اُمتِ مسلمہ کا بنیادی اور اساسی جوہر قرآن حکیم اور حدیث و سنت رسول اکرم ﷺ ہیں ۔ مطالعۂ قرآن اور سیرت رسول مقدّس ﷺ ایک جاری و ساری عمل ہے ۔ قرآن حکیم سے اخذ و استنباط کے لئے ہر دور میں مسائل کی مناسبت سے اہل علم کے ذریعے سعی و جہد ہوتی رہی ہے اور یوں اس کا ایک تاریخی تسلسل رقم ہوتا آیا ہے یہی وہ آخری آسمانی کتاب ہے جو خاتم النبیین رحمت اللّعالمین ﷺ پر نازل ہوئی۔ یہ واحد مکمل دستورِ حیات ہے، اور اس کا اصل موضوع تمام انسانوں کو راہِ ہدایت پر گامزن کرنا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس کتابِ برحق کا بنیادی مقصد انسان کے فکر و نظر اور عمل و کردار کی صحیح سمت متعین کرنا ہے ۔ قرآن حکیم نے اللہ پر ایمان ، اُس کی وحدانیت کے اقرار، رسالت کی ضرور ت و اہمیت ، قیامت اور حشر و نشر کے برپا ہونے کی معقولیت اور دوسرے لازمی اعتقادی اُمور کو باور کرانے کے لئے اس تمام کائنات ہی کو ایک بڑی نشانی اور واضح دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
عہدِ حاضر اور اُمت
عہد حاضر نے جدید علمی انکشافات کے ذریعہ مطالعۂ قرآن کے کئی میدان متعارف کرا دئیے ہیں، اس وسعت کا اندازہ اُمتِ مسلمہ بروقت نہ لگا سکی بلکہ عرصۂ دراز تک علم جدید سے لا تعلقی کا رویہ اپنا کر مطالعۂ قرآن کو افکارِ ماضی کے دائروں میں جامد رکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُمت مسلہ قرآن حکیم کی علمی و فکری ترقی اور ارتقاء کا ماحول زندہ نہ رکھ سکی۔ اس طرح قرآنی علم اور فکری ماحول کو نشو و نما دینے سے غفلت نے متبادل ذرائع کو موقع فراہم کیا اور یوں زندگی نے متبادل ٹھکانے تلاشنے شروع کئے ۔
اُمتِ مسلمہ کے دورِ زوال میں حریف قوتوں نے سائنسی اور علمی ترقی کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے راستے تلاش کر لیے۔ یہ قوتیں قرآنی فکر و نظر سے نابلد تھیں لہٰذا ان کو مسترد کر کے گامزن ہوئیں ۔
بیسویں صدی کے آغاز سے قرآن حکیم کی حامل قوتّوں یعنی اہل ایمان نے دوبارہ انگڑائی لینی شروع کی تو محسوس کیا کہ دنیا بدل چکی ہے۔ اُنھوں نے مشاہدہ کیا کہ مادّی طاقت کی ہوشربا ایجادات و اختراعات نے طاقت کا تواز ن تبدیل کر دیاہے ۔ دنیا میں مادّیت کے نشے سے چور قوّتوں نے بھی اصول رائج کر دیا ہے کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے بیسویں صدی میں جلیل القدر اہل بصیرت اُٹھے۔ مفکرین اسلام نے مجتہدانہ طور پر قرآن حکیم کی تشریح و توضیح کاکارنامہ انجام دیا۔ ان میں علامہ سید مودودیؒ، مولانا حمیدالدین فراہیؒ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ اور سید قطب شہیدؒ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ متذکرہ بالا علمائے حق نے اُمتِ اسلامیہ کو درسِ بصیرت دیا کہ قرآنِ حکیم کا علمِ حقیقی جدید علوم سے کوئی ٹکراؤ نہیں بلکہ اس کا ٹکراو فاسدِ تہذیب و تمدن کے پس منظر میں اُن نتائج سے ہے جو جدید مغرب نے جدید علوم کی بناء پر حاصل کئے ہیں ، جن میں انسان انفرادیت کی طرف جا کر خود غرض (Self Centered)بن گیا ہے ۔
قرآن انسان کی بے اطمینانی اور پریشان حالی کو سنجیدہ مسئلہ قرار دیتا ہے۔ صحت مند مادّی ترقی قرآن کی اساس و منشا سے ٹکراتی نہیں بلکہ وہ قرآن میں مضمر انسانی ہدایت کا ثمر ہے، واضح اشارہ آیت کریمہ وَلا تنس نصیبُک من الدّنیا کی تشریح و توضیح میں پوشیدہ ہے ۔ ۱؎
علامہ اقبال کی فکر
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ بیسویں صدی کے مسلم فلسفی اور مفکر ہیں انہوں نے جدید علوم کا گہری نظر سے مشاہدہ کرنے کے بعد اسے قرآنی فکر کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ علامہ نے معاندانہ روئیے کے بجائے علمی رویے کو مدِّ نظر رکھا ۔ شاعر مشرق کی یہ منّظم فکر انگریزی خطبات کے علاوہ اُن کے اردو اور فارسی کلام میں سامنے آتی ہے۔ متذکرہ بالا تصانیف میں علامہ ’’وقت‘‘ کے چلینجز کو عالمانہ اور فلسفیانہ سطح پر قرآنی علم کی مناسبت سے بیان کرتے ہیں ۔ اُمتِ مسلمہ کے اس عظیم فرزند نے اپنی تصانیف میں قرآن حکیم سے استفادہ کیا ہے۔ اُس کے حوالے سے بے شمار نشانیوں کی نشاندہی کی ہے۔ عقل و تدبر رکھنے والے قرآنی آیاتِ مبارکہ کے مطابق ہمیشہ آفاقی نشانیوں کو دیکھ کر بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں ۔’’ ربنا ماخَلَقْتَ ھٰذا باطلا ‘‘یعنی اے ہمارے رب! آپ نے یہ ساری کائنات فضول پیدا نہیں کی ہے۔ علامہ اقبال اپنی فکر کے مطابق اس آیت کی توضیح کرتے ہوئے خطبات میں بیان کرتے ہیں کہ دنیا میں وسعت اور بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے ہم کائنات میں اہم تبدیلیاں بھی دیکھتے رہتے ہیں اور لیل و نہار کی حرکت کے ساتھ ہم زمانے کا خاموش اُتار چڑھاؤ کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں ۔ ۲؎
آفاق وانفس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نشانیاں ہیں ۔ اسی قرآنی حقیقت کو اُجاگر کرنے کے لئے علامہ نے بلیغ شاعرانہ پیرائے میں ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ کے عنوان سے کہا ہے ؎
کھول آنکھیں، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ!
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ!
ایام جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ!
بے تاب نہ ہو ، معرکۂ بیم و رجا دیکھ!
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں !
یہ گنبدِ افلاک، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے۳؎
قرآنی آیات
قرآن حکیم میں قدرت کی نشانیوں کو غیبی حقائق کے لئے بطور دلیل پیش کیا گیاہے۔ ایک عام انسان بھی اس سے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق دلیل اخذ کر سکتا ہے ۔ بالغ نظر دانشور ، حکیم یا فلسفہ دان بھی انہی الفاظ و تعبیرات میں اپنا مدعا پا کر اس پر مزید غور و فکر کر سکتا ہے۔ کائنات کی ان نشانیوں کو دلیل کے طور پر پیش کئے جانے کا یہ قدرتی نتیجہ ہے کہ اس کتاب مبین میں ضمنی طور پر مختلف علوم و فنون سے تعلق رکھنے والے مسائل کی طرف بھی اجمالاً انسان کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے ۔ اصل مقصد مجرد علمی حقائق کا بیان نہیں بلکہ غیبی حقائق کو تسلیم کرانا ہے جن کے لئے بطور دلیل مظاہر کائنات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں ’’المومنون ‘‘ میں انسان کی تخلیق کے بارے میں ارشاد ربانی ہے : (ترجمہ ): ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا، پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ میں نطفہ بنایا، پھر ہم نے اس نطفے سے خون کا لوتھڑا بنایا۔ پھر اس خون کے لوتھڑے سے گوشت کی بوٹی بنایا، پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈی بنایا، پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر ہم نے اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا دیا۔ کیسی شان والا ہے اللہ تمام صناعوں سے بڑھ کر‘‘۔ ۴؎
اس آیتِ قرآنی میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے، جدید علم الجنین(Embroyology)سے حرف بہ حرف اس کی تصدیق ہوتی ہے یورپ کے اطباء یہ جان کر حیران ہوتے ہیں کہ ان حقائق کا اظہار چودہ سو سال پہلے کس طرح کیا گیا ۔ بے شک یہ قرآن پاک کا ایک علمی اعجاز ہے لیکن یہ ایک بین حقیقت ہے کہ اس بنیاد پر ہم قرآن کو (Embroyology)کی کتاب قرار نہیں دے سکتے ہیں اس علم کی جزوی تفصیلات کو قرآن سے منسوب نہیںکرسکتے۔ قرآن کتابِ ہدایت ہے اور علمی اعجاز اس کی صداقت کی دلیل۔ کسی جدید یا قدیم انسانی علم کی فنّی جزئیات سے اسی حد تک اس کا رشتہ ہے جو اس کے بنیادی مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔ اس حقیقت کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنے انگریزی خطبات کی کتاب” The Reconstruction of Religious Thought in Islam” میں واضح طور پر کہا ہے کہ سائنس ابھی اُن حقائق تک مکمل طور پر نہیں پہنچ سکی ہے جن کی نشاندہی قرآن نےکی تھی۔ سائنسی انکشافات و اختراعات آئے دن بدلتے رہتے ہیں آج ایک سائنسی ایجاد حقیقت دکھائی دیتی ہے کل وہی مفروضہ ثابت ہوتی ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔
ترجمہ:۔عنقریب یہ ہماری نشانیاں آفاق میں بھی دیکھیں گے اور اپنے آپ میں بھی، یہانتک کہ انھیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ حق ہے ‘‘۔ ۵؎ یعنی عنقریب ہم انھیں دنیا میں اپنے نمونے دکھلائیں گے۔
تاریخی تبدیلیاں
حدیث پاک ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور انھیں یہ خبر دی کہ ’’آئندہ آنے والے دور میں فتنے اُٹھیں گے۔ آپؐ نے جبرئیلؑ سے پوچھا کہ اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے۔ انھوں نے جو اب دیاکہ اللہ کی کتاب یعنی قرآن حکیم۔ اس میں آپ ﷺ سے پہلے کی خبریں بھی ہیں اور آپﷺ کے بعد جو کچھ پیش آنے والا ہے اس بارے میں بھی خبریں ہیں ‘‘ ۔ ۶؎اس طرح یہ حقیقت مترشح ہو گئی کہ اللہ کے بھیجے ہوئے دین حنیف یعنی اسلام میں قیامت کی علامتیں بھی بیان کی گئی ہیں یہ باتیں اپنے دور میں ظاہر ہو جائیں گی ہم قرآنی آیات پہ غور و فکر کر کے اپنی اجتہادی کا وشیں تیز کر سکتے ہیں ۔ تاریخ کی ایک مثال یوں پیش کر سکتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کے وقت کا مصری مغرور بادشاہ فرعون سمندر میں غرق کر دیا گیا اور قرآن میں فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ( ترجمہ) ’’پس آج ہم تیرے بدن کو بچا لیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لئے عبرت بنا رہے اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ‘‘ ۷؎
چنانچہ فرعون کا جسم معجزاتی طور پر محفوظ رکھا گیا تاکہ بعد کی نسلوں کے سامنے کتاب اللہ کی صداقت کا ثبوت پیش آسکے۔ایک فرانسیسی اسکالر پروفیسر لورٹ (Lort)نے ۱۸۹۸ء میں فرعون کے اس محفوظ جسم کو اہرام کے اندر سے نکالا۔ پھر اس ممی کئے ہوئے جسم کر قاہرہ کے میوزیم میں رکھا گیا۔ اس کے بعد ۱۹۰۷ء میں پروفیسر سمتھ(Elliat Smith)نے اس کے جسم کے غلاف کو کھول کر اس کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے اس پر “The Royal Mummies”نام کی کتاب تصنیف کی۔ایک اور فرانسیسی دانشور اور Dermatalogistڈاکٹر موریس بوکائے نے اس دریافت شدہ مواد (Material)کو اسلام کی صداقت کے لئے بطور دلیل پیش کیا۔ موریس بوکائیے ۱۹۷۵ء میں خود قاہرہ گیا اور وہاں اُس نے براہِ راست طور پر میوزیم میں اس کا عمیق مطالعہ کیا۔ اس سلسلے کی کامل تحقیق و تفتیش کے لئے موریس بکائے نے باضابطہ عربی زبان و ادب سیکھی پھر اپنی بھر پور تحقیق کے بعد اپنی شہکار تصنیف ’’بائبل، قرآن اور سائنس‘‘ فرانسیسی زبان میں رقم کی ۔ ۸؎
اس طرح قرآن حکیم کی مذکورہ بالا پیشن گوئی کو علمی، تحقیقی اور عملی طور پر ثابت کرنے والا ایک غیر مسلم عالم اور دانشور سامنے آیا جو بعد میں مسلمان ہوا۔ اُس کو اللہ کی طرف سے یہ توفیق نصیب ہوئی کہ وہ اس قرآنی صداقت کو تمام دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اہل ہوا جو متلاشی جدید سائنسی دلائل و براہین چاہتے ہوں وہ قاہرہ کے مصری میوزیم میں شاہی ممیوں کے کمرہ کو دیکھیں ، وہاں وہ قرآن کی آیات بینات کی عملی تصدیق پالیں گے جو کہ فرعون کے جسم سے متعلق ہیں ۔ یہاں ہمیں رسول اکرم ﷺ کے اس مبارک فرمان پر بھی نظر رکھنی چاہئیے جو صحیح البخاری کتاب الجہاد میں مذکور ہے اور جس میں رسول رحمت ﷺ فرماتے کہ ’’اللہ کسی فاجر شخص کے ذریعے بھی اس دین حنیف کی مدد فرمائے گا‘‘ ۔ ۹؎
تفکر وتدبر
اس حدیث مبارکہ پر غور و فکر کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ غور و فکر کی صحیح اسپرٹ موجود ہو تو انسان بڑے بڑے تخلیقی کارنامے انجام دے سکتا ہے ۔ اس کے برخلاف اگر اس صلاحیت سے فردمحروم ہو تو اس دنیا میں وہ کوئی بڑا معرکہ انجام نہیں دے سکتا۔ ہمیں سوچ بچار کرنا چاہئیے کہ ہم لایعنی اور فضول باتوں اور فروعات پر اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔ قرآن نے تفکر، تدبر، اور تعقل پر زور دیا ہے، اس عمل کو ہم کیوں فراموش کر گئے ہیں ۔ علامہ اقبال نے غالباً اسی صداقت کے پیش نظر اپنے یہ اشعار رقم کئے ہیں کہ ؎
کافرِ بیدار دِل پیش صنم
بہ ز دیندارِ کہ خفت اندر حرم ۱۰؎
یعنی وہ کافر جو بُت کے سامنے بھی بیدار مغز رہتا ہے اُس دیندار سے بہتر ہے جو مسجد و منبر میں سویا ہو ۔ دوسری جگہ علامہ کہتے ہیں کہ ؎
دین کافر ؕفکر و تدبیر و جہاد
دین مُلاّ فِی سبیل اللہ فساد ۱۱؎
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق۱۲؎
عظمتِ قرآنی
علامہ اقبال کے نزدیک قرآن حکیم عظیم الشان نفسیاتی اور ذہنی انقلاب کا محرک ہے جس نے ہر دور کے ذی حِس اور باصلاحیت اہل دانش کو متاثر کیا ہے ۔ “The Reconstruction of Religious Thought in Islam” کے پہلے خطبے میں علامہ اسی حقیقت کی پردہ کشائی کرتے ہوئے گوئٹے اور ایکرمین (Eckermann)کی مثال دیتے ہوئے یوں قرآن حکیم کی علمی عظمت اُجاگر کرتے ہیں :۔
“The main purpose of the Quran is to awaken in man the higher consciousness on his manifold relations with Allah and the Universe. It is inview of this essential aspect of the Quranic teachings that Goethe, while making a general review of Islam as an educational force, said to Eckermann: you see this teaching never fails with all our systems, we cannot go, and generally speaking no man can go, farther ۱۳؎than that.”
گویا قرآن کا سب سے اہم مقصد ہی یہ ہے کہ انسان میں اللہ اور کائنات کے ساتھ گوناگوں روابط کا اعلیٰ شعور اجاگر کیا جائے۔ اس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ قرآن انسان کو اپنے ماحول سے الگ اور بے خبر رہنے کی بجائے ماحول سے گہرا ربط قائم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کائنات اورفطرت کے ساتھ گہرا ربط انسان میں نہ صرف انسان اور کائنات کے باہمی تعلق کا صحیح ادراک پیدا کرتا ہے بلکہ انسان کو خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے رشتہ و تعلق کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ علامہ کے نزدیک قرآنی تعلیمات کا یہی وہ لازمی پہلو ہے جس کے پیش نظر معروف جرمن مفکر گوئٹے ۱۷۷۹ء- ۱۸۳۲ء) نے یہ اعتراف کیا تھا کہ نہ صرف ہمارا تمام فکری نظام اسلامی تعلیمات کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے بلکہ آئندہ بھی کوئی شخص ان تعلیمات سے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے گا، اسی لئے گوئٹے نے اسلام پر بحیثیت ایک تعلیمی قوت (Educational Force)کے عمومی تجزیہ کرتے ہوئے ایکرمان (۱۷۹۲ء-۱۸۵۴ء) سے یہ بات کہی تھی کہ قرآنی تعلیم کبھی ناکام نہ ہو گی اور ہم اپنے تمام خود ساختہ نظاموں کے باجود اس سے آگے نہیں جا سکتے ۔
قرآن کے اثرات
مذکورہ بالا خطبے میں علامہ اقبال اسی حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں۔ قرآن حکیم مشاہداتِ فطرت کے اندر پنہاں حقائق کا شعور انسان کے دل و دماغ میں پیدا کرتا ہے۔ قرآن کا اندازِ بیان اور طریق فکر مسلمانوں کو واقعات و حقائق پر عملی و تجرباتی اسلوب سے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، جس پر لبیک کہہ کر ماضی میں بھی مسلمانوں نے جدید سائنس کی بنیاد ڈالی ۔ یہ کام انھوں نے اُس دور میں انجام دیا جب لوگوں نے حق کی تلاش کیلئے مظاہر فطرت پر غور کو عبث سمجھ کر ترک کر دیا تھا۔ قرآن نے خارجی تغیرات سے نبرد آزما ہو کر اپنی اندرونی قوّتوں کو ابھارنے کی طرف انسان کی توجہ مبذول کرائی۔ اس طرح انسان عارضی چیزوںپر غور کر کے دائمی وجود کی جانب مائل ہوئے۔ رسول اکرم ﷺ نے تعلیم کو فرض قرار دیا اُمت کے ہر فرد کو غور فکر کی ترغیب دے دی۔ اُس ذہنی انقلاب کایہ نتیجہ نکلا کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان سیاست ، تہذیب اور تمدن کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے گئے ۔ پانچ سو سال تک علمی دنیا پر پوری آن بان کے ساتھ چھائے رہے۔ ۱۹۲۷ء کو موچی دروازہ لاہور کے ایک تاریخی جلسۂ عام میں علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو مترشح کیا کہ سائنس اور اِ لہامی مذہب کے تصادم کا خیال غیر اسلامی ہے۔ قرآن کریم میں انسان کو مشاہدے اور تجربے کے ذریعے علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ مشاہدے اور نظرئیے کے اسی امتزاج (Synthesis) کے ذریعےجدید سائنس کی بناء مسلم علماء اور دانشوروں نے رکھی۔ علامہ اقبال کہتے ہیں ؎
برگ و ساز ماکتاب وحکمت است
ایں دو قوّت اعتبار ملت است
آں فتوحات جہان ذوق و شوق
ایں فتوحات جہانِ تحت و فوق
ہر دو انعام خدا ئے لایزال
مومناں را آں جمال است ایں جلال! ۴؎
وہ یعنی قرآن ذوق و شوق کی فتوحات حاصل کرتا ہے۔ یعنی اس سے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ اور اُن کی متابعت کا ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے اور یہ یعنی حکمت یا فلسفہ یا سائنس وغیرہ پست و بلند جہان کو فتح کرتی ہے ( اس لئے ملت کو بااعتبار بنانے کے لئے ان دونوں کی ضرورت ہے ) دونوں خدائے لایزال کے انعام و اکرام ہیں ( غور و فکر کرنے والوں کے لئے ) قرآن حکیم ایک ایسا لافانی معجزہ ہے جس میں دنیائے عالم کو اللہ کی طرف سے یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسی ایک سورت یا آیت بنا کر پیش کیجئے ۔ یہ چیلنج پچھلے پندرہ برسوں سے برابر برقرار ہے۔
یہ ایک عظیم الشّان اعجاز ہے قرآن حکیم کا اور علامہ اقبال کے نزدیک قرآن مجید کی قوتِ تاثیر کی تعلیمات اس کا سب سے بڑا وجہِ اعجاز ہے ۔
(جاری )
مشمولہ: شمارہ اگست 2017