جس دین کی بنیاد ہی عین انسانی فطرت پر رکھی گئی ہو، جس کا کہنا یہ ہو کہ خالقِ حکیم نے جس مخلوق کو بھی پیدا کیا ہے اسے ٹھیک انھیں قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے جو اس کے مقصدِ آفرینش کے لیے مطلوب اور ضروری تھیں، جو آدمی کی نِری مادّی خواہشوں کی تکمیل کو بھی ثواب کا کام اور دین داری کا عمل قرار دیتا ہو، جس نے انسان کی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے ایک جامع اور تفصیلی نظام دے رکھا ہو، جس نے اپنے معاشرتی، تمدنی اور سیاسی نوعیت کے احکام کو بھی صراحۃً ‘‘اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود’’ اور‘‘دین’’ فرمایا ہو اور ان کی خلاف ورزی پر عذاب کی دھمکی دی ہو۔ ایسا دین کبھی یہ گوارا کر ہی نہیں سکتا کہ اس کے پیرو دنیا سے وحشت کھائیں اور خدا کو پا لینے کے لیے جنگلوں اور غاروں کی راہ لیں اور اس طرح اپنی زبانِ حال سے گویا اس خیال کا اظہار یا اپنے اس فیصلے کا اعلان کر دیں کہ ان کے اور دیگر سبھی لوگوں کے اندر گوناگوں قسم کی جو فطری قوتیں اور جبلّی خواہشیں اور مختلف طرح کے جو جذبات و میلانات پائے جاتےہیں، انھیں، معاذ اللہ، فضول ہی پیدا کر دیا گیا ہے! اور پھر ایک منظم و متمدن معاشرے کو پیشِ نظر رکھ کر ایک جامع و مفصل دستورِ حیات بھی نازل کر کے، العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ، مزید بوالفضولی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
قرآن حکیم نے اس انداز فکر وعمل کو واضح طور پر غلط قرار دیا ہے اور اسے لوگوں کے اپنے ذہن کی ایجاد کہا ہے۔
مولانا صدر الدین اصلاحیؒ،
دین کا قرآنی تصور
مشمولہ: شمارہ جنوری 2020