ناپاکی کی حالت میں روزہ کا آغاز
سوال: سحری کے لیے آنکھ کھلی تومعلوم ہوا کہ میں ناپاک ہوں۔ وقت بہت تنگ ہے۔ اگر غسل کرنے لگوں توسحری کا وقت نکل جائے گا۔ کیا میں ایسا کرسکتا ہوں کہ پہلے سحری کھالوں، بعد میں غسل کروں؟ دوسرے الفاظ میں، کیا میرے روزے کے ابتدائی کچھ منٹ ناپاکی کی حالت میں گزر سکتے ہیں؟
جواب: روزہ کے دوران میں پاک رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگررات میں جنابت(ناپاکی)لاحق ہوگئی ہے تو بیدار ہونے کے بعد بہتر ہے کہ پہلے غسل کرلیا جائے، بعد میں سحری کی جائے۔ لیکن اگر وقت تنگ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ پہلے سحری کی جائے، بعد میں غسل کیا جائے۔ روزہ کا آغاز اگر حالتِ جنابت میں ہو تو اس سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
روزہ نام ہے متعین اوقات میں کھانے پینے اور جنسی تعلق سے بچے رہنے کا۔ دیگر اوقات میں ان کاموں کی اجازت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أُحِلَّ لَكُمْ لَیلَةَ الصِّیامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ یتَبَینَ لَكُمُ الْخَیطُ الْأَبْیضُ مِنَ الْخَیطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیامَ إِلَى اللَّیلِ. (البقرة: 187)
’’تمھارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے۔ وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے۔ اللہ کو معلوم ہوگیا ہے کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کررہے تھے۔ مگر اس نے تمھارا قصور معاف کردیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جولطف اللہ نے تمھارے لیے جائز کردیا ہے اسے حاصل کرو۔ نیز راتوں کو کھاؤ پیو، یہاں تک کہ تم کوسیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظرآئے۔ پھر یہ سب کام چھوڑکر رات تک اپنا روزہ پوراکرو۔‘‘
سنتِ نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ سحری کا وقت ختم ہوجائے، اور اس وقت آدمی حالتِ جنابت میں ہو تو اس کا روزہ درست ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں:
کان النبی ﷺ یُدرکه الفجرُ فی رمضان من غیر حلمٍ فیغتسل ویصوم۔ (بخاری: 1930، مسلم: 1109)
’’نبی ﷺ رمضان کی صبح اس حالت میں کرتے تھے کہ آپ حالتِ جنابت میں ہوتے تھے، احتلام کی وجہ سے نہیں (بلکہ جنسی تعلق کی وجہ سے) پھر آپ غسل کرتے تھے اور روزہ رکھتے تھے۔‘‘
دوسری ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کا بھی یہی بیان ہے۔ (بخاری: 1932،مسلم: 1109)
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! میری صبح جنابت کی حالت میں ہوتی ہے۔ میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ کیا کروں؟ آپؐ نے جواب دیا: ’’میں جنبی ہوتا ہوں اور روزہ رکھنا چاہتا ہوں توغسل کرتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں۔‘‘ اس شخص نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! آپ ہماری طرح نہیں ہیں۔ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دیے ہیں۔‘‘ یہ سن کر آپؐ غضب ناک ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ کی قسم، مجھے امید ہے کہ میں تم میں سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والا ہوں اور تم میں سب سے زیادہ یہ جاننے والاہوں کہ مجھے کن چیزوں سے بچناچاہیے۔‘‘(موطا مالک: 793)
یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب کسی شخص کو رات یا دن کے کسی وقت میں احتلام ہوجائے۔ یعنی اس کے روزہ پر کچھ اثرنہیں پڑے گا۔ وہ جلد از جلد غسل کرلے۔ امام ماوردیؒ نے لکھا ہے:
’’پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی شخص کو رات کے وقت احتلام ہوگیا اور اس نے فجر سے پہلے غسل کا موقع ملنے کے باوجود غسل نہیں کیا اور صبح کی نماز کا وقت جنابت کی حالت میں ہوا، یا پھر دن میں احتلام ہوگیا تو اس کا روزہ صحیح ہے۔‘‘ (المجموع للنووی: 6؍308)
روزے کی حالت میں قے
سوال: کیا قے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن ذَرَعَه القیء فلیس علیه قضاء، ومن استقاء عمداً فلیقض(ترمذی: 720)
’’جس شخص کو روزہ کی حالت میں خود بہ خود قے ہوجائے اس پر روزے کی قضا نہیں ہے۔ اور جو شخص جان بوجھ کر قے کرے تووہ اس روزے کی قضا کرے گا۔‘‘
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ کو قے ہوگئی تو آپؐ نے روزہ جاری نہیں رکھا۔ (ابوداؤد: 2381، دارمی: 1769) محدثین نے اس حدیث کی یہ توجیہ کی ہے کہ آپؐ نفلی روزہ رکھے ہوئے تھے، قے سے آپ کو کم زوری محسوس ہوئی، اس لیے آپؐ نے روزہ ترک کردیا۔
فقہا نے کہا ہے کہ قے اگر خود بخود ہوجائے توچاہے کم ہو یا منھ بھر کر، اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ الّا یہ کہ قے منھ بھرکر ہو اور اس کا کچھ حصہ آدمی نگل لے توروزہ ٹوٹ جائے گا اور اس کے ذمے اس کی قضا لازم ہوگی۔ لیکن اگرآدمی قصداً قے کرے اور قے منھ بھرکر ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس کی قضا کرنی ہوگی۔ (ملاحظہ کریں: الموسوعة الفقہیة کویت،28؍66۔67)
وتر کے بعد نوافل
سوال: اگررمضان المبارک میں تراویح کے ساتھ وتر پڑھ لی جائے توکیا اس کے بعد مزید نوافل پڑھے جا سکتے ہیں؟
جواب: رسول اللہ ﷺ نے رات کی آخری نماز وتر کو بنانے کا حکم دیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے۔
اجعلوا آخرَ صلاتِکم باللیل وتراً۔ (بخاری: 998،مسلم: 751)
’’اپنی رات کی آخری نماز وتر کو بناؤ۔‘‘
آپؐ نے رات میں تہجد کے بعد آخر میں وتر پڑھنے کو افضل بتایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: مَنْ خَافَ أَنْ لَا یقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّیلِ فَلْیوتِرْ أَوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ یقُومَ آخِرَهُ فَلْیوتِرْ آخِرَ اللَّیلِ، فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّیلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أَفْضَل۔ (مسلم: 755)
’’جسے اندیشہ ہوکہ وہ رات کے آخری پہر میں اٹھ نہیں سکے گا تووہ رات کے اول حصے میں ہی وتر پڑھ لے اور جسے امید ہو کہ وہ آخر شب میں اٹھ جائے گا، اسے آخر میں ہی وترپڑھنی چاہیے۔ اس لیے کہ رات کے آخری پہر کی نماز میں فرشتے موجود رہتے ہیں اور ایساکرنا افضل ہے۔‘‘
خود رسول اللہ ﷺ کا یہی معمول تھا کہ آپ رات میں پابندی سے تہجد پڑھتے تھے، اس کے بعد وتر کی نماز ادا کرتے تھے۔
لیکن آں حضرت ﷺ سے کبھی کبھی وتر کے بعد دورکعت پڑھنا ثابت ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے صاحب زادے حضرت ابوسلمہ نے ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہﷺ رات میں کیسے نماز پڑھتے تھے توانہوں نے جواب دیا
كَانَ یصَلِّی ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، یصَلِّی ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ یوتِرُ، ثُمَّ یصَلِّی رَكْعَتَینِ وَهُوَ جَالِسٌ۔(مسلم: 738)
’’آپؐ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، آٹھ رکعتیں پڑھتے، پھر وتر اداکرتے، پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے۔‘‘
امام نوویؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے:
’’صحیح بات یہ ہے کہ نبی ﷺ نے وترکے بعد دورکعتیں بیانِ جواز کے لیے پڑھی ہیں اور انھیں بیٹھ کر اداکیا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ نفل کو بیٹھ کر پڑھا جاسکتا ہے۔ ایساآپؐ نے پابندی سے نہیں کیا ہے، بلکہ صرف ایک مرتبہ، یا دومرتبہ، یا چند مرتبہ کیا ہے۔ ورنہ حضرت عائشہؓ اور دیگر بہت سے صحابہ سے مروی احادیث میں صراحت ہے کہ آپؐ رات کی نمازمیں سب سے آخر میں وتر ادا کرتے تھے اور بہت سی احادیث میں آپؐ نے صحابہ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پھر ان احادیث کے ہوتے ہوئے یہ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ آپؐ وتر کے بعد پابندی سے دورکعت اداکرتے تھے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے وترکے بعد دورکعت محض بیانِ جواز کے لیے کبھی کبھی اداکی ہے۔‘‘
رمضان المبارک میں نماز وترکی باجماعت ادایگی کو علما نے افضل بتایا ہے۔ اس بنا پر اگرکوئی شخص تراویح کے ساتھ وترکو بھی جماعت سے پڑھ لے اور اس کے بعد رات میں سحری کھانے سے قبل وہ کچھ نوافل پڑھنا چاہے تو ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہے۔
صدقۂ فطر کس شکل میں ادا کرنا بہتر ہے؟
سوال: صدقۂ فطر کو اناج کی شکل میں ادا کیا جانا بہتر ہے یا نقد؟
جواب: ماہ رمضان المبارک کے آخر میں صدقۂ فطر کی ادایگی واجب ہے۔
حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا ہے: فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ زَکَاۃَ الفِطرِ طُھرَۃً لِلصَّائِمِ مِنَ الَّلغوِ وَالرَّفَثِ وَطُعمَةً لِلمَسَاکِینَ(ابوداود: 1609)
’’رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر کو لازم کیا ہے۔ اس سے روزہ دار کا روزہ لغو باتوں اور نامناسب کاموں سے پاک ہوجاتا ہے اور غریبوں کو کچھ کھانے کو مل جاتاہے۔‘‘
احادیث میں صدقۂ فطر کے طور پر کھانے کی مختلف چیزوں کو نکالنے کا بیان ملتا ہے۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے: اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ فَرَضَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ۔ (بخاری: 1504)
’’رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطرمیں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو نکالنے کا حکم دیاہے۔‘‘
حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں: ’’ہم صدقۂ فطرکے طورپر ایک صاع غلہ(یعنی گیہوں)، یا ایک صاع جَو، یا ایک صاع کھجور، یا ایک صاع پنیر، یا ایک صاع کشمش نکالا کرتے تھے۔‘‘(بخاری: 1506)
صدقۂ فطر کو مذکورہ بالا غذائی اجناس کی شکل میں ادا کیا جائے یا نقدی کی صورت میں؟ اس سلسلے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور امام اسحاق بن راہویہؒ فرماتے ہیں کہ اسے اجناس کی شکل میں ادا کیا جائے گا۔ نقدی کی شکل میں اس کی ادایگی جائز نہیں ہے۔ یہ حضرات یہ دلیل دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر میں انھی اجناس کو ادا کیا ہے اور دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے اس کی پابندی ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ صدقۂ فطر نقدی کی شکل میں بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ صدقۂ فطر کا مقصد یہ ہے کہ فقرا ومساکین کو عید الفطر کے موقع پر کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، جیسا کہ حدیث میں ہے:
’’اَغنُوھُم فِی ھٰذَا الیَومِ(سنن دارقطنی: 3؍89) ’’انھیں آج کے دن مانگنے سے بے نیاز کردو۔‘‘
تابعین کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدقۂ فطر غذائی اجناس کے بجائے نقد رقم میں ادا کرنے کو جائز سمجھتے تھے۔ حضرت حسن بصریؒ کا قول ہے:
لا بأس أن تُعطیٰ الدَرَاھِمُ فِی صَدَقَةِ الفِطرِ(مصنف ابن ابی شیبة20؍398)
’’صدقۂ فطر کی ادایگی درہم سے کردینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
ابواسحاقؒ کہتے ہیں: أدرَکتُھُم وَھُم یُؤدُّون فِی صَدَقَةِ رَمَضَانَ الدَّراھِمَ بِقِیمَةِ الطَّعَامِ (مصنف ابن ابی شیبة: 2؍398) ’’میں نے ان کا زمانہ پایا ہے جب کہ وہ حضرات صدقۂ فطرمیں غذائی اجناس کی قیمت اداکرتے تھے۔‘‘
موجودہ دور کے نام ور فقہا نے نقدی سے صدقۂ فطر ادا کرنے کو نہ صرف جائز، بلکہ موجودہ حالات میں بہتر قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے لکھا ہے:
’’یہ بات غوروفکر کے بعد مجھ پر واضح ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے غذائی اجناس کے صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دو وجوہ سے دیا تھا: پہلی وجہ یہ ہے کہ غذائی اجناس سے صدقۂ فطر ادا کرنے میں لوگوں کو آسانی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کرنسی کی قیمتیں مختلف ہوتی رہتی ہیں اور اس کی قیمتِ خرید ہرزمانے کے اعتبار سے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس غلّے کا ایک صاع انسانی ضرورت کو پوراکرتا ہے۔ توجس طرح اُس دور میں ان غذائی اجناس سے صدقۂ فطر ادا کرنے میں دینے والے کے لیے آسانی تھی اور لینے والے کے لیے زیادہ فائدہ تھا، اسی طرح آج غذائی اجناس کے بجائے قیمت سے صدقۂ فطر ادا کرنے میں دینے والے کے لیے آسانی ہے اور لینے والے کے لیے زیادہ فائدہ ہے۔‘‘(فقہ الزکاة)
سابق شیخ الازہر شیخ محمود شلتوتؒ فرماتے ہیں:
’’قیمت سے صدقۂ فطر ادا کرنا کافی ہے، کیوں کہ بسا اوقات قیمت فقیر کے لیے زیادہ باعثِ رحمت اور فائدہ مند ہوتی ہے اور اس میں فقیر کی مختلف ضروریات کو پوراکرنے کی رعایت بھی ہے، جن کو فقیر خود دوسروں کی بہ نسبت اچھی طرح جانتا ہے۔ لہٰذا قیمت کو حاجت دور کرنے میں زیادہ دخل ہے۔‘‘
عہد نبوی اور ابتدائی ادوار میں غذائی اشیا کا استعمال بہ طور قیمت ہوتا تھا۔ کوئی شخص کوئی غذائی جنس لے کر بازار جاتا اور اس کے عوض جو چیز بھی خریدنا چاہتا تھا، بہ آسانی خرید لیتا تھا۔ لیکن بعد میں حالات مختلف ہوگئے۔ اب غذائی اجناس کا تبادلہ دوسری اشیا سے ختم ہوچکا ہے۔ ہرچیز کو روپے کے عوض ہی بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ اس لیے موجودہ دورمیں صدقۂ فطر کے طور پر غذائی اجناس کے بجائے نقدی رقم دینا نہ صرف جائز، بلکہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔
کیا زکوٰة کی نیت بعد میں کی جا سکتی ہے؟
سوال: مستحقینِ زکوٰة کو ہم وقتاً فوقتاً کچھ رقم دیتے رہتے ہیں، لیکن اُس وقت دھیان نہیں رہتا کہ جو کچھ دے رہے ہیں، وہ زکوٰة کی مد سے ہے۔ کیا بعد میں جب حساب کتاب کی نوبت آئے تو ادا شدہ رقم کو زکوٰة میں محسوب کیا جا سکتا ہے؟ مطلب یہ کہ کیا زکوٰة کی نیت بعد میں کی جا سکتی ہے؟
جواب: کوئی عمل جس نیت سے کیا جائے اسی کا اعتبار ہوگا۔ عمل پہلے کرلیا جائے، بعد میں اس کے سلسلے میں کوئی نیت کی جائے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا الأعمَالُ بِالنِّیاتِ وَ اِنَّمَا لِکُلِّ امرِیٍٔ مَا نَوَی (بخاری: 1، مسلم: 1907)
’’اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور ہر ایک کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔‘‘
کسی غریب شخص کی امداد کرتے ہوئے اسے کچھ رقم دی جارہی ہو تو دیتے وقت ہی نیت کرنی ضروری ہے کہ وہ رقم کس مد میں دی جا رہی ہے؟ اُس وقت کوئی نیت نہیں کی گئی، یا صدقہ کی نیت کی گئی، بعد میں حساب کرتے وقت اس رقم کو زکوٰة میں شامل کر لینے کا ارادہ کیا جائے تو ایسا کرنا درست نہ ہوگا۔
فقہا نے اتنی رعایت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی غریب کو کچھ رقم دی۔ اُس وقت اس نے زکوٰة کی نیت نہیں کی تھی۔ بعد میں جب تک وہ رقم غریب کی ملکیت اور قبضے میں رہے، اس وقت تک دینے والا زکوٰة کی نیت کر سکتا ہے، لیکن اگر غریب نے وہ رقم خرچ کر لی ہو، تب زکوٰة کی نیت کا اعتبار نہ ہوگا۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2022