اس وقت جہاں کووڈ ۱۹ کی تباہ کاریوں اور اس سے مقابلہ کی تدابیر پر ساری دنیا میں بحث وگفتگو ہورہی ہے وہیں گفتگو کا ایک اہم موضوع مابعد کووڈ کی صورت حال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کووڈ کے بعد کی دنیا ایک بالکل مختلف دنیا ہوگی، بساط عالم پر بہت کچھ اتھل پتھل ہوگی، افکار ونظریات کی توڑ پھوڑ ہوگی، سوچ کے دھارے بدلیں گے، فکری نظاموں کی بنیادیں متزلزل ہوں گی، تہذیبیں کروٹیں لیں گی، تمدن کی نئی صورت گری ہوگی،نئی قوتیں ابھریں گی، نئے رجحانات فروغ پائیں گے اور زندگی کے بالکل نئے اور اچھوتے طرز عام ہوں گے۔
تہذیبوں کا سفر، دراصل مصیبتوں کی خاکستر سے بھڑک اٹھنے والی چنگاریوں کا سفر ہے۔ انسانی تاریخ کے کئی فیصلہ کن پڑاؤ قیامت خیز طوفانوں کے مرہون منت ہیں۔ ایسے طوفان جب گزرجاتے ہیں تو سب کچھ الٹ پلٹ ہوچکا ہوتا ہے۔ تہذیب وتمدن کی نئی تعمیر شروع ہوتی ہے۔ تہذیب کی تعمیر میں ہمیشہ اینٹ اور گارے کا کام افکار و خیالات کرتے ہیں۔ اس لیے تعمیر نو کے لیے نئے خیالات اور افکار کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس وقت بھی، یعنی کووڈ۱۹ کے بعد بھی، گوناگوں مسائل کا ایک انبوہ، انسانی صلاحیتوں کے امتحان کے لیے تیار ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے نت نئے خیالات اور آئیڈیاز کا سیلاب آئے گا اور اس طوفان اور ہنگامے کے بطن سے یقیناً ایک نئی دنیا جنم لے گی۔
سابقہ عالمی وبائیں اور ان کے اثرات
اس عالمی وبا کے بعد کیا کچھ ہوگا؟ اور دنیا پر اس کے اثرات کتنے گہرے ہوں گے؟ اس کو سمجھنے کے لیے سابقہ وباؤں پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہوگا۔ معلوم تاریخ کی ایک تباہ کن عالمی وبا جس نے انسانی زندگی پر نہایت گہرے اثرات ڈالے، طاعون کی وہ وبا تھی جو چودہویں صدی عیسوی کے وسط میں (1347ء تا 1350ء) یورپ میں پھیلی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں یورپ کی آبادی کا تہائی سے آدھے کے درمیان حصہ موت کا شکار ہوگیا۔ بعض شہروں اور قصبات میں تو اسی پچاسی فیصد لوگ موت کا نوالہ بن گئے۔ اس نے یورپ کی زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا۔ مزدوروں کی تعداد میں بھاری کمی آگئی اور زمین داروں کو اپنی زمینوں کی کاشت کے لیے مزدوروں کے لالے پڑگئے۔ اس صورت حال نے زمین داری نظام کی بنیادیں ہلادیں، صنعت وحرفت کے نئے طریقوں کی کھوج شروع ہوئی، مشینوں کے فروغ کی راہ ہم وار ہوئی اور اس صورت حال نے صنعتی انقلاب کی نیو ڈالی۔ قدیم توہم پرستانہ طریقہ ہائے علاج، جن کا یورپ میں رواج تھا، بری طرح عوامی اعتماد سے محروم ہوگئے۔ بوعلی سینا جیسے مسلمان اطباء کے نظریاتِ طب کی یورپ میں گونج شروع ہوئی اوراس نے جدید میڈیکل سائنس کے انقلاب کی راہ ہم وار کی۔ کلیسا کے رجعت پسندانہ اور نامعقول تصورات کے خلاف شدید بغاوت پیدا ہوئی جس کے نتیجہ میں ایک طرف پروٹسٹنٹ تحریک جیسی مذہبی اصلاح کی تحریک بپا ہوئی اور دوسری طرف کلیسا اور مذہب کے رول کو محدود کرنے والی جدید سیکولر تحریکات کا آغاز ہوا۔ مورخین کی ایک بڑی جماعت یہ یقین رکھتی ہے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور جدیدیت کی تحریک میں چودہویں صدی کی وبا کے پیدا کردہ حالات کا بڑا دخل ہے۔
اسی طرح سو سال پہلے ۲۰-۱۹۱۹میں ایک بھیانک عالمی وبا پھیلی تھی جسے انفلوئنزا کی وبا یا اسپینی فلو کی وبا کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں پانچ سے دس کروڑ لوگ ہلاک ہوئے، یعنی اس وقت کی عالمی آبادی کا ڈھائی سے پانچ فیصد حصہ موت کا شکار ہوگیا۔ اس وبا نے زیادہ تر جوان مردوں کو (بیس سے چالیس سال کی عمر کے) متاثر کیا۔ کمانے والے افراد کی ایک بڑی تعداد اس کی شکار ہوئی۔[۱] اس وبا نے پہلی عالمی جنگ کے نتیجہ کو متاثر کیا۔ اٹلی اور جرمنی میں فسطائی اور نازی تحریکوں کے فروغ کے لیے ماحول کو سازگار بنایا، میڈیکل سائنس میں بہت سی ترقیوں کے لیے مہمیز فراہم کی اور لیگ آف نیشنز ہیلتھ آرگنائزیشن کی صورت میں صحت عامہ کے سلسلے میں عالمی تال میل کے دور کی شروعات ہوئی۔
کووڈ۱۹ کے نتیجہ میں انسانی زندگی کے مختلف شعبے جس اتھل پتھل اور تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے اس تاریخی حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ عالمی وبائیں انسانی زندگی پر نہایت گہرے اثرات ڈالتی ہیں اور ایک نئی دنیا کو جنم دیتی ہیں۔ نئی دنیا کے جنم لینے کا یہ عمل آسان عمل نہیں ہوتا۔ امکان یہی ہے کہ مختلف افکار ونظریات، شدید کشمکش سے گزریں گے۔ دنیا کی جن ظالم قوتوں نے اس زمین کو جہنم بنا رکھا ہے، وہ اس صورت حال کا بھی استحصال کرنے کی کوشش کریں گی۔ اہل اسلام کو ان حالات میں سرگرم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ اس وبا کے بعد ایک بہتر دنیا تشکیل پائے۔ تمدن کی نئی صورت گری اور تہذیب کی تشکیل نو کا عمل اس کائنات کے خالق ومالک کی مرضی اور اس کے احکام کے مطابق ہو۔ اور ایک پاکیزہ تر، زیادہ منصفانہ، زیادہ انسان دوست، زیادہ بااخلاق، زیادہ ذمہ دار، اور سب سے بڑھ کر خدا ترس عالمی معاشرے کی طرف ہم بڑھ سکیں۔
مابعد کووڈ صورت حال، زیر بحث امکانات
کووڈ ۱۹ کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی؟ اس کے بارے میں بہت سی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ دور شدید معاشی بحران کا دور ہوگا۔ یہ معاشی بحران کتنا طویل ہوگا، اس کے بارے میں الگ الگ رائیں ہیں لیکن کم از کم مختصر وقفے یعنی ایک دو سال کے لیے پوری دنیا اور دنیا کے عوام کو طرح طرح کی معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ معاشی بحرانوں کا سب سے زیادہ اثر غریب عوام پر پڑتا ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ غربت، بھوک مری اور فاقہ کشی بڑھے گی۔ یہ مسائل ہمیشہ انقلابات اور تبدیلیوں کے لیے زرخیز زمین فراہم کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان احوال کے بطن سے کس طرح کے انقلابات جنم لیں گے۔
جدید لبرل سرمایہ دارانہ فکر، اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے گزرے گی۔ ممالک زیادہ منضبط معیشت کی طرف بڑھیں گے۔ آزاد تجارت مشکل سے مشکل تر ہوتی جائے گی۔ ڈبلیو ٹی او اور اس کے عالمی معاہدے پہلے ہی مشکلات سے گزر رہے تھے، اب اُن کا مستقبل اور مخدوش ہوجائے گا۔ حکومتوں کی مداخلت بڑھ جائے گی۔ بعض حکومتیں ان حالات میں لاک ڈاون وغیرہ کے ذریعے عوام کی آزادیوں کو محدود کرنے کا جو تجربہ کرچکی ہیں، اسے آگے بڑھاسکتی ہیں۔ وہ ترقی یافتہ ٹکنالوجی کے ذریعے عوام کی نگرانی، ان کے حقوق کی تحدید اور طرح طرح کی بندشوں کو عائد کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں۔
یہ ان باتوں کا خلاصہ ہے جو عام طور پر کہی جارہی ہیں۔ ان سے زیادہ تعرض کئے بغیر ہم ان امور کی طرف بڑھتے ہیں جنھیں ہمارے خیال میں، اہل اسلام کا ہدف ہونا چاہیے۔ اور جن کے سلسلے میں سنجیدہ کوشش کی جانی چاہیے۔ اگر سنجیدہ کوششیں کی جائیں اور اللہ کی تائید شامل حال رہے تو ان تبدیلیوں کے بھی خاصے مواقع یہ حالات فراہم کرتے ہیں۔
خدا مرکوز تصور جہاں (Theistic Worldview) کی طرف
سب سے اہم اور بنیادی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ دنیا خدا کے بارے میں زیادہ سنجیدہ ہوجائے اور خدا بیزار ورلڈ ویو سے خدا پر مرکوز ورلڈ ویو کی طرف اس کارخ بدلے۔ اکیسویں صدی کا یہ دوسرا دہا، انسانی ترقیوں کے عروج کا زمانہ رہا ہے۔ انسانی زندگی اور انسانی تمدن کا حسن وجمال اور سحرانگیزی و کرشمہ سازی حیرت انگیز بلندیوں کو چھونے لگی۔ جو آسائشیں اور سہولتیں آج کے عام انسان کو میسر آئیں وہ گذشتہ زمانوں کے طاقتور ترین بادشاہوں کو بھی میسر نہیں تھیں۔ ان تحقیقات پر جدید انسان کو بہت غرور تھا۔ لوگ اسے فطرت پر انسان کی فتح سمجھنے لگے۔ علم و فن کے اس غرور نے وہ نفسیات پیدا کی جس نے مذہب اور خدا سے انسان کو غافل کردیا۔ اکیسویں صدی کے فرد کے لیے بھی اور قوموں کے لیے بھی، مادی ترقی ہی منزل بن گئی۔ ان کی آرزؤوں اور تمناؤں کا اور جہد وعمل کا واحد محور و مرکز یہ قرار پایا کہ کیسے زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کی جائے۔ اس وبا نے اس انسانی غرور کو چکنا چور کردیا ہے۔ اسے بتادیا ہے کہ اس کی ساری ترقیوں کی خدا کی بے پناہ طاقت وقدرت کے سامنے کیا حیثیت ہے؟ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ (لوگو، ایک مثال دی جاتی ہے، غور سے سنو جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مِل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے مدد چاہنے والے بھی کم زور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کم زور۔ الحج:۷۳)
اس آیت میں بنیادی طور پر جھوٹے خداؤں کی بے بسی کی طرف اشارہ ہے۔ ہمارے دور کے انسان نے، کچھ اور نئے خدا تخلیق کرلیے تھے۔ اپنے علم وفن اور اپنی تمدنی طاقت کو لاشعوری طور پر خدا سمجھنے کی غلطی کی تھی۔ ایک چھوٹے سے وائرس کے ذریعے یہ بتادیا گیا کہ انسانی علم و فن کی کیا حیثیت ہے۔ اللہ کا حکم ہو تو اس کی مخلوقات میں سے ادنی ترین مخلوق، ایک نظر نہ آنے والا وائرس، پورے عالم انسانیت کو بے بس کرکے رکھ سکتا ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں، تعلیمی وتحقیقی ادارے، جگمگاتے شاپنگ مال، پر رونق تفریح گاہیں، عالی شان ایر پورٹ، پر تعیش ہوٹل، یہ سب ایک ساتھ، ربِّ کائنات کے ایک ہلکے سے اشارے پر بے جان کھنڈروں میں بدل سکتے ہیں۔ نوکروں کی فوج، خدا کے حکم سے اچانک ہمارے کنٹرول سے باہر ہوسکتی ہے۔ گھر بیٹھے آن لائن آرڈر دے کر من پسند چیزیں منگانے کی سہولت، گاڑی طلب کرنے کی سہولت اور دیگر بہت سی سہولتیں جو انسانی اختراع و ایجاد کا کرشمہ سمجھی جاتی ہیں، اچانک معطل ہوسکتی ہیں۔ اور بڑے سے بڑے آدمی کو اذیت، تنہائی اور بے بسی کا عذاب جھیلنا پڑسکتا ہے۔
اس وقت سار ی دنیا میں خدا کی طرف واپسی اور روحانیت اور روحانی قدروں کے احیا کا رجحان نظر آرہا ہے۔ یہ انسانی فطرت بھی ہے۔ قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّـهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّـهِ تَدْعُونَ (ان سے کہو، ذرا غور کر کے بتاؤ، اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آ جاتی ہے یا آخری گھڑی آ پہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟ الانعام :۴۰) اسلام کے داعیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس موقع پر انسانیت کو خدا کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں۔
ان حالات میں، پوری قوت سے دنیا کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ انسان کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کو نظر انداز کرکے خوش نہیں رہ سکتا۔ ان حالات کا اصل سبق یہی ہے کہ ہم سب اپنے پیدا کرنے والے کی طرف پلٹیں۔ اُس کی مرضی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اُس کے اشاروں کو سمجھیں، اس کی وارننگ کو سمجھیں۔ اس معاملہ میں سنجیدہ ہوں۔ یہ موقع إِلى رَبِّكَ فَارْغَبْ کی صدا بلند کرنے کا ہے۔ فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِؕ-اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ کی دعوت پورے زور و شور سے اٹھانے کا موقع ہے۔
سائنس اور علوم کے بارے میں صحیح نقطہ نظر
انسان جب خدا کے حکم اور اس کی تعلیمات سے غافل ہوجاتا ہے تو بے اعتدالی اور انتہاپسندی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی سنت کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں، ٹھوس سائنسی حقائق کو خاطر میں نہیں لانا چاہتے اور اسباب سے بے نیاز ہوکر صرف دعاؤں اور عبادتوں سے ہر بلا کو ٹالنا چاہتے ہیں۔ اس طرز فکر کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وقت کے رسول نے بھی اپنے مرض کا علاج کرایا، اپنے وقت کے معروف ذرائع اور اسباب اختیار کیے، احتیاطی تدبیروں کا حکم دیا، جنگوں میں جاسوسی کا نظام، بہترین وسائل کی فراہمی کی کوشش، فوج کی تنظیم، تربیت غرض وہ سارے طریقے اختیار کیے جنھیں کامیابی کے دنیوی اسباب سمجھا جاتا ہے اور ہر طرح کی تیاری کرنے کے بعد خدا سے لو لگائی، اس سے دعائیں کیں اور اس سے مدد مانگی۔اسی طرح وباؤں کی روک تھام کے لیے اپنے زمانے کی تمام معلوم تدبیریں اختیار کیں۔ یہی اسلام کی تعلیم اور اس کا فلسفہ ہے۔ اسلام عقل اور سائنس سے بے نیازی نہیں سکھاتا۔ اس پر توجہ دینے کا، عقل کو استعمال کرنے کا اور اسباب کو بروئے کار لانے کا حکم دیتا ہے۔
لیکن دوسری طرف انتہا یہ ہے کہ لوگ اسباب، سائنس اور علوم وفنون کو ہی سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں، اپنے تمدنی وسائل کو خدا بنالیتے ہیں، ان کی طاقت کے ایسے اسیر ہوجاتے ہیں کہ خدا سے بے نیاز ہوجاتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ اسباب کی قوت ان کے پاس ہے تو اب انھیں کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ یہ غرور اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ دور جدید کے خدا بیزار طرز فکر کی بنیاد انسانوں کا یہ غرور ہی ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی مادہ پرستی نے یہ بھرم پیدا کیا کہ ہم نے فطرت کے سارے حقائق کو جان لیا ہے، بس تھوڑا بہت جاننا باقی ہے، وہ بھی جان لیں گے اور فطرت اور اس کی ساری قوتوں کو مسخر کرلیں گے۔
۱۹۴۸ میں امریکی وزیر خارجہ جارج مارشل نے اعلان کیا تھا کہ ہم کرہ ارض سے متعدی امراض کا بہت جلد مکمل خاتمہ کردیں گے۔ ۱۹۶۹میں امریکی سرجن جنرل، ولیم اسٹیوارٹ نے کانگریس میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ “اب وقت آگیا ہے کہ متعدی امراض سے متعلق تمام کتابیں بند کردی جائیں” اور یہ کہ “وباؤں کے خلاف جنگ اب ہم جیت چکے ہیں” سب سے زیادہ دل چسپ عالمی سطح پر سائنسدانوں کی وہ پیشین گوئی ہے جو ۱۹۹۰ میں کی گئی تھی۔ جسے ڈیلفی پیشین گوئی برائے صحت 1990 (Delphi Health Forecast) کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ماہر سائنس دانوں کی جماعت نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا تھا کہ ۲۰۲۰ تک دنیا سے مرض کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یعنی بیماریاں باقی نہیں رہیں گی۔[۲] خدا کی قدرت دیکھیئے کہ اسی ۲۰۲۰کو انسانی تاریخ کی سب سے بھیانک وبا کے لیے منتخب کیا گیا۔
یہ دو انتہائیں ہیں جن کا عالم انسانیت شکار ہے۔ ایک طرف توہم پرستی اور پراسراریت ہے تو دوسری طرف ظاہر پرستی اور کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یعنی رب کائنات سے مغرورانہ بے نیازی ہے۔
اسلام کی راہ اعتدال یہ ہے کہ ہم اسباب کو بھرپور طریقے سے استعمال کریں۔ جو کچھ علم اور عقل اللہ نے ہم کو دی ہے اس کو روبہ کار لائیں اور پھر اللہ سے بھی لو لگائیں۔ ہماری نظر کسی بھی واقعہ یا حادثہ کے سائنسی وعقلی پہلو پر بھی ہو اور روحانی یا فوق الطبعی پہلو پر بھی ہو۔ ہماری توجہات مسئلہ کو جدید تحقیقات اور اسباب ووسائل کے ذریعے حل کرنے پر بھی ہوں اور خدا سے مدد مانگ کر، اپنی غلطیوں کا جائزہ لے کر، اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر خدا کی رحمت کو متوجہ کرنے پر بھی ہو۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ بڑی سے بڑی طاقت اللہ کے سامنے بے بس ہے۔ فطرت کی ساری قوتیں اور سارے قوانین اللہ کی مرضی کے تابع ہیں۔ اسلام کا تصور علم یہ ہے کہ یہ ہماری وسیع و عریض کائنات، اس میں پایا جانے والا محیر العقول توازن اور اس کے جملہ قوانین ایک سب سے بڑی حقیقت یعنی باری تعالیٰ کے وجود پردلالت کرتے ہیں۔ہماری کائنات کا آخری حوالہ مادہ، یا توانائی یا قوانین فطرت نہیں بلکہ خالق کائنات کاوجود ہے۔
اس لیے اصل رشتہ وتعلق تو اللہ تعالیٰ سے یعنی سارے انسانوں کے خالق ومالک سے ہونا چاہیے۔ لیکن خود اللہ نے اس کائنات کو چلانے کے لیے کچھ قوانین بنائے ہیں۔ اللہ کی اس سنت کا یعنی قوانین فطرت کا لحاظ رکھنے اور اسباب کو استعمال کرنے کا خود اللہ نے حکم دیا ہے۔
یہی اسلام کا مزاج ہے۔ اس وقت دنیا کو اسی اعتدال کی ضرورت ہے۔ اس وقت کی عالمی صورت حال اسلام کے اس معتدل نقطہ نظر کی عملی شہادت کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔
انفرادیت اور فرد پسندی بمقابلہ سوشل کیپیٹل و تکریم انسانیت، کنٹرول بمقابلہ تعاون باہمی
جدیدیت نے انسانیت کو جن لعنتوں کا شکار کیا ان میں ایک اہم لعنت حد سے بڑھی ہوئی انفرادیت پسندی(individualism) ہے۔ فرد کی آزادی اور ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت سے شروع ہوکر بات اس قدر آگے بڑھ گئی کہ فرد کی اجتماعی ذمہ داریوں کا تصور دھندلا گیا اور ہر طرح کی اخلاقی وسماجی بندش، فرد کی آزادی کے خلاف سمجھی جانے لگی۔ اس وقت امریکہ اور بعض یورپی ملکوں میں ماسک کے خلاف تحریکیں اسی بنیاد پر چلائی جارہی ہیں کہ اس کا لزوم فرد کی آزادی کے خلاف ہے۔
دوسری طرف یہ انتہا بھی ہے کہ ریاست کا ادارہ کئی جدید ریاستوں میں اتنا ہمہ گیر، استبدادی بلکہ مقدس بنتا گیا کہ اس نے خدا کی جگہ لے لی اور خود ایک سیکولر خدا بن بیٹھا۔
اسلام نے فرد اور اجتماع کے درمیان توازن اور اعتدال کی راہ دکھائی ہے۔ فرد کو آزادی، تکریم اور حقوق بھی بخشے ہیں۔ اس کی پرائیویسی کا بھر پور احترام بھی کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کے اندر اپنی ذمہ داریوں کا شعور بھی پیدا کیا ہے۔ وہ اپنے خاندان، اپنے پاس پڑوس، اپنے سماج اور اپنے خالق ومالک کے تئیں ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر ان کے لیے اس کو اپنی آزادی کی، اپنے مفاد کی بلکہ اپنی جان کی بھی قربانی دینی پڑسکتی ہے۔
وبا نے ایک طرف نفسا نفسی اور خود غرضی کی ایسی کیفیت پیدا کی کہ مرنے والے کی آخری رسومات کے لیے اس کے گھر والے تک تیار نہیں۔ دوسری طرف دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ پوری دنیا میں اسلام کے ماننے والوں نے اپنی جانوں کو خطروں میں ڈال کر دوسروں کی جانیں بچانے کی بھی کوشش کی، بھوکوں، مجبوروں اور مفلسوں کی ضروریات کی تکمیل کا سامان بھی کیا اورمرنے والوں کو احترام کے ساتھ ان کی آخری منزل تک پہنچانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اہل اسلام کا یہ کردار الحمد للہ ساری دنیا میں نمایاں ہوا ہے۔ مسلمان ڈاکٹروں سے لے کر سماجی کارکنوں تک بلکہ عام مسلم مرد وخواتین تک، ہر طبقہ نے ایک امتیازی اور جداگانہ کردار اور مزاج کا مظاہرہ کیا جو انسان دوستی، دوسرے انسانوں کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کے شعور اور اپنے ذاتی مفاد پر سماج کی اجتماعی ضرورتوں کو ترجیح دینے کے جذبے کا مظہر تھا۔ یہ یقیناً اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ تھا۔
اس وبا نے یہ بہت بڑی حقیقت دنیا کو سمجھائی ہے کہ اس دنیا میں سات بلین انسانوں کی زندگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ ہم سب انسان ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد ہیں۔ ہمارا مفاد مشترک ہے۔ ایک بیمار آدمی بھی، چاہے وہ غریب ہو یا امیر، ہماری ذات یا مذہب کا ہو یا کسی اور کا، اگر وہ بیمار ہے تو اس کی بیماری صرف اس کے لیے نہیں ہم سب کے لیے خطرہ ہے۔ قرآن نے کہا ہے وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا۔( جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا ساری انسانیت کو زندگی بخشی۔ المائدہ: ۳۲) اس بیماری نے ہم کو یہ عظیم حقیقت یاد دلائی ہے۔ چوں کہ بیماری تیزی سے دن بدن اور گھنٹہ بہ گھنٹہ پھیلتی ہے اس لیے ہم نے اسے محسوس کیا اور متوجہ ہوگئے۔ سماج کے غریب ترین انسان کو بھی بچانے کی فکر شروع کردی۔ قوم، ذات، ملک کسی چیز کا تعصب حائل نہیں ہوا۔ کاش ہم یہ سمجھیں کہ اسی طرح زندگی کے دوسرے پہلو بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ آبادی کے ایک بڑے حصہ کو مفلوک الحال اور پریشان حال رکھ کر ہم زیادہ دن خوشحال نہیں رہ سکتے۔ کچھ لوگوں کو مظلومیت اور تعذیب کی بھٹی میں دھکیل کر ہم ہمیشہ سکون کی بانسری نہیں بجاسکتے۔ انسانوں کی بقا کا انحصار اس بات پر ہے کہ امن وسکون سارے انسانوں کو میسر آئے۔ سب کی ضرورتیں پوری ہوں۔ سب کے حقوق کا تحفظ ہو۔ سب کو آزادی اور عزت ملے۔
آنے والے مہینوں میں یہ بحث تیز ہوگی کہ وبا کی روک تھام میں حکومتوں کے ماڈلوں نے کیا رول ادا کیا ہے۔ چین کی کامیابی کی وجہ بعض لوگ سخت گیر ریاستی ڈھانچہ کو سمجھتے ہیں لیکن چین سے کہیں زیادہ کامیاب نیوزی لینڈ، ڈنمارک، جرمنی، تایوان جیسے ممالک ہیں جہاں جمہوری حکومتیں ہیں۔ اصل مسئلہ جمہوری یا غیر جمہوری حکومت کا نہیں، بلکہ جن ملکوں میں حکومتوں کا رویہ عوام دوست رہا ہے، عوام کا اپنی حکومتوں پر اعتماد رہا ہے، عوام کے مختلف طبقات میں بہتر تال میل رہا ہے یا جدید سماجیاتی اصطلاح میں جہاں کا سوشل کیپیٹل اچھا رہا ہے وہاں اس وبا کا مقابلہ آسان رہا ہے۔
ان حالات میں انسانی تکریم، سماجی ذمہ داریوں، اور انسانوں کے درمیان انسانی بنیادوں پر بہتر تعلقات سے متعلق اسلام کی تعلیمات دنیا کو آسانی سے سمجھائی جاسکتی ہیں۔
معاشی عدل
سارے مالی وسائل رکھنے کے باوجود آج دنیا کی معیشت جام ہوچکی ہے۔ اور بھیانک معاشی بحران ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔ہمارے اس دور کی یہ خصوصیت ہے کہ کرونی کیپٹلزم کے نتیجے میں، معاشی نابرابری عروج کو پہنچ چکی ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ دنیا کی دولت چندہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ گذشتہ چالیس برسوں میں صرف 0.1فیصد لوگوں نے آدھی انسانیت سے زیادہ دولت پر قبضہ کیا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ غریب کا غریب تر ہوتا جانا اور امیر کا امیر تر ہوتا جانا ہمارے دور کی نمایاں خصوصیت بن چکی ہے۔ ساری دنیا میں ایسی پالیسیاں اختیار کی جارہی ہیں کہ غریب کے منھ سے اس کے دو نوالے بھی چھین کر امیر ترین لوگوں کے خزانوں میں اضافہ کا ذریعہ بنایا جائے۔ آج کروڑوں لوگ بھوک پیاس سے بے حال ہیں۔ خود وبا کی اس سنگین صورت حال کے دوران ہمارے ملک کے بشمول، دنیا کے اکثر ترقی پذیر ملکوں میں، غریب عوام نہایت بے دردی سے نظر انداز کیے جارہے ہیں۔ قرآن مجید میں کہا گیا ہے: فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ – وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ -كَلَّا ۖ بَل لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ – وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ – وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا – وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا۔ (مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُسے عزت اور آسائش دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنا دیا۔ اور جب وہ اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔خبردار، تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے۔ اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اکساتے۔ اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔ اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔الفجر:۲۰-۱۵)
مال کی محبت، غریبوں اور بے کسوں سے بے اعتنائی، وسائل دنیا کی، جو انسانیت کی میراث ہیں، لوٹ کھسوٹ اور چند لوگوں کا دنیا کی ساری دولت پر قابض ہوجانا۔۔ یہ برائیاں آفتوں اور فتنوں کا سبب بنتی ہیں۔ ۱۵ مارچ کے نیویارک ٹائمس میں ایک رپورٹ چھپی تھی جس میں معاشی عدم مساوات کو وبا پھیلنے کا ایک بڑا سبب قرار دیا گیا تھا۔ اس میں سائنسی بنیادوں پر کہا گیا ہے کہ اگر معاشی عدم مساوات دنیا میں اتنی زیادہ نہ ہوتی تو وبا اس طرح نہ پھیلتی۔
معاشی نابرابری کا ایک بڑا سبب وہ لبرل پالیسیاں ہیں جن کے تحت سرکاریں اپنی فلاحی ورفاہی ذمہ داریوں سے دستبردار ہورہی ہیں اور اپنے کام مارکیٹ یعنی سرمایہ داروں کے حوالے کررہی ہیں۔ تعلیم اور صحت عامہ جیسے اہم شعبوں کی نج کاری غریب عوام کو بنیادی سہولتوں سے بھی محروم کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ کرونا کے اس جھٹکے نے اس حقیقت کو یاد دلایا کہ سرمایہ کی چکا چوند سے وجود میں آنے والی عالی شان دکانیں صرف اچھے وقتوں کی دوست ہوتی ہیں۔ وبا کے پہلے مرحلے ہی میں جس طرح کارپوریٹ ہسپتال پورے ملک میں بند ہوگئے اور ڈاکٹر غائب ہوگئے اور سارا بوجھ سرکاری ہسپتالوں کے کم زور انفرا اسٹرکچر پر آن پڑا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفع کی بنیاد پر انسانی سماج کی تمام ضروریات کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ نفع کا محرک ایسے ہنگامی حالات میں ماند پڑجاتا ہے اس لیے بنیادی انسانی ضروریات کو خرید وفروخت کی چیز بنادینے (commodification) کا سرمایہ دارانہ رجحان، انسانی سماج کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
ماحولیاتی بحران
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو اچھی زندگی کے لیے تمام ضروری وسائل فراہم کیے ہیں۔ لیکن تعیشات کی ہوس اور سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا میں وسائل کی ایسی لوٹ مچائی کہ آج ہماری ہوا، پانی اور ماحول سب کچھ زہر سے بھر گیا۔ متعدد تحقیقات آچکی ہیں کہ نیول کرونا جیسے نت نئے جرثومے انسانی زندگیوں کو جس خطرے سے دوچار کررہے ہیں اس کا ایک اہم سبب ماحولیاتی عدم توازن ہے۔ اکثر بیماریاں حیاتیاتی تنوع کے مراکز (biodiversity hotspots) سے نکل رہی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس کا اصل سبب ان علاقوں میں انسانوں کی صنعتی سرگرمیاں اور ماحولیاتی توازن (ecological balance) کے نظام میں خلل ہے۔ ماحولیاتی خلل (ecological disturbance) کی وجہ سے جانوروں تک محدود خورد نامیات (microorganisms) انسانوں میں منتقل ہورہے ہیں اور نت نئی بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اُن کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔روم:۴۱)
اس آزمائش نے رویوں میں تبدیلی سے متعلق بہت سے اسباق پڑھائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی آسائشوں اور سہولتوں سے ہم کو عارضی طور پر محروم کرکے یہ سمجھایا ہے کہ اس دنیا میں ہماری ضرورتیں بہت محدود ہیں۔ یہ قول گاندھی جی سے منسوب کیا جاتا ہے کہ دنیا میں انسان کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کافی وسائل موجود ہیں لیکن انسان کی لالچ کا پیٹ بھرنے کے لیے وہ کافی نہیں ہیں ۔
(The world has enough for everyone’s need, but not enough for everyone’s greed)
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا: وکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ(اور کھاؤپیو، البتہ حد سے تجاوز نہ کرو: اعراف: ۳۱) اور وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔انعام:۱۴۱) اس آفت نے ساری دنیا کو یہ بات سمجھائی ہے کہ ہم نے اپنی ضرورتوں کا دائرہ غیر فطری طور پر بڑھادیا تھا۔ اسی حرص اور لالچ نے معاشی عدم مساوات پیدا کی۔ اسی سے ہمارا ماحولیاتی نظام درہم برہم ہوگیا اور اسی حرص نے اس بے نظیر ظلم کے لیے تحریک فراہم کی جس کی طرف ابھی ہم نے اشارہ کیا ہے۔ اس لاک ڈاون میں ضروریات کی تحدید اور سادہ زندگی کا جو سبق فطرت نے ہم کو پڑھایا ہے اگروہ ہمیں ازبر ہوجائے تو شاید انسانیت کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں۔ لیکن اس سبق کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے اس دنیا اور کائنات کے خالق کو سمجھنا اور اس کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے۔
امت مسلمہ کے نصب العین کا تقاضا بھی ہے اور تاریخ کے اس نازک ترین موڑ کی پکار بھی کہ ہم یہ سب بحثیں اٹھائیں اور دنیا کو اس تباہی کے ان مخفی اخلاقی اسباب کی طرف بھی متوجہ کریں۔ اس وقت انسانوں کے ضمیر زیادہ حساس اور بیدار ہوچکے ہیں۔ اللہ کے دین اور اس کے کلام میں یقین رکھنے والے اہل ایمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انسانیت کے ضمیر پر دستک دیں اور اس وبا کو ایک صالح تبدیلی کا نقطہ آغاز بنانے کی جدوجہد کریں۔■
حواشی
- Johnson, Niall P. A. S., and Juergen Mueller. “Updating the Accounts: Global Mortality of the 1918–1920 ‘Spanish’ Influenza Pandemic.” Bulletin of the History of Medicine 76 (2002): 105–120.
- Edoardo Campanella; The Invisible Killers; in Project Syndicate; April 2010
مشمولہ: شمارہ اگست 2020