طبِ نبوی کی شرعی حیثیت
سوال: آج کل ’حجامہ‘ کا بہت چرچا کیا جارہا ہے۔اس کا تعارف ’ طب نبوی‘ کی حیثیت سے کرایا جاتا ہے اوراسے بہت سے امراض کا مسنون علاج کہا جاتا ہے ۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض امراض کے سلسلے میں علاج کے جوطریقے ثابت ہیں ، ان کواختیار کرنےسے ثواب ملے گا ؟ اورکیا اسے مسنون عمل کا درجہ دیا جاسکتا ہے ؟
جواب: طب اور علاج معالجہ کے سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جواقوال یا معمولات مروی ہیں ان کی شرعی حیثیت کے سلسلے میں علماء کا خیال ہے کہ وہ وحیِ اِلٰہی کا حصہ نہیںہیں، بلکہ ان کا تعلق امورِ دنیا سے ہے۔ علاج معالجہ سے متعلق اُس وقت کے عرب معاشرے میں نسل در نسل تجربات سے گزرتے ہوئے جوباتیں معروف تھیں ان کا بیان بعض ارشاداتِ نبوی میں ملتا ہے ۔ ان کی کوئی دینی حیثیت نہیں ۔ اس کا ثبوت ایک واقعہ سے ملتا ہے جس کا تذکرہ ’تأبیر نخل‘ کے عنوان سے کیا جاتا ہے۔
حضرت رافع بن خدیج ؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں لوگ کھجور کے درختوں میں ’تأبیر‘ (بارآوری ) کا عمل انجام دیتے ہیں۔ اس عمل کے تحت نر کھجور کے درختوں کا شگوفہ مادہ کھجور کے درختوں میں ڈالتے ہیں ۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا : ہم ایسا ایک زمانے سے کرتے آئے ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا : آئندہ ایسا نہ کروتو بہتر ہوگا۔ چنانچہ انہوںنے ہدایتِ نبوی پر عمل کرتے ہوئے اس عمل کو نہیں دہرایا ۔ اگلے سال کم پھل آئے۔ صحابہ نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپؐ نے اپنی بات سے رجوع کرلیا اور فرمایا:
اِنَّما اَنَا بَشَرٌ ، اِذَا اَمْرُتُکُمْ بِشَیٍٔ مِنْ دِیْنِکُمْ فَخُذُوْابِہٖ وَاِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیٍٔ مِنْ رَاییِ فَاِنَّما اَنَا بَشَرٌ (مسلم:۲۳۶۲)
’’میں توبشر ہوں۔ جب میں تمہارے دین کے معاملے میں کسی چیزکا حکم دو ں تواسے اختیار کرلو اور اگر اپنی رائے سے کسی چیز کا حکم د و ں تو (تمہارے لیے اس کا اختیار کرنا ضروری نہیں ) میں تو بشر ہوں‘‘۔
اسی بنا پر علما ء کرام نے طبِ نبوی کو’اُمورِ دنیا ‘ میں سے شمار کیا ہے ۔ علامہ ابن خلدونؒ لکھتے ہیں:
’’اہلِ بادیہ کی بھی ایک طب ہے جوبعض اشخاص کے محدود تجربات پر مبنی اور قبیلے کے بوڑھے مردوں اورعورتوں سے نسل در نسل مروی ہوتی ہے ۔ اس سے بسا اوقات بعض مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں ، لیکن اس کی بنیاد کسی طبیعی قانون یا مزاج کی موافقت پر نہیں ہوتی۔ اہل عرب کے یہاں اس قسم کی طب کا بیش تر حصہ رائج تھا۔ ان میں بہت سے مشہور اطباء جیسے حارث بن کلدہ وغیرہ تھے۔ احادیث میں جوطب منقول ہے وہ اسی قبیل سے ہے ۔ اس کا وحی سے کوئی تعلق نہیں ، بلکہ وہ اہل عرب کی عادات میں سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں بعض ایسی چیزیں بیان کی گئی ہیں جو عادات کی قبیل سے ہیں۔ ان کا تذکرہ اس پہلوسے نہیں ہوا ہے کہ ان پر عمل مشروع ہے۔ اس لیے کہ آپؐ کی بعثت اس لیے ہوئی تھی کہ شریعت کی تعلیم دیں۔ آپ طب سکھانے یا عادات کی قبیل کی دوسری چیز وں کی تعلیم دینے کے لیے نہیں مبعوث کیےگئےتھے ۔ ’تلقیح نخل ‘ کے سلسلے میںجو واقعہ پیش آیا تھا اس میں آپؐ نے فرمایا تھا :’’ دنیا کے معاملات میں تم لوگ ز یادہ جاننے والے ہو۔‘‘ احادیث میں طب کا جوبیان ملتا ہے اسے مشروع قرار دینا صحیح نہیں، اس لیے کہ اس کی مشروعیت کی کوئی دلیل نہیں ۔ البتہ اگر اسے برکت کے طورپر اورصدقِ ایمانی سے اختیار کیا جائے تواس سے عظیم فائدہ حاصل ہوتا ہے ، جیسا کہ اُس حدیث سے معلوم ہوتا ہے جس میں اسہال کے مریض کا شہد سے علاج کرنے کا تذکرہ ہے۔ واللہ اعلم۔‘‘(مقدمہ ابن خلدون ، تحقیق : عبداللہ محمد الدرویش، دار البلخی، دمشق ، ۲۰۰۴ ، طبع اوّل ، ۲/۲۶۸۔۲۶۹)
یہی بات شاہ ولی اللہؒ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغۃ میں لکھی ہے ۔ فرماتے ہیں :’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جوعلوم مروی ہیں اورجوکتبِ حدیث میں درج ہیں، ان کی دو(۲) قسمیں ہیں: ایک وہ علوم جو تبلیغ رسالت سے متعلق ہیں……… دوسرے وہ علوم جوتبلیغِ رسالت کے باب میں سے نہیں ہیں۔ ان کے سلسلے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا:’’ میں توایک انسان ہوں، جب تمہارے دین کے بارے میں کسی چیز کا حکم دو ں تواسے اختیار کرلواور جب اپنی طرف سے کسی چیز کا حکم دوں تو میری حیثیت ایک انسان کی سی ہے۔ اسی طرح ’تأبیر نخل‘ کے واقعہ میں ہے کہ آپؐ نے صحابہ سے فرمایا :’’ میں نے ایک چیز کا گمان کیا ، میرے گمان کواختیار نہ کرو، لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز بیان کروں تواسے اختیار کرلو، اس لیے کہ میں اللہ پر جھوٹ نہیں باندھتا ۔‘‘ انہی علوم میں سے ایک علمِ طب بھی ہے‘‘۔(حجۃ اللہ البالغۃ ، کتب خانہ رشیدیہ دہلی،۱/۱۲۸)
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ احادیث میں جن دواؤں یا علاج معالجہ کے جن طریقوںکا تذکرہ ملتا ہے ، انہیں اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بسااوقات ان سے بڑے فوائد حاصل ہوتے ہیں ، لیکن انہیں دین کا جزء سمجھنا اوراصطلاحی طورپر انہیں ’مسنون ‘عمل قرار دینا درست نہیں۔
مقیم شخص کے لیے حجِّ تمتّع
سوال: میں جدّہ میں رہتی ہوں ۔ میرے شوہر یہاں ملازمت کرتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے ہم نے عمر ہ کیا۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ امسال حج بھی کرلیں ۔ لیکن یہاں بعض لوگوں نے اس سے منع کیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ سے قریب رہنے والے اگر عمرہ کرلیں تو انہیں اس سال حج نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ انہیں حجّ تمتّع کرنے سے روکا گیا ہے ۔ کیا یہ بات صحیح ہے ؟ بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں۔
جواب : حج کی تین صورتیں ہیں: اوّل یہ کہ آدمی صرف حج کرے۔ اسے حج افراد کہتے ہیں۔دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی احرام باندھنے کے بعد عمرہ بھی کرے اورحج بھی ، لیکن دونوں کے درمیان احرام نہ کھولے۔ پوری مدّت میں وہ حالتِ احرام میں رہے ۔ اسے حجِّ قِران کہتےہیں ۔تیسری صورت یہ ہے کہ آدمی عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے، پھر جب حج کازمانہ آئے تو دوبارہ احرم باندھے۔ اسے حج تمتّع کہتے ہیں ۔ اس صورت میں حاجیوں کے لیے سہولت ہے ، اس لیے وہ عموماً اس کو اختیار کرتے ہیں۔ حج تمتّع کرنے والے پرقربانی واجب ہوتی ہے، یا دس روزے، جن میں تین دوران حج اورسات وطن واپس آنے کے بعد رکھے جائیں گے۔
حج تمتّع کا تذکرہ قرآن مجید میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔
فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْيِ۰ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَۃِ اَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ۰ۭ تِلْكَ عَشَرَۃٌ كَامِلَۃٌ۰ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (البقرۃ:۱۹۶)
’’تو جوشخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اُٹھائےوہ حسب مقدور قربانی دے اور اگر قربانی میسّر نہ ہوتو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے۔ یہ رعایت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں‘‘۔
اس آیت میں در اصل عربوں کے ایک خیالِ عام کی تردید کی گئی ہے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایک ہی سفر میں عمرہ اورحج دونوں کرنا درست نہیں ہے ۔ دونوں اعمال تقرّب میں سے ہیں ، اس لیے انہیں الگ الگ انجام دینا چاہیے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’عربِ جاہلیت میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایک ہی سفر میں حج اورعمرہ دونوں ادا کرنا گناہِ عظیم ہے۔ ان کی خود ساختہ شریعت میں عمرے کے لیے الگ اورحج کے لیے الگ سفر کرنا ضروری تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قید کو اڑادیا اورباہر سے آنے والوں کے ساتھ یہ رعایت فرمائی کہ وہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کرلیں۔ البتہ جولوگ مکہ کے آس پاس میقاتوں کی حدودکے اندر رہتے ہوں انہیں اس رعایت سے مستثنیٰ کردیا ، کیوں کہ ان کے لیے عمرہ کا سفر الگ اور حج کا سفر الگ کرنا کچھ مشکل نہیں ۔ حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اُٹھانے سے مراد یہ ہے کہ آدمی عمرہ کرکے احرام کھول لے اوران پابندیوں سے آزاد ہوجائے جواحرام کی حالت میں لگائی گئی ہیں ۔ پھر جب حج کے دن آئیں تو از سر نو احرام باندھ لے‘‘۔ (تفہیم القرآن ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ۲۰۱۵ء ، ۱/۱۵۵)
آیت بالا میں یہ بات کہی گئی ہے کہ حج تمتّع کی سہولت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو حدودِ میقات کے باہر رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جولوگ حدودِ میقات کے اندر رہتے ہیں وہ ایک سال میں عمرہ اور حج الگ الگ نہیں کرسکتے۔ علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے :
’’جمہور علماء نے کہا ہے کہ جوشخص حج کے مہینوں یعنی( شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ) میں عمرہ کرے ، پھر اپنے علاقے اور گھر کی طرف لوٹ جائے، پھر وہ اسی سال حج کرے، تووہ متمتّع (حج تمتّع کرنے والا ) نہیں ہوگا۔ نہ اس پر قربانی واجب ہوگی، نہ اس کے ذمہ روزے لازم ہوںگے‘‘۔(الجامع لاحکام القرآن مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، ۲۰۰۶ء ۳/۳۰۷)
اس سے معلوم ہوا کہ حدود میقات کے اند رہنے والوں کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ اگروہ عمرہ کرلیں تو اس سال وہ حج نہیں کرسکتے۔
عدّت کے دوران میں حج
سوال: میری خالہ اور خالو دونوں نے امسال حج کرنے کا پروگرام بنایا تھا ۔ ان کی منظوری بھی آگئی تھی ، لیکن اچانک خالوکا انتقال ہوگیا ۔ ابھی خالہ عدّت میں ہیں۔ کیا وہ حج کرنے کے لیے جاسکتی ہیں؟
جواب: عورت کا سفرِ حج جائز ہونے کے لیے جہاں یہ شرط ہے کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہووہیں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عدّت میں نہ ہو۔ عدّت کی حالت میں حکم دیا گیا ہے کہ عورت زیب وزینت سے احتراز کرے اور اوربلا ضـرورت گھر سے باہر نہ نکلے۔ شوہر کی وفات کی صورت میں عورت کی عدّت چار ماہ دس دن ہے ۔(البقرۃ:۲۳۴)
عدّت کودوسرے وقت کے لیے ٹالا نہیں جاسکتا، جب کہ حج کو ٹالا جاسکتا ہے ، اس لیے عدّت گزا ر نے والی عورت کے لیے سفرِ حج کے لیے نکلنا جائز نہیں ہے۔ الموسوعۃ الفقہیۃ کویت میں ہے: ’’جمہور فقہا ء کا اتفاق ہے کہ عدّتِ وفات کی صورت میں عورت کا حج کے لیے نکلنا جائز نہیں ہے ۔ اس لیے کہ حج کا مو قع بعد میں بھی مل سکتا ہے ۔ لیکن عدّت کا متعین وقت شوہر کی وفات کے بعد متصلاً ہے ۔‘‘(۲۹/۳۵۲)
عورت کا جانور کو ذبح کرنا
سوال: کیا عورت قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرسکتی ہے؟
جواب: اسلامی شریعت میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ عورت جانور کو ذبح نہیں کرسکتی ۔ اس لیے چاہے جانور قربانی کا ہویا عام ہو، عورت اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کرسکتی ہے۔ الموسوعۃ الفقہیۃ کویت میں ہے : ’’جمہور فقہاء کے نزدیک ذبح کرنے والے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ صاحبِ عقل ہو ، خواہ مرد ہو یا عورت ، بالغ ہو یا نابالغ (۲۱/۱۸۴)
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2018