رمضان المبارک ایک عظیم نعمت
کائنات کا ہر ذرّہ خالق کائنات کی ان گنت نعمتوں کے سائے میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے،انسانیت پر اللہ کی لاتعداد نعمتوں میں سے ایک عظیم الشان نعمت رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے جس کی ساعتیں انوار الٰہی سےمنور اورربانی فیوض وبرکات سے معمور ہیں ، یہ مہینہ سال میں ایک بار آتا ہے ہم سب خوش قسمت ہیں کہ یہ مقدس ساعتیں پھر ہمارے اوپر سایہ فگن ہیں۔یہی وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ۔(سورۃ البقرہ:آیت ۱۸۵) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔
اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازوں کو مقفل کر دیا جاتا ہے، صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب رمضان شروع ہو تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے) بخاری: (3277) مسلم: (1079)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’یہ اس لیے کہ ماہ رمضان میں دل نیکی، اور اعمال صالح کی طرف لپکتے ہیں، جن کی وجہ سے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور دل گناہوں سے بچتے ہیں اسی وجہ سے جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ وہ ایسے کار نامے سر انجام نہیں دے پاتے جو غیر رمضان میں کر دکھاتے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جکڑا ہوا قید ہوتا ہے، اور شیاطین کیلئے بنی آدم کو گمراہ کرنے کا موقع اسی وقت ملتا ہے جب بنی آدم شہوت کی گرفت آجائے، چنانچہ جس قدر بنی آدم شہوت سے دور رہتے ہیں شیاطین جکڑ بندی کی حالت میں ہی رہتے ہیں‘‘
’’مجموع الفتاوی‘‘ (14/167)
اسی مہینے میں ایک ایسی رات مقرر کی گئی ہے جس کوشب قدر کہا جاتا ہے، جو ہزار راتوں سے افضل ہے، جس میں فرشتے امن و سلامتی لے کر دنیا میںآتے ہیں، اور صبح تک انواروبرکات کے نزول کا یہ مبارک سلسلہ جاری رہتا ہے۔قرآن مقدس میں اس کا ذکر خاص انداز میں کیا گیا ہے۔
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۱ۚۖ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۲ۭ لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۰ۥۙ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۳ۭؔ تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَالرُّوْحُ فِيْہَا بِـاِذْنِ رَبِّہِمْ۰ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ۴ۙۛ سَلٰمٌ۰ۣۛ ہِيَ حَتّٰى مَطْلَــعِ الْفَجْرِ۵ۧ (سورۃ القدر)
بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا، اور تم کو معلوم ہے کہ شب قدرکیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہترہے، اس رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے سلامتی لے کر اترتے ہیں،اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک رہتا ہے۔
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ۳ فِيْہَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ۴ۙ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا۰ۭ اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ۵ۚ رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّكَ۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۶ۙ (الدخان 44: 6-3)
بے شک ہم نے اِس (قرآن) کو ایک بابرکت رات میں اُتارا ہے۔ یقیناًہم (قرآن کے ذریعے) لوگوں کو خبردار کرنے والے ہیں۔ اس رات میں تمام حکیمانہ امور ہمارے حکم سے طے ہوتے ہیں۔ بے شک ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں۔ یہ تمھارے رب کی رحمت کے باعث ہے۔ یقیناًوہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
اس لیے اس مہینے کاخاص اہتمام کرتے ہوئے مقدس مہینہ کے قیمتی اوقات کو منظم کرنا چاہئے تاکہ رب کے بے حد وحساب انعامات و اکرامات سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے۔
روزہ:
رمضان کا اہم عمل روزہ ہے،خلوص و للہیت کے ساتھ روزہ کا اہتمام کیا جائے،عاقل و بالغ مرد اور عورت پررمضان کا روزہ رکھنا فرض ہے، روزہ اسلام کا رکن ہے،اس سے انسانوں کے قلوب میں تقویٰ کی روح بیدار ہوتی ہے، رمضان المبارک کے روزےکوتاہی اور غفلت سراسر محرومی ہے، کیونکہ اگرانسان پھرپوری زندگی بھی روزہ رکھ لے تو اس مہینے کے ایک روزے کی تلافی نہیں ہوسکتی۔
رشادِ ربانی ہے:شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۰ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۰ۭ يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۰ۡوَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۱۸۵ (البقرۃ:۱۸۵)
ترجمہ:رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں، لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے، اُس کو لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے ،اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔
حدیث میں ہے:’’روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے‘‘(سنن النسائی،حدیث نمبر:۱۳۲۲)دوسری حدیث میں ہے:جس نے اللہ تعالی کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تعالی اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت کے بقدر دور کردیتا ہے (صحیح مسلم،باب فضل الصیام،حدیث نمبر:۳۵۱۱)
روزہ کی حالت میں روزمرہ کا معمول متاثر نہ ہو، اپنی معاشی اور دفتری ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوتاہی نہ کی جائے۔البتہ اپنے ماتحتوں پر ضرورنرمی کی جائے۔
رسول علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے:
یہ ایسامہینہ ہے جس کا پہلاعشرہ نزولِ رحمت،درمیانی عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ نارِجہنم سے نجات ہے، جو شخص اس مہینے میں اپنے ماتحت لوگوں کے کام میں تخفیف کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گااور اسے نارِجہنم سے رہائی عطا فرمادے گا،(شُعَبُ الایمان لِلبَیہقی:3608)‘‘
تراویح:
چاند نظر آتے ہی خود کو مقدس ساعتوں کی پرکیف وادیوں میں محسوس کرنا چاہیے ،اس لئے اس مہینہ کے اوقات کو ادھر ادھر کی مصروفیتوں میں ضائع نہ کیا جائے ، تراویح کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، احادیث میں ذکر ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ (بخاری ومسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازتراویح مسجد میں با جماعت ادا بھی کی لیکن اس اندیشہ سے اس پر مواظبت نہیں فرمائی کہ کہیں امت پر واجب نہ ہوجائے اور پھر امت کے لئے اس کو ادا کرنے میں مشقت ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نمازپڑھی۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس اندیشے سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم۔ الترغیب فی صلاۃ التراویح))
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان کی ترغیب دیتے تھے لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے تھے۔ آپ فرماتے کہ جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیں گے۔ رسول اللہ کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتداء عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔ (مسلم۔ الترغیب فی صلاۃ التراویح)حضرت عمررضی اللہ عنہ کے عہد میںیہ نماز کو باضابطہ جماعت کے ساتھ اداکی جانے لگی،جس پر آج تک امت کا تواتر کے ساتھ عمل ہے۔
سحری:
سحری کرنا سنت ہے اور حدیث میں اس کی خصوصی تاکید کی گئی ہے سحری سےایک گھنٹہ قبل بیدار ہوکر تہجد و اذکار میں مشغول رہیں اور آخری وقت میں سحری کرنا چاہیے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سحر میں برکت ہے، سحری کرو؛ کیوں کہ یہ باعث قوت ہے، یہ سنت ہے، گرچہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ ہو، اللہ عزو جل کی سحری کرنے والوں پر رحمت ہوتی ہے۔‘‘(مسند ابن الجعد، حدیث بحر بن کنیز السقاء، حدیث: 3391)
تمام اقوام میں روزہ کا کسی نہ کسی درجہ میں تصورپایا جاتا ہے،لیکن ان کے یہاں سحری کا اہتمام نہیں ہوتا،اس طرح مسلمانوں اور دیگر اقوام کے روزہ کے درمیان فرق بھی کرتی ہے،ایک حدیث میں ارشاد ہے:
(ہمارے اور اہل کتاب کے روزں کے بیچ سحری کا فرق ہے) یعنی ہم سحری کرتے ہیں اور وہ نہیں کرتے۔)
’’اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ عزوجل ہر رات تیسرے پہر آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں، کہتے ہیں: کون ہے جو دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں؟ کون ہے جو سوال کرے میں اسے عنایت کروں اور اور کون ہے مغفرت کا طلب گار جس کی مغفرت کی جائے(بخاری: باب الدعاء فی الصلاۃ من آخر اللیل(
قران مجید میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
’’والمستغفرین بالاسحار‘‘(آل عمران) (جو بوقت سحرمغفرت طلب کرتے ہیں)
دوسری جگہ ارشاد ہے:’’وبالأسحار ھم یستغفرون‘‘ (الذاریات: 18) یہ وقت سحر مغفرت کے طالب ہوتے ہیں۔
نوافل کا اہتمام:
روزمرہ کی مصروفیتوں سے فارغ ہوکر نمازوں کا اہتمام کیا جائے فرائض و واجبات کے علاوہ نوافل سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’جب رمضان کا مہینہ آتا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کمر ِکس لیتے اوراپنے بستر پرتشریف نہ لاتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔
رمضان کی آخری دس راتوں میں اور زیادہ انہماک بڑھ جاتا تھا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں‘‘(شعب الایمان للبیہقی: ج3ص310فضائل شہر رمضان)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے۔‘‘(صحیح مسلم: ج1، ص372، باب الاجتہاد فی العشر الاواخر الخ)
تلاوت و اذکار:
اس مقدس مہینہ میں تلاوت کا خصوصی اہتمام کیا جائےقرآن مجید کی تلاوت سے تقرب الٰہی اور رشد و ہدایت کی طرف خصوصی میلان قلب ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:
قرآن کواہتمام سے پڑھو اس لئے کہ قرآن قیامت کے دن پڑھنے والوں کے لیے سفارش بن کر آئے گا۔(مسلم 1910)
حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ روزے اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔روزے کہیں گے کہ اے میرے رب!میں نے بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہشات سے روکا۔پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔اور قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات کو نیند سے روکے رکھا۔پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔آنحضور ﷺنے فرمایا کہ ان دونوں یعنی روزے اور قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیشک وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ(یاد) نہ ہو، وہ ویران گھر کی طرح ہے۔‘‘(ترمذی)
تلاوت قرآن کے ساتھ اس کو سمجھنا اور سمجھ کر تلاوت کرنا بھی ضروری ہے،کیوں کہ قرآن مجید انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا گیا ہےاس کی تفہیم کے بغیر اس سے استفادہ ممکن نہیں۔ قرآن مجید میں تدبر و تفکر کی تاکید کی گئی ہے۔
اور جو لوگ تلاوت کرنا نہیں جانتے انہیں اس مبارک مہینے میں ذکر واذکار کے اہتمام کے ساتھ ساتھ تلاوت قران سیکھنے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
دعا و استغفار:
اس مقدس مہینے میں دعاؤں کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، دعا تمام عبادتوں کا مغز ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الدعاء مخ العبادۃ(ابو داود 1481)
یعنی دعا عبادتوں کا مغز ہے،نیز دعا کا روزہ اور نزول قرآن سے خاص تعلق ہے ۔ قرآن مجید میں دعا کے اہتمام کا حکم دیا گیا۔(سورۃ البقرہ 183 تا 185)
اس مبارک مہینہ میں گناہوں سے توبہ اور استغفار کو خاص مشغلہ بنانا چاہیئے،انسانوں سے گناہ کا صدور ہوتا رہتاہے، ساتھ ہی رحمت الٰہی ہمیشہ اس کی طرف متوجہ ہونے کے لئے تیار رہتی ہے، یہ مبارک مہینہ خاص کر گناہوں سے معافی کا اہم سامان فراہم کرتا ہے،اسلئے گناہوں سے اجتناب کا عزم اور استغفار کا مکمل اہتمام کرنا چاہئیے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
شیطان نے (بارگاہِ الٰہی میں) کہا: (اے باری تعالیٰ!) مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی جسموں میں روحیں باقی رہیں گی گمراہ کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’مجھے بھی اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے یعنی بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔‘‘
انفاق:
ماہ رمضان جہاں روزہ نماز تلاوت و اذکار کا مہینہ ہے وہیں صبر و تحمل خیر خواہی اور غم خواری کا مہینہ بھی ہے اس مقدس مہینے میں کئے ہوئے اعمال عظیم مقام حاصل کرلیتے ہیں، اس لئے اس میں غریبوں حاجت مندوں اور محتاجوں کے لئے دل کھول کر انفاق کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے، غریبوں کی داد رسی اور ان کے لئے انفاق ہر مہینے میں قابل قدر ہے لیکن اس مہینہ میں دست سخاوت کو اور زیادہ کشادہ اور دراز کرنا چاہیے، روایتوں میں آتا ہے کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام رمضان المبارک کے مہینہ میں تیز وتندہواؤں سے بھی زیادہ سخی ہو جایا کرتے تھے اور دل کھول کرغریبوں اور حاجتمندوں کی مدد فرماتے تھے۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جود و سخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے، اور رمضان المبارک میں جبکہ جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تھے آپ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی، جبریل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ کے پاس آتے تھے، آپ سے قرآنِ کریم کا دور کرتے تھے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیاضی و سخاوت اور نفع رسانی میں بادِ رحمت سے بھی بڑھ کر ہوتے تھے
اعتکاف۔‘‘(صحیح البخاری: ج1 ص3 باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)
رمضان کے آخری عشرے میں عبادات میں اور زیادہ انہماک پیدا کرنا چاہیے۔اس عشرے کی اہمیت زیادہ ہے اسی عشرے میں شب قدر ہے اس لیے مسجدوں میں اعتکاف کرتے ہوئے طاق راتوں میں بیدار رہ کر شب قدر کو تلاش کرنا چاہیے،
اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ أَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالعَاکِفِینَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ (البقرۃ:1)
ترجمہ: (اور ہم ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے صاف ستھرا رکھیں)۔
روزے کے احکام کے ضمن میں فرمایا: وَلَا تُبَاشِرُوہُنَّ وَأَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِی المَسَاجِدِ (البقرۃ:187)
ترجمہ: (اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو)۔
نبی علیہ الصلاۃ والسلام اعتکاف فرماتے اور خاص کر طاق راتوں میں بیدار رہ کر شب قدر کی تلاش میں لگے رہتے،اور اپنے اہل خانہ اور اصحاب و احباب کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا۔(صحیح البخاری: 2026، الاعتکاف، صحیح مسلم:1172، الصیام )
اپنی عمر عزیز کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے دو عشروں کا اعتکاف کیا، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اسی سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔( صحیح بخاری: 2044، الاعتکاف، صحیح ابن خزیمہ:2221 – سنن ابو داود: 2466، الاعتکاف )
مرد وزن ہر ایک کے لیے اعتکاف سنت ہے جس کی تاکید کی گئی ہے،
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برابر اعتکاف کیا ہے حتی کہ اگر کبھی کسی وجہ سے یہ اعتکاف چھوٹ گیا تو آپ نے اس کی قضا کی ہے. جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رمضان میں کسی وجہ سے اعتکاف نہ کر سکے تو آپ نے شوال میں اس اعتکاف کی قضا کی۔(صحیح بخاری:2040، الاعتکاف – مسلم:1183، الاعتکاف )
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے لیکن ایک سال کسی سفر کی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو آئندہ رمضان کے بیس دن کا اعتکاف کیا۔(سنن الترمذی:803، الصوم – صحیح ابن خزیمہ: 2226، الصوم)
مشمولہ: شمارہ جون 2019