باطل کی خدائی کو گوارا نہ کریں گے

(مسلم خواتین کی سیاسی سرگرمیاں)

اگر ملک میں سیاسی بگاڑ پھیل رہا ہو تو اس سے آنکھیں موند لینا کسی طرح جائز نہیں ہوسکتا ہے۔ سیاسی بگاڑ کے مقابلے میں سیاسی اصلاح کا کام فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔سیاسی اصلاح کا کام بہت بڑا ہوتا ہے اور بڑی جدوجہد چاہتا ہے۔ اتنا بڑا کام صرف مردوں کے ذریعے انجام نہیں پاسکتا ہے، اصلاح کے اس بڑے کام میں عورتوں کی شرکت ضروری ہے۔ خاص طور سے جب کہ قدیم زمانے کے برعکس سیاسی عمل مردوں تک محدود نہیں رہا۔اب عورتوں کا اس سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا مردوں کا ہے۔جدید جمہوری ریاست کے سبھی بالغ شہری ووٹر ہوتے ہیں۔ خواہ وہ مرد ہوں یا عورت۔ اس بات کو بہت شدت کے ساتھ تونس میں اسلامی تحریک کے رہ نما راشد غنوشی نے محسوس کیا۔ انھوں نے اندازہ لگایا کہ اگر اسلامی تحریک نے خواتین کو سیاسی عمل میں شرکت کا بھرپور موقع نہیں دیا اور ان کی اہمیت اوررول کو تسلیم نہیں کیا تو اسلامی تحریک کو خواتین کی تائید حاصل نہیں ہوسکے گی اور اسلامی تحریک سیاسی مقابلہ آرائی میں کبھی کام یاب نہیں ہوسکے گی۔ملت کے آدھے حصے کو دوسرے گروہ اپنے پرفریب نعروں سے متاثر کرلیں جب کہ اسلامی تحریک انھیں ان کا فرض بھی یاد نہ دلاسکے تو یہ یقینًا افسوس کی بات ہے۔

سیاسی عمل کی وسعتیں

لوگوں کو یہ بتانا کہ جب ملک کا نظام و انتظام اللہ کی مرضی کے مطابق چلتا ہے تو اس کے کیا دنیوی اور اخروی فائدے ہوتے ہیں اور جب وہ اللہ کی مرضی کو نظر انداز کرکے چلایا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ملک کے عوام کتنے بڑے نقصان سے دوچار ہوتے ہیں، اور یہ دنیوی اور اخروی پہلو سے کتنا تباہ کن ہوتاہے، فرض کے پہلو سے ایک دینی فریضہ ہے اور سرگرمی کے لحاظ سے ایک طرح کی سیاسی سرگرمی بھی ہے۔

سیاسی سرگرمی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔وہ صرف الیکشن میں کھڑے ہونا، ووٹ ڈالنا اور کسی کے حق میں کنویسنگ کرنا نہیں ہے۔ اپنا سیاسی نظریہ لوگوں کے سامنے پیش کرنا، اپنی سیاسی اقدار کو فروغ دینا اور اپنے عقیدہ و اقدار کے مطابق سیاسی ماحول تیار کرنا بھی سیاسی سرگرمی کے اہم پہلو ہیں۔

مسلم خواتین کی سیاسی تاریخ

اسلامی لٹریچر میں اس پر تو بحث ہے کہ عورت حکم راں بن سکتی ہے یا نہیں، لیکن عورت کی سیاسی سرگرمیوں پر کسی نے پابندی عائد نہیں کی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے جب مکہ میں دوسری بیعت عقبہ کے موقع سے مدینہ کے ستر لوگوں سے بیعت لی۔ تو اس میں دو عورتیں بھی شامل تھیں، نسیبہ بنت کعبؓ اور اسماء بنت عمروؓ۔ (مسند احمد) نسیبہ بنت کعب عہد رسالت کے اخیر میں بیعت رضوان میں بھی شامل رہیں۔

اللہ کے رسولﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع سے حضرت ام سلمہؓ کے مشورے کو قبول کیا اور اس پر عمل کرکے ایک بحرانی کیفیت کو ختم کرنے میں کام یابی حاصل کی۔(صحیح بخاری)

حضرت شفا بنت عبداللہؓ کو حضرت عمر مشورے میں پیش پیش رکھتے تھے،وہ ان کی بات کو پسند کرتے اور ترجیح دیتے تھے۔(الاستیعاب)

دور حاضر میں جن اسلامی تحریکات نے اپنے ملک کے انتخابات میں حصہ لیا، خواہ وہ پارلیمانی انتخابات ہوں، بلدیاتی انتخابات ہوں، یا مختلف یونینوں کے انتخابات ہوں، اسلام پسند خواتین نے دونوں پہلوؤں سے بہت اہم رول ادا کیا، انھوں نے محنت کرکے اسلام پسند امیدواروں کی کام یابی کے لیے راہیں ہم وار کیں اور خود انتخاب میں امید وار بن کر کام یابیاں حاصل کیں۔ اس حوالے سے کئی ریسرچ پیپر ہیں کہ فلسطین (خاص کر غزہ ) میں ماضی میں ہونے والے انتخابات میں تحریک اسلامی کی خواتین امیدواروں نے کس طرح نمایاں کام یابی درج کی اور انتخابی سیاست میں بھی خواتین کے لیے روشن مثالیں قائم کیں۔

کارِ حکومت میں شرکت

اسلامی تاریخ میں بہت سی خواتین نے ملک کے سیاسی معاملات میں دل چسپی دکھائی اور اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور ذہانت کی بدولت ملک کے اقتدار کو چلانے میں مشیر و مدبر کا رول ادا کیا۔ ان کا تذکرہ یہاں شرعی دلیل کے طور پر نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ ایک واقعاتی ثبوت کے طور پر کیا جارہا ہے، کہ سیاسی سوجھ بوجھ پر صرف مردوں کا اجارہ نہیں ہے، خواتین بھی اس میدان میں اپنی قابلیت منواتی رہی ہیں۔

دوسری صدی ہجری میں عباسی سلطنت کا عروج تھا۔تخت خلافت پر ہارون رشید متمکن تھا۔ تاہم ہارون رشید نے امور سلطنت اپنے وزیر یحیی برمکی کو سونپ رکھے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مکمل اختیارات رکھتے ہوئے بھی یحیی برمکی ہارون رشید کی ماں خیزران سے مشاورت کرتا تھا۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کرتا تھا جب تک کہ خیزران سے مشورہ نہ کرلے۔ (البدایہ و النھایہ)

دوسری طرف خود ہارون رشید کا اپنی رضاعی ماں ام جعفر کے ساتھ بڑا انوکھا معاملہ تھا، وہ برکت لینے کی نیت سے اس سے مشورہ لیا کرتا تھا۔ ہارون رشید نے قسم کھا رکھی تھی کہ وہ کبھی اسے دربار میں آنے سے منع نہیں کرے گا اور کسی کے حق میں اس کی سفارش کو رد نہیں کرے گا۔ جب کہ ام جعفر نے قسم کھالی تھی کہ وہ جب بھی آئے گی اجازت لے کر آئے گی، اور دنیوی غرض سے کسی کی سفارش نہیں کرے گی۔ مورخ لکھتا ہے کہ اس کی سفارش سے بہتوں کو قید سے رہائی ملی اور بہتوں کی مشکلات دور ہوئیں۔ (العقد الفرید)

چوتھی صدی کے آغاز کی بات ہے۔ عباسی خلیفہ مقتدر باللہ کی ماں کا نام شغب تھا۔خاندانی پس منظر سے تو وہ ایک باندی تھی لیکن اس کے نصیب میں خلیفہ کی ماں ہونا لکھا تھا۔ سلطنت میں اس کا بہت عمل دخل تھا۔ مظلوموں کی داد رسی کے لیے اس نے ثمل نام کی ایک خاتون کو متعین کر رکھا تھا، جو ہر جمعہ کو ایک خاص مقام پر بیٹھتی اور شکایتیں سنتی اور انھیں رفع کرنے کی تدبیریں کرتی۔ شغب کے پاس بے پناہ دولت تھی۔ اس کی جاگیروں سے آمدنی اتنی ہوتی تھی کہ ہر سال دس لاکھ سونے کی اشرفیاں آتی تھیں، تاہم وہ اس کا بیشتر حصہ غریبوں پر خرچ کردیتی۔ حاجیوں کے انتظامات کا وہ بہت خیال رکھتی، حاجیوں کے قافلوں کے ساتھ اطبا اور دواؤں کا ذخیرہ بھیجتی۔ بغداد سے مکہ کے درمیان پانی کی سبیلوں کی مرمت بھی اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ (منتظم)

چوتھی صدی کے اختتام پر جب کہ ایران میں بویہی سلطنت قائم تھی۔ تخت نشین مجد الدولہ تھا، مگر کارِ حکومت اس کی ماں سیدہ انجام دیتی تھی۔مجد الدولہ نے درباریوں کے بھڑکانے پر اپنی ماں کو کنارے لگانا چاہا تو ماں نے خود اسے ٹھکانے لگادیا اور اپنے دوسرے بیٹے شمس الدولہ کو تخت پر بٹھایا۔ مورخ سبط ابن الجوزی کا یہ بیان قابل غور ہے: سیدہ نے حکومت کی اور امور سلطنت مردوں سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے انجام دیے۔وہ باریک پردے کے پیچھے بیٹھتی، وزیر اس کے سامنے بیٹھتے، اس کے سامنے معاملات پیش کرتے، وہ ہدایات دیتی، اور پھر وزیر ان پر عمل درآمدکرتے۔ (مرآة الزمان)

پانچویں صدی ہجری میں مراکش کے علاقے میں دین دار اور انصاف پسند حکم راں امیر یوسف بن تاشقین کی حکومت تھی۔ مراکش نامی شہر اسی کا بسایا ہوا ہے۔ اس ملک کانام تو مغرب ہے لیکن ہمارے یہاں یہ پوراملک مراکش کہلاتا ہے۔ یوسف بن تاشقین کی بیوی زینب بنت اسحاق نفزاویہ سیاسی ذہانت کے حوالے سے مشہور تھی۔ مورخین کے مطابق کارِحکومت اصل میں اسی کے ہاتھ میں تھا۔ ابن خلدون کے الفاظ میں ”وہ حسن و جمال اور قیادت و سیادت کے معاملے میں دنیا کی مشہور عورتوں میں سے ایک تھی۔” (تاریخ ابن خلدون) ایک مورخ تو یہاں تک لکھتا ہے کہ زینب اپنے شوہر کے لیے خوش نصیبی کا عنوان تھی، اس کے اقتدار کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں تھی، اسی کی سیاسی ذہانت کی بدولت وہ مغرب کا بیشتر علاقہ فتح کرسکا۔ (الاستقصا لأخبار دول المغرب الأقصى)

تنہا حکومت کرنے والی خواتین

ہم یہاں اس بحث کو تو نہیں چھیڑیں گے کہ عورت حکمراں بن سکتی ہے یا نہیں، البتہ موضوع کی مناسبت سے یہ بتانا مفید معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں عورتوں کی کام یاب حکم رانی کی اچھی خاصی مثالیں ملتی ہیں۔

قرآن مجید میں ملکہ سبا کی حکم رانی اور کام یاب سیاست کی روداد، اس بات کی تائید کرتی ہے کہ عورت بھی سیاسی عمل کو کام یابی سے انجام دے سکتی ہے۔ حضرت سلیمان کے خط کے جواب میں ملکہ سبا نے جس طرح حکمت و ذہانت کا ثبوت دیا اور حسنِ تدبیر سے پوری قوم کو حضرت سلیمان کا تابع بنایا، وہ کام یاب سیاست کی بہترین مثال ہے۔

پانچویں صدی ہجری میں ہمیں پہلی بار ایک مسلم خاتون کا نام ملتا ہے جس نے باقاعدہ ایک ملک پر حکومت کی۔ اس کا نام اروی بنت احمد صلیحی تھا، اور اس کی یمن پر حکومت تھی۔ وہ صلیحی سلطنت کی آخری حکم راں تھی۔ دور اندیشی، اصابت رائے اور حسن تدبیر جیسے اعلی اوصاف کے ساتھ اس نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک حکومت کی۔وہ پردے میں رہ کر سلطنت کے امور دیکھتی تھی اور قلعے میں رہ کر فوجوں کی قیادت کرتی تھی۔ اسے بلقیس صغری بھی کہا جاتا تھا۔ اپنے دور حکومت میں اس نے بہت سے تعمیراتی منصوبے انجام دیے۔(اعلام، زرکلی)

ساتویں صدی ہجری میں ایوبی سلطنت کی آخری حکمراں شجرة الدر نے کچھ اسّی دن حکومت کی۔ اس دوران اس نے صلیبی افواج کے ساتھ جنگ بھی کی اور ایک تاریخی معاہدہ کیا جس کی رو سے انھوں نے مصر خالی کردیا اور اس کے بدلے فرانس کے بادشاہ لوئی نہم کو رہا کردیا گیا۔ اس طرح صلیبیوں سے عالم اسلام کو نجات ملی۔عالم اسلام میں اسے بڑی کام یابی کی صورت میں دیکھا گیا۔

ہندوستان میں بھی مسلم خواتین نے حکم رانی کی شان دار تاریخ رقم کی ہے۔اگر تیرہویں صدی عیسوی میں دہلی کے تخت پر رضیہ سلطانہ نے چار سال حکومت کی تو انیسویں اور بیسویں صدی میں قدسیہ بیگم، سکندر بیگم، شاہجہاں بیگم اور کیخسروجہاں بیگم، چاروں نے مل کر تقریبًا ایک صدی سے زیادہ عرصے تک بھوپال کی ریاست کا انتظام سنبھالا اور اسلامی علوم و ثقافت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

سیاسی امور میں دل چسپی

سیاسی سرگرمی میں شامل ہوئے بغیر،سیاسی امور میں دل چسپی اور بہتر سیاسی حالات کے لیے فکرمندی وہ چیز ہے جس میں عام مسلم خواتین کی شرکت کسی طور ناپسندیدہ نہیں ہوسکتی ہے۔ دور اول کی اسلامی تاریخ میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی زندگی میں ہی حضرت عمرؓ کا نام پیش کردیا تھا، جسے امت نے تسلیم کرلیا تھا۔ اس کے بعد جب خلیفہ دوم حضرت عمرؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا، تو انھوں نے یہ طے کیا کہ وہ کسی کانام تجویز نہیں کریں گے، مسلمان خود اپنا خلیفہ منتخب کرلیں گے۔ حضرت عمرؓ کی بیٹی ام المومنین حفصہؓ اور ان کے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ کو اندیشہ تھا کہ جانشین نہ بنانے سے کہیں امت میں بڑے مسائل پیدا نہ ہوں، ان کی رائے تھی کہ وہ کسی کا نام اپنی زندگی میں ہی تجویز کردیں۔ ان کے بیٹے ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں : میں اپنی بہن حفصہؓ کے یہاں گیا، انھوں نے کہا کیا تم جانتے ہو کہ تمھارے باپ جانشین نہیں بنارہے ہیں؟ میں نے کہا: وہ ایسا تو نہیں کریں گے، انھوں نے کہا: وہ ایسا ہی کریں گے۔ تو میں نے قسم کھالی کہ میں اس سلسلے میں ان سے بات کروں گا۔ (صحیح مسلم)

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت حفصہؓ کا سیاسی امور میں دخل دینے کا تو کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن وہ اسلامی مملکت کے سیاسی مستقل کے سلسلے میں فکرمند ضرور تھیں۔

ظالم حاکموں کو ہٹانا آسان نہیں ہوتا

ملکوں کی سیاسی تاریخ میں کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اقتدار کسی ظالم شخص کے ہاتھ میں آجاتا ہے، اس کے ظلم و ستم سے سب کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اور اس کے خلاف بے چینی پھیل جاتی ہے۔ بسا اوقات اسے ہٹانے کی کوششیں بھی ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں ہمیں اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ بعض دفعہ مسلمان خواتین نے ظالم حکم رانوں کو ہٹانے میں کلیدی رول ادا کیا۔

چوتھی صدی ہجری کے اختتام پر مصر میں فاطمیوں کی سلطنت قائم تھی۔ حاکم بامر اللہ کے ہاتھ میں اقتدار تھا اس کی سلطنت مصر سے شام تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ غیر معتدل مزاج اور ظلم پسند طبیعت والا بادشاہ تھا۔ جب اس کا ظلم وستم اور سفاکی حد سے بڑھی تو لوگوں نے اس کی بہن ست الملوک سے شکایت کی۔ ست الملوک جہاں دیدہ خاتون تھی۔ اس نے صورت حال کی سنگینی کا اعتراف کیا اور انھیں تسلی دی کہ وہ ان کی نجات کے لیے بہتر سے بہتر تدبیر کرے گی۔ بہرحال جب اسے کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا تو اس نے آخری چارہ کار کے طور پر اس کا کام تمام کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس میں کام یابی حاصل کی۔ اس طرح ایک ظالم حکم راں کے پچیس سالہ طویل ظالمانہ استبداد سے لوگوں کو نجات ملی۔ اس نے حاکم بامر اللہ کے بعد اس کے بیٹے کو تخت پر بٹھایا اور کار حکومت اپنے ہاتھ میں رکھا۔ (تاریخ دمشق، ابن قلانسی)

مقریزی نے ست الملوک کی شان میں جو الفاظ کہے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ایک عورت کس قدر سیاسی خوبیوں سے مالا مال ہوسکتی ہے۔ وہ لکھتا ہے: ”حاکم کی موت کے بعد لگ بھگ چھ سال تک اس نے ملک کا انتظام سنبھالا۔ اس کے حسن سیاست سے سلطنت کی تازگی اور رونق لوٹ آئی، اس نے خزانے مال و دولت سے بھر دیے اور اہل تر لوگوں کو بڑے بڑے کام دیے اور مردان کار تیار کیے۔” (اتعاظ الحنفا) اہل تر لوگوں کو اہم ذمے داریاں دینا اور اہم کاموں کے لیے لایق و فایق افراد تیار کرنا وہ سیاسی خوبی ہے، جو بہت کم یاب ہے اور کمال درجے کے اہل تدبیر و سیاست ہی کے یہاں پائی جاتی ہے۔

دوسری مثال کا تعلق چھٹی صدی ہجری سے ہے۔ دمشق پر سلطان شمس الملوک کی حکومت تھی۔ وہ جنگ جو مزاج بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی سلطنت کو وسعت دی۔دوسری طرف وہ اپنی رعایا پر بھی ظلم کرتا اور ان کے مال پر دست درازی کرتا۔ اس کا ظلم جب حد سے بڑھ گیا تو لوگوں نے اس کی ماں زمرد خاتون کے پاس شکایت کی اور کہا کہ صورت حال یہی رہی تو عوام و خواص سب کی جان کو اندیشہ ہے۔ ماں نے بیٹے کو سمجھانے اور راہ راست پر لانے کی کوشش کی، لیکن اس نے اپنی ماں کو جھڑک دیا اور خود اسے قتل کرنے کی دھمکی دی۔ زمرد خاتون جب مایوس ہوگئی تو اس نے ایک بڑا فیصلہ کیا اور اپنے آدمیوں سے اس کا کام تمام کرادیا۔ امام ذہبی کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں لوگوں کی نگاہ میں اس کی عظمت بڑھ گئی۔ مورخین لکھتے ہیں کہ سلطنت کے لوگ اس ظالم کی موت پر بہت خوش ہوئے اور اس کی ماں کے لیے بڑی دعائیں کی گئیں۔ زمرد خاتون نے اس کے بعد اپنے دوسرے بیٹے کو سلطنت کے تخت پر بٹھایا اور امور سلطنت خود انجام دیتی رہی۔ زمرد خاتون نے بڑی مسجدوں کی تعمیر کرائی اور رفاہ عام کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ (تاریخ الاسلام، ذہبی)

قدیم سلطنتوں کے زمانے میں ظالم حاکموں کو ہٹانے کی پرامن کوششوں کا تصور بہت کم تھا، عام طور سے خونی انقلاب ہی ایک راستہ ہوتا تھا۔ دور جدید کے سیاسی نظام میں ظالم حکومتوں کو تبدیل کرنے کے لیےآئینی حدود میں رہتے ہوئے پرامن کوششوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ مسلم خواتین بھی ظلم و فسطائیت کے خلاف پر امن سیاسی جدوجہد میں اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔ حکومتوں کےظلم کے خلاف ہونےوالی پر امن کوششوں میں غیر معمولی اثر پیدا ہوتا ہے جب ان کوششوں میں خواتین شامل ہوجاتی ہیں۔ پوری دنیا اور خود ہندوستان میں پیش آنے والے حالیہ واقعات اس کی گواہی دیتے ہیں۔کتنی ہی نوجوان لڑکیاں اور بوڑھی خواتین ہیں جن کی بہادری کا ایک لمحہ کیمرے میں محفوظ ہوکر کروڑوں لوگوں کے لیے ولولہ انگیز علامت بن گیا۔

دور حاضر میں کرنے کے کام

دور حاضر میں جمہوری طرزِسیاست نے خواتین کے لیے سیاسی عمل میں شرکت کے مواقع بہت زیادہ بڑھادیے ہیں۔ اسلام پسند خواتین کے لیے بھی سیاسی عمل کی غیرمعمولی اہمیت ہے، اس سے مکمل کنارہ کشی جس طرح اسلام پسند مردوں کے لیے درست نہیں ہے اسی طرح اسلام پسند خواتین کے لیے بھی صحیح نہیں ہے۔

سماج کے اہل افراد کے ہاتھوں میں اجتماعی معاملات کی زمام کار آئے۔ سماج میں صحت مند سیاسی اقدار کا فروغ ہو۔ اہلِ سیاست کے دلوں میں خدا اور عوام کے سامنے جواب دہی کا احساس بیدار رہے۔سماج کے وسائل کا غلط استعمال نہ ہو۔ سیاست کے ذریعے عدل وانصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔اجتماعی مناصب سماجی ترقی اور بہبود کا ذریعہ بنیں۔ ان اہداف کی تکمیل سیاسی سرگرمیوں کا اہم پہلو ہے۔

سماج کی فعال اورمؤثر خواتین سیاسی میدان میں مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ملک کے موجودہ سیاسی ڈھانچے میں ان کے لیے مواقع بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ مردوں کی طرح تمام خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، مردوں کی طرح تمام خواتین کو الیکشن میں کھڑے ہونے کا حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی سیٹیں صرف خواتین کے لیے ریزرو ہوتی ہیں، جہاں سے خواتین ہی الیکشن میں کھڑی ہوسکتی ہیں۔رجحان بھی تبدیل ہوئے ہیں، پہلے کی طرح اب عورتیں مردوں کی اتباع میں رائے نہیں دیتی ہیں، بلکہ وہ اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کرتی ہیں۔

سیاسی سرگرمی صرف الیکشن جیتنے کے لیے نہیں ہوتی ہے، بلکہ انسانوں کی ذہن سازی اور کردار سازی بھی اس کااہم پہلوہے۔ کمیونسٹ پارٹی کا مقصد صرف الیکشن جیتنا نہیں ہوتا ہے، بلکہ لوگوں کے ذہن و دماغ کوکمیونسٹ نظریات کا قائل بنانا بھی ہوتا ہے۔ فرقہ پرست سیاسی پارٹیاں لوگوں کے ذہنوں میں فرقہ وارانہ منافرت کے بیج بونے پر اچھی خاصی محنت صرف کرتی ہیں۔اسلامی عقیدہ ونظام کو متعارف کرانا اسلام پسند مردوں اور عورتوں کی ذمے داری ہے۔ ان کی سیاسی سرگرمی کا اصل مقصد یہی ہونا چاہیے۔

عورتوں کے سماج کو سیاسی اصلاح کے لیے تیار کرنے کے لیےبہت سی کوششیں کی جاسکتی ہیں، ہم یہاں کچھ پہلوؤں کا ذکر کریں گے:

خواتین کے اندرصحیح اور غلط کی تمیز پیدا کی جائے اور ان کے اندر حق پسندی کا جذبہ ابھارا جائےتاکہ وہ اپنی رائے کا صحیح استعمال کریں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اچھے اور برے کے فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے لوگ کسی دنیوی فائدے یا سطحی جذبے کے تحت اپنی رایوں کا استعمال کرتے ہیں۔ دراصل لوگ یہ نہیں جانتے کہ حق کا ساتھ دینا اور غلط کے مقابلے میں صحیح کی تائید کرنا اخلاقی اور دینی لحاظ سے کتنا زیادہ ضروری ہے۔ اگر یہ احساس پیدا کردیا جائے تو سماج کی ہر سطح پر برائی کے مقابلے میں اچھائی کو ترجیح دینے کو رواج مل سکتا ہے۔

ملک میں بڑھتے ہوئے ظلم اور فسطائیت کے خلاف خواتین کے درمیان ایک مضبوط موقف تشکیل دیا جائے، جس کا اثر رائے دہی کی صورت میں بھی سامنے آئے۔ ظلم کو روکا نہ جائے تو ظالموں کے حوصلے بڑھتے ہیں۔ فسطائیت کا سیلاب محض امیدوں کے سہارے نہیں رک سکتا ہے۔ اس کے لیے مضبوط عوامی اتحاد ناگزیر ہے۔

صحیح تجزیے عام کیے جائیں، تاکہ خواتین سیاسی طور سے باشعور اور بالغ النظرہوسکیں۔ یہ پروپیگنڈے کا زمانہ ہے۔ خبریں خود حقیقت کے لیے پردہ بن جاتی ہیں۔ اصل حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور ملک کا میڈیا اسے کچھ اور بناکر پیش کرتا ہے۔ چھوٹا پروپیگنڈا انسانی شعور کے لیے سم قاتل ہوتا ہے۔ اس لیے صحیح تجزیوں تک پہنچنا اور انھیں عام کرنا وقت کی شدید ضرورت ہے۔

سماج دشمن طاقتوں کے خلاف پورے سماج کی اور خاص طور سے خواتین کی رائے کو متفق بنانے کی کوشش کی جائے۔ یہ بڑا المیہ ہے کہ سماج کی نمائندگی وہ لوگ کرتے ہیں جو خود سماج دشمن ہوتے ہیں۔ اگر رائے عامہ اس سلسلے میں حساس اور باشعور ہوجائے تو ایسے لوگوں کو سماج کی قیادت سے بے دخل کیا جاسکتا ہے۔

سماج میں مخلص اور سیاسی قیادت کے لیے اہل ترخواتین کو نمایاں کیا جائے اور ان کے حق میں رائے عامہ بنائی جائے۔ موجودہ سیاسی ماحول میں مخلص اور اہل افراد کو آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ملتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خود سماج کا صالح عنصر ایسے افراد کی بھرپور حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے۔

خاص طور سے بلدیاتی انتخابات میں جہاں خواتین کے لیے سیٹ ریزرو ہو، مسلم خواتین کے لیے موقع ہے کہ وہ بلدیاتی امور اپنے ہاتھ میں لے کرحسنِ انتظام اور ایمان داری کی اچھی مثالیں قائم کریں۔ واضح رہے کہ اسلام کی خوبیاں اہل اسلام کی اچھی کارکردگی کے ذریعے بھی نمایاں ہوتی ہیں۔

دوسروں کے اندر صحیح سیاسی شعور پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ خود اپنے آپ کو حالات سے باخبر رکھا جائے۔ اسلام پسند خواتین ملک میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں، ملک میں چل رہے رجحانات کا مطالعہ کریں، اہم واقعات کے صحیح تجزیے تک پہنچیں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ جو خواتین زیادہ باخبر اور زیادہ باشعور ہوں گی وہی دوسروں کی سوچ پر ایجابی طریقے سے اثر انداز ہوسکتی ہیں۔

سب سے اہم کام یہ ہے کہ مسلم خواتین اسلام کے سیاسی نظام سے واقف ہوں اور وہ عورتوں کے سماج کو اسلام کے سیاسی نظام کی برکتوں سے مسلسل آگاہ کرتی رہیں۔ اقامت دین کی منزل کے لیے یہ ایک اہم سنگ میل ہے۔

اسلام پسند خواتین ملک میں بہتر سیاسی تبدیلیاں لانے میں اہم رول ادا کرسکتی ہیں اور انھیں اس کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ کسی طرح درست نہیں ہوسکتا ہے کہ ایک طرف ملک تباہی کی طرف جارہا ہو، بہت بڑے پیمانے پر ملک کے سیاسی ماحول کو زہرآلود کرنے کی کوشش کی جارہی ہو اور دوسری طرف اسلام پسند خواتین حالات سے بالکل بے خبر اور غیر متعلق ہوکر زندگی گزاریں۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223