شہادت حق کو اپنا اجتماعی نصب العین مقرر کرلینے کے بعد ہندستان کے مسلمانوں کی آئندہ اجتماعی جدوجہد، قوم پرستانہ تخیل کی بجائے ان ہمہ گیر انسانی اصولوں پر قائم ہوگی جو اسلام پیش کرتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس سے نہ صرف وہ قومی کش مکش ختم ہو جائے گی جو قوم پرستانہ تخیل کی پیداوار ہے، بلکہ اس کی جگہ وہ اعتماد اور جذبہ خیر سگالی پیدا ہوجائے گا جو ہندستان میں اسلام اور مسلمانوں دونوں کی بقا وترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ بلکہ یہ امید بھی کی جا سکتی ہے کہ اگر ٹھیک ٹھیک اس نصب العین کے مطابق کام کیا جائے، تو مسلمان جو اس وقت اپنے قوم پرستانہ تصور کے ماتحت ایک حقیر قوم یا بے وزن اقلیت بن کر رہ گئے ہیں، جس میں حالات کے دباؤ کے تحت روز بروز گھٹاؤ کا عمل بھی جاری ہے، آئندہ اقلیت نہ رہیں اور اسلام کے پیش کئے ہوئے اصول ہی یہاں کے حکم راں اصول ہوں۔ مسلمان اپنے کو اگر صرف ایک قوم ہی سمجھتے رہیں تو یقینا ہندستان میں ان کے بڑھنے اور پھولنے پھلنے کا کوئی امکان نہیں ہے، بلکہ اپنی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنا بھی ان کے لیے دشوار ہے، کیوں کہ اس سے دوسری قوموں کی قوم پرستی کے جذبات بھڑکتے ہیں اور وہ ان کو خطرہ سمجھ کر ان کو نگل لینے کے لیے آمادہ ہو جاتی ہیں۔ لیکن اگر وہ ایک اصولی پارٹی بن جائیں جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں اور جس کی بنا پر ان کو حزب اللہ یا شہداء اللہ فی الأرض کا خطاب عطا کیا گیا ہے تو آئندہ یہاں قومیت کی بنیاد پر مسلم وغیر مسلم کی کوئی کش مکش باقی نہیں رہے گی، کش مکش اگر ہوگی تو اصولوں کے درمیان ہوگی، اور ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اسلام کے اصولوں کو اگر مناسب طریقوں سے پیش کیا گیا اور یہاں کے باشندوں کو کسی مناسب ماحول میں ان پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کا موقع ملا تو یقینا وہ ان پر توجہ کریں گےاور دوسرے اصولوں کے مقابلے میں، جن کے تجربے دنیا کے لیے مایوس کن ثابت ہو رہے ہیں، وہ ان کو قابلِ ترجیح خیال کریں گے۔
(مولانا ابو اللیث اصلاحیؒ، مسلمانانِ ہند آزادی کے بعد ص ۳۱۱)
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2020