تحریک اسلامی کے ابتدائی مراحل میں بہت ہی کم لوگوں میں یہ تصور نمایاں تھا کہ پوری انسانی زندگی اسلام کے دائرے میں آجائے اور اسے اقامت دین کا نام دیا جائے ۔ دوسری طرف سید احمد شہیدؒ اور اسماعیل شہیدؒ کی اسلامی تحریک جو ہندوستان کی نمایاں اسلامی تحریک تھی سیاسی اقتدار حاصل کرنے میں نا کام ہوگئی تو دیندار طبقہ نے بھی یہ کہنا شروع کردیا کہ یقینا اسلام ہے تو پوری زندگی کے لیے لیکن عملی زندگی میں اس کا نفاذ ممکن نہیں۔
اس دوران اسلامی تحریکات نے اپنا کام کیا ہے تو جدید فلسفے کے باطل نظریات کی قلعیٔ کھل گئی ان نظریات نے انسانی زندگی میں زہر گھول دیا ہے اور جدید تہذیب افراتفری کا شکار ہوگئی ہے۔ موجودہ دور میں مستشریقین نے اسلام کے خلاف جو لٹریچر تیار کیا وہ اُلٹا لوگوں کو اسلام کی طرف متوجہ کرنے کا کام کیا اوران کی غلط فہمیاں دور ہونے لگیں اور وہ اسلام سے قریب ہونے لگے ہیں۔ اب لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ اسلام حق پر ہے اور اسلامی تحریکات حق کی علمبردار ہیں۔
اسلام ضابطہ حیات ہے اور پوری انسانی زندگی پر محیط ہے۔ اس سے پہلے علمائے دین کا بھی یہ حال تھا کہ وہ بھی اس کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ تحریک اسلامی کا بڑا کارنامہ اورر ول یہ ہے کہ اس نے افراد کی ذہن سازی کا کام کیا ہے اور آج ہر طرف یہ صدا بلند ہو رہی ہے کہ اسلام ایک نظام حیات ہے اور اُمت مسلمہ کا مقصد و نصب العین اقامت دین ہے،جب تحریک اسلامی وجود میں آئی تو اس وقت اس کے دو اہداف تھے ۔ ایک اسلامی لٹریچر تیار کرنا تا کہ ذہن سازی کا کام ہو سکے اور دوسرا درسگاہ اسلامی کا قیام تا کہ نئی نسل کی اس انداز میں تعلیم و تربیت ہوسکے کہ وہ ملت اسلامیہ کا قیمتی اثاثہ بن سکیں۔ پہلے لکھنے والوں میں نمایاں مولانا سید ابوالااعلیٰ مودودیؒ تھے اور ان کے قلم میں بڑی جان تھی ۔ مولانا مودودیؒ کی سو سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں جو ہر شعبہ حیات سے متعلق ہیں۔ بعد میں تحریک اسلامی کو اہل قلم کی ایک معتدبہ تعداد ملی جن میں مولانا صدر الدین اصلاحیؒ،مولاناامین احسن اصلاحیؒ، مولانا احمد عروج قادری ؒ، مولانا ابو اللیث اصلاحی ؒ، ڈاکٹر اسعد گیلانیؒ، نعیم صدیقیؒ، مولانا سید حامد علیؒ، ڈاکٹر فصل الرحمن فریدیؒ، ڈاکٹر عبدالحق انصاریؒ، ابو سلیم محمد عبدالحئیؒ، مائل خیرآبادی ، پروفیسر بنت الاسلام ؒ، مولانا جلیل احسن ندویؒ اور دیگر دور اول کے ہیں تو موجودہ دور کے اہل قلم میں مولانا سید جلال الدین انصر عمری، مولانا محمد یوسف اصلاحی، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، مولانا محمد فاروق خان، پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر احمد سجاد، ڈاکٹر عنایت اللہ اسد سبحانی ، سید سعادت اللہ حسینی وغیرہ کی تصنیفی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔
رامپور میں درسگاہ اسلامی ثانیوی کا قیام عمل میں آیا تو اس سے فارغ ہونے والے اولین طلباء میں ڈاکٹر عبدالحق انصاریؒ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ، مولانا رشید عثمانیؒ، ڈاکٹر فضل الرحمن فریدیؒ، اور مولانا حبیب حامد الکاف شامل ہیں۔ یہ ثانوی درسگاہ 1950ء میں قائم ہوئی تا کہ ایسے افراد تیار ہوں جو تحریک اسلامی کے لیے تحقیقی اور عملی کام کر سکیں ۔ علیگڑھ میں ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی قائم کیا گیا جو لٹریچر کی تیاری کے ساتھ ہی اہل قلم کی تربیت کا فریضہ بھی انجام دے رہا ہے۔ اسی ادارہ کے تحت موقر علمی مجلہ سہ ماہی تحقیقات اسلامی گذشتہ 32سال سے مولانا سید جلال الدین عمری (موجودہ امیر جماعت اسلامی ہند) کی زیر ادارت شائع ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ مرکزی کیمپس میں اسلامی اکیڈمی کے ذریعہ بھی خدمت انجام دی جا رہی ہے جو جناب حسن رضا صاحب کی نگرانی میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس میں دعوت اور تحقیق وتصنیف کے میدانوں میں افراد سازی کا کام ہو رہا ہے۔ اداروں ، تنظیموں اور تحریکوں کے افکار و نظریات کی اشاعت کے لیے میڈیا ایک موثر ذریعہ ہے۔ سہ روزہ دعوت اور ماہنامہ زندگی نو کو اس کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔ ہندی میں اْجالااور کانتی کے نام سے پرچہ جاری کیا گیا اور اب ملک کی تمام زبانوں میں شائع ہونے والے تحریک اسلامی کے تحریکی رسائل و جرائد کی تعداد تقریباً دو درجن ہے۔شعر وادب کو انسانی سماج کے بدلنے میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ تقسیم ملک کے بعد 1948ء میں رامپور میں ادارۂ ادب اسلامی ہند کی تشکیل عمل میں آئی جس کا مقصد تعمیری فکری اور صالح اقدار کو فروغ دینا تھا۔ یہ ادارہ آج بھی سرگرم عمل ہے ۔ اس ادارے سے مختلف ادوار میں ماہنامہ دانش، معیار، نئی نسلیں، دوام وغیرہ شائع ہوتے رہے۔
اس ادارہ نے قلم کاروں اور خود عوام کا رخ تعمیر ی افکار کی جانب موڑنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ادارے نے تحریک اسلامی کو کئی نامور شخصیتیں دیںجن میں قابل ذکر ڈاکٹر ابن فریدؒ، مولانا عروج قادریؒ، م۔نسیم ؒ، ڈاکٹر سہیل احمد فریدیؒ، حفیظ میرٹھیؒ، عزیز بگھروی ؒ مطیع الرحمن احقرؒ، مائل خیر آبادیؒ، ڈاکٹر عبدالمغنیؒ ، جمال احمد امین آبادیؒ، سید اصغر علی عابدی ؒ اور ابو المجاہد زاہد ؒ وغیرہ نے باطل افکار و نظریات کے مقابلے میں نہ صرف ایک مضبوط بند باندھا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک پیغام بھی پیش کیا۔ آج بھی ملک گیر سطح پر ادارۂ ادب اسلامی ہند کا یہ قافلہ رواں دواں ہے۔
اگر چہ ملک کی آزادی عدم تشدد کے اُصولوں پر ہوئی لیکن جیسے ہی ملک تقسیم ہوا ملک میں فرقہ پرستی کا زہر گھول دیا گیا اور فرقہ وارانہ فسادات کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا جو آج تک بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ، اس نے تباہی و بربادی اور انسان کشی کی خون آشام داستان مرتب کی۔ پریشان حال اور مصیبت زدگان کی امداد اور باز آباد کاری کے لیے جماعت اسلامی نے ریلیف سنٹر قائم کیے اور اسی طرح آفات ارضی و سماوی کے وقت منظم طور پر امدادی کیمپس قائم کیے گئے۔ غریبوں کے لیے علاج کرانا ایک مشکل کام ہے او راسی طرح اوسط آمدنی والوں کے لیے لاکھوں روپے مانگنے والے کارپوریٹ دواخانوں میں مہلک امراض کا علاج کرانا ممکن ہی نہیں ۔ جماعت اسلامی ہند نے ملک کی مختلف ریاستوں میں آٹھ ہاسپٹل اور (۷۰) فری ڈسپنسری قائم کیے ہیں۔ مرکز میں HWFکے تحت الشفا ء نام سے ایک بڑا دواخانہ قائم کیا گیا ہے۔ مختلف امراض کے لیے مختلف مقامات پر میڈیکل کیمپس قائم کیے جاتے ہیں جہاں مفت تشخیص اور مفت علاج کیا جاتا ہے۔ کچھ غریب بستیوں کا انتخاب کر کے وہاں اجناس خوردو نوش اور مختلف بنیادی ضروریات کی اشیاء مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔اور کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ انہیں آئیڈیل بستی کی حیثیت سے ترقی دی جائے۔جماعت اسلامی ہند نے طلبا و نوجوانوں کو تحریک اسلامی کے پیغام سے آشنا کرنے کیلئے۱۹۸۲ء میں طلبا تنظیم SIOکے نام سے بنائی جس کا کام آج بھی جاری ہے اور ترقی پذیر ہے،اس سے پہلے بھی ملک کے مختلف مقامات پر مختلف ناموں سے طلباء کی اسلامی تنظیمیں کام کرتی رہی ہیں۔ لیکن یہ کام علیحدہٰ علیحدہٰ ہوتا تھا۔
اسلامی معاشرے کے قیام اور استحکام میں خواتین کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ جماعت اسلامی ہند نے خواتین کے حلقے بنائے جو آزادانہ طور پر اپنا کام کرتے ہیں۔ ملک بھر سے خواتین کو مجلس نمائندگان میں جگہ دی گئی۔ بلکہ اب تو مرکز میں ملکی سطح پر خواتین کا بھی سکریٹریٹ قائم ہوگیا ہے۔جس کی خدمات لائق تحسین ہیں اور اہم Issues پر خواتین آگے آتی رہیں۔ جماعت اسلامی ہند نے ملک میں بڑے پیمانے پر کاروان امن و انصاف کی مہم چلائی تو خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کی تعداد ہزاروں میں رہی اور خواتین کی ریالیاں بھی نکالی گئیں۔ اور مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں خواتین نے اہم رول ادا کیا ۔ وادی ہدی میں 12-11فروری 2006میں ریاست آندھرا پردیش کی پہلی ریاستی کانفرنس بنت حرم کانفرنس محترمہ ناصرہ خانم صاحبہ کی صدارت میں منعقد ہوئی تو خواتین کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو اس کانفرنس میں شریک رہا۔
اس کانفرنس کے مہمان خصوصی وان ریڈلی اور حمیرہ مودودی کی ٹیلی کانفرنس بھی ہوئی۔ خواتین کے علاوہ طالبات کی تنظیم GIOکی تشکیل عمل میں آئی ہے جو حلقہ واری سطح پر اپنا کام کر رہی ہے۔ یہ سب قرآن و حدیث کی روشنی میں استنباط ہے کہ تحریک اسلامی نے اپنے فکری ارتقاء میں خواتین و طالبات کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ جہاں تک ملکی و ملی مسائل کا تعلق ہے جماعت اسلامی ہند اسے ایک ناگز یر کام سمجھتی ہے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں ان کا حل ڈھونڈے اور ملت اسلامیہ کو اس کا کھویا ہوا مقام داعی امت کا دلائے اور وقت آنے پر عملی سیاست میں حصہ بھی لے ۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2016