قوم کے قائدین کے نام
ہماری قوم میںایسے لو گ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اچھی پوزیشن سے نوازا ہے وہ خدمت کرنا چاہیں تو ایک اہم رول ادا کرسکتے ہیں ۔ لیکن بہت سے دولت مند ہیں جن کا سرمایہ شیطان کی راہ میں خرچ ہوتا ہے ۔ کوئی صاحب اپنےنام ونمود کے لئے مشاعرہ کرارہےہیں ، کوئی صاحب ٹورنا منٹ کرارہے ہیں ، کوئی صاحب بڑے نتیاؤں کوپارٹی دے رہے ہیں ، الیکشن لڑنے کابھوت سوار ہے۔ لاکھوں، کروڑوں کا ٹکٹ خریدتے ہیں ۔ اس طرح کے جتنے لوگ ہیں ان کا مقصد صرف شہرت، اور اپنی دولت کا پرچار کرنا ہوتا ہے ۔
اگر یہ تھوڑا سا عقل سے کام لیتے تو ایسا کام کرتے جس کے عوض انہیں دولت، شہرت بھی ملتی لیکن اصلاً دعائیں ملتیں اورخدا کے ہاں اجر پاتے۔ مثلاً رضائے اِلٰہی کے لیے ہاسپیٹل بناتے ، کارخانے لگاتے ، یونیورسٹیاں کھول دیتے۔ زمینیں لے کر غریبوںکوبسادیتے اس سے ہزاروں لوگوں کے معاشی ، تعلیمی مسائل حل ہوجاتے۔ انہیں کچھ احساس نہیں کہ ہم خدا کی نعمت کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں اور اس طرح کے بیجا اسراف کے متعلق قرآن کا نظریہ کیا ہے ۔ قرآن کہتا ہے : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنٰ ’’فضول خرچی کرنےوالے شیطان کے بھائی ہیں‘‘ ۔ اور ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَومَئِذ عَنِ النَّعِیْم ’’پھر ضروراس روزتم سے ان نعمتوں کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی‘‘۔
خدا کے قانون کوسمجھئے ، اور ڈرئیے اس دن سے جس دن کوئی مال ودولت ، کوئی اولاد ووالد، کوئی نام ونمود ، کوئی نتیا اور منتری کام نہ آئے گا ، کام صرف اپنے اچھے اعمال آئیں گے ۔ اس لیے ایسا کام انجام دیجئے جس میں خسارہ نہ ہو۔ جتنے بھی صاحبِ ثروت ہیں وہ سب مل کرتعمیری خدمت انجام دینے والی پارٹی کوتقویت پہنچائیں ، مالی اور افرادی حیثیت سے ایک رخ پر لے جائیں ۔ یہ دین کی خدمت ہے ، اس میں کوئی خسارہ نہیں بلکہ پوری قوم کا فائدہ ہے ۔ آج جن پارٹیوں سے وابستہ ہیں وہاں آپ کا کیا فائدہ ۔ آپ کی پوزیشن صرف ایک بے زبان غلام کی ہے ۔ اگر درست کام اپنی قوم کے لئے کریں تو قوم آپ کوسرپر بٹھائے گی ۔ خدا کی دی ہوئی دولت کو خدا کے باغیوں کی راہ میں صرف کرنا گناہِ ہے۔ جس کے بدلے آپ کوخدا کے دربار میں سخت سزا مل سکتی ہے۔ ایسا سودا نہ کیجئے جس سے دین اور دنیا دونوں میں خسارہ ہو۔ صالح خطوط پر ہندوستان کی مسلم سیاست کو منظم کیجئے ۔اسے اس مقام تک پہنچا دیجئے جس سے کہ یہ قوم سر بُلند ہو، اسی میں آپ کا بھی سر بلند ہوگا۔ ایک زمانے سے یہ قوم رسوا ہورہی ہے اوررسوائی سے بچنے کے لیے صرف یہ راستہ ہے کہ قانونِ الٰہی پر عمل کیا جائے ۔
سیکولرکہلانے والے:
جومسلمان سیکولر بنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم اس طرح آگے نکل سکیں گے اورروشن خیال کہے جائیں گے تو پہلےوہ ’سیکولر زم‘‘ کوسمجھ لیں سمجھنے کے بعد اسلام اور سیکولرزم میں سے ایک ہی کا نام لیں ۔ یاتو اسلام کا یا پھر سیکولرزم کا ۔ تاکہ وہ جس کے ساتھ رہیں پوری دیانتداری او وفاداری کے ساتھ رہیں ۔ نہ کسی کو دھوکا دیں اورنہ کوئی ان سے دھوکا کھائے۔سیکولر کے معنیٰ: ۔ لا دین ، لامذہب ۔ Irreligious۔ یہ ایک بے بنیادی نظریہ ، اورجاہلانہ سوچ ہے ، جس کا ساتھ نہ عقل دیتی ہے ، نہ علم دیتا ہے اورنہ تحقیق دیتی ہے ۔
اس کا مفہوم ہے کہ خدا اور اس کی تعلیمات وہدایات کا انسانی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ۔ الہامی ہدایت، آخرت ، حشرونشر ، جنت وجہنم ، حساب وکتاب سب کچھ افسانے ہیں۔ دنیا والے اپنی صوابدید کے مطابق دنیا کے معاملات کو چلانے کے لئے آزاد ہیں۔
ہم یہاں پر بطور نمونہ بعض فرمودات کوپیش کررہےہیں ۔ ’’فیورباخ‘‘ کہتا ہے : ’’ خدا کوئی چیز نہیں ہے اورمذہب صرف ایک کھلونہ ہے ‘‘۔ ’’پال سارتر ‘‘ کہتا ہے :’’ انسان کی آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ خدا ، مذہب اوراخلاق سے آزادی نہ لے لے ‘‘۔ : ’’ اس کائنات کے ارتقائی وجود میں آج کسی بادشاہ یا کسی خدا کے لئے قطعاً کوئی جگہ باقی نہیں ہے ۔‘‘ ’’والٹیر ‘‘ کہتا ہے : ’’ اگر مذہبی خیالات ذہنِ انسان سے کھرچ کر پھینک دئے جائیں تو دنیا سے تنگ نظری اور ظلم کا خاتمہ ہوجائے‘‘۔
ذرا سوچئے جوچیز انسان کو، انسان بناتی ہے ، ہر طرح کا شعور سکھاتی ہے ، ہربرائی کا خاتمہ چاہتی ہے ’’والٹیر ‘‘ اسی کو مٹانا چاہتا ہے آج پورا یورپ تقریباً لا مذہب ہوچکا ہے ۔ مگر بجائے تنگ نظری اورظلم کے خاتمےکے جہالت اورحیوانیت بھر گئی ہے کہ اس سے آج یورپ کی پوری برادری کراہ رہی ہے ۔ اس طرح سے ’’ برئر ینڈرسل ‘‘ کہتا ہے : ’’ اگر قدامت پرستی اورتو ہم پرستی کا خاتمہ ہوجائے اور عقل کو انسانی معاملات میں مکمل بالا دستی حاصل ہوجائے تودنیا سے مصائب اورآلام کا خاتمہ ہوجائے ‘‘۔
غور کیجئے ۔ خدا ، رسول ، کتاب ، ایمان، عبادات یہ سب قدامت پرستی اور توہم پرستی ہیں ۔ اس سے بڑی جہالت اورکیا ہوگی۔ صاف نظر آرہا ہے کہ دل ودماغ کوکام میں نہیں لایا جارہا ہے ، بلکہ کسی ری ایکشن کے تحت لیکچر دیا جارہا ہے جسے فلسفے کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ ہیں وہ لوگ جنہیں ایک دنیا علم اور عقل رکھنے والا کہتی ہے ۔ حالانکہ یہ لوگ علم اور عقل سے کوسوں دور ہیں۔ اب میں پوچھنا چاہوںگا کہ کیایہی وہ سیکولرزم ہے جس کے آپ پرستار ہیںاورجسے اِس دور میں سیاسی حیثیت سے مداوا بتا رہے ہیں ۔ اس کے لئے کبھی پگڑی پہنتے ہیں ، کبھی تِلک لگواتے ہیں، کبھی مورتی پر پھول مالا چڑھا تے ہیں ، کبھی مندر میں جاکر ماتھا ٹیکتے ہیں ، کبھی ہاتھ جوڑکر آشیر باد لیتے ہیں ۔ الغرض کہ بڑے سے بڑے بہروپیئے کا پارٹ ادا کرتے ہیں ۔ محض اس لئے کہ گمراہ عوام خوش ہو کر ہمیں ووٹ دیں ۔ ذرا سوچو کہ تم اپنے ایمان کا سودا کتنے سستے میں کررہے ہو۔
کچھ جدید لوگ ہیں جوکہتے ہیں کہ ہم ’’سیکولر‘‘ کی دوسری پر یبھا شا (مفہوم ) لیتے ہیں ۔ ان کے علم کا یہ حال ہے کہ نہ انہوںنے اسلام کوسمجھا ہے اورنہ ہی سیکولرزم کو۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی چیز کے مفہوم کواپنے من موافق ڈھال لینے سے اس کی حقیقت بدل جائے گی ۔؟ کتا کی پریبھا شا بکری کرلینے سے اس کی حقیقت بدل گئی ، اب وہ حلال ہوگیا ۔ کیونکہ آج ہرآدمی یہ سمجھتا ہے کہ اسے کوئی فائدہ لینا ہے اسی لئے یہ ڈرامہ بازی کا چولا پہن کر آیا ہے ۔ یہ دور بہت آگے جاچکا ہے ۔ یہ علمی اور عقلی دور ہے ۔ اس دور میںقیمت صرف اس انسان کی ہے جواپنے اصول پر قائم رہنے والا ہو ، جواپنے کردار کا مضبوط ہو، جو اپنے ڈسپلن کاپاسبان ہو۔ کیونکہ دنیا خوب سمجھتی ہے کہ کون مکاّ رہے اور کون وفادار ہے۔اصل میں جولوگ دارا شکو ہی ذہنیت رکھتے ہیں ان کے دماغ میں یہ ہوا گھسی ہوئی ہے کہ ہم اسلام کولے کر ترقی نہیں کرسکتےہیں ، اس کے ساتھ ہمیں منافقت بھی کرنی پڑے گی ، تبھی ہم دولت کماسکتے ہیں ، تبھی ہم مناصب حاصل کرسکتے ہیں ، تبھی ہم ترقی کے بامِ عروج پر جاسکتے ہیں ۔ ان نادانوں نے نہ اسلام کوسمجھاہے اور نہ اپنے ایمان کو ۔
آج ہمارے ہاں خرابیاں رونما ہورہی ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے اس ہادیٔ اعظم ،پیغمبر عالمؐ سے ہدایت لینا چھوڑ دیا ہے جن کی اقتداء میں ہمارے لئے سوفیصد دین ودنیا دونوں میں کامیابی کی ضمانت ہے ۔ ہم نے کچھ دوسرے ہی قبلہ وکعبہ تعیین کرلیےہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سیاست میں کوئی اپنا آئیڈیل ’’اکبر‘‘ کوبتاتا ہے ۔ معیشت میں کوئی اپنا آئیڈیل ’’مارکس‘‘ کوبتاتا ہے ، معاشرت میں کوئی اپنا آئیڈیل ’’چار لی چپلن‘‘ کوبتاتا ہے ، حکومت میں کوئی اپنا آئیڈیل ’’ہٹلر‘‘ کوبتاتا ہے ۔ فلسفے میں کوئی اپنا آئیڈیل ’’فرائڈ‘‘ کوبتاتا ہے۔ اگر یہ عقل کے غریب صرف دین کے مفہوم کو سمجھتے تو اس طرح کی جاہلانہ بات نہ کرتے ۔جولوگ اپنے سب سے بڑے آئیڈیل کوچھوڑ کر دوسروں کو آئیڈیل بناتےہیں وہ خوب ہوش گوش سے سن لیں کہ وہ اس راہ پر چل کر قیامت تک کا میاب نہیں ہوسکتے۔ کسی بھی طرح کی ترقی حاصل کرنے کے لئے منافقت کی راہ اپنا نا خدا کے ساتھ بغاوت ہے۔
اسوۂ حسنہ
ہمارے لئے رہنما صرف آنحضور ؐ ہیں ۔ ہمیں ہر معاملے میں انہیں کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔ یہی ایک ہادی ایسے ہیں جوہمیں کسی بھی موڑ پر بھٹکنے نہیں دیں گے ۔ آپ ہر پل خدا کی رہنمائی میں چل رہے تھے ، اس لئے قرآن حکم دیتا ہے کہ رسول کی اطاعت کرو ۔ ہمیں جوبھی حل، جوبھی نظریہ ، جوبھی راستہ لینا ہوگا وہیں سے لیں گے۔اب آپ خود ہی بتائیے کہ کیا ہم قرآن اوررسول کو چھوڑ کر دوسروں کا سہارا لیں —— ہم کہتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے ہمیں طرح طرح کےروپ اپنانے کی ۔ جس سے کہ لوگ شکوک وشبہات میں مبتلا ہوں ۔ کیوں نہ ہم بہتر سے بہتر مسلمان بنیں جس سے لوگوں کی نگاہوں میں قابلِ اعتماد ،قابلِ تعریف، قابلِ مثال ٹھہریں ۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ایک بہتر مسلمان کوخواہ ہندو ہو یا مسلم کس عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اورکیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ایک مفاد پرست انسان کوکوئی بھی انسان کس نظر سے دیکھتا ہے ۔ دونوں طرح کے انسان اور مسلمان آپ کے سامنے ہیں۔ اگر آپ اسلام کا مظاہرہ کردیں تو میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ دنیا آپ کو آنکھوں پہ بٹھائے گی ، آپ کے قول وفعل کی مثال دے گی ، کیونکہ صحیح مسلمان کے ساتھ خدا ہوتا ہے ، اگر آپ صحیح بن جائیں تو خدا کی نگاہ میں بھی محبوب بنیں گے اورخلق کی نگاہ میں بھی محبوب ۔ تمام اچھائیاں تبھی آپ کے اندر پیوست ہوں گی ، جب آپ ہر معاملے میں اپنا رہنما رسول عربیؐ کوبنائیں گے ۔
لہٰذا مختلف طرح کے گھونسلے سیکولرزم ، نیشنلزم ، نازی از م وغیرہ پناہ کے لئے نہ ڈھونڈئے ، بلکہ وہ مسلمان بنئے جو اللہ کومطلوب ہے ۔ ہر طرح کی گمراہیوں سے بچنا ہو، اوریہ آرزو رکھنا ہو کہ ہماری نسلیں اسلامی تہذیب میں ڈھلیں اور اس کو زندہ رکھیں تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم محمد عربیؐ کی کھینچی ہوئی راہوں پر چلیں۔
آخری گزارش:
میری گزارش امتِ مسلمہ سے یہ ہے کہ سب سے پہلے آپ اسلام کے ہر قانون پر عمل کیجئے ، اور ’’اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃ‘‘ کی تصویر بنئے۔ آج حالات بڑے ابتر ہیں ہم ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس سے بڑی ذلت کیاہوگی کہ آج ہم ستر سال سے بے نصب العین کے بھٹک رہے ہیں اوردوسروں کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ تاریخ سے سبق لیجئے ، اپنے حالات کو بدلئے۔ اگر آپ وہی کام کریں گے جومشرک کر رہا ہے یا یہودی کر رہا ہے ، توخدا کوکیا پڑی ہے کہ وہ آپ کی مدد کرے ۔
لہٰذا آپ اپنی ذمہ داری کومحسوس کیجئے ۔ نماز پڑھنے ، روزہ رکھنے کے علاوہ ضروری ہے کہ اللہ کے بھٹکے ہوئے بندوں کواللہ کا راستہ دکھائیے ، اپنے اندر قیادت کی صلاحیت پیدا کیجئے ۔ اسلام کاتقاضا محض اتنا نہیں کہ اللہ کا دین مسجد مدرسوں خانقاہوں اور حجروں میں قائم ہوجائے ، بلکہ زمین کے چپے چپے میں اُسے قائم کرنا ہے ۔ یہ بھاجپا کا خوف، یہ کانگریس کا ڈر، یہ آر ایس ایس کا نوحہ ، یہ بجرنگ دل اورشیوسینا کا مرثیہ ، یہ اقلیت واکثریت کارونا ، آپ کا کام نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ خود اسلام کی مکمل تصویر ہوں۔ آپ نے اسلام کو صحیح طریقے سے پیش کیاکہ نہیں ، اپنے اندر اتحاد لائے کہ نہیں ، رسول کے نقشِ قدم پر چلے کہ نہیں۔ جس دن یہ سارے اوصاف آپ کے اندر آجائیں گے اس دن حالات بدلنے لگیں گے۔ طرح طرح کےفارمولے نادان لوگ دے رہےہیں ، کوئی کہتا ہے کہ کانگریس سے وابستگی میں مسلمانوںکی عافیت ہے ، کوئی کہتا ہے کہ سپا میں رہنے سے مسلمانوں کی حفاظت ہے ، کوئی کہتا ہے کہ سیکولر بنے رہنے میں طمانیت ہے ۔ الغرض کہ ایک سے بڑھ کر ایک گمراہ لوگ اُٹھتے ہیں اورغلط نسخے تجویز کرتے ہیں ۔ تاریخ نے ان سارے نسخوں کی ناکامی کو ثابت کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہ نسخے ہمیں ترقی پہ لے جانے والے نہیں ، بلکہ او ر پیچھے دکھیلنے والے ہیں۔ ہمارے لئے صرف ایک نسخہ ہے جس کا نام قرآن ہے ۔ یہی ہمیں ترقی کی منازل کی طرف لے جائے گا۔ شرط یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ ہم اس نسخے کواپنائیں۔
میری بات پر تمام اہل علم و عقل غور کریں ۔ میرا کسی مسلک سے یا کسی گروہ سے جھگڑا نہیں ہے ۔ بلکہ یہ قوم کا مسئلہ ہے ہرمسلمان خدا کے ہاں جواب دہ ہے محض حق واضح کرنے کے لئے میں پرچار کررہا ہوں ۔ یہ آرزو ضرور ہے کہ میں کس طرح مسلمان قوم کو ہندوستان میں زندہ قوم دیکھ سکوں۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2017