مسلم معاشرے میں تحریکِ اسلامی کی ترجیحات

’’مسلم معاشرے میں اسلامی تحریک کی ترجیحات کیا ہوں؟‘‘یہ ایک اہم فکری اور عملی موضوع ہے۔ اس سلسلے میں غور کرتے وقت پہلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ مسلم معاشرہ کیا ہے؟ اور اس کے بعد یہ کہ ’’تحریکِ اسلامی‘‘سے کیا مراد ہے۔ پھر تیسرا سوال یہ ہے کہ ترجیحات کیا ہوتی ہیں۔ جہاں تک مسلم معاشرے کا تعلق ہے وہ پوری دنیا میں موجود ہے۔ وہ ایک عالمی امت سے عبارت ہے ، اس امت کی بنیاد کسی رنگ، نسل،زبان یا علاقے پر نہیں ہے، بلکہ عقیدے پر ہے۔ یہ عقیدہ لا الٰہ اللہ محمد رسول اللہ کا عقیدہ ہے۔ یہ امت آفاقی اور عالمی امت ہے۔ یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ باوجود مختلف ملکوں میں تقسیم ہونے کے امت کا ایک حصہ دوسرے کو متاثر کرتا ہے۔ ایک ملک کے مسلمان جو کچھ سوچتے اور کرتے ہیں، دوسرے ممالک کے مسلمان اس کا اثر قبول کرتے ہیں۔ جب کسی ملک کے مسلمان مسلم معاشرے پر گفتگو کریں گے تو عملاً جو تقاضے سامنے آئیں گے وہ تو اس ملک سے ہی متعلق ہوں گے، لیکن بہرحال اصولی تجزیہ اور گفتگو پورے مسلم معاشرے کو سامنے رکھ کر کرنی چاہیے۔

یہ امت ان معنوں میں بھی آفاقی ہے کہ یہ کسی زمانے کے ساتھ محدود نہیں ہے، بلکہ ان شاءاللہ تعالیٰ قیامت تک باقی رہے گی۔ یہ امت کسی اعتبار سے کوئی محدودیت نہیں رکھتی۔ نہ ملکوں کی، نہ نسلوں کی یا رنگوں کی، نہ زمان و مکان کی، بلکہ ہر لحاظ سے آفاقی امت ہے۔

امتِ مسلمہ کے اس تعارف کے بعد جو دوسرا سوال قابلِ غورہے وہ یہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کیا ہے؟ یہ تحریک اللہ کے فضل سے دنیا کے بیشتر گوشوں میں اور ممالک میں موجود ہے اور اپنے خاص طرزِ فکر سے پہچانی جاتی ہے۔ گرچہ مختلف تنظیمیں ہیں، جو دنیا میں سرگرم ہیں۔ لیکن یہ پہچاننا مشکل نہیں ہے کہ ان میں تحریکِ اسلامی کسے کہا جائے۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ اسلامی تحریک کیا ہے تو مختصر جواب یہ ہوگا کہ اسلامی تحریک وہ ہے، جو امت کو اس کے اصل مقام پر فائز کرنے کی کوشش کرے۔ یہ امت کے اندر کی جانے والی ایک کوشش ہے، اس کوشش کا امتیاز شعوری ایمان ہے۔ امت اپنے آپ کو بھول چکی ہو، اس پر خود فراموشی طاری ہو تو جو لوگ اس کو اس کا مقام یاد دلائیں اور اس یاد دلانے کے تقاضے بھی پورے کریں، وہ تحریک اسلامی ہیں۔ ان لوگوں کا تعارف قرآن میں یہ ہے کہ ’’یدعون الی الخیر۔‘‘اُن کی صفت ہے یعنی وہ خیر کی طرف بلاتے ہیں۔ اُن کی دوسری صفت یامرون بالمعروف ہے۔ ﴿معروف کا حکم دیتے ہیں﴾ اور ینھون عن المنکر ﴿منکر سے روکتے ہیں﴾۔

ترجیحات کا مفہوم:

ترجیحات کا سوال زندگی کے ہر معاملے میں انسان کے سامنے آتا ہے۔ خود اس لفظ پر غورکریں تو یہ سوال بھی زیرِ غور آسکتا ہے کہ انسان غلط اور صحیح میں کسے ترجیح دے۔ باطل اور حق میں کسے ترجیح دے۔ دنیا وآخرت میں کسی ترجیح دے۔ مگر اہلِ ایمان کے سیاق میں اس موضوع میں یہ بات مراد نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تو بہرحال انھوں نے طے کرلیا ہے کہ ایمان کے تقاضوں کے عین مطابق انھیں حق اور باطل میں سے حق کا انتخاب کرنا ہے اور دنیا و آخرت میں اگر ٹکراؤ ہو تو آخرت کو ترجیح دینی ہے۔ چنانچہ اس موضوع میں ترجیحات سے یہ مراد نہیں ہے کہ غلط اور صحیح میں امتیاز کرنا ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ جب خیر کے بہت سے کام مخلص اہلِ ایمان کے سامنے ہوں ، مگر وقت محدود ہو، توانائی محدود ہو، وسائل بھی محدود ہو ںتو خیر کے کاموں میں سے کن کاموں کو کن دوسرے کاموں پر ترجیح دی جائے۔ یہ سوال ایک عملی سوال ہے۔ یہ سوال اسلامی سرگرمیوں کے پورے لائحہ عمل کے بارے میں بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس موضوع میں اسے اُن سرگرمیوں تک محدود کیا گیا ہے جو مسلم معاشرے میں انجام دی جائیں۔ جب مختلف کام انسان کو اپنی طرف کھینچیں اور مختلف کاموں کے تقاضے اپنی طرف بلائیں اور ان میں سے کسی کی اہمیت سے انکار ممکن نہ ہو، تو اُسے بہرحال یہ طے کرنا ہوگا کہ کس کو زیادہ اہمیت دے، کس پر زیادہ توجہ دے، یہی ترجیحات کا تعین ہے۔

ترجیحات کا تعیّن:

بعض ترجیحات دائمی ہیں۔ تحریکِ اسلامی کا دائمی کام یہ ہے چاہے جیسے بھی حالات ہوں کہ وہ امت مسلمہ کو اس کی اصل حیثیت یاد دلاتی رہے۔ اس کو معروف کی تلقین کرے۔ اس کو منکر سے روکے۔ اس کو خیر کے کاموں کی طرف بلائے۔ یہ وہ کام ہے جس کو کسی حال میں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ اس دائمی کام کے بھی بعض تقاضے وہ ہوتے ہیں جن کاتعلق حالات سے ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال اپنی نوعیت کے لحاظ سے، یہ کام ایک دائمی کام ہے اور ہر قسم کے حالات میں کرنا ہے۔

لیکن بعض ترجیحات وہ ہوتی ہیں جن کا تعلق حالات سے ہوتا ہے۔ اُن کے تعین کے لیے دیکھنا ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ کس حال میں ہے۔ کن مشکلات سے اور کن مسائل سے دوچار ہے، جب حالات کے فوری تقاضے سامنے آتے ہیں تو ایک زندہ ملت اور ایک زندہ تحریک کو انہیں ترجیح دینی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر خدانخواستہ اگر کوئی ارضی و سماوی آفت آجائے تو سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ مصیبت زدہ افراد کی مدد کی جائے، باقی کاموں کو وقتی طور پر مؤخر کیا جائے گا۔ ملت کے تحفظ کا مسئلہ دائمی مسئلہ ہے لیکن اگر اس کا کوئی وقتی پہلو ابھر کر سامنے آجائے تو پھر اس کو اہمیت دی جائے گی اور اس پر زیادہ توجہ صَرف ہوگی۔ تو جہاں تک وقتی ترجیحات کا تعلق ہے وہ حالات کے لحاظ سے متعین ہوتی ہیں۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر :

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک اصولی اصطلاح ہے۔ یہ ایک وسیع کام ہے۔ اس کے متنوع تقاضوں میں سے بہت سے تقاضے حالات کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں۔ مثلاً امت مسلمہ جب کسی نئی برائی کی زد میں آرہی ہو تو اس سے روکنے اور بچانے کا کام زیادہ ترجیح رکھتا ہے۔ اسی طرح جب لوگ معروفات پر عمل کررہے ہوں اور کسی خاص معروف کو بھول جائیں تو اسے یاد دلانا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ امتِ مسلمہ کو فرض منصبی ادا کرنے کے راستے بتائے جائیں، اسے بتایا جائے کہ معروف پر عمل کیسے کرے اور منکرات سے چھٹکاراکیسے پائے۔ یہ کام اجتہاد بھی چاہتا ہے اور عملی کوشش بھی ۔ مثال کے طور پرسود حرام ہے اور سود سے بچنا لازم ہے۔ لیکن کیسے بچیں اس کے لیے بہت کچھ کرنے ، سوچنے اور راہیں نکالنے کی ضرورت ہے۔

عموماً سوچنے کا جو انداز رائج ہے وہ یہ ہے کہ لوگ علماءکرام اور مفتی حضرات سے جائز اور ناجائز کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ یعنی فلاں کام جائز ہے یا ناجائز ، یہ پوچھنا بہت اچھی بات ہے اور اسلامی شعور کی علامت ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس سوال میں جو مفروضہ پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ کاموں کے کرنے کے جو طریقے دنیا میں موجود اور رائج ہیں، انہیں میں سے انتخاب کرنا ہے کہ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز۔ لیکن اہم تر سوال جو امت کے سامنے ہونا چاہیے وہ نئے طریقے دریافت کرنے کا سوال ہے۔ اسلام ہم سے جو مطالبہ کرتا ہے ، اس کا تقاضا یہ ہے کہ نئے طریقے تخلیق کیے جائیں۔ ’’رسائل مسائل‘‘میں مولانا مودودی ؒنے بہت سے سوالات کے جواب میں یہ انداز اختیار کیا ہے کہ سائل نے پوچھا توجائز ناجائز کے سلسلے میں ہے، لیکن مولانا نے کچھ نئے راستے بتائے ہیں کہ آپ رائج طریقوں کے علاوہ یہ کرسکتے ہیں۔ یہ Creative Action ہے یعنی اپنی تخلیقی صلاحیت کو استعمال میں لاتے ہوئے حالات کو بدلنے کے لیے نئے متبادل دریافت کرنا اور نئے راستے تلاش کرنا، یہ کام معروفات پر عمل اور منکرات سے بچنے کو عملاً ممکن بناتا ہے۔ نئی راہیں تلاش کرنے کا یہ کام کتاب و سنت کے دائرے میں ہوگا۔ اور حدود اللہ کے دائرے میں ہوگا لیکن یہ کام بہرحال ناگزیر ہے۔

جو لوگ تجزیہ کرتے ہیں وہ عموماً یہ کہتے ہیں کہ امت کی سب سے بڑی کمزوری ایمان کی کمزوری ہے۔ یہ بات صحیح ہے۔ لیکن یہ تجزیہ ناکافی ہے۔ امت میں جن لوگوں کے ایمان کے بارے میں گمان ہوتا ہے کہ وہ کمزور نہیں ہے ان کی زندگی بھی اسلام کی مکمل عکاسی نہیں کرتی۔ چنانچہ محض ایمان کی کمزوری کو زوال امت کا سبب نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ بلکہ یہ سبب بھی ہے کہ راہیں ہمارے سامنے واضح نہیں ہیں۔ ایمان تو موجود ہے اور اُس میں زندگی بھی ہے۔ لیکن ایمان کے تقاضے ان حالات میں پورے کیسے کیے جائیں اس سوال کا جواب بسا اوقات اُمت کے اہلِ فکر نہیں دے پاتے۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں میں اور دوسری اسلامی تحریکوں کے لٹریچر میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا کے موجودہ حالات میں امت اور تحریکِ اسلامی دینی تقاضوں کو کیسے پورا کرے۔ اس کی راہیں بتائی اور سجھائی جائیں لیکن بہرحال یہ کام ایسا ہے جو ہر وقت تقاضا کرتا ہے مزید غوروفکر کا اور نئے راستے نکالنے کا۔

امتِ مسلمہ اور عصرِ حاضر:

اسلامی سرگرمیوں کی ترجیحات طے کرنے کے لیے حالات کا تجزیہ ضروری ہے۔ ’’حالات کیا ہیں؟‘‘اس سوال کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ امت مسلمہ کو پوری دنیا کی سطح پر کیا مسئلہ درپیش ہے؟ کیا مشکل اس کے سامنے ہے؟ مندرجہ بالا سوال کے اِس جواب سے شاید اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ اس امت کی مشکل یا مسئلہ یہ ہے کہ کروڑوں کی آبادی میں ہونے کے باوجود یہ ایک اجنبی دنیا میں رہتی ہے۔ یہ دنیا ہمارے لیے اجنبی کیسے بن گئی ہے۔ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ہمارا ایمان تو لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ہے، ہم ایک اللہ کو معبود مانتے ہیں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، لیکن جب ہم دنیا میں باہر نکلتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہماری تعلیم گاہوں میں، سیاست کے ایوانوں میں اور سماج کے اداروں میں جو لوگ انسانوں کی قیادت کررہے ہیں وہ چاہے خدا کو مانتے ہوں، لیکن خدا کی ہدایت کو نہیں مانتے۔ خدا کی ہدایت سے غافل اور باغی یہ دنیا ہم سے کہیں دور نہیں ہے، کہیں الگ نہیں ہے، بلکہ ہمارے قریب ہی موجود ہے۔ جیسے ہی ہم گھر سے اور مسجد سے باہر نکلتے ہیں، اِس دنیا سے ہماراواسطہ پڑتا ہے۔ اس دنیا میں ہمیں رہنا بھی ہے اور کام بھی کرنا ہے۔ مگر ہمارے لیے یہ ایک اجنبی دنیا ہے۔ اس کا تصورِ حیات ہم سے جدا ہے اور خدا کے انکار پر مبنی ہے۔ اس دنیا کی روایات اور اس کے چلن ہمارے لیے اجنبی ہیں۔ اس کے کام کرنے کے انداز اسلامی مزاج کے مغائر ہیں۔ اس کی اصطلاحات ہماری نہیں ہیں۔ اس کے الفاظ، جملے اور نعرے ہمارے نہیں ہیں۔ درد تو انسانیت کا یہ دنیا بھی محسوس کرتی ہے اور ہم بھی لیکن جب اس کو بیان کرتے ہیں تو اندازِ بیان الگ الگ ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک بعض مسائل اہمیت رکھتے ہیں اور دنیا کے نزدیک دوسرے مسائل اہمیت رکھتے ہیں۔ ان تمام پہلوؤں سے یہ دنیا ہمارے لیے اجنبی دنیا ہے جن لوگوں کے قبضے میں سماجی ادارے ہیں، تعلیم گاہیں ہیں، اقتدار ہے اور ذرائع ابلاغ ہیں، ان کا تصورِ کائنات، اقدار اور کلچر امتِ مسلمہ سے مختلف ہے۔

ان حالات میں امتِ مسلمہ کے سامنے ایک بنیادی سوال آتا ہے۔ اس سوال پر تحریکِ اسلامی کی رہنمائی مطلوب ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’اس ماحول کے ساتھ جو ہمارے قریب میں موجود ہے، ہم کیا سلوک کریں۔‘‘

قطع تعلق کا مشورہ جو تحریک نے دیا تھا وہ نظامِ باطل کے بارے میں تھا۔ نظام کا جو مطلب بھی متعین کیا جائے، لیکن بہرحال وہ مشورہ سماج کے سلسلے میں نہیں تھا اور پورے ماحول کے بارے میں نہیں تھا۔ یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ اس دنیا سے قطع تعلق کرلیا جائے، دوسرا ممکن رویہ جو مسلمانوں کا عام رویہ ہے وہ اس دنیا کی رَو میں بہہ جانے کا ہے۔ عموماً مسلمانوں نے یہ رویہ اپنا رکھا ہے مگر جھجک کے ساتھ۔ اس لیے کہ ایمان بہرحال روکتا ہے قدم قدم پر چنانچہ مسلمان ٹھٹکے ہوئے قدموں کے ساتھ دنیا کے پیچھے چلتے ہیں۔ آج کل مسلم پس ماندگی (Backwardness) کا بہت تذکرہ ہوتا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اس دنیا میں جھجکتے ہوئے چل رہے ہیں۔ ہمارے مزاج کے لیے یہ اجنبی دنیا ہے تو پیچھے رہ جانا فطری ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جو عام طور پر امت نے اپنالیا ہے۔ اس لیے کہ قطعِ تعلق ممکن نہیں ہے۔

مگر جو رویہ اسلام کے شایانِ شان ہے، اسلامی تحریک کے شایانِ شان ہے اور امتِ مسلمہ کے شایانِ شان ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ اس دنیا کو بدلیں۔ جب یہ آپ کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے تو آپ اس کے مطابق نہ بن جائیں، بلکہ اس کو حق کے مطابق بنانے کی کوشش کریں۔ یہ وہ بات ہے جو اسلامی تحریک سامنے رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک الجھن سامنے آتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ آپ نے دنیا کوبدلنے کی بات کہنا شروع کی اور دیکھا کہ لوگ نہیں سنتے تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ہم کچھ نہ کرسکے۔ ہمارا سماج میں نفوذ نہیں ہوا۔ ہم لوگوں کو ساتھ نہیں لے سکے۔ یہ ہماری ناکامی ہے، چنانچہ خیال آتا ہے کہ ہمیں اپنے رویے کو بدلنا چاہیے۔ کچھ اصولوں میں سمجھوتہ کرنا چاہیے، کچھ لچک پیدا کرنی چاہیے۔ کچھ باتیں ایسی کہنی چاہئیں جو لوگوں کو پسند ہوں، جن سے لوگ ہماری طرف آجائیں۔ جب ہم یہاں تک پہنچ جاتے ہیں تو انحراف کا آغاز ہوتا ہے۔

اصولوں کی پابندی:

اِس انحراف سے بچنے کے لیے یہ اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے کہ ہماری یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ بہرحال لوگوںکو ساتھ لیں۔ آپ کی ذمہ داری اصلاً یہ ہے کہ آپ حق بات کہیں۔ جو حق کو پسند کرتا ہے وہ آپ کے ساتھ آئے۔ جو اسے پسند نہیں کرسکا وہ آپ کے ساتھ نہ آئے۔ یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہم پر نہیں ڈالی ہے کہ ہم ہر شرط پر لوگوں کو ساتھ لیں۔ یہ ذمہ داری بھی نہیںڈالی کہ ہر قیمت پر سماج میں نفوذ کریں۔ یہ ذمہ داری بھی نہیں ڈالی کہ تمام حدود کو توڑ کر ہر ادارے میں اپنے اثرات بڑھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داریاں ہم پہ نہیں ڈالی ہیں۔ اس نے تو ذمہ داری یہ ڈالی ہے کہ ہم حق بات کہیں اور جب وہ بات قبولیت حاصل کرلے تو پھر اس کے لحاظ سے فطری طور پر نفوذ ہوگا۔ ایک فرد حق کو مانتا ہے تو وہ بدلے گا۔ ایک خاندان مان لیتا ہے تو خاندان بدلے گا، ایک ادارہ اس سے متاثر ہوتا ہے تو ادارہ بدل جائے گا۔ پورے ملک کا نظامِ اقتدار متاثر ہوتا ہے تو وہ بدل جائے گا۔ لیکن اپنے اصولوں کی قیمت پر شرکت، اپنے اقدار کی قیمت پر شرکت، اپنی روایات، اپنے طرزِ فکر کی قیمت پر شرکت، یہ وہ چیز ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ہم سے مطالبہ نہیں کیا ہے۔

یہ ایک انقلابی رویہ ہے جس کی اسلامی تحریک دعوت دیتی ہے کہ آپ اس دنیا کو بدلیں

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار

اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

اپنا جہاں پیدا کرنے کی دعوت اسلامی تحریک نے دی ہے، مگر اللہ کی مشیت سے یہ سفر کبھی تیز رفتار بھی ہوسکتا ہے اور جلد ہی منزلیں آنا شروع ہوسکتی ہیں۔ کبھی یہ سست بھی ہوسکتا ہے، حضرت مسیح کے حواریوں کی طرح بڑی دیر لگ سکتی ہے، اس دوران محسوس ہوسکتا ہے کہ کچھ نہیں ہورہا ہے۔ ایسی کیفیت میں بہرحال راہِ راست پر ثابت قدم رہنا ہے۔

یہ موجودہ حالات کا خلاصہ ہے۔ امتِ مسلمہ اپنے آپ کو ایک اجنبی دنیا میں پاتی ہے ۔ اس اجنبی دنیا کو بدلنے کے سلسلے میں اسلامی تحریک کو رہ نمائی کرنی ہے۔ دائمی ترجیحات ہوں یا وقتی ترجیحات، دونوں میں اسلامی تحریک کا رول، کردار اور مقام یہ ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کی رہنمائی کرے۔ امت کو یہ بتائے کہ وہ کیا موقف اختیار کرے، کیا پالیسی اختیار کرے۔ یہ بات طے کرنے کے لیے تحقیق بھی ضروری ہے اور مشورہ بھی

تعمیر ملت اور ہماری ترجیحات:

امت کی صورتِ حال دوسرے بہت سے کاموں کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ یہ تعمیری کام ہیں، جن کے کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے میدان میں، سماج کے میدان میں اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کے میدان میں۔ اس کے علاوہ بہت سے کام وہ ہیں جو ملت کے تحفظ کے سلسلے میں کرنے ہیں، اِن میں بعض کام فوری توجہ کے طالب ہیں۔ تعمیر اور تحفظ کے یہ کام سعیِ مسلسل کا تقاضا کرتے ہیں۔

تعمیری کاموں کے ضمن میں بھی ترجیحات کا سوال زیرِ غور آتاہے۔ تحریک اسلامی کا موقف یہ رہا ہے کہ ہمیں اصل ترجیح بنیادی کام کو دینی چاہیے کہ امت کو اس کا مقام و منصب یا ددلائیں اور اس کی رہنمائی کریں کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ جہاں تک تعمیری اور سماجی سرگرمیوں کا اور ان کاموں کا معاملہ ہے، جن کا تعلق ملت کے تحفظ سے ہے، اس میں ملت کی تنظیموں، اداروں اور عام افراد کو متوجہ کریں اور متحرک کریں اور خود بھی شریک ہوں۔ ہماری توانائی اور ہمارے وسائل کے پیشِ نظر اس تعمیری کام کا مقام بنیادی کام کے بعد ہے۔

اقامتِ دین کے بہت سے پہلو ہیں، امت کو اس کے اصل مقام پر لانا بھی اقامتِ دین کا حصہ ہے اور امت کے اندر تعمیری کام کرنا بھی اقامتِ دین کا جز ہے۔ جب یہ خیال ہوتا ہے کہ اقامتِ دین کے یہ سارے اجزائ ایسے ہیں جن پرکسی ایک تنظیم کو اپنی تنہا طاقت سے کام کرنا ہے تو پھر سوچنے والے دشواری میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن جب یہ حقیقت سامنے ہوتی ہے کہ یہ کام پوری امت کو انجام دینا ہے اور تحریکِ اسلامی کا کام یہ ہے کہ امت کو متحرک کرے، آمادہ کرے، متوجہ کرے اور اس کو راہیں بتائے ۔ تو پھر یہ مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ اسلامی تحریک کا موقف یہ ہے کہ اُمت کو اُس کا اصل مقام و منصب یا د دلانے اور امت کی اصولی رہنمائی کرنے کا کام ترجیح کا مستحق ہے۔ تعمیری ایجنڈا امت کے تعاون سے پورا کیا جائے۔ وسائل ، اوقات اوراپنی توانائی کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں۔ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ترجیحات کی یہ ترتیب صحیح ہے۔ اس ترتیب میں تحریک اسلامی کا کام رہنما اور قائد کا ہے۔ جسے پوری امت کو متحرک﴿ mobilise ﴾ آمادہ او ر متوجہ﴿motivate﴾کرنا ہے۔

قیادت کا ظہور:

تعمیری ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے امت میں لیڈر شپ یا قیادت کا فروغ ضروری ہے۔ مولانا مودودیؒ نے چار نکاتی لائحۂ عمل کے علاوہ ’’سیاسی کشمکش‘‘میں بھی اس ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ دوسری تحریروں میں مولانا مودودیؒ کا تجزیہ یہ ہے کہ اس وقت امت میں جِن لوگوں کے اندر قیادت کی صلاحیت ہے، وہ علمائِ کرام نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے مغربی تعلیم حاصل کی ہے، البتہ ان کو اپنی اخلاقی کمزوریوں پر قابو پانا چاہیے۔ یہ بات بہت وضاحت کے ساتھ مولانا مودودیؒ نے کہی ہے۔ اپنی اصلاح کے بعد مغربی تعلیم یافتہ افراد اُمت کی خدمت کرسکتے ہیں اور قیادت کی ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں۔ تحریکِ اسلامی کو یہ کوشش کرنی ہے کہ اُمت میں ایک سنجیدہ، دیانت دار اور فعال لیڈر شپ وجود میں آئے۔ اور وہ قیادت امت کے اندر تعمیری کام انجام دے۔ یہ توقع مولانا مودودیؒ نے مغربی تعلیم یافتہ طبقے سے کی ہے۔ مولانا کے تجزیے سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ علمائِ کرام کو قائدانہ رول ادا کرنا چاہیے اور مغربی تعلیم یافتہ طبقہ اُن کے ساتھ تعاون کرے۔ لیکن جو بنیادی بات ہے وہ یہ ہے کہ ایسی قیادت موجود ہو جو اپنی کمزوریوں پر بھی قابو پائے اور ایک ایسا لائحۂ عمل اور منصوبہ بھی بنائے جو امت کے اندر تعمیری کام کرسکتا ہو۔

پچھلے دنوں امت میں تعمیری شعور پیدا ہوا ہے، اور متعدد تعمیری کام شروع ہوئے ہیں۔ ان میں بہت سی تنظیموں کا حصہ ہے۔ تعمیری کاموں کے سلسلے میں دو الجھنیں پیدا ہوتی ہیں، ان کا ذکر ضروری ہے۔ اگر ہم ان پر قابو نہ پائیں تو تعمیری کام مفید ہونے کے بجائے مضر ہوسکتا ہے۔ ایک مشکل تو یہ ہوتی ہے کہ ان کاموں کا رشتہ امتِ مسلمہ کے مقام و منصب اور مشن سے قائم نہیں رہتا۔ تعمیری کام کرنے والے بسا اوقات اسلامی دعوت، اسلامی اقدار اور اسلامی طرزِ فکر کو اپنے کاموں کی بنیادنہیں بنا پاتے بلکہ اُن طریقوں سے کام کرتے ہیں، جو دنیا میں رائج ہیں۔ کچھ تو اس لیے کہ جو طریقے رائج ہیں اُن کو اپنانا آسان ہے، سوچنا نہیں پڑتااور کچھ اس لیے کہ اس طرح لوگوں کا تعاون آسانی سے مل جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ اگر مسلمان سماجی ، تعمیری و تعلیمی کام اُن طریقوں سے انجام دیں گے جن کو لوگ دنیا میں اختیار کیے ہوئے ہیں، جن میں حدود شکنی بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی بھی، تو یہ اپنی منزل کی الٹی سمت میں سفر ہوگا۔اس انحراف کے ساتھ ساتھ دعوت اسلامی اور اقامتِ دین کی گفتگو بھی کرتے رہنا ایک تضاد ہوگا۔ اس الجھن پر قابو پانا چاہیے۔ اس الجھن کا حل یہ ہے کہ ہم اسلامی آداب کے مطابق تعمیری کام کریں۔ اور حدودِ شریعت سے تجاوز نہ کریں۔

دوسر ی مشکل یہ ہے کہ جب تعمیری کام کرتے ہیں تو بہت جلد یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کام کو بڑے پیمانے پر کرنے کے لیے اور تیز رفتار سے چلنے کے لیے نظامِ وقت کے ساتھ سمجھوتہ ضروری ہے، قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے اور اگر آپ کے تیور انقلابی ہوں جیسا کہ اسلامی تحریک کے لٹریچر میں ہیں اور اگرآپ دنیا کو بدلنے کی باتیں کرتے ہوں تو پھر آپ کے ساتھ تعاون کرنا نظامِ وقت کے ہم نواؤں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ تعمیری کام ذرا کم، محدود اور سست رفتار ہوجاتا ہے۔ اس الجھن کا حل یہ ہے کہ ہم رفتار کے سست ہونے سے پریشان نہ ہوں، چھوٹے پیمانے پر کام پر قناعت کریں، لیکن نظامِ وقت سے سازگاری نہ کریں۔ تحریکِ اسلامی جو کچھ کرے اُس میں محض لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے اپنے اصولی موقف میں ترمیم نہیں کرسکتی۔

اصولی اعتبار سے تعمیر و انقلاب میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، لیکن عملاً یہ مشکل پیش آجاتی ہے۔ تعمیر کا تیز رفتار کام انقلابی تیوروں میں تبدیلی چاہتا ہے اگریہ تبدیلی گوارا کرلی گئی تو اپنی راہ خود کھوٹی کرنے کے مترادف ہوگا، اس لیے اس قیمت کو دیے بغیر جو تعمیری خدمت انجام دے سکتے ہوں وہ انجام دینی چاہیے اور اسے کافی سمجھنا چاہیے۔ ہمیں اس دنیا کو بدلنا ہے مگر اپنی شرائط پر بدلنا ہے۔ خود نہیں بدل جانا ہے۔ یہ نہیں کرنا ہے کہ کچھ ہم بدل جائیں اور کچھ دنیا بدل جائے بلکہ دنیا کو بدلنا ہے اور اپنی شرائط پر بدلنا ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ رائج نظام نے جو آزادیاں دی ہیں، اور جن سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں، اُن کی قیمت بھی ادا کرنی چاہیے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہمیں قیمت ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا میں ہم جس آزادی سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ کسی نظام کی عنایت نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی آزادیاں ہیں جو ہرانسان کو فطری طور پر حاصل ہیں۔ جس نظام نے انسانوں کے فطری حقوق میں سے بعض کو تسلیم کررکھا ہے تو وہ اُس نظام کی عنایت نہیں ہے اور جس نے فطری آزادی چھین رکھی ہے وہ اس کا ظلم ہے۔

ہمیں شکر ادا کرنا ہے مگر اللہ کا شکر ادا کرنا ہے، اس کے علاوہ کسی قیمت کے ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلامی تحریک کا پیغام یہ ہے کہ اہلِ ایمان اصولوں پر قائم رہیں اور اس دنیا کو بدلنے کا عزم رکھیں۔ تحریکِ اسلامی کی ترجیح یہ ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کو اس کی اصل حیثیت یاد دلائے۔ اگر اس کام کو کرنے میں تحریک کامیاب ہوجائے تو پھر یقینا امت اس کی رہنمائی سے فائدہ حاصل کرے گی اور تاریخ کے اس مرحلے میں جب کہ وہ ایک اجنبی دنیا کے تسلط میں ہے آزادی کی طرف اس کے قدم بڑھ سکیں گے۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2011

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223