرکین کی) ہجوگوئی کرکے حسان نے شفا دی اور شفا پائی۔ (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: ۴۵۸۰)
حضرت براءؓ کی روایت سے یہ واقعہ منکشف ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریظہ کے روز حضرت حسان بن ثابتؓ سے فرمایا کہ مشرکین کی ہجو کہو جبکہ تمہارے ساتھ حضرت جبرئیل ؑ ہیں اور رسول اللہ ﷺ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے رہے کہ میری طرف سے جواب دو۔ اے اللہ اس (حضرت حسانؓ) کی روح القدس سے مدد فرما۔ (متفق علیہ۔ مشکوٰۃ، حدیث نمبر: ۴۵۷۸)
اگرچہ عام حالات میں نبی کریم ﷺ کسی کی ہجو کرنے کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔ اور اس سلسلے میں آپؐ نے فرمایا تھا کہ جو کوئی اسلام میں بے ہودہ ہجوگوئی کرے گا تو اس کی زبان کاٹ لی جائے گی۔ (من قال فی الاسلام ھجاء مقدعآ فلسانہ ھدر) لیکن جب ہجرت کے بعد بھی قریش مکہ کے شاعرآپؐ کی دل خراش ہجو لکھنے سے باز نہ آئے اور آپ کو سخت اذیت پہنچاتے رہے تو آپ نے حکمت کے پیش نظر حضرت حسان بن ثابتؓ ،حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو ان کی فرمائش پر ہجو کہنے کی اجازت دے دی انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے خدا کے رسول ﷺ کی ہر طرح سے مدافعت کی اورقریش مکہ کے ہجو نگار شاعروں خصوصاً عبداللہ ابن الزبعریٰ، ابوسفیان بن الحارث بن عبدالمطلب اور عمروبن العاص کو دندان شکن جواب دیا جس کے باعث مکہ والوں کے چھکے چھوٹ گئے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعر گوئی نہیں سکھائی تھی ،البتہ ذوقِ شعر عطا فرمایا تھا۔ حضرت جابر ؓ بن سمرہ کا بیان ہے کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک سو سے زیادہ مجالس میں شریک ہوا ہوں جن میں جاہلیت کے قصے بیان ہوتے تھے اور صحابہ کرامؓ شعر سنایا کرتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذوقِ شاعری انتہائی مقدس اور پاکیزہ تھا۔ آپ ﷺ کا معیارِ نقدِ سخن حکم ِ شرع کے دائرے میں تھا۔ آپؐ اسی کے مطابق شعر یا شاعر کی توصیف یا مذمت کیا کرتے۔ اور شاعروں کی ہمت افزائی کرتے۔ اچھے اور پاکیزہ اشعار بڑی دلچسپی سے سماعت فرمایا کرتے۔ آپﷺ کے ذوق سخن کی یہ چند مثالیں دیکھیے:
مشہورو معروف شاعر لبید بن ربیعہ (ف: ۴۱ھ ؍۶۶۳) نے جاہلیت اور اسلام کے عہد میں اپنی زندگی گزاری۔ انھوںنے نبی کریم ﷺ کے دستِ مقدس پر بیعت کی اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس کے بعد حفظ قرآن کیا اورشاعری ترک کردی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ ان کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کسی شاعر نے جو سب سے سچی بات کہی وہ لبید بن ربیعہ کے یہ الفاظ ہیں: حق تعالیٰ کے سوا ہرچیز فانی ہے۔(بخاری، حدیث: ۱۰۷۹) دراصل یہ لبید کے ایک شعر کا پہلا مصرعہ ہے۔ اس کا دوسرا مصرعہ یہ ہے۔ اور دنیا کی ساری نعمتیں زائل ہونے والی ہیں۔
اسی حدیث میں آپؐ نے یہ بھی فرمایا: قریب تھا کہ امیہ ابی الصلت اسلام قبول کرلیتا۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۷۹) امیہ بن ابی الصلت (۹ھ؍۶۲۴) زمانۂ جاہلیت کا ایک نامور شاعر ہوا ہے۔ وہ تلاشِ حق میں عرصۂ دراز تک سرگرداں رہا، لیکن جب نبی کریم ﷺ کی بعثت ہوئی اور حق نمایاں ہوگیاتو کینہ وحسد کے باعث اسلام قبول نہ کرسکا۔ اس کے شاعرانہ خیالات بہت ہی پاکیزہ تھے۔ جب آنحضرت ﷺ اس کے ایمان و یقین اورتوحید ورسالت سے مزین اشعار سماعت فرماتے تو یہ بھی فرماتے: ’’اس کا شعر مومن ہے مگر اس کا دل کافر ہے۔ آپؐ اس کے اشعار کو پسند فرماتے اور فرمائش کرکے سنتے۔ چنانچہ عمروبن شریدؓ کے والد کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک دن سوار تھا تو آپؐ نے فرمایا تم کو امیہ بن ابی الصلت کے کچھ شعر یا د ہیں۔میں نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا پڑھو۔ میں نے ایک شعر پڑھا۔ آپؐ نے فرمایا اور پڑھو۔ یہاں تک کہ میں نے سو اشعار پڑھ کر سنائے۔ (مسلم،کتاب الشعر) اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام نوویؒ کہتے ہیں کہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیہ بن ابی الصلت کے شعروں کو پسند کیا اور زیادہ پڑھنے کی فرمائش کی کیوں کہ ان میں توحید الٰہی اور حشر کا اقرار تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شعر میں فحش مضمون نہ ہو اس کاپڑھنا اور سننا جائز ہے۔ اگرچہ جاہلیت کےزمانے کا شعر ہو۔ (صحیح مسلم مع شرح نووی مترجم، علامہ وحید الزماں جلد پنجم مطبوعہ اعتقاد پبلشنگ ہائوس، دہلی، ۱۹۸۴، ص: ۴۱۷)
یزید بن ابوعبید کا بیان ہے کہ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہم خیبر کی جانب نکلے اور ایک رات چلتے رہے۔ ایک شخص نے حضرت عامر بن اکوع ؓ سے کہا کہ آپ اپنا کلام کیوں نہیں سناتے؟ چوں کہ حضرت عامرؓ شاعر تھے لہٰذا سواری سے سے اتر پڑے اور حدی خوانی کرنے لگے جس کا ترجمہ یہ ہے: (اے اللہ اگر تو ہدایت نہ فرماتا تو ہم تیرے اطاعت گزار بندے کیسے بن سکتے تھے۔ اے اللہ ہم زندگی بھر جو کام کرتے رہے ہیں اُن میں جو تجاوز ہوا ہے اُسے بخش دے۔ دشمنوں کےمقابلے میں صبر وقرار عطافرما۔ اور ہم پہ سکینہ نازل کر) یہ کلام سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ یہ اونٹوں کو کون ہانک رہا ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ عامر بن اکوعؓ تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۸۰)
اسی طرح ایک اورواقعہ تاریخ اسلام میں ملتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت عمر ابن الخطابؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ سفر میں تھے۔ چونکہ منزل طویل تھی اس لئے رسول اللہ ﷺ نے چاہا کہ اونٹ کو تیز چلایا جائے اور عبداللہ بن رواحہ سے کہا کہ اگر اونٹ حدی خوانی سے تیز چل سکتا ہے تو حدی شروع کرو۔ وہ فرط حیا سے خاموش رہے۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے کہاکہ تم رسول اللہ ﷺ کا کہنا نہیں مانتے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے توحید کے مضامین سے مزین حدی خوانی شروع کی جس کو سن کر رسول اللہ ﷺ خوش ہوتے رہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۷ھ میں اپنے اصحاب کے ساتھ عمرۂ قضا کے لئے تشریف لے گئے۔ عبداللہ بن ابوبکرؓ کی روایت کے مطابق جب آپؐ مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت عبداللہ بن رواحہؓ آپؐ کی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے تھے اور ایمان افروز اشعار پڑھ رہے تھے۔ (تاریخ طبری۔ اول)
کعب بن زہیر(ف: ۲۶ھ؍۶۴۵) جب مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے شدید مخالف تھے اور ہمیشہ آپؐ کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے لیکن وہ ۹ھ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرکے آپؐ کی خدمت میںآئے اور مدح اور معذرت میں ۵۸ اشعار پر مشتمل بحر بسیط میں ایک قصیدہ پیش کیا تو آپؐ نے نہ صرف ان کی جاں بخشی کی بلکہ فرطِ مسرت میں اپنی چادر مبارک اتار کر انہیں اڑھا دی جس کی وجہ سے اس قصیدے کا نام ہی قصیدہ بردہ (یعنی چادر والا قصیدہ) پڑ گیا۔ یہ قصیدہ اس قدر مقبول ہوا کہ بعد کے کئی شعرا نے اس زمین میں قصائد کہے۔ یہ قصیدہ آج تک بہت مقبول ہے اور اس کا پڑھنا باعث ثواب اورخیروبرکت سمجھا جاتا ہے۔
یہ حقیقت کا ایک رخ ہے۔ اب اس کا دوسرا رخ دیکھیے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک دن عرج (ایک گاؤں جو مدینہ سے ۷۸ میل کے فاصلے پر واقع ہے) جارہے تھے کہ سامنے سے ایک شاعر شعر پڑھتا ہوا آیا۔ اس کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس شیطان کو پکڑو یا اس شیطان کو روکو۔ کیونکہ آدمی کا پیٹ پیپ سے بھرا ہوا ہوتو یہ شعروں سے بھرے ہوئے ہونے کی نسبت اس کے لئے بہتر ہے۔ (مسلم، کتاب الشعر اور مشکوٰۃ، حدیث نمبر: ۴۵۹۶) اس حدیث کو واقعہ حذف کرکے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اورحضرت ابوہریرہؓ نے بھی بیان فرمایا ہے۔
اس حدیث پرروشنی ڈالتے ہوئے امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ ’’ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ انسان شعر گوئی یا شعر خوانی میں ایسا مصروف نہ رہے کہ علوم شرعیہ، قرآن حکیم اور حدیث سے استفادے کی فرصت نہ پاوے البتہ اگرقرآن وحدیث کے ساتھ تھوڑے سے شعر بھی یاد ہوں تو کچھ قباحت نہیں اس لئے کہ اس کا پیٹ شعر سے نہیں بھرا ہے‘‘۔ بعض علماء نے مطلقاً شعر کو مکروہ کہا ہے اگرچہ اس میں فحش نہ ہو اور اکثر کا یہ قول ہے کہ شعر مباح ہے اگر اس میں فحش نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں شعر بھی ایک کلام ہے۔ اس کااچھا، اچھا ہے اور اس کا برا، برا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار سنے ہیں اور پڑھوائے ہیں اور حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مشرکوں کی ہجو میں شعر کہنے کا حکم دیا ہے اور آپﷺ کے اصحاب نے آپﷺ کے سامنے سفر وغیرہ میں شعر پڑھے ہیں۔ اور خلفا، صحابہ اور فضلائے سلف نے شعر پڑھے ہیں اور کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔ البتہ برے شعر پر نکیر ہے۔ اور جس شاعر کو آپﷺ نے شیطان کہا ہے وہ اس کے کفر کی وجہ سے ہوگا۔ یاوہ رات دن شعر میں مصروف ہوگا۔ یا اس کے شعر برے ہوں گے۔ (صحیح مسلم مع شرح نووی مترجم علامہ وحیدالزماں جلد پنجم مطبوعہ اعتقاد پبلشنگ ہائوس، دہلی، ۱۹۸۴ء، ص: ۴۱۸)
شعر و شاعری کی مذمت میں جتنی بھی روایات ہیں ان کو امام بخاری ؒ نے ایک مستقل باب میں بیان فرمایا ہے۔ اس باب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت بھی نقل کی ہے: (مسلم ، کتاب الشعر اور مشکوٰۃ، حدیث نمبر: ۴۵۹۶) ’’کوئی آدمی پیپ سے اپنا پیٹ بھر ے یہ اس سے بہتر ہے کہ اشعار سے پیٹ بھرے‘‘۔ اس روایت کے سلسلے میں امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ شعر جب اللہ تعالیٰ کے ذکر اور قرآن حکیم اورعلم کے اشتغال پر غالب آجائے (تو برا ہے) اور اگر شعر مغلوب ہے تو پھر برا نہیں ہے۔ اسی طرح وہ اشعار جو فحش مضامین یا لوگوں پر طعن وتشنیع یا دوسرے خلافِ شرع مضامین پر مشتمل ہوں وہ باجماع امت حرام و ناجائز ہیں اور یہ کچھ شعر کے ساتھ مخصوص نہیں، اگر نثری کلام بھی ایسا ہوگا تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ (قرطبی) ابن ابی جمرہ نے فرمایا کہ بہت قافیہ بازی اور ہر ایسا علم وفن جو دلوں کو سخت کردے اور خدا تعالیٰ کے ذکر سے انحراف و اعتراض کا سبب بنے اور اعتقادات میں شکو ک و شبہات اور روحانی بیماریاں پیدا کرے اس کا بھی وہی حکم ہے جو مذموم اشعار کا ہے۔
اسی احتساب ومیزان کے تحت شعر وشاعری کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عمل کیا۔ انھوںنے شاعری کی، اشعار سنے، ان سے لطف اندوز ہوئے اور مخرب اخلاق اور فحش اشعار کہنے والوں کو سزائیں بھی دیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضر ت عمرفاروق ؓ، حضرت علیؓ ، حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کا ذوق سخن انتہائی اعلیٰ، نفیس، پاکیزہ اور عمدہ تھا۔ طبری کے بیان کے مطابق کبارِ صحابہ اور کبارِ تابعین شعر کہتے، سنتے اور سناتے تھے۔ تفسیر قرطبی میں ہے کہ مدینہ منورہ کے فقہا عشرہ جو اپنے علم وفضل میں معروف ہیں ان میں سے عبیداللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور قادر الکلام شاعر تھے اور قاضی زبیر بن بکار کے اشعار ایک بیاض میں جمع تھے۔ پھر قرطبی نے لکھا ہے کہ ابوعمرو نے فرمایا ہے کہ اچھے مضامین پر مشتمل اشعار کو اہلِ علم اور اہل عقل میں سے کوئی برانہیں کہہ سکتا کیونکہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو دین کے مقتدا ہیں ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جس نے خود شعر نہ کہے ہوں یا دوسروں کے اشعار نہ پڑھے یا سنے ہوںاور پسند نہ کیا ہو۔ (معارف القرآن، جلد ششم، ازمولانا مفتی محمدشفیع عثمانی ؒ مطبوعہ مکتبہ مصطفائیہ دیوبند، ص: ۵۴۲، ۵۴۳)
اسلام میں شاعری کی کیا افادیت اور حقیقت ہے ۔ اس کا کیا معیار ہے۔ اس کو ان تفصیلات کے آئینۂ خانے میں دیکھا جاسکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2015