استدراک غورسے دیکھا۔موصوف نے اپنی تحریر کوبہت طول دیاہے جبکہ جوبات وہ کہنی چاہتے تھے وہ ۵،۶سطرمیں آسکتی تھی۔کشافی صاحب نے تواترعملی کونہ جانے کیوں احادیث کے خلاف سمجھ لیا، حالانکہ قول، عمل اورتقریر (یعنی رسول اللہ نے کسی کام پر صادکیاہو) سنت ِعملی یاتواترعملی میں خودہی شامل ہے۔ دوسرے یہ کہ کتاب اورمصنف کتاب جناب ڈاکٹرمحی الدین غازی کو’’نئی نسل کواحادیث نبوی سے بدظن ‘‘کرنے کا مجرم بھی قراردے ڈالا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہرمسلمان بچہ دین کے مبادیات اورنمازوغیرہ اپنے گھرمیں والدین ،بھائی بہنوں سے اوراسکول میں اپنے استادوں سے سیکھتاہے ۔سن شعورکوپہنچنے کے بعدہی اسے حدیث وفقہ کی اصل کتابیں پڑھنے کی نوبت آتی ہے۔علما اورطالبان علوم نبوت بھی 14-15کی عمرکے بعدہی حدیث وفقہ کی کتابیں پڑھتے پڑھاتے ہیں۔یہی عملی تواترہے جوامت کونسلاًبعدنسل منتقل ہوتاآیاہے۔نبی ﷺ صحابہ کواپنے قول وعمل سے نمازسکھاتے تھے،صحابہ نے تابعین کوبھی اسی طرح سکھائی ۔حدیث وفقہ کی متداول کتابیں موجودنہ تھیں،کیونکہ عہدنبوی اورخلافت راشدہ میں حدیث کی تدوین ہی نہ ہوئی تھی۔
علم دین سینہ بہ سینہ منتقل ہورہاتھا،صحابہ وتابعین کے حلقے تھے جواپنے طلبہ اور شاگرد و ں کو زبانی علم دین سکھاتے تھے۔اسی کوسنت کہتے ہیں اورتواترعملی میں یہ چیزخودبخودآجاتی ہے۔نبی ﷺ کے زمانہ میں انفرادی طورپر کچھ صحابہ نے ضرورحدیث کے کچھ صحیفے مرتب کیے تھے جن کے نا م تاریخ نے نوٹ کیے ہیں ،مگروہ زیادہ ترمختصراورذاتی نوٹس کی شکل میں تھے، کتابی صورت نہ تھی۔حدیث کی باقاعدہ تدوین توحضرت عمربن عبدالعزیزؒکے زمانہ میں شروع ہوئی ہے۔حدیث کی موجودہ متداول کتابیں نہایت اہم ہیں اورامت ان سے استفادہ کرتی ہے، لیکن بہرحال صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی یہ دعوی نہیں کیاکہ اس نے سارے ذخیرہ حدیث کا استقصاء کرلیاہے۔دوسرے یہ کتابیں فطری طورپر اپنے مؤلفین کی علمی وسعت،فقہی اسلو ب،ذاتی اجتہاداورشخصی ذوق ورجحا ن کی آئینہ دارہیں۔ان کتابوں سے استفادہ کرناناگزیرہے ۔تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ کا مسئلہ کیاہے ؟ کسی مسلک کے مطابق لوگ نماز پڑھتے ہیں توکچھ لوگ بخاری ومسلم وغیر ہ میں کئی مسئلوں کا ذکراس طریقہ پر نہ پاکرچیں بہ جبیں ہوتے ہیںاورفتوے دینے لگتے ہیں کہ فلاںکی نماز مطابقِ سنت نہیں، لہٰذاہوئی ہی نہیں،یااگرہوئی تو افضل طریقہ پر نہیں ہوئی وغیرہ۔اسی طرح نمازکے بے شمارمسائل ہیں جن میں لوگ جھگڑاکرتے ہیں۔اوران سے مسلکی اختلافات بڑھتے ہیں۔مصنف کتاب کا کہناہے کہ ان طریقوںمیں جھگڑنادرست نہیں۔یہ سارے طریقے درست اورصحیح ہیں،کیونکہ تواترعملی سے ثابت ہیں۔استدراک نگارنے اس مقصدکونہیں سمجھااورالزام یہ لگادیاکہ مصنف ’منکرین سنت ‘سے دوقدم آگے ہیں۔دلیل یہ دی ہے کہ پوری کتاب میں صرف دوحدیثوں سے استدلال کیاہے اورکتاب کوفقہاء کے اقوال سے بھردیاہے۔یہ اعتراض بے جاہے، کیونکہ عملی تواترکی بات ایک جزوی نہیں ،اصولی مسئلہ ہے ۔اس بارے میں اگرکوئی با ت کہنی ہے توان فقہا ومحدثین اوراصولیین کے اقوال وآرا ء ہی نقل کی جائیں گی جوتواترعملی کی اہمیت کے قائل ہیں۔کتاب میں نماز کے جزوی مسائل سے بحث نہیں کی گئی، ہے جوکثرت سے احادیث نقل کی جاتیں۔موصوف نے مسئلہ کی نوعیت کوسمجھے بغیراعتراض کردیاہے۔ویسے ضمناً عرض ہے کہ غالباًمصنف نے اختصارکے پیش نظرحدیث کی کتابوںسے حوالے نہیں دیے ہیں، ورنہ مؤطاکوہی دیکھ لیجئے ،امام مالک عمل ِاہل مدینہ اورتعامل امت (متواترعملی )کی جابجامثالیں دیتے ہیں،اورشاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے نزدیک مؤطاذخیرہ ٔحدیث کی اصل ہے ،بخاری اسی پر مستخر ج اوراضافہ ہے۔استدراک نگارنے مزیدلکھاہے :’’عملی تواترکے مفروضہ کی وکالت کرنامحض ایک فریب ہے اوراس کے پیچھے اصل مقصداحادیث کی اہمیت کوگھٹاناہے ۔حالاں کہ سنت نبوی کا عملی تواترصرف ایک نسل یعنی صحابہ وخلفاء راشدین تک محدودومعروف رہاہے ۔‘‘ موصوف کا یہ تبصرہ نادانی پر مبنی ہے۔ انہیں یاد نہیں کہ سنت ِنبوی کے عملی تواترکا انکارتوخودذخیرہ ٔحدیث کے انکارکومستلزم ہے، غالباً انہوں نے اصل مسئلہ کوسمجھاہی نہیں، بس اعتراضات کرتے گئے۔
مشمولہ: شمارہ