آج سے تقریباً 25 سال قبل دوسری بار امریکہ جانے کا اتفاق ہوا تھا، اور وہاں نیویارک سے متصل شہر نیوجرسی میں جناب شمیم احمد صدیقی سے ملاقات ہوئی تھی۔ موصوف 35 سال سے وہاں آباد تھے۔ مختلف مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے جب ان سے سوال کیا کہ امریکہ کی ترقی کا راز کیا ہے؟ تو انھوں نے کہا: ‘‘امریکہ نے دنیا بھر سے زندگی کے مختلف میدانوں میں کام کرنے والے افراد میں جو سب سے زیادہ قابل، تجربہ کار اور یگانۂ روزگار ہیں، جسے ہم اس فیلڈکا مکھن کہہ سکتے ہیں، جمع کرلیا ہے۔ امریکہ کی شہریت دے کر انھیں تمام سہولتیں فراہم کی ہیں۔ ان بہترین صلاحیت مند افراد نے اپنے شعبوں میں اپناسب کچھ جھونک کر تمام تحقیق و تجزیے کے بعد ان کو ترقی کی چوٹیوں تک پہنچا دیاہے۔ چناں چہ اس وقت انھوں نے بتایا کہ میڈیسن میں مصر کے ڈاکٹر ہیں تو اسپورٹس میں افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے باشندے۔ انجینئرنگ میں روس کے انجینئر، کار کی صنعت میں جاپانی، معیشت و تجارت میں یہودی، کمپیوٹر سافٹ ویئر میں ہندوستانی وغیرہ سرگرم عمل ہیں۔
چند سال قبل حمیرا مودودی نے اپنے والد محترم سید مودودی علیہ الرحمہ کی سوانح حیات سے بعض اہم تفصیلات اپنی کتاب ‘‘شجر ہائے سایہ دار’’ میں ذکر کیے ہیں۔ اس کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
‘‘شاہ فیصل مرحوم کو ابا جان نے ایک اور اہم مشورہ دیا تھا۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر شاہ فیصل مرحوم اس پر عمل کرلیتے تو آج عالم اسلام کے حالات کچھ مختلف ہوتے۔’’
ابا جان نے شاہ فیصل سے بالمشافہ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: ‘‘جس طرح امریکہ نے ڈالر کے بل بوتے پر ساری دنیا کے اعلیٰ ترین دماغوں کو اپنے ملک میں جمع کرلیا ہے، اور وہ ملک جو صرف پانچ سو برس پہلے دریافت ہوا تھا اسے بے مثال ترقی دی ہے، اسی طرح آپ ریال کے بل پر جن کی آپ کے پاس کوئی کمی نہیں ہے اور نہ رقبے کی آپ کے ملک میں کمی ہے، عالم اسلام کے اعلیٰ ترین دماغوں کو اپنے ملک میں جمع کرسکتے ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ ایسے اعلیٰ دماغ ڈاکٹروں، سائنس دانوں، ماہرین سماجی علوم اور بلند پایہ محققین کو آپ سعودی عرب کی شہریت اور بنیادی حقوق بھی دیں، پھر آپ دیکھیں گے کہ سعودی عرب کو سماجی، علمی، صنعتی، معاشی، دفاعی امور، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کس قدر عروج نصیب ہوتا ہے اور یہ عروج صرف سعودی عرب کا عروج نہیں ہوگا بلکہ عالم اسلام کا عروج ہوگا۔
جواب میں شاہ فیصل نے فرمایا:
‘‘یہ ممکن ہے کہ میں ریال کے بل پر سارے عالم اسلام کے بہترین دماغ کو سعودی عرب میں جمع کرلوں اور انھیں شہریت سمیت حقوق بھی دے دوں، لیکن پھر میرے ہم وطن بدو بکریاں لے کر اور اونٹوں پر سوار ہوکر واپس خیموں میں چلے جائیں گے اور صحراؤں میں ایسے گم ہوں گے کہ ان کا نشان بھی کسی کو نہیں ملے گا۔’’
افسوس کہ شاہ فیصل مرحوم کے بعد کے دور میں بھی خلیجی حکم رانوں نے زیادہ دور اندیشی سے کام نہ لیا۔ انجام کار تیل اور ریال کی ساری دولت بڑی بڑی مہنگی گاڑیوں، پُرتعیش محلات یا مغرب کے بینکوں میں غرق ہوکر رہ گئی۔ دماغ کا ذمے دار امریکہ اور معیشت کی باگ ڈور مغربی ماہرین کے ہاتھ میں ہے۔’’ (ص-۷۴،۷۵)
۲۰۰۵ کی بات ہے Islamic Development Bank جدہ، سعودی عرب نے اپنے تیس سالہ تجربات کے بعد بینک کو نئے انداز سے سوچنے اور ماضی کی کارکردگی کا جائزہ لے کر خود بینک کے لیے اور Organization of Islamic Countriesکے لیے آئندہ کا منصوبہ بنانے کی خاطر ملیشیا کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کی سرکردگی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیشن مقرر کیا، جس نے ایک سال کے بعد ایک دستاویز1440 Vision پیش کیا، جس میں strategic development کی تفصیلات ہیں۔یہ عالم اسلام میں قدرتی اور انسانی وسائل کی بہتات کے باوجود غربت و پسماندگی اور سیاسی بے وزنی اور بے وقعتی کاعلاج کرنے کے لیے ترقی و نشوونما کا ایک خاکہ ہے، جس میں بالآخر انسانی وسائل کی ہمہ جہتی ترقی کے تعلق سے خصوصی توجہ دینے پر زور دیا گیاہے۔ بطور خاص جاپان کا ذکر کرتے ہوئے کمیشن کے ایک ممتاز رکن نے بتایا کہ جاپان ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے، جہاں زلزلوں اور آتش فشاں پہاڑوں کی چیرہ دستیوں اور قدرتی وسائل کی کمی کے باوجود انسانی وسائل کی ترقی و نشو نما نے اس کے جی ڈی پی کو تمام مسلم ممالک کے مقابلے میں تین گنا زیادہ کر دیا ہے۔
ان تین مثالوں سے میں نے انسانی وسائل اور افرادی قوت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ انسانی وسائل کسی بھی ملک و ملت، تنظیم، ادارے اور خاندان کے لیے سب سے زیادہ قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ یہ وسائل دیگر تمام وسائلِ حیات کی کمی کو پورا کرسکتے ہیں۔ اگر افراد اہلیت، صالحیت اور صلاحیت کے موجود ہوں تو مال اور سرمایہ کی کمی بھی انھیں آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی۔دوسری طرف نااہل ٹیم بڑے سے بڑے سرمایہ کے ساتھ بھی ڈوب سکتی ہے اور بہترین منصوبہ ناکام ہوسکتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگاکہ چند برسوں پہلے تک حکومتوں میں تعلیم کی وزارت ہوتی تھی، لیکن اب اسے وزارت انسانی وسائل کی ترقی human resource developmentکا نام دیا جاتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ تعلیم سے مقصود و مطلوب انسانی وسائل کی ترقی اور افرادی قوت کی نشوونما ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ آخری ہدایت نامہ قرآن حکیم اور محسنِ انسانیت کی سیرت و سنت کا مطالعہ، سیرت صحابہ کرام اور سلف صالحین کی سوانح اور تاریخ ساز شخصیتوں کے حالاتِ زندگی کا جائزہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کو حاصل وسائل اور صلاحیتوں کا دنیا و آخرت کی کام یابی اور سرخ روئی میں کیا مقام ہے۔ آیئے ہم اس کا مختصرًاجائزہ لیں۔
مال کی انسانی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ انسانی وسائل کے فروغ میں مال کے تعلق سے ایک معقول اور متوازن تصور کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلا تؤتوا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما (النساء:۵)۔ ‘‘اپنے وہ مال جنھیں اللہ نے تمھارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو۔’’ واقعہ یہ ہے کہ تکوین دولت (creation of wealth) اور تنظیم دولت (wealth management)کے بغیر انسانی وسائل کا فروغ ممکن نہیں۔
طالوت کے اوصاف جو علمی اور جسمانی لحاظ سے پوری قوم میں نمایاں تھےاور ذو القرنین کی شخصیت اور ان کا کردار جنھوں نے یاجوج اور ماجوج جیسی وحشی قوم سے بے بس انسانوں کو نجات دلائی، اہلیت اور صلاحیت کے حامل افراد کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت موسی کی قادر الکلامی کی کمی کو ان کے بھائی ہارون کے ذریعے پورا کرنا اور پیغمبر وقت کا اللہ سے اس کی طلب کرنا، اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ کارِ نبوت کی انجام دہی میں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو اپنی بات موثر انداز سے اپنی قومکے سامنےپیش کرسکیں۔
حضرت موسی نے جب اپنی قوم سے کہا کہ ارضِ مقدسہ میں داخل ہوجاؤ تو قوم نے کئی عذر پیش کیے، لیکن وہیں دو عالی ہمت نوجوانوں کا بھی ذکر ہے جنھوں نے جرأت مندی کے ساتھ حضرت موسٰی کا ساتھ دیا۔
نبی رحمتﷺ نے جب اپنی دعوت کا آغاز مکہ میں فرمایا تو اللہ سے دعا فرمائی: اللہ اید الاسلام باحد العمرین ‘‘اے اللہ! عمرو بن ہشام یا عمر بن خطاب (کے ذریعے) اسلام کو قوت بخش۔ حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام سے مکہ کی فضا میں جو تبدیلی آئی نیز آپ کا کردار اور آپ کی خلافت راشدہ کا دور اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی دعا ایک تاریخ ساز شخصیت کے قبولِ اسلام کے لیے تھی۔ آپ کا یہ ارشاد: الناس معادن، خیارھم فی الجاہلیۃ خیارہم فی الاسلام اذا فقھوا (بخاری) ‘‘تم لوگوں کو معدنیات کی کانوں کے مانند پاؤگے، ان میں جو جاہلیت میں اچھے ہوں وہ اسلام میں بھی اچھے ہوں گے، بشرطے کہ (دین میں) سمجھ حاصل کریں۔’’ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
سیرت نبویﷺ میں افراد کی تیاری، ترقی اور ان کی تعلیم و تربیت کا اعلیٰ نمونہ ہمارے سامنے صفہ کے نام سے سامنے آتا ہے۔ صفہ مسجد نبوی کا ایک گوشہ تھا جو اس غرض کے لیے مختص کردیا گیا تھا کہ باہر سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والوں بلکہ خود مدینہ کے مقامی بے گھر طالب علموں کے لیے دار الاقامہ کا کام دے، گویا کہ یہ پہلی اقامتی یونیورسٹی تھی جو رسول اللہﷺ نے قائم کی تھی۔ جہاں مختلف لوگوں کی ضرورت اور مزاج کے مطابق مختلف قسم کی تعلیم دی جاتی تھی۔
اس تربیت گاہ سے بڑی بڑی شخصیتیں تیار ہوئیں۔ صفہ کے علاوہ بھی نبی کریم مختلف طریقوں سے اپنے اصحاب کی تربیت فرماتے تھے۔ مثلاً آپ ہمیشہ لوگوں کو ورزش کی ترغیب دیتے۔ نشانہ بازی کی مشق ہوتی، خود بھی وہاں جاتے اور اپنے سامنے گھڑ دوڑ، اونٹوں کی دوڑ اور آدمیوں کی دوڑ کراتے، کشتی کے مقابلے کرواتے اور مختلف طریقوں سے ان کی حوصلہ افزائی فرماتے ۔ آج بھی مسجد نبوی کے شمالی دروازے کے پاس ایک مسجد ہے جس کا نام ‘‘مسجد سبق’’ ہے۔ ‘‘سبق’’ کے معنی مسابقت میں حصہ لینا ہے۔ آپﷺ اس جگہ بلندی پر کھڑے ہوتے اور جب گھوڑے دوڑاتے ہوئے آتے تو خود رسولِ اکرمﷺ فیصلہ فرماتے کہ کون سا پہلے نمبر پر ہے اور کون سا دوسرے نمبر پر۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ پانچ اول آنے والے گھوڑوں کو نبیﷺ انعام دیا کرتے تھے۔ کبھی کھجور کی شکل میں کبھی کسی اور چیز کی صورت میں۔
سیرت رسول مختلف میدانوں میں اصحاب کی تربیت کے نمونوں سے بھری ہوئی ہے۔ دوسری زبانیں سیکھنا، خطاطی کی مشق کرنا، مختلف جنگی حربوں کا استعمال کرنا اور اس قسم کے مختلف علوم و فنون سے آراستہ کرنا، زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کے لیے عاملین، کاتبین صدقات، خارصین کی تربیت و تقرری اوردیگر افراد کو بہترین طریقے سے تربیت دے کر ان کی نشو ونما کرنا اور مختلف محاذوں اور مختلف مواقع میں بھرپور استعمال کرنا اس سب کی مثالیں بے شمار ہیں۔
دورِ نبویﷺ میں انسانی وسائل میں خواتین کا حصہ بھی بہت شاندار رہا ہے۔ ام المومنین حضرت خدیجہؓ اور ام سلمہؓ کو بطور نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ خدیجہؓ مکہ کی سب سے بڑی اور کام یاب تاجر تھیں اور مورخین نے لکھا ہے کہ مکہ میں جو تجارتی قافلہ کارواں کی شکل میں دور دراز علاقوں میں تجارت کے لیے جاتا تھا، اس میں نصف کے قریب حصہ آپ کا ہوتا۔ نبوت کے ابتدائی دور میں نبی رحمت کی رفاقت اور حمایت کا جو کردارانھوں نے ادا کیا ہے وہ سیرت نبوی کا ایک تاب ناک باب ہے۔
اسی طرح ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے ہجرت حبشہ اور نجاشی کے دربار میں جعفر بن ابی طالب کی گفتگو کا آنکھوں دیکھا حال جس طرح مرتب کیا ہے وہ ان کی باریک بینی اور حالات پر گہری نظر رکھنے کی عکاسی کرتا ہے۔ کئی اہم موقعوں پر آں حضورﷺ کی فیصلہ کرنے میں مدد کی۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب آپ نے صحابہ کرام کو حج کیے بغیر جانوروں کی قربانی کرنے اور اپنے سر کے بال منڈوانے کا حکم دیا تو صحابہ کرام کے پس و پیش کرنے پر ام سلمہؓ نے کہا کہ نبی اکرمﷺ خود پہل کر کے قربانی دیں اور بال منڈوا دیں تو آپ کے اصحاب بھی اس کی تعمیل کریں گے۔ آپﷺ نے ام سلمہؓ کے مشورہ پر عمل کیا اور یہ نازک مرحلہ بہ حسن و خوبی سر انجام پایا۔
بعد کے دور میں ایک اور نامور خاتون فاطمہ الفہری کا نام بھی اس سلسلے میں لیا جاسکتا ہے جو ایک صاحب حیثیت اور مال دار خاتون تھیں جنھوں نے 859عیسوی میں دنیا کی پہلی یونیورسٹی القرویین، ملک مراکش کے فاس شہر میں قائم کی جس درس گاہ سے الفاسی، ابن العربی، ابن خلدون وغیرہ تیار ہوئے اور بلادعرب سے تعلیم و تہذیب کی روشنی یوروپ تک پہنچی۔
اسی طرح کم عمر ساتھیوں کی مخصوص صلاحیتوں اور اعلیٰ صفات کی آپ نے حوصلہ افزائی کی اور انھیں آگے بڑھایا۔ مصعب بن عمیرؓ کو داعی اور اسامہ بن زیدؓ کو سپہ سالار بنانا اس کی دلیل ہے۔
دورِ نبویﷺ میں آپ نے اپنے کام اور کاز کی تکمیل کے لیے اپنے رفقا اور مسلمانوں پر ہی انحصار نہیں کیا بلکہ ضرورت کے وقت غیر مسلموں کی مخصوص صلاحیتوں سے بھی استفادہ کیا جسے آج کی اصطلاح میں lateral entry کا نام دیا جاتا ہے۔ ہجرت کے سفر میں رہ نمائی کے لیے آپ نے عبد اللہ بن اریقط کی خدمات حاصل کیں، جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
خلفائے راشدین کے دور میں خاص طور پر حضرت عمر کے دورِ خلافت میں بہترین انسانی وسائل کے فروغ کی مثالیں ملتی ہیں، اس ضمن میں علامہ شبلی نعمانیؒ کی معرکہ آرا کتاب ‘‘الفاروق’’ کے حصہ دوم کا مطالعہ کیاجاسکتا ہے۔
ایک بار کا واقعہ ہے۔ حضرت عمرؓ ایک جماعت کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اور ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ اپنی اپنی خواہش اور آرزو پیش کرو۔ ایک شخص نے عرض کیا: میری خواہش ہے کہ یہ گھر سونے سے بھر جائے اور پھر میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردوں۔ حضرت عمرؓ نے دوسرے شخص سے پوچھا کہ تمھاری آرزو کیا ہے؟ اس نے کہا: میری آرزو ہے کہ یہ پورا گھر ہیرے جواہرات سے بھر جائے اور پھر اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کردوں۔ تیسری بار حضرت عمرؓ نے پوچھا تو لوگوں نے جواب دیا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمیں کس چیزکی خواہش کرنی چاہیے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا: میں ابو عبیدہ بن الجراحؓ، معاذ بن جبلؓ اور سالمؓ مولی ابی حذیفہ جیسے مردانِ کار کی آرزو کرتا ہوں، تاکہ ان سے اعلائے کلمۃ اللہ میں مدد لے سکوں۔ حضرت عمرؓ کم عمر نوجوانوں کی بھی بہت حوصلہ افزائی فرماتے۔ عبد اللہ بن عباس کواہل بدر کی موجودگی میں بلواتے اور مسائل پوچھتے اس لیے کہ وہ زیادہ حاضر جواب، زیادہ عقل مند اور صاحب علم تھے۔
آپ نے انسانی وسائل کے لیے غیر مسلموں کی خدمات حاصل کرنے سے گریز نہیں فرمایا، مثال کے طور پر آپ نے شام کے گورنر کو لکھا کہ ایک ایسا شخص جو حساب کتاب میں ماہر ہو اسے حکومت کی مالیات کا ریکارڈ رکھنے کے لیے مدینہ روانہ کریں۔
اسی طرح آپ نے باصلاحیت خواتین کو مختلف کاموں میں لگایا اور اس سلسلے میں شفابنت عبد اللہ کو مدینہ کے بازار کا نگراں مقرر کیا۔
عمر بن عبد العزیزؓ کی سیرت اس بات کی گواہ ہے کہ فرد واحد بھی مخلص و متقی ہو اور باعزم و باصلاحیت ہو تو ایک مختصر مدت میں پوری سوسائٹی کو بدل سکتا ہے۔ عمر ثانی نے اپنے دور میں ایک caring and sharing society [ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور بانٹنے والا معاشرہ] کا نمونہ پیش کیا جو رہتی دنیا کے لیے مثال ہے۔
باصلاحیت اور خاص طور پر نوجوان مسلم، امت کی عزت و عظمت کے ستارے، اس کی تہذیب اور اس کی بیداری کی روح اور امت کے مشن کا ستون اور اس کی اصلاح کا اہم ذریعہ ہیں۔ بعض دفعہ ایک فرد ہزاروں افراد کے مساوی ثابت ہوتا ہے اور کبھی کبھی تنہا فرد بھی پوری امت کے ہم وزن ہوتا ہے۔ اصحابِ بصیرت نے تو یہاں تک کہا ہے کہ باعزم اور حوصلہ مند ایک تنہا شخص بھی امت کے اندر زندگی کی روح پھونکنے کے لیے کافی ہے۔ آئیے ہم ایسی ہی دو شخصیات کے بارے میں جو ہمارے ہی دور کی ہیں کچھ تفصیل سے جاننے کی کوشش کریں۔
علی عزت بیگوچ سابق صدر جمہوریہ بوسنیا و ہرزیگووینا بیسویں صدی کے نامور مسلم رہ نماؤں میں سے تھے، موصوف نصف صدی تک میدانِ جہاد میں سرگرم عمل رہے۔ سابق یوگوسلاویہ کے اندر کمیونسٹ اقتدارکے دور میں اسلام کو بچانے اور مسلمانوں کے تشخص کو بحال رکھنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر نوجوانوں کی تنظیم قائم کی، ان کی اسلامی تربیت کر کے ان کے اندر آزادی کی روح پھونکی، انھیں دوبار بغاوت کے الزام میں حوالۂ زنداں کیا گیا، طویل عرصے تک آہنی سلاخوں کے پیچھے بند رہے۔ اس کے ساتھ آپ نے اسلامی فکر کو پوری قوت کے ساتھ پیش کیا، جس میں دو کتابیں خصوصی طورپر مشہور ہیں۔‘ اسلام ان دی ایسٹ اینڈ ویسٹ’ اور‘ اسلامی منشور’۔ کمیونسٹوں سے آزادی اور یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد بوسنیا کے صدر جمہوریہ ہوئے، ان کے خلاف تین پڑوسی جموریتوں نے مل کر حملہ کیا،لاکھوں افراد شہید اور بے گھر ہوئے۔ بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں سے بھرے کیمپوں کے باوجود اس مردِ قلندر نے اپنی ہمت و جرأت کا سکہ یورپ میں بٹھا دیا۔ اپنے فکر وقلم کے ذریعے بھی اور اپنے مجاہدانہ کارناموں کی وجہ سے بھی یورپ میں ایک اسلامی حکومت کے علم بردار کی حیثیت سے امتیازی حیثیت حاصل کی۔
دوسری مثال ترکی رہ نما نجم الدین اربکان کی ہے۔ ترکی کی استنبول انجینئرنگ یونیورسٹی سے میکینکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور پھر جرمنی کی آچن یونیورسٹی سے انجینئرنگ ہی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ جرمنی کے قیام کے دوران کئی آلات کو خود ایجاد کیا، خاص طور پر جرمنی کے شہرت یافتہ Leopard 1A Tank کے موجد کی حیثیت سے بڑا نام کمایا، لیکن اپنی بہترین ملازمت اور عہدہ چھوڑ کر ترکی کا رخ کیا۔ کمال اتاترک کی سرزمین میں عربی میں اذان دینےاور حجاب کرنے پر پابندی تھی اور اسلامی تشخص کے خلاف سیکولر قوتوں اور فوج نے اپنا شکنجہ کس رکھا تھا۔ اربکان نے اسلام کو اس کا اصل مقام دلانے کا عزم کیا۔ پہلے سلامت پارٹی بنائی، پھر رفاہ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس سے پہلے استنبول کے چیمبر آف کامرس اور ایکسچینج مارکٹ کے صدر بھی بنے۔ سیکولر پارٹیوں اور فوج نے ان کے خلاف سازشیں کیں اور کئی بار میدانِ سیاست سے دور کیا۔ ترکی کے وزیر اعظم بھی منتخب ہوئے اور کئی اہم اصلاحیں کیں۔ ان کی حکمت و جرأت اور قربانی نے ترکی کو اسلامی دنیا میں لانے کا اہم رول ادا کیا۔
اسلام نے اپنے آغاز کے چند برسوں میں دنیا کی کایا پلٹ دی، اس کی وجہ انسان کا صحیح ڈیولپمنٹ رہا۔ نبی کریمﷺ نے اس معاشرہ کو جو دینی و دنیاوی لحاظ سے نہایت پست تھا، سب سے پہلے توحید پر متحد کیا اور پھر اسی کے تحت اس کو اعلیٰ اقدار سے آراستہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اونٹ اور بھیڑ بکریاں چرانے والوں کو متمدن قوموں کی گلہ بانی کے قابل بنا دیا۔ لیکن جب دھیرے دھیرے اس امت نے اپنی ان صفات کو کھو دیا تو آبادی کی کثرت کے باوجود وہ قعر مذلت میں جاگری ؎
آئین نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
مسلم دنیا نے انسانیت کو ماضی میں بھی بہت کچھ دیا ہے۔ اس کی ایک مثال یہاں پیش کی جا رہی ہے۔ آج سے ایک ہزار سال پہلے ترکستان کے شہر خوارزم کے ایک مشہور ریاضی داں اور ماہر فلکیات ابو عبد اللہ ابن موسیٰ الخوارزمی نے ‘الجبرا’ یا ٹوٹے ہوئے حصوں کو دوبارہ جوڑنے، کا انکشاف کیا تھا۔ ان کے نام الخوارزمی سے لاطینی زبان میں الگورتھم (algorithm) بن گیا جو دراصل مخصوص کاموں کو ترتیب دینے کی بنیاد پر کسی خاص کام کو انجام دینے کے لیے ڈیزائن کردہ ہدایات کے ایک سیٹ کا نام ہے۔ جس کی بدولت آج ہمارے آس پاس کی ساری چیزیں مثلاً ٹریفک، نقشے، معلومات، خبریں،سوشل نیٹ ورکس، موسم کی پیشین گوئی، خریداری، سب کچھ اس پر اسرار الگورتھم کے ساتھ چلتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جو کہیں کا بھی ہو اگر انسانیت کے لیے مفید ایجاد یا انکشاف کرے، تودنیا اس کو تسلیم کرتی ہے اور صدیوں بعد بھی اس کے نام اور کام کو عزت و احترام سے دیکھتی ہے۔
اکیسویں صدی کی دنیا کیسی ہوگی اور کیا عجیب و غریب تبدیلیاں انسانی سماج و سوسائٹی میں ہونے والی ہیں، اس کا ایک نقشہ امریکہ کے نامور صحافی تھامس فریڈمین کی کتاب The World is Flat اور جدید دور کے تاریخ داں یوال نوحا ہراری کی کتاب (2018) ‘‘اکیسویں صدی کے اکیس اسباق’’ (Twenty-One Lessons for the 21st Century) میں دیکھا جاسکتا ہے۔
انفارمیشن ٹکنالوجی، بایو ٹکنالوجی اور نانوٹکنالوجی سے کس طرح کے انقلابات آنے والے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسان کی قدر و قیمت میں کمی ہی نہیں ہوگی بلکہ وہ غیر متعلق ہوکر رہ جائیں گے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 2050میں انسان سائبرگورننس میں قدم رکھ دے گا۔ دنیا بھر کی قومی حکومتوں سے زیادہ طاقت ور امیزون، گوگل، ایپل، مائکرو سافٹ اور فیس بک جیسی گلوبل کمپنیاں ہوجائیں گی۔
اختراع (creativity) خوش حالی (happiness) حریت (liberty) اور صداقت (truth) کے معنی و مطلب وہی ہوں گے جو گوگل بتائے گا۔ اس لیے آنے والے دور میں بالکل نئے قسم کے انسانی وسائل کی ضرورت ہوگی جن میں collaboration [تعاون و اشتراک]، communication [ابلاغ و ترسیل]، critical thinking [منطقی و ناقدانہ سوچ] اور creativity [تخلیقیت ] نام کے چار C شامل ہوں گے۔ ان کے ادراک اور استعمال کے لیے کیا راہیں ہمیں سجھانی ہیں، یہ بڑا سوال ہے جو ہمارے سامنے ہے۔
آج ہمارے سامنے دو اہم ایشوہیں، جن پر ہمیں اپنی توجہ کو فوری طور پر مرکوز کرنا ہے، وہ ہیں: معاشی نابرابری اور ماحولیاتی آلودگی۔ حال یہ ہے کہ غریب، غریب تر ہو رہے ہیں اور امیر امیر تر اور جیسا کہ کسی نے کہا ہے:
‘‘آج دنیا میں غربت کے اتھاہ سمندر اور دولت اور تونگری کے چند جزیرے ہیں۔‘‘
اس نابرابری کو دور کرنے کے لیے اسلام کے اصول تجارت، زکوٰۃ کے اجتماعی نظام،اوقاف کےانصرام اور اسلامی سرمایہ کاری کے نت نئے طریقے جیسے green sukuk، وغیرہ کا نہ صرف تعارف بلکہ اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ امت میں تکوین ثروت (creation of wealth) اور انصرام دولت (management of wealth) کے جذبہ صادق کو ابھارنا ہوگا، اسی طرح ماحولیات کی آلودگی کو دور کرنے کے لیے صحت و صفائی سے متعلق اسلام کی پاکیزہ تعلیمات اور پانی اور دوسری اشیا میں اسراف سے بچنے اور ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کی مہم شروع کرنی ہوگی۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے پندرہ سالہ پائیدار عالمی ترقی کے اہداف (sustainable development goals – SDG) کا ذکر ضروری ہے جو 2030-2015 میں غربت کے خاتمے (end of poverty) کرہ ارض کی حفاظت اور عالمی امن و خوش حالی سے نہ صرف قریب بلکہ ہم آہنگ قرار دیتے ہیں۔ ہمیں ایسے مخلص اور باصلاحیت مرد و خواتین اور نوجوانوں کی ضرورت ہے جو عالمی سطح پر کی جانی والی ان کوششوں میں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر دنیا کی پائیدار ترقی کے ان اہداف کو شرمندۂ تعبیر کرسکیں اور اسلام کے نظامِ رحمت اور نبی اکرمﷺ کی تعلیمات کو آج بھی حیات بخش ہونے کا عملی ثبوت پیش کرسکیں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو۔
تو خاک میں مل اور آگ میں جل، جب اینٹ بنے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر، بنیاد نہ رکھ، تعمیر نہ کر
مشمولہ: شمارہ مئی 2021