اس سے پہلے تین شماروں میں جماعت اسلامی کے قیام، لائحۂ عمل اور حالات کے اعتبار سے جماعتی منصوبے میں توسیع پر گفتگو کی جاچکی ہے۔ ان موضوعات کا تذکرہ چند سوالات کے جواب میں کیا گیا تھا جو ایک محترم دوست نے ارسال کیے تھے۔ ان کا آخری سوال یہ تھا:
’’الیکشنی سیاست میں جماعت اسلامی ہند کی دلچسپی کی کیا حکمت ہے؟‘‘
اس سوال پر ذیل کی سطور میں گفتگو کی جائے گی۔
موجودہ دور کے سیاسی نظام
سوال میں صرف الیکشنی سیاست کا ذکر ہے لیکن مناسب ہے کہ وسیع تر معنوں میں سیاست، سیاسی سرگرمیوں اور نظامِ سیاسی کے بارے میں غور کیا جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل دنیا کے اکثر ملکوں میں لکھے ہوئے دستور موجود ہیں۔ کسی ملک کے نظام کو جاننے کے لیے مملکت کا تحریری دستور اساسی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کو نظامِ حکومت کی بنیاد سمجھا جاتا ہے اور اصولاً نظامِ حکومت چلانے والے افراد، اس دستور کے پابند سمجھے جاتے ہیں۔ نظامِ حکومت کے اعلیٰ ترین با اختیار فرد (مثلاً صدرِ مملکت یا وزیرِ اعظم) سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ دستورِ مملکت کے مطابق کام کرے گا اور اپنے اختیارات کو اس طریقے سے استعمال نہ کرے گا، جس سے دستور کی خلاف وزری ہو۔ دستور کی اس حیثیت کی بنا پر، دستور پر مبنی نظامِ حکومت کو’’شخصی نظام‘‘ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے دستوری نظام کہنا مناسب ہے۔ دنیا میں کچھ ملک ایسے بھی ہیں جہاں تحریری دستورتوموجودنہیں لیکن— مستحکم روایاتِ حکمرانی موجود ہیں جو دستور کا بدل ہیں ۔ ان روایات سے پختہ وابستگی، اس طرح کے ممالک کے نظام کو عملاً ’’دستوری نظام‘‘ بنادیتی ہے (یعنی ایسے نظام کو بھی شخصی نظام نہیں کہا جاسکتا)۔
مملکت کے تحریری دستور (یا مستحکم غیر تحریری دستوری روایات) کی اہمیت کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
(الف)کسی مملکت کے نظامِ حکومت کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے اس کے دستور کو سمجھنا ضروری ہے۔
(ب) اصولاً مملکت کے سربراہان (صدرِ مملکت یا وزیرِ اعظم وغیرہ) کے ذاتی خیالات و رجحانات، نظامِ مملکت کی نوعیت کو متعین نہیں کرتے۔
(ج) چانچہ اگر نظامِ مملکت میں (بڑی یا چھوٹی) تبدیلی مقصود ہو تو دستور یا دستور کی تعبیر میں تبدیلی درکار ہوگی۔
(د) عملاً جو افراد، نظامِ مملکت کے سربراہ ہوں، اُن کے ذاتی خیالات و رجحانات میں کوئی تبدیلی واقع ہو بھی جائے تب بھی ضروری نہیں کہ اس کے نتیجے میں دستورِ مملکت میں بھی اسی نوعیت کی تبدیلی ہوجائے۔
(ہ) دستور میں تغیر کے بغیر، محض اہم افراد کے افکار میں تغیر سے نظامِ مملکت میں تغیر واقع نہیں ہوتا۔
عملی صورتحال کو متعین کرنے والے دیگرعوامل:
درجِ بالا معروضات کا منشا،اِ س حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے کہ دستوری نظام، شخصی نظام نہیں ہوتا۔ اگر اسے شخصی نظام سمجھ لیا جائے تواس کی حقیقی نوعیت کا ادراک نہیں کیا جاسکتانہ اُس میں تغیر کی بامعنیٰ کوشش کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دستورِ مملکت واحد عامل ہے جو نظامِ حکومت کی صورت گری کرتا ہے۔ اس کے برعکس واقعہ یہ ہے کہ دستورِ مملکت کے علاوہ چند عوامل اور بھی ہیں جو متعین کرتے ہیں کہ نظامِ حکومت واقعتا کیسا ہوگا۔ یہ عوامل ہیں: (الف) دستور کا پس منظر (ب) سماج کی غالب فکر (ج) اہم فکری دھارے (Currents) (د) مادی وسائل اور تہذیبی سطح (ہ) بین الاقوامی حالات۔ ان عوامل کا مختصر تعارف ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
دستور مملکت کا پس منظر:
کسی تحریرکے الفاظ اور جملوں کا وہ مفہوم بڑی اہمیت رکھتا ہے جو تحریر لکھنے والوں کے ذہن میں ہوتا ہے۔ اگر کسی دستورِ مملکت کو عوامی نمائندوں نے منظوری دی ہو تب بھی منظوری سے قبل، کچھ سوچنے والے ایک خاکہ ترتیب دے کر بہرحال پیش کرتے ہیں۔ منظوری دینے والے، اس خاکے میں کسی قدر ردوبدل کرسکتے ہیں لیکن ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے کہ وہ اس پوری دستاویز کو یکسر بدل دیں۔ دستورِ مملکت کا ابتدائی خاکہ ترتیب دینے والوں کی حیثیت ایک تحریک کے داعیوں جیسی ہوتی ہے جو اپنے فہم اور یقین کے مطابق، اجتماعی زندگی کے لیے ایک پیغام پیش کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں اُن عوامی نمائندوں کی حیثیت (جو دستورِ مملکت کے مجوزہ خاکے کو، ضروری ردوبدل کے بعد، منظور کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں) کسی تحریک کے مدعوئین جیسی ہوتی ہے۔ جو پیغام پیش کیا جارہا ہوتا ہے، اُس سے وہ فی الجملہ اتفاق کرتے ہیں اور اس کو عملی شکل دینے والے دستور کو منظوری دیتے ہیں۔تحریک کے داعیوں اور تحریک کے پیغام کو قبول کرنے والوں میں ذہنی ہم آہنگی تو ضرور ہوتی ہے لیکن ان کی صلاحیت، کیفیت اور تحریک سے وابستگی میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ داعی کا فہم، پیغام کے الفاظ کو مفہوم عطا کرتا ہے۔ اس حقیقت کی بنا پر کسی نظامِ حکومت کی نوعیت کو متعین کرنے والا ایک اہم عامل، دستورِ مملکت کو ترتیب دینے والوں کی فکر (Ideology) ہے۔محض دستور کے الفاظ، نظامِ حکومت کی صورت گری نہیں کرتے بلکہ وہ فکر بھی (جو دستورسازوں کے ذہن میں تھی) اپنے گہرے اثرات ڈالتی ہے اور دستور کے الفاظ، جملوں اور عبارتوں کو اپنے پیغام کی ترجمان بنادیتی ہے۔ یہ فکر دستور کے مندرجات کو ایک خاص رخ دے کر باہم مربوط کردیتی ہے۔
سماج کی غالب فکر
آزاد ہندوستان کے دستور کی مثال لیں تو س کو منظور کرنے والے دستور ساز اسمبلی کے افراد تھے جن کو ملک کے عوام کے نمائندے سمجھا جاسکتا ہے۔ البتہ منظوری سے قبل، دستور کا خاکہ ترتیب دینے والے، ہندوستان کی تحریک آزادی چلانے والی ایک مؤثر تنظیم — انڈین نیشنل کانگریس— کے قائد ین تھے۔ دستور کا خاکہ مرتب کرنے والوں کی فکر کے اہم عناصر، وہ نعرے تھے جو انھوںنے یورپ کے سیاسی افکار سے اخذ کیے تھے یعنی سیکولرزم، پارلیمانی جمہوریت اور نیشنلزم۔ یورپ میں جس فکری و سیاسی ارتقاء کے نتیجے میں یہ نعرے مقبول ہوئے اس کا آغاز فرانسیسی انقلاب سے ہوا تھا چنانچہ عناصر کے تین ہونے کے باوجود، ان نعروں کے مابین ہم آہنگی موجود ہے۔ البتّہ انڈین نیشنل کانگریس کی فکر، محض ان نعروں پر مشتمل نہ تھی جو مغربی افکار سے مستعار تھے بلکہ اس میں ہندتو کا عنصر بھی موجود تھا۔ کانگریس کی طاقتور شخصیات میں دونوں رنگ نظر آتے تھے۔ بعض مغرب سے زیادہ متاثر تھے اور ہندتو سے کم۔ اس کے برعکس کچھ شخصیات کے مزاج میں (مغربیت کے مقابلے میں) ہندتو کے اثرات غالب تھے۔ اس کیفیت کا اثر، آزاد ہندوستان کے دستور پر بھی پڑا چنانچہ دستور، ایک مربوط فکر کا ترجمان نہیں بن سکا بلکہ اس میں دو فکری رجحانات کے اثرات ملے جلے موجود ہیں یعنی مغربی افکار اور ہندتو، دونوں کی جھلک، دستورِ ہند میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے دونوں رجحانات کے حامل افراد کو دستورِ ہند کی عبارتوں سے استشہاد کا موقع مل جاتا ہے۔
آزادی کی تحریک چلانے والے کانگریسی رہنما، محض ملک کو بدیسی حکومت سے آزاد کرانے کے خواہش مند نہ تھے بلکہ ملکی سماج کی تعمیر نو بھی چاہتے تھے۔ تعمیرِ نو کے لیے وہ جو کچھ سوچتے تھے اس کو عملی شکل میں ڈھالنے اور تخیل کو واقعہ بنادینے کی توقع وہ، دستورِ ہند سے رکھتے تھے چنانچہ ان کے نزدیک دستورِ ہند، محض انتظامی امور پر مشتمل ایک مجموعہ ضوابط نہ تھا بلکہ اس کی اصل حیثیت، آزاد ہندوستان کے مستقبل کی تصویر (VISION) کی تھی۔ ان کے خیال میں دستورِ ہند کو مستقبل کے ہندوستانی سماج کی تعمیر میں ایک اہم رول ادا کرنا تھا۔ دستور کی اسپرٹ، اس معیارِ مطلوب کا تعین کرتی تھی جس کو سامنے رکھ کر ملک اور سماج کی تعمیرِ نو کے لیے اقدامات کے جانے تھے۔
آنے والے کل کا ہندوستانی سماج کیسا ہو؟ اس سوال کے جواب میں کانگریس کے قائدین کے دو گروہ (یعنی مغربیت سے متاثر اور ہندتو سے متاثر) اس امر پر تو متفق تھے کہ کلچر اورتہذیب کے اعتبار سے اس سماج کو یک رنگ ہونا چاہیے یعنی لسانی، نسلی و علاقائی تنوع کی طرح مذاہب کا فرق بھی، کلچر کی یک رنگی میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن وہ اس معاملے میں ایک رائے نہ تھے کہ ہندوستانی کلچر کا وہ ایک رنگ کیا ہو۔ فطری طور پر ہندتو سے متاثر عنصر چاہتا تھا کہ ہندوروایات، رسوم اور تہذیبی علامات کو ملک کے تمام باشندوں پر (بلا تفریق مذہب) غالب کردیا جائے اور اس ایک رنگ کے علاوہ کوئی دوسرا تہذیبی رنگ یہاں نظر نہ آئے۔ اس کے بالمقابل مغربیت سے متاثر کانگریسی قائدین، محض کلچر کی یک رنگی کے قائل تھے خواہ زمانے کے تغیرات کے نتیجے میں وہ کوئی بھی کیفیت اختیار کرے۔ رہا مختلف مذہبی گروہوں کے تہذیبی تشخص کی برقراری کا معاملہ تو کانگریس کے دونوں فکری رجحانات میں کوئی یہ نہ چاہتا تھا کہ مذہبی گروہوں کا مستقل ملی و تہذیبی تشخص و انفرادیت باقی رہے۔ اس طرح کی انفرادیت کے بقا کو وہ آزاد ہندوستان کی مطلوبہ تعمیر کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ البتہ کانگریسی قائدین کی بڑی تعداد، مذہبی گروہوں کے تشخص کو ختم کرنے کا کام بتدریج اور پُرامن ذرائع سے کرنا چاہتی تھی۔ (یعنی تعلیم، ابلاغ، ترغیب اور قانون سازی کے ذریعے)
ملک کی تعمیرِ نو کے سلسلے میںمعاشی نظام پر توجہ بھی ضروری تھی۔ معیشت کے سلسلے میں گرچہ گاندھی جی کے غیر منظم خیالات، مُلک کی فضا میں موجود تھے جن کو سودیشی کے عنوان کے تحت بیان کیا جاتا تھا لیکن عملاً پنڈت نہرو کے خیالات کے مطابق آزاد بھارت میں معاشی تعمیرِ نو کا آغاز ہوا یعنی آزاد ہندوستا ن میں مغربی ممالک کی طرح مشین پر مبنی صنعت کو زراعت و دستکاری پر ترجیح دی گئی۔ ابتدا میں سوشلسٹ نظامِ معیشت کانعرہ بلند کیا گیا لیکن روس کے زوال کے بعد اس نعرے کو حکمراں بھول گئے اور دوبارہ زندہ ہونے والے عالمی نظامِ سرمایہ داری سے ہندوستان کی معیشت کو وابستہ کردیا۔ اس طرح، جو لوگ آزاد ہندوستان میں غریبی اور مفلوک الحالی کے خاتمے کی توقع رکھتے تھے، ان کو صرف مایوسی ہاتھ آئی۔
عموماً سماج کا ہر طبقہ، مستقبل سے متعلق غوروفکر اور منصوبہ بندی میں حصہ نہیں لیا کرتا۔صرف وہ افراد منصوبے بناتے اور ان کو عمل میں لاتے ہیں جن کے پاس اقتدار ہوتا ہے اور اس بنا پر ان کو معلومات حاصل کرنے اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کا موقع ملا ہوتا ہے۔ ہندوستانی سماج میں بھی یہی برسرِ اقتدارطبقہ عملاً موثر اقدامات کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس طبقے کی فکر کو سماج کی غالب فکر کہا جاسکتا ہے۔ کانگریسی قائدین کے مابین پائے جانے والے دو رجحانات، مغربیت اور ہندتو— اقتدار پر قابض اس طبقے کے اندر موجود ہیں۔ اس فرق کے باوجود، نظامِ سرمایہ داری کو دونوں مزاجوں کے حاملین نے قبول کرلیا ہے اور اپنا لیا ہے۔ اسی طرح دونوں طرح کے عناصر، عالمی استعمار کے استعماری منصوبوں کا آلہ کار بننے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ ملک کے محروم طبقات کی محرومی کے ازالہ کے لیے وہ کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھانا چاہتے۔ سماجی خرابیوں کی اصلاح ان کی دلچسپی کا موضوع نہیں۔ مذہبی گروہوں کے تہذیبی و ملی تشخص اور انفرادیت کو ختم کرنا، دونوں رجحانات کے حاملین کے مقاصد میں شامل ہے۔
چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ دستورِ ہند کی تصنیف کے وقت تو آزاد ہندوستان کے معماروں کے اندر یہ جذبہ موجود تھا کہ ایک اچھا ہندوستان تعمیر کریں (جس میں غریبی اور محرومی ختم ہو، سماجی برائیاں دور ہوں، سرمایہ داری کا خاتمہ ہو اور ملک کی خارجہ پالیسی غیر جانبدار ہو)لیکن ایک تہائی صدی گزرتے گزرتے یہ تعمیری جذبہ ختم ہوگیا۔ اب اقتدار پر قابض طبقے کی فکر یہ ہے کہ ہندوستانی سماج کی سماجی و معاشرتی خرابیاں اور ناہمواریاں، حسب سابق قائم رہیں، سرمایہ داری کو پورے طور پر اختیار کرلیا جائے اور عالمی استعمار کی خادم خارجہ پالیسی اپنائی جائے۔ اِن سب کے ساتھ کلچر اور تہذیب کے اعتبار سے، پورے ملک کو ایک رنگ میں رنگا جائے اور مذہبی گروہوں کے مستقل تشخص کی نفی کی جائے۔
دیگر فکری دھارے:
برسرِ اقتدار طبقے کی فکر کے علاوہ ہر ملک میں دیگر فکری دھارے بھی موجود ہوتے ہیں جو مُلک میں ہونے والی گفتگو، تبادلہ خیال، قانون سازی اور پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ہندوستان میں بھی غالب فکر سے مختلف، دیگر فکری دھارے موجود ہیں۔ بعض عناصر نے سماجی خرابیوں کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ کچھ نے سرمایہ دارانہ نظام پر گرفت کی ہے۔ ایسے افراد اور تنظیمیں موجود ہیں جو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں۔ غربت اور محرومی کے ازالے کے لیے اقدامات بھی بعض پارٹیوں اور حلقوں کی طرف سے تجویز کیے جاتے ہیں۔ کچھ حلقے، طبعی ماحول کے تحفظ کے لیے کام کررہے ہیں۔ ماضی میں ایک مرتبہ بددیانتی اور کرپشن کے خاتمے کی طاقتور تحریک چلائی جاچکی ہے۔ اس کے احیاء کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ غالب فکر کے مقابلے میں یہ دھارے کمزور ہیں لیکن ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
مادی وسائل اور تہذیبی سطح:
یوروپ کے فرانسیسی انقلاب نے یوروپ پر اور پھرپوری دنیا پر اپنے اثرات ڈالے۔ اس انقلاب کا محر ک وہ اضطراب اور بے چینی تھی جو ذہین دماغوں اور حساس دلوں میں، بے انصافی اور نامعقولیت کے ان مظاہر کو دیکھ کر پیدا ہوئی تھی، جو یورپ کے مذہبی، سماجی وسیاسی نظام میں موجود تھے۔ بے انصافی اور نامعقولیت سے پاک ایک نئے نظامِ فکر و عمل کی تلاش کے جذبے نے انقلاب کے داعیوں کے اندر وہ حوصلہ پیدا کیا جس نے انہیں محنت کرنے اور قربانیاں دینے پر ابھارا۔ ان کی اعلیٰ انسانی خصوصیات نے ان کو مضبوط عزم واراد ہ عطا کیا۔ چنانچہ فکری وعملی بے اعتدالیوں کے باوجود، وہ دنیا کے فکر و عمل کا رخ موڑنے میں کامیاب رہے۔
ہندوستان میں بھی تحریکِ آزادی نے، آزادی کے طالبین کے اندر اعلیٰ خصوصیات پیدا کی تھیں۔ آزادی کے حصول کے لیے انھوں نے محنت کی، قربانیاں دیں، نئی راہیں سوچیں اور ملک و سماج کو بہتر بنا نے کے لیے کوشش کی۔ آزادی کے بعد یہ جذبہ کچھ دن باقی رہا پھر آہستہ آہستہ معدوم ہوگیا۔ اب ہندوستان کے سماج کے اکثر افراد کے سامنے کوئی اعلیٰ مقصد نہیں، تعمیرِ نو کا کوئی منصوبہ نہیں، صالح جذبات کو متحرک کرنے والا کوئی داعیہ نہیں۔ چنانچہ سماج کی مجموعی انسانی و تہذیبی سطح پست ہوگئی ہے اور پستی کی طرف مائل ہے۔ اس فضا میں مایوسی، بددیانتی، بے راہ روی اور باہم زیادتی عام ہے۔ غریبی، مفلوک الحالی اور مواقع سے محرومی نے کردار کی پستی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اگر کسی سماج میں صالح اقدار باقی ہوں تو وہ ایک حد تک، فاسد نظامِ سیاسی کی خرابیوں کی مزاحمت کرسکتا ہے اور اس کے نقصانات کی شدت کو کم کرسکتا ہے۔ لیکن جب سماج سے اعلیٰ قدریں مٹنے لگیں تو وہ شرپسندوں کے لیے نرم چارہ ثابت ہوتا ہے۔ ہندوستانی سماج آج اسی تشویشناک کیفیت سے دوچار ہے۔
بین الاقوامی حالات:
کسی ملک کے نظامِ مملکت کو خود مختار اور مداخلتِ بیرونی سے آزاد سمجھا جاتا ہے لیکن یہ محض خیالی بات ہے۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ ہر ملک، پوری دنیا سے متاثر ہوتا ہے۔ ذرائعِ ابلاغ اپنے اثرات ساری دنیا میں پھیلاتے ہیں۔ مؤثر وطاقتور افکار، پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ پُرکشش ادبی تخلیقات ہر ملک کے قارئین کو متوجہ کرتی ہیں۔ ان کے ترجمے مختلف زبانوں میں ہوتے ہیں اور شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ معیاری درسیاتی کتب، دنیا کے ہر ملک کے طلباء پڑھتے ہیں، خواہ وہ کسی اور ملک میں لکھی گئی ہوں۔ علمی، ثقافتی اور تہذیبی اثرات کے علاوہ دنیا کے ممالک، بین الاقوامی اداروں کا حصہ بنتے ہیں اور یہ ادارے ان ممالک کی پالیسیوں پر اثر ڈالتے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے علاوہ عالمی معاہدے اور اعلانات (Declarations)موجود ہیں۔ بہت سے ممالک نے ان معاہدوں پر باقاعدہ دستخط کیے ہیں اور ان کی کچھ نہ کچھ رعایت ان کو کرنی ہوتی ہے۔
ان بالواسطہ اثرات کے علاوہ، ملکوں کے نظاموں پر باہر کے راست اثرات بھی پڑتے ہیں۔ بہت سے ممالک اپنی ضروریات کے لیے باہر کی مدد کے محتاج ہوتے ہیں۔ بعض ممالک قرض کے بوجھ میں بندھے ہوئے ہیں۔ بعض نے طاقتور ملکوں کے ساتھ فوجی معاہدے کررکھے ہیں اور ان معاہدوں کی بنا پر کمزور ممالک، آزاد خارجہ پالیسی اختیار نہیں کرسکتے۔ بہت سے ملکوں میں باہر کی تجارتی کمپنیاں موجود ہیں جو ان ملکوں کی معیشت پر قابض ہوتی جارہی ہیں۔ یہ ممالک معاشی پالیسی ترتیب دیتے وقت، ان طاقتور کمپنیوں کی رعایت کرنے پر مجبورہوتے ہیں۔ ملکوں کی آزادی اور خود مختاری کے سلب کیے جانے کی سب سے بھیانک شکل، ان ملکوں میں باہر کی فوجی مداخلت ہے۔ اس کی بھی بہت سی مثالیں آج کی دنیا میں موجود ہیں۔
اسلام کی مطلوبہ اصلاح:
اسلام، انسانی زندگی کی ہمہ گیر اصلاح چاہتا ہے، یہ اصلاح، افراد میں بھی مطلوب ہے اور اجتماعی اداروں میں بھی۔ اجتماعی اداروں میں ایک اہم ادارہ، نظامِ حکومت ہے چنانچہ نظامِ حکومت کی درستگی، اسلام کی دعوت کا اہم تقاضا ہے۔ درجِ بالا معروضات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ کسی ملک کے نظامِ حکومت کی شکل متعین کرنے والے عوامل پانچ ہیں: دستورِ مملکت، ملک میں غالب فکر، دیگر اہم فکری دھارے، سماج کی تہذیبی کیفیت اور بین الاقوامی اثرات۔ چنانچہ اگر نظامِ حکومت کی اصلاح کرنی ہو تو اِن سارے عوامل پر توجہ کرنی ہوگی۔ کسی ایک کی اصلاح کافی نہ ہوگی۔
اب دیکھنا چاہیے کہ اصلاح کا مفہوم کیا ہے۔ فردِ انسانی کی شخصیت کے ترکیبی پہلو، فکر اور عمل ہیں۔ فکر کی اصلاح کا آغاز ایمان لانے سے ہوتا ہے۔ اصلاح کی تکمیل، دین و شریعت کے علم کے حصول اور قلب انسانی کے اندر صالح خیالات و عزائم کی پرورش سے ہوتی ہے۔ عمل کی اصلاح کا آغاز، ارکانِ اسلام کے اہتمام سے ہوتا ہے، اس اصلاح کی تکمیل، احکامِ لٰہی کی اخلاص کے ساتھ تعمیل سے ہوتی ہے ۔ اسی طرح کسی اجتماعی ادارے کے ترکیبی پہلو بھی دو ہیں: ادارے کا مقصد اور اس کا طریقِ کار۔ ادارے کے مقصد کے درست ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی حقیقی انسانی ضرورت کی تکمیل کے لیے بنایا گیا ہو۔ حقیقی انسانی ضروریات وہ ہیں جن کو دینِ حق نے انسان کی حقیقی ضرورت تسلیم کیا ہو۔ ان کے علاوہ جو سرگرمیاں انسان کے لیے مضر ہوں (خواہ کوتاہ فہمی کی بنا پر اُن کو انسان کی ضرورت سمجھ لیا گیا ہو) ان کو انجام دینے والے ادارے، اسلام کی نظر میں — صالح مقاصد کے علم بردار— نہیں کہے جاسکتے۔ مقصد کی طرح، اجتماعی ادارے کا طریقِ کار بھی درست ہونا چاہیے۔ طریقِ کار کی درستگی کے معنی یہ ہیں کہ وہ معروف کا پابند ہو۔
دعوتِ اسلامی کی مثالیں:
قرآن میں انبیاء علیہم السلام کی دعوتی جدوجہد کا تذکرہ موجود ہے۔ انبیاء کے طرزِ دعوت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پوری قوم کو خطاب کرتے تھے یعنی ان کا خطاب افراد سے تو تھا ہی، بحیثیت مجموعی پوری قوم سے بھی تھا۔سورہ الشعراء میں یکے بعد دیگرے حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعیب (علیہم السلام ) کی دعوت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ہر جگہ مخاطب قوم کا تذکرہ ہے اور جو پیغام قوم کو دیا گیا ہے، اُس کے الفاظ یکساں ہیں:
کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِیْنَo إِذْ قَالَ لَہُمْ أَخُوْہُمْ نُوْحٌ أَلَا تَتَّقُوْنَo إِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ أَمِیْنٌo فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِیْعُونِ) الشعراء: آیات ۱۰۵ تا ۱۰۸)
’’نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔ جب اُن کے بھائی نوح نے اُن سے کہا: ’’کیا تم ڈرتے نہیں؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
کَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِیْنَo إِذْ قَالَ لَہُمْ أَخُوہُمْ ہُودٌ أَلَا تَتَّقُوْنَo إِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ أَمِیْنٌo فَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُونِ o )الشعراء: آیات ۱۲۳ تا ۱۲۶)
’’عاد نے رسولوں کو جھٹلایا جب اُن کے بھائی ہود نے ان سے کہا: ’’کیا تم ڈرتے نہیں؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَo إِذْ قَالَ لَہُمْ أَخُوْہُمْ صَالِحٌ أَلَا تَتَّقُوْنَ o إِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ أَمِیْنٌo فَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْنَ o )الشعراء: آیات ۱۴۱ تا ۱۴۴)
’’ثمودنے رسولوں کو جھٹلایا جب اُن کے بھائی صالح نے اُن سے کہا: ’’کیا تم ڈرتے نہیں۔ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
وَإِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُo کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍ الْمُرْسَلِیْنَ o إِذْ قَالَ لَہُمْ أَخُوہُمْ لُوْطٌ أَلَا تَتَّقُوْنَ o إِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ أَمِیْنٌo فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْنِo )الشعراء : آیات ۱۶۰تا ۱۶۳)
’’لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا جب ان کے بھائی لوط نے اُن سے کہا کہ ’’کیا تم ڈرتے نہیں۔ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
کَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَo إِذْ قَالَ لَہُمْ شُعَیْبٌ أَلَا تَتَّقُوْنَ o إِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ أَمِیْنٌo فَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْنِ )الشعراء :آیات۱۷۶ تا ۱۷۹)
’’ایکہ والوں نے رسولوں کو جھٹلایا جب اُن کے بھائی شعیب نے اُن سے کہا: ’’کیا تم ڈرتے نہیں۔ میں تمہاری طرف بھیجا گیا ایک امانت دار رسول ہوں۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
امر بالمعروف و نہی عن المنکر:
قوم کو خطاب کرنے کے ساتھ، رسولوں نے اُن برائیوں پر بھی گرفت کی جو قوم کے اندر موجود تھیں۔ بنیادی دعوت تو ہر قوم کے لیے یکساں تھی یعنی اللہ سے ڈرو، اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ البتہ جن خرابیوں کی نشاندہی کی گئی تھی، وہ ہر قوم کے لیے خاص تھیں۔ مثلاً قومِ عاد کے اندر یہ برائی موجود تھی کہ وہ ہر اونچے مقام پر بلا ضرورت عمارتیں تعمیر کرتے تھے اور دوسری قوموں پر ظلم کرتے تھے۔ ان کو اللہ کے رسول (ہود علیہ السلام) نے خدا سے ڈرنے کی تلقین کی تاکہ ان برائیوں سے باز آسکیں۔
أَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ آیَۃً تَعْبَثُونَo وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ o وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَo فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْنِ )الشعراء : ۱۲۸ تا ۱۳۱)
’’تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر بلا ضرورت، محض کھیل کے لیے ایک عمارت (بطورِ علامت) بنا ڈالتے ہو اور کاری گری کرتے ہو گویا تم ہمیشہ رہوگے۔ اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو تو جابر بن کر ڈالتے ہو۔ پس اللہ سے ڈرو (یعنی برائیوں سے باز آؤ) اور میری اطاعت کرو۔‘‘
اسی طرح جن برائیوں میں ثمود کی قوم مبتلا تھی اُن سے باز آنے کی تلقین صالح علیہ السلام نے کی۔
وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتاً فَارِہِیْنَo فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْنِo وَلَا تُطِیْعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَo الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَo )الشعراء : آیات ۱۴۹ تا ۱۵۲)
’’تم پہاڑوں میں تکلف کے گھرتراشتے ہو۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور حد سے گزرجانے والو ںکی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔‘‘
ہر معاشرے میں بنیادی سوال یہ درپیش ہوتا ہے کہ اطاعت کس کی کی جائے ؟ صالح علیہ السلام نے اس کا جواب دیا ہے کہ ’’فساد پھیلانے والوں کی اطاعت نہ کرو بلکہ اللہ کے رسول کی اطاعت کرو۔‘‘ یہیں سے معاشرے کی اصلاح کا آغاز ہوتا ہے۔ اجتماعی خطاب کے اس طرز کو اختیار کرکے انبیاء نے یہ بات واضح کردی ہے کہ فرد کی اصلاح اور معاشرے کی اصلاح دونوں مطلوب ہیں۔
حضرت لوط علیہ السلام نے قوم کو اس قابلِ نفرت برائی سے باز آنے کی تلقین کی، جس کا آغاز دنیا میں اسی قوم نے کیا تھا۔
’’کیا تم دنیا کے مردوں سے خواہش پوری کرتے ہو اور تمہاری بیویوں میں اللہ نے تمہارے لیے جو کچھ تخلیق کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے گزرجانے والے لوگ ہو۔‘‘
شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو بددیانتی سے روکا۔
أَوْفُوا الْکَیْلَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَo وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِo وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَاء ہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِیْ الْأَرْضِ مُفْسِدِیْنَo وَاتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالْجِبِلَّۃَ الْأَوَّلِیْنَ (الشعراء: آیات ۱۸۱ تا ۱۸۴)
’’پیمانے بھر کر دو اور لوگوں کو گھاٹا دینے والے مت بنو اور سیدھی ترازو سے تولو۔اور لوگوں کو اُن کی چیزیں مت گھٹاؤ اور زمین میں مفسد بن کر نہ رہو۔ اور ڈرو اس اللہ نے جس تم کو پیدا کیا اور تم سے پچھلوں کو بھی۔‘‘
انبیاء کے اسوے کا سبق:
انبیاء علیہم السلام کے طرزِ تخاطب کے مندرجہ بالا تذکرے سے چند امور واضح ہوتے ہیں:
(الف) کسی انسانی گروہ یا قوم میں جو بنیادی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قوم خدا کو بھول جاتی ہے ۔ دل، اللہ کے خوف سے خالی ہوجاتے ہیں۔ اس کیفیت کی بنا پر وہ قوم اللہ کے رسولوں کی دعوت پر دھیان نہیں دیتی بلکہ اُن کو جھٹلا دیتی ہے۔ اللہ کے رسولوں کی اطاعت کے بجائے وہ مفسد افراد کی اطاعت کرنے لگتی ہے۔
(ب) اس خدا فراموشی اور غیر سنجیدہ رویے کے نتیجے میں قوموں میں دیگر برائیاں جنم لیتی ہیں۔ ہر قوم کے مخصوص حالات کی بنا پر برائیوں کی نوعیت الگ الگ ہوسکتی ہے۔ کوئی قوم ظلم و جبر کا رویہ اختیار کرتی ہے، کسی میں بے حیائی پنپتی ہے اور کہیں بددیانتی اور دھوکا و فریب کا رواج ہونے لگتا ہے۔
(ج) انبیاء علیہم السلام اپنے مخاطبین کے سامنے سب سے پہلے بنیادی پیغام پیش کرتے ہیں یعنی اللہ کا تقویٰ اختیا رکرو، اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی اطاعت کرو۔ یہ پیغام فرد کے لیے بھی ہوتا ہے اور قوم کے لیے بھی:
ثُمَّ إِنِّیْ دَعَوْتُہُمْ جِہَاراً o ثُمَّ إِنِّیْ أَعْلَنْتُ لَہُمْ وَأَسْرَرْتُ لَہُمْ إِسْرَاراًo فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّاراً )نوح: آیات ۸ تا ۱۰)
’’نوح نے کہا کہ ’’پھر میں نے اُن کو بلایا برملا۔ پھر میں نے ان کو کھول کر کہا اور چھپ کر کہا چپکے سے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ اپنے رب سے مغفرت چاہو۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔‘‘
جناب شبیر احمد عثمانی اِن آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’(نوح علیہ السلام نے قوم کو) مجمعوں میں خطاب کیا اور مجلسوں میں جاکر سمجھایا۔ مجمع کے سوا اُن سے علیحدگی میں (بھی) بات کی، صاف کھول کر بھی اور اشاروں میں بھی۔ زور سے بھی اور آہستہ بھی۔ غرض نصیحت کا کوئی عنوان اور کوئی رنگ نہیں چھوڑا۔‘‘
(د) بنیادی دعوت پیش کرنے کے ساتھ انبیاء اپنی قوم کا احتساب کرتے ہیں اور اس میں پائی جانے والی نمایاں برائیوں پر گرفت کرتے ہیں۔ وہ محض تمام برائیوں سے بچنے کی اصولی اور جامع تلقین نہیں کرتے بلکہ صاف صاف انگلی رکھ کر اُن متعین خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو قوم کے اجتماعی ماحول کے فساد کو ظاہر کرتی ہیں۔ پھر وہ قوم کو ان منکرات سے باز آنے کی تلقین کرتے ہیں۔
(ہ) برائیوں سے باز آنے کی نصیحت کرتے ہوئے وہ قوم کو مسلسل اللہ کی یاد دلاتے ہیں۔ اُن کا پیغام، سننے والوں کے لیے یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی باز پُرس سے ڈرو اور ان برائیوں کو چھوڑ دو جن میں تم مبتلا ہو ۔ اس طرح اُن کی دعوت کا یہ جز (نہی عن المنکر) اُن کے بنیادی پیغام سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور اس کے لازمی تقاضے کے طور پر سامنے آتا ہے۔
(و) اللہ کے راستے کی طرف انسانوں کو بلانے والے داعیانِ حق، اپنے مخاطَب انسانوں کو منکر سے روکتے وقت اِس امر کا خیال رکھتے ہیں کہ برائیوں سے باز آنے کی اُن کی یہ تلقین صریح، واضح اور متعین ہو۔ چنانچہ سننے والے بخوبی سمجھ لیتے ہیں کہ کن برائیوں سے اُن کو روکا جارہا ہے۔ اس طرح یہ پیغام، مخاطَب سماج کے لیے بامعنی (Relevant)بن جاتا ہے۔
(ز) حق کی طرف نبیوں کی دعوت آفاقی اور اصولی ہوتی ہے چنانچہ اس کا بنیادی جز (یعنی اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین) ہر قسم کے احوال میں، انبیاء کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔ دعوتِ حق کے اس آفاقی وصف کے باوجود، دعوت کے دوسرے جز پر بھی انبیاء پوری توجہ صَرف کرتے ہیں یعنی منکر سے روکنا۔ ظاہر ہے کہ منکرات، مختلف قوموں میں مختلف ہوسکتے ہیں اور خود ایک قوم میں بھی، وقت گزرنے کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ اللہ کے نبی، مخاطبین کی واقعی صورتحال سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور اس کے اعتبار سے، اللہ کی دی ہوئی بصیرت کی روشنی میں طے کرتے ہیں کہ کن منکرات پر گرفت کی جائے۔
(ح) انبیائی دعوت پیش ہوتے ہی معاشرے میں حق و باطل کی کش مکش چھڑ جاتی ہے۔ یہ تصادم دو رویوں کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک خدا فراموشی کا رویہ ہے اور دوسرا خدا ترسی کا۔ سماجی پہلو کے اعتبار سے یہ کش مکش معروف و منکر کے درمیان ہوتی ہے۔ وہی داعیانِ حق، اس تناظر میں درست طرزِ عمل اختیا رکرسکتے ہیں جن کو حق کی معرفت بھی حاصل ہو اور جو حالات کو بھی جانتے ہوں۔
جماعت اسلامی ہند کا اندازِ کار:
نبیوں کی دعوت کے مطالعے سے داعیانِ حق کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ ہر قسم کے احوال میں، انسانوں کے سامنے اسلام کے بنیادی پیغام کو پیش کریں یعنی اُن سے کہیں کہ ’’اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لاؤ، اس کا تقویٰ اختیار کرو، رسولوں کی تصدیق کرو اور ان کی اطاعت کرو۔‘‘ اس بنیادی دعوت کے ساتھ ضروری ہے کہ داعی سماج کی کیفیت کا تجزیہ کرے اور بصیرت سے کام لیتے ہوئے یہ طے کرے کہ کن منکرات پر ضرب لگائی جائے۔
جماعت اسلامی ہند نے اپنی پالیسی و پروگرام میں مندرجہ بالا دونوں امور کو شامل کیا ہے یعنی بنیادی دعوت اور ازالہ منکرات کو۔ بنیادی پیغام کا تذکرہ، جماعت کی پالیسی کے پہلے نکتے میں کیا گیا ہے، جس کا عنوان ’’دعوت‘‘ ہے۔ پالیسی کی عبارت یہ ہے:
’’جماعت، دعوت کا کام اس طرح انجام دے گی کہ برادرانِ وطن — اسلام کی بنیادوں، توحید، رسالت و آخرت اور ان کے لازمی تقاضوں سے واقف ہوجائیں اور یہ حقیقت اُن پر واضح ہوجائے کہ اسلام ہی واحد دینِ حق اور نظامِ عدل و رحمت ہے، جس کا اختیار کرنا دنیاوی فلاح و اخروی نجات کا ضامن اور جس کا انکار، دنیا اور آخرت کے خسران کا موجب ہے۔ شرک و الحاد اور دیگرعقائد و افکار کے باطل ہونے اور ان کی اخلاقی و سماجی مضرتوں سے وہ بخوبی واقف ہوجائیں، وحدت بنی آدم، تکریمِ انسانیت اور انسانی مساوات کے اسلامی تصورات اُن پر واضح ہوجائیں، رنگ و نسل اور زبان و علاقہ کی عصبیتوں سے وہ آزاد ہوسکیں۔‘‘
بنیادی پیغام کی حامل، مندرجہ بالا عبارت میں دعوتِ اسلامی کے اساسی نکات موجود ہیں یعنی توحید، رسالت، آخرت، عدل اور تکریمِ انسانیت۔
اسلام کے پیغام کا دوسرا جز، منکرات کاازالہ اور معروفات کا فروغ ہے۔ مندرجہ بالا عبارت میں مزید درج ہے:
’’(مخاطبین) ذات پات کے نظام کی نامعقولیت سے واقف ہوجائیں۔‘‘
اس کے بعد جماعت اسلامی ہند کی پالیسی کے چوتھے نکتے میں کہا گیا ہے کہ:
’’جماعت — اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عدل و قسط، امن و سلامتی اور معروف اخلاقی قدروں کی بنیاد پر ملک کی ہمہ جہت تعمیر و ترقی کے لیے کوشش کرے گی۔ جماعت — ملکی سیاست میں صالح اقدار کے فروغ اور کمزور طبقات کی محرومی کے ازالے کی کوشش کرے گی۔ نیز جماعت — عالمی استعمار، سرمایہ دارانہ نظام اور جارحانہ قوم پرستی کے تسلط سے ملک کو بچانے کے لیے تمام خیر پسند عناصر کا تعاون حاصل کرے گی۔‘‘
نظامِ سیاست سے تعرض:
جو سوال پوچھا گیا تھا وہ یہ تھا کہ ’’الیکشنی سیاست میں جماعت اسلامی ہند کی دلچسپی کی کیا حکمت ہے؟‘‘
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حق کی طرف بلانے والی کسی جماعت کی حالاتِ حاضرہ سے دلچسپی کا دائرہ، الیکشنی سیاست تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ داعیانِ حق کو اپنے سماج کا، گردوپیش موجود اجتماعی اداروںکا، اور رائج الوقت اجتماعی نظام کا جائزہ لینا چاہیے۔ ان کی حقیقی ماہیت اور کیفیت سے واقف ہونا چاہیے۔ سماج، اداروں اور نظام میں ہونے والی اچھی اور بری تبدیلیوں پر اُن کی نگاہ ہونی چاہیے۔ ا س بصیرت سے کام لیتے ہوئے ان کو انتخاب کرنا چاہیے کہ کن معروفات کی تلقین پر توجہ صَرف کی جائے اور کن منکرات کے خاتمے کے لیے سعی کی جائے۔ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مخاطب، محض افراد نہیں ہیں بلکہ اجتماعی ادارے بھی ہیں۔ (ان اداروں میں سیاسی ادارے شامل ہیں)
حالات کا جائزہ لینے کا کام اور ان کو درست کرنے کی طرف توجہ، تو بہت سے سماجی و سیاسی حلقے کرتے ہیں لیکن دعوتِ اسلامی کا امتیاز واضح رہنا چاہیے۔ حالات کا مجرد جائزہ لینے کے بجائے، داعیانِ حق یہ دیکھتے ہیں کہ انفرادی زندگیوں، سماجی فضا اور اجتماعی اداروں میں کون سے معروفات مٹتے جارہے ہیں اور کون سے منکرات کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ اس جائزہ کے نتیجے میں داعیانِ حق طے کرتے ہیں کہ کن امور پر توجہ کریں، کن بھلائیوں کو رواج دیں اور کن برائیوں سے روکیں۔ معروف اور منکر — وہ اصطلاحات ہیں جن کو اسلام نے سماجی تجزیے کے لیے درست بنیاد (Analytical Tool) قرار دیا ہے۔ اہلِ اسلام کو چاہیے کہ تجزیے (SOCIAL ANALYSIS) کے لیے ان اصطلاحات کو خود بنیاد بنائیں اور دنیا کو بھی ان تصورات سے واقف کرائیں۔
دعوتِ اسلامی کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ معروف کی تلقین اور نہی عن المنکر کے ذیل میں جو گفتگو کی جائے وہ اسلام کے بنیادی پیغام سے ہم آہنگ ہو یعنی مخاطبین کو اللہ کی باز پُرس سے ڈرایا جائے، اللہ کے نیک بندوں کا نمونہ اُن کے سامنے رکھا جائے، آخرت کی جوابدہی کا احساس جگایا جائے اور آفاقی اخلاقی قدرو ں سے وابستگی کی اہمیت بتائی جائے۔ دعوتِ اسلامی کے ان امتیازات کا پورا لحاظ کیا جائے تو حالاتِ حاضرہ، اجتماعی اداروں اور نظامِ سیاست سے داعیانِ حق کی دلچسپی— دعوت کی پیش رفت کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ اگر دعوتِ اسلامی کےمنفرد و ممتاز مزاج کا لحاظ نہ کیا گیاتو حالاتِ حاضرہ سے تعرض — انحراف کی طرف بھی لے جاسکتا ہے۔
ہوخام اگر ذوقِ طلب، فہم وبصیرت
اس قوم میں ہے، شوخی اندیشہ، خطرناک
مشمولہ: شمارہ مارچ 2019