کیا کبھی ایسا ہوا کہ بچے کی چھوٹی غلطی پر آپ کو بہت زیادہ غصہ آیا ہو؟
کیا کبھی اپنے بچے کو ڈانٹنے یا مارنے کے بعد آپ کو پشیمانی کا احساس ہوا ہے؟
تصور کریں کہ بچے کے ہاتھ سے گلاس گر کر ٹوٹ جائے اور وہ آپ کے سامنے ڈرا سہما کھڑا ہو، اور آپ اسے سزا دینے کے بجائے پیار سے سمجھائیں، تو اس بچے کے دل کی کیفیت کیا ہوگی!!
بہت سے والدین اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی بہت زیادہ غصہ کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں طے کرپاتے کہ کس غلطی پر کس قدر ناراضی کا اظہار کرنا چاہیے۔ والدین کے غصہ کرنے کے بچوں کی شخصیت اتنے زیادہ مضر اثرات ثابت ہوچکے ہیں، کہ غصے کی خرابی سے چھٹکارا پانے کی فکر تمام والدین کو کرنی چاہیے۔ اس مضمون میں ہم اس سلسلے میں جدید تحقیقات کی روشنی میں گفتگو کریں گے۔
والدین کو سب سے پہلے اس سوال کا جواب حاصل کرنا چاہیے کہ انھیں غصہ کب آتا ہے۔ والدین تھوڑا غور کرکے اس سوال کا جواب آسانی سے دے سکتے ہیں۔
ان کے حسب ذیل جوابات ہوسکتے ہیں:
- جب بچے ان کی بات نہیں سنتے ہیں
- بدتمیزی کرتے ہیں
- نافرمانی کرتے ہیں
- شکایتیں کرتے ہیں
- چیختے چلاتے اور بات بات پر روتے ہیں
- اپنی چیزوں کا خیال نہیں رکھتے ہیں
- طے شدہ روٹین کی خلاف ورزی کرتے ہیں
- آپس میں لڑائی کرتے ہیں
- ہوم ورک نہیں کرتے ہیں
- متوازن صحت بخش غذا پر غیر صحت مند غذا کو ترجیح دیتے ہیں
- برے بچوں کا ساتھ پکڑ لیتے ہیں
الغرض والدین کے پاس طویل فہرست بن سکتی ہے اس سوال کے جواب میں کہ انھیں غصّہ کب آتا ہے۔ ناپسندیدہ کاموں پر ناراض ہونا فطری بات ہے۔ اور یہ کسی درجے میں قابل قبول بھی مانا جاسکتا ہے، اگر اس ناراضی کا حکیمانہ اظہار ہو جس کی وجہ سے بچوں میں بری عادتوں سے نفرت پیدا ہو اور ان کے اندر اعلی اخلاق کی پرورش ہو۔ لیکن جب ناراضی غصے کی شکل اختیار کرلے، غصّہ بھی ایسا کہ اس پر قابو نہ ہو اور والدین بچوں کی چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی سختی سے پیش آتے ہوں، غصّہ اس قدر بڑھ جاتا ہو کہ جسمانی سزا تک نوبت پہنچ جائے، بچوں سے ایسے جملے کہ دیں جن سے ان کے جذبات مجروح ہوجائیں، تو پھر والدین کو اسے اپنا سنگین مسئلہ سمجھ کر اپنے مزاج کی فوری اصلاح کرنی ہوگی۔
والدین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ غیر ضروری سختی اور بے جا غصہ کا بچوں کی شخصیت، ان کی آئندہ کی زندگی اور ان کی ذہنی و جسمانی صحت پر کیا اثر ہوتا ہے۔
(الف)منفی احساسات کا پنپنا
چھوٹے بچوں کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں ہوتی ہے۔ ان کے لیے گھر ایک ایسی دنیا ہے جہاں وہ اپنی من مانی کرتے ہوئے ہزاروں غلطیاں کرسکتے ہیں۔ یہاں وہ پیر پھیلا کر بیٹھ سکتے ہیں، کھلونے توڑ سکتے ہیں، کپڑوں کی تہہ کھول سکتے ہیں، ان کے ہاتھوں کوئی بھی سیال چیز جیسے پانی، دودھ، شربت گرسکتا ہے وغیرہ۔ گھر سے باہر جب ان سے ایسی غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں تو قدرتی طور پر وہ ڈر جاتے ہیں لیکن گھر میں والدین کے سامنے وہ تحفظ محسوس کرتے ہیں۔ والدین اپنے نونہالوں کے لیے محبت و شفقت کا پیکر ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ غصّہ اور چڑ چڑے پن کی عادت کی وجہ سے والدین بچوں پر بات بات پر غصہ ہوتے رہتے ہیں۔ بعض دفعہ ان کی اپنی مصروفیات اور ترجیحات غصّہ کا سبب بنتی ہیں۔ کبھی وہ ذہنی طور پر ڈسٹرب ہوتے ہیں، کبھی انھیں اپنی کسی ناکامی پر جھنجلاہٹ ہوتی ہیں۔ بہرکیف، ایسے کئی سارے منفی رجحانات ہیں جو منفی رویہ، یعنی ’غصہ‘ کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ بارہا غصیلے ردعمل کی وجہ سے بچوں کے تحفظ کے احساسات پر خوف کا غلبہ چھانے لگتا ہے۔ وہ اتنا سہم سہم کر رہتے ہیں کہ اپنی غلطی کی خبر والدین تک نہیں پہنچنے دینا چاہتے۔ ایسے بچے چھپانا سیکھ جاتے ہیں اور بڑھتی عمر کے ساتھ بہت سے معاملات والدین کے سامنے کھل کر پیش نہیں کرپاتے۔ ایسے بچوں کے غلط صحبت میں پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ بچے منفی رویوں اور بے جا روک ٹوک کے مہیب سائے میں پلتے ہیں اور اس لیے ان کی شخصیت منفی جذبات اور رجحانات سے گھری رہتی ہے۔ غصّہ اور ملامت کرتے کرتے والدین کو اس کی اتنی عادت ہوجاتی ہے کہ بسا اوقات وہ بچوں کی خوبیوں اور اچھے کاموں کو بھی نہیں سراہتے۔ جب کسی گھر میں منفیت(negative energy یا negativity)کی فضا قائم ہوجاتی ہے تو وہاں بچوں کی اچھی، صحت مند اور صحیح تربیت ہونا نہایت دشوار گزار عمل ہوجاتا ہے۔
(ب) خودی کا مجروح ہوجانا
شجاعت مومن کا زیور ہے۔ خودی اور اعتماد شخصیت کے ایسے اہم پہلو ہیں جن پر اگر بچپن میں دھند چھا جاتی ہے تو بعد میں شخصیت کے ارتقا میں دشواری پیش آتی ہے۔ بچپن سے ہی ان اعلی صفات سے آراستہ کرنا اور ان پر زنگ لگنے سے بچانے کی کوشش کرنا لازم ہے۔
والدین بچوں پر چیختے ہوں، دوسرے افراد کے سامنے ڈانٹتے ہوں، مہمانوں کے سامنے آنکھیں نکالتے ہوں، اسکول جاکر میٹنگ میں پٹائی کا اعلان کرتے ہوں، خاندان کے دوسرے بچوں کے سامنے کوتاہیوں کا تذکرہ کرتے ہوں ایسے تمام رویوں سے بچوں کا دل مجروح ہوتا ہے۔ والدین کے غصیلے رویوں سے بچوں میں احساس کمتری پنپنے لگتا ہے۔ دوسروں کے سامنے ذلت آمیز سلوک کے نتیجے میں وہ اپنے اندر جو تکلیف محسوس کرتے ہیں وہ ان کے ذہن میں کسی ڈراؤنے خواب کی طرح لمبے عرصے تک بسی رہتی ہے۔ ایسے بچے دوسروں کے سامنے خود کو پیش کرنے سے کتراتے ہیں اور پھر وہ رشتوں کو نباہنے اور سنبھالنے کا سلیقہ بھی نہیں سیکھ پاتے۔ وہ نہ گھر میں پراعتماد ہوتے ہیں اور نہ باہر کی دنیا میں خوددار بن پاتے ہیں۔
(ج) اخلاق و کردار پر خراب اثر
جس طرح بچہ والدین سے اچھائیاں سیکھتا ہے اسی طرح والدین کو دیکھ کر برائیاں بھی اپناتا ہے۔ والدین غصہ ور ہوں گے تو بچہ بھی ان کا آئینہ ہوگا۔ آج وہ بچے پر بات بے بات پر غصہ ہوتے ہیں، کل وہ بھی بدتمیزی کرے گا اور اپنے سے جڑے تمام رشتوں پر رعب جمانا چاہے گا۔ وہ یہ نہیں سوچے گا کہ کس کی کتنی دل آزاری ہوئی ہے نا ہی وہ معافی مانگنا جانے گا۔ ایسے بچے آگے چل کر انا پرست نوجوان بنتے ہیں۔ یہ بے حد ضدی بن جاتے ہیں جنھیں اپنی من پسند اشیا فوری طور پر حاصل کرنی ہوتی ہیں اور دھیرے دھیرے خود غرضی اور مطلبی پن ان کی شناخت بن جاتا ہے۔ چوں کہ اسلام میں اچھائی سکھانے کا ثواب ہے اور برائی پھیلانے اور سکھانے کا گناہ ہے اس لیے بحیثیت مسلمان والدین ہمیں اپنی تربیتی کارروائیوں کے تئیں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ مبادا ہماری کارروائیاں برائیوں کے پنپنے کا سبب بن جائیں۔
(د) جسمانی اور ذہنی صحت کا متاثر ہونا
حد سے زیادہ غصہ ہونا غیر فطری ہے اس لیے جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے یہ ضرر رساں ہے۔ 2010 میں جرنل آف میڈیسن اینڈ لائف میں ایک تحقیق پیش ہوئی کہ غصہ کے سبب جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین طبیعیات کے مطابق غصہ کی شدت بہت سی بیماریوں کو دعوت دیتی ہے۔ حد سے زیادہ غصہ ڈپریشن کا مرض لاتا ہے۔ ڈپریشن کا مریض اپنے آپ کو لاغر اور ضعیف محسوس کرتا ہے، اس کی زندگی سے رغبت اور اپنے کاموں سے دل چسپی کافور ہونے لگتی ہے، ایسا مرض خودکشی کے رجحان کو ہوا دیتا ہے۔ OCD, ADHD, ODDاور کئی سارے امراض ذہن کو کم زور کرتے ہیں۔ بی پی (خون کی بیماری)، دل کی بیماری، اعضاء میں درد یا اچانک بخار کا آنا وہ جسمانی امراض ہیں جو بسا اوقات غصیلے رویوں کے سبب ہوتے ہیں۔ صحت مند والدین ہی صحیح روش میں تربیت کرسکتے ہیں اگر ذہن تناؤ کا شکار رہتا ہو اور جسم بیماریوں میں گھرا ہو، تو صحت افزا تربیت کا مشقت آمیز کام کیسے انجام پاسکتا ہے۔ ایسے گھر میں بچوں کو متعدد ذہنی امراض بچپن سے ہی لاحق ہوجاتے ہیں اور ان کی خرابی صحت ان کی تعلیمی کارکردگی اور کھیل کود کی قابلیت کو نقصٓن پہنچاتی ہے۔
مختلف تحقیقات سے غصہ کے جو مہلک نتائج سامنے آئے ہیں، ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس پر کنٹرول حاصل کرنا والدین اور بچوں کی صحت اور ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کون سی ترکیبیں اور تدبیریں ہیں جو غصے کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔
(الف) اپنے غصّہ کو پہچانیے
والدین اگر ابتدائی دور سے ہی اس بات کو نوٹ کرتے رہیں کہ انھیں غصّہ کن باتوں سے آتا ہے تو وہ ان اسباب پر کنٹرول پانے کی ترکیب کرسکتے ہیں۔ مثلاً اگر بچوں کے رونے چیخنے چلانے سے والدین چڑچڑے پن کا شکار ہوتے ہوں اور بچوں کی بے چینی کی وجہ جان کر ان کی ضروریات ان کے چیخنے چلانے سے پہلے ہی پوری کردی جائیں، تو والدین کے غصہ ہونے کا یہ سبب پیدا ہی نہ ہو۔ اگر بچوں میں آپس میں تکرار ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے والدین تناؤ محسوس کرتے ہیں، تو پہلے سے ہی بچوں میں نوک جھوک کو کم کرنے اور آپس میں پیار و محبت کا تعلق بنانے پر توجہ ہونی چاہیے۔
بچوں کی عمر اور والدین کی صحت اور مزاج کی مناسبت سے زیادہ غصہ آنے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کسی کے پاس ایک ہی وجہ ہو اور کسی کے پاس بہت سی ہوں۔ بچوں کی نگہبانی کوئی محدود وقت کا کام نہیں ہے یہ تو عمر بھر کی ذمہ داری ہے اس لیے والدین کو مسلسل اپنا احتساب کرتے رہنا چاہیے۔اسباب و وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف تدبیریں اپنانی ہوتی ہیں۔
(ب)پرسکون ہونے کی کوشش کریں
والدین غصے کے بہت سے اسباب پر قابو پاچکے ہوں، تب بھی نئے نئے مسائل آتے رہتے ہیں اور کسی بھی مسئلہ کی شدت غصّے کو بڑھاوا دے سکتی ہے۔ جب صورت حال ایسی ہو کہ والدین کا غصّہ اس حد تک بڑھ جائے کہ دل کی دھڑکن تیز ہوجائے، پسینہ آنے لگے، دانت پسنے لگیں، ہاتھ سزا دینے کے لیے اٹھنے لگے، ایسے میں والدین کو ردعمل کے بجائے چند تدبیروں کی طرف فوری پیش رفت کرنی چاہیے۔
گہری سانس لینا
جب کوئی شخص جذباتی ہوجائے تو سانس لینے کی شرح اور دل کی دھڑکن دونوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب کوئی پریشان ہوتا ہے تو اپنے آپ کو تیز سانسیں لیتے ہوئے محسوس کر سکتا ہے۔ تیز سانسیں غصّے کو مزید بڑھاتی ہیں۔ اس لیے اپنی سانسوں کو ری ڈائریکٹ کرنے کی کوشش کریں اور اپنے عضلات کو آرام دیں تاکہ آپ پرسکون ہوجائیں۔ لگاتار کئی دھیمی اور گہری سانسیں لینے کی کوششیں شروع کریں، ہر بار اس بات کا خیال رکھیں کہ جتنی دیر میں ایک سانس لیں، اس سے دوگنی دیر میں سانس چھوڑیں۔ جب آپ سانس لیں تو آہستہ آہستہ چار تک گنیں، اور پھر آہستہ آہستہ آٹھ تک گنتے ہوئے سانس باہر نکالیں۔ آپ کی سانس پہلے آپ کے پیٹ، پھر آپ کے سینے کے نچلے حصے اور آخر میں آپ کے کندھوں کے بالکل نیچے آپ کے اوپری سینے میں داخل ہونی چاہیے۔ محسوس کریں کہ آپ کے پھیپھڑوں میں ہوا جا رہی ہے۔ اس بات پر توجہ دیں کہ جب آپ مکمل طور پر سانس چھوڑتے ہیں تو آپ کی پسلیاں اپنی اصل جگہ پر کیسے واپس آتی ہیں۔ سانس لینے کے اس انداز کو کئی منٹ تک جاری رکھیں، اگر کسی وقت آپ کو عجیب محسوس ہو یا سانس بند ہو جائے تو فوری طور پر معمول کی سانس لینے کی رفتار پر واپس آجائیں۔
پوزیشن تبدیل کریں
غصہ میں انسان کے اعضا جذبات سے لبریز ہوتے ہیں۔ غصّہ کو فوری طور پر کم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آدمی اپنی پوزیشن کو تبدیل کرلے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، اس سے اس کا غصہ جاتا رہے گا۔‘‘ غصہ میں آدمی اگر اپنی حالت بدل دے تو نقصان ہونے کے امکان کم ہوجاتے ہیں۔ حالت اور حرکت کو بدلنے سے مراد یہ ہے کہ جسم کچھ سکون کی سطح پر آجائے۔ آپ اپنےبچے پر غصّہ میں چیخ رہے ہوں، جسمانی سزا دینے کی طرف بڑھ رہے تو بیٹھ جائیں۔ علامہ ابو سلیمان الخطابیؒ سنن ابی داود کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’کھڑا ہونے والا مارنے اور تباہی مچانے کی حالت میں ہوتا ہے، جب کہ بیٹھنے والا ایسا کرنے کا امکان کم رکھتا ہے۔‘‘ کھڑے ہونے سے اعضا زیادہ متحرک ہوجاتے ہیں جب کہ بیٹھنے سے ایسی حرکات پر کسی حد تک قابو آجاتا ہے۔
خاموش رہنا
غصہ شیطان کی طرف سے ایسا وسوسہ ہے جو رشتوں کی بنیادیں کم زور کرتا ہے۔ بچے غلطیاں کرتے ہیں اور ان کو سنوارنا ہی والدین کی ذمہ داری ہے۔ بعض اوقات کسی معاملے میں والدین ناراض ہوکر کچھ ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جن سے بچوں کو تو چوٹ پہنچتی ہی ہے لیکن خود والدین کو بھی بعد میں پشیمانی ہوتی ہے۔ والدین کے دلوں میں بچوں کے لیے جو اپنائیت ہوتی ہے وہ انھیں بار بار بےچین کرتی ہے اور انھیں اپنی کوتاہیوں کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ ایسا بار بار ہو تو رشتوں میں کشیدگی آنے لگتی ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ غصہ میں خاموشی اختیار کرنا سیکھیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ خاموش رہے۔‘‘
پانی پینا
غصہ آگ کی طرح ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے اس لیے غصہ سے نجات کا مسنون طریقہ یہ بھی ہے کہ غصہ کی حالت میں پانی پیا جائے۔ طبیعیات اور نفسیات کے ماہرین نے تحقیقات پیش کی ہیں کہ ہمارے بدن کو دن میں مخصوص مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اتنا پانی (عمر، صحت،جغرافیائی علاقے کی مناسبت سے) جسم میں جانا ہی چاہیے۔ بالخصوص غصہ کی حالت میں پانی پینے سے بھڑکے ہوئے جذبات پر قابو پانا آسان ہوجاتا ہے۔ The Economic Times میں آسٹریلیا میں باشندوں پر کی گئی اسٹڈی بھی شائع ہوئی تھی کہ جسم میں پانی کی کمی اور غیر متوازن غذا کے سبب ان میں غصے اور تناؤ کی سطح دن بدن بڑھ رہی تھی۔ وہاں ماہرین طبیعیات نے ایسے مریضوں کو یہی مشورہ دیا کہ وہ روزانہ پانی پینے کے روٹین پر محنت کریں اور پانی کی مقدار کو بڑھا کر مخصوص سطح تک لے جائیں۔ اس واقعہ سے محققین کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ پانی غصّہ کا علاج ہے۔
(ج) مسکرانا سیکھیں
مسکراہٹ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔ آپ ﷺ بیشتر مسکراتے ہوئے دیکھے جاتے۔ ایک طرف نبوت کا مشن، قرآن کا پیغام عام کرنے کی فکر اور دوسری طرف جہالت کا گھور اندھیرا۔ حالات چاہے جیسے ہوں، صحابہ کرامؓ کو آپ کی ذات سے ہمیشہ مثبت توانائی ملتی رہی۔ والدین کو اپنے مزاج کی تلخی میں سرور کائنات ﷺ کی نرمی و شفقت کی چاشنی گھولنی ہوگی۔ انھیں اپنے چہرے پر شکن اور کرختگی کو ہٹا کر مسکراہٹ سجانی ہوگی۔ مسکرانے سے خود مسکرانے والے کو اور دیکھنے والوں کو راحت محسوس ہوتی ہے۔ بچوں کی نازیبا باتوں پر مسکرایا تو نہیں جاسکتا، البتہ ہمیشہ مسکرانے کی عادت چہرے کے تاثرات کو بد سے بدتر ہونے سے روکتی ہے۔
ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ مسکراہٹ تھیراپی کا کام کرتی ہے۔ غصے کی تپش کو کم کرنے کے لیے ذرا مسکرایا کریں۔
(د) منظم روٹین اپنائیں
والدین کے ذہن میں روزانہ اپنے کاموں کی لسٹ ہو اور وہ دن بھر ان تمام مشغولیتوں سے گزرنے کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار ہوں تو ان کے لیے غصّے کو پی جانا آسان ہوگا۔ بچوں کی وجہ سے بہت سی سرگرمیوں میں رکاوٹیں آتی ہیں، اس لیے ایک منظم روٹین اپنانے سے والدین کے کام کسی حد تک متاثر ہونے سے بچ جائیں گے۔ والدین کو اپنی صحت، غذا، نیند سب کے سلسلے میں اپنے روٹین کو یاد رکھنا ہوگا۔ اپنے آپ کا خیال رکھتے ہوئے اپنے بچوں کی نگہبانی کرنی ہوگی۔
(ہ)اینگر مینجمنٹ ورکشاپ
آج کے دور میں بڑھتی مصروفیات، غیر فطری عادات و اطوار، غیر متوازن غذائیت کے سبب (خصوصاً نوجوان نسلوں میں) ذہنی صحت کے کئی سارے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ جذباتیت اور غصے کی سطح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اور جتنے مسائل بڑھ رہے ہیں اتنا ہی زیادہ ان کے حل پر تحقیقات بھی ہورہی ہیں۔ تربیت اولاد کے تحت جو بیداری ادھر کچھ دہائیوں میں ہوئی ہے، اس کے نتیجے میں بے شمار عنوانات پر کتابیں منظر عام پر آئی ہیں اور کئی موضوعات پر ورکشاپوں کا سلسلہ جاری ہوا ہے۔ اینگر مینجمنٹ ورکشاپ میں بنیادی طور پر والدین کو غصہ پر قابو پانے کے آسان نسخے سکھائے جاتے ہیں۔ یہاں والدین اکٹھا ہوتے ہیں اور اپنے اطوار اور حالات کا تذکرہ کرتے ہیں پھر ان کے مسائل پر گفتگو ہوتی ہے اور اپنے منفی جذبات کو قابو کرنے کے لیے والدین کو تکنیکی صلاحیتوں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ دینی تعلیمات مسلمانوں کے لیے زاد راہ ہے۔ اس سلسلے میں ان کی یاددہانی ہوتی رہنی چاہیے تاکہ وہ صحیح رخ پر زندگی گزاریں۔ اسلامی نقطہ نظر سے واقف ماہرین اگر اس قسم کے ورک شاپ منعقد کریں تو یقینا زیادہ نفع بخش ہوں گے۔ ان سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
(و) پیرنٹنگ کوچ
آج کل پیرنٹگ کوچ آن لائن اور آف لائن مل جاتے ہیں جو والدین کی ذاتی طور پر رہ نمائی کرتے ہیں۔ یہ کوچ ایک مخصوص مدت تک والدین سے رابطہ میں ہوتے ہیں جو والدین کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور انھیں حل کرنے میں پورا ساتھ دیتے ہیں۔ کچھ کوچ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سماجی و معاشرتی فلاح کے لیے تادم حیات گائیڈ کرتے ہیں۔ اگر غصّہ کسی کی سب سے بڑی کم زوری ہے تو ایسے کوچ کی رہبری معاون ہوگی۔
غصہ بظاہر معمولی سی خامی ہے لیکن اس کی مقدار اور شدت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے اور نقصانات اور نتائج نسل در نسل بھگتنے پڑتے ہیں۔ ماضی میں جو ہونا تھا وہ ہوگیا مستقبل تو ابھی بھی آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ بطور والدین اس برائی کے سلسلے میں اپنا احتساب ضرور کیجیے۔ ایک قدم سدھار کی طرف بڑھائیے، راحتیں آپ کی طرف لپک کر آئیں گی۔ آپ اپنے بچوں کے دل کی خوشی اور راحت کا سامان کریں، اللہ نے چاہا تو بچے آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں گے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2022