رسائل و مسائل

محمد رضی الاسلام ندوی

زکوٰۃ کی رقم کو تھوڑا تھوڑا خرچ کرنا

سوال:

کچھ لوگ اپنی زکوٰۃ نکال کر اسے اپنے پاس ہی رکھتے ہیںاور وقتاً فوقتاً ، جب ان کے پاس فقر اء و مساکین اور ضرورت مند آتے ہیں تو اس میں سے انہیں دیتے رہتے ہیں ۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب:

جب کوئی رقم نصابِ زکوٰۃ کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزرجائےتو اس کی زکوٰۃ نکال دینی چاہیے۔ آسانی کے لیے یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کوئی ایک وقت متعین کرلیا جائے اوراس میں زکوٰۃ نکال دی جایا کر ے  ۔

زکوٰۃ کی ادائیگی یک مشت بھی کی جاسکتی ہے اورقسطوںمیں بھی ۔ زکوٰۃ ادا کرنے والا جس میں  سہولت محسوس کرے اس پر عمل کرسکتا ہے ۔ کوئی شخص یک بارگی زکوٰۃ نکالنے میں دشواری محسوس کرتا ہے تو اسے اجازت ہے کہ وہ اسے کئی قسطوں میں تقسیم کرلے اورمہینے دو مہینے پر ایک ایک قسط ادا کرتا رہے ۔ اسی طرح اسے اس بات کی بھی اجازت ہے کہ وہ اپنے مال کا حساب کرکے، زکوٰۃ کی جوبھی رقم بنتی ہے ، اسے الگ کرلے اور وقتاً فوقتاً اس کے پاس جو ضرورت مند آتے ہیں ، انہیں اس میں سے دیتا رہے۔

کیا مقیم شخص موسم حج میں عمرہ نہیں کر سکتا؟

سوال:

زندگی نو اکتوبر ۲۰۱۸ء میں رسائل ومسائل کے کالم میں’ مقیم شخص کے لیے حج تمتع ‘کے عنوان سے ایک سوال کا جواب دیا گیا تھا۔ اس پر اشکال کرتے ہوئے ایک صاحب نے لکھا ہے:

سورۂ البقرۃکی آیت ۱۹۶ میں میقات سے باہر رہنے والوںکو عمرہ اورحج ایک ہی سفر میںکرنے کی اجازت ہے ۔ یہ اجازت ان کے لیے نہیں ہے جن کے گھر مسجد حرام کے قریب ہوتےہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسجد حرام کے قریب رہنے والے حج کے موسم یعنی  شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کی ۱۲،۱۳ تاریخ تک عمرہ نہیں کرسکتےاورنہیں کرنا چاہئے۔جوکوئی قریب رہنے والا موسم حج میں نیکی سمجھ کر عمرہ کرے گا غلطی کرے گا، اسی لیے آخر میں ہے : واتقواللہ واعلموا ا ن اللہ شدیدالعقاب’’ اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سخت سز ا دینے والا ہے ‘‘۔ اگر یہ بات نہ ہوتو حج وعمرہ کے ذیل میں’ شدید  العقاب‘ پرآیت ختم ہونے کا کوئی مطلب نہیںہوگا۔

مقامی لوگ حج ختم ہونے کے بعدآخر رمضان تک جب چاہیں عمرہ کرسکتے ہیں ، لیکن جیسے ہی شوال شروع ہو وہ عمرہ نہیں کرسکتے، وہ صرف بابر کے افراد ہی کریں گے۔

اگر کوئی مقامی فرد ایام حج میں عمرہ کرے تو اس نے غلطی کی ،چاہے وہ حج کرے یا نہ کرے۔ اگروہ حج کرے گا تو دم دینے والی رائے زیادہ قوی لگتی ہے ۔ یہ دم جنایت ہوگا، جب کہ باہر سے آنے والے عمرہ اورحج کرنے پر جوقربانی کرتے ہیں وہ دم شکر گردانا جائےگا۔

میقات سے باہر رہنے والا چاہے تو قِرآن کرے یا تمتع  یا افراد حج ، لیکن میقات کےاندر رہنےوالا صرف  حج افراد  ہی کرسکتا ہے۔

جواب:

سورۂ بقرہ آیت ۱۹۶ میں کہا گیا ہے :’’ جوشخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اُٹھائے وہ حسب مقدور قربانی کرے اور اگرقربانی میسر نہ ہوتو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر ، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے‘‘۔ اس کے بعد آیت کا ٹکڑا ہے : ذٰلِکَ لِمَنْ لَمْ یَکُنْ اَہْلُہُ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ’’یہ رعایت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھربار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں‘‘۔

اس آیت میںبتایا گیا ہے کہ باہر سے آنے والے ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوںکرسکتے ہیں۔ بس انہیںقربانی کرنی ہوگی، یا دس روزے رکھنے ہوں گے۔ اس کے ذریعے در اصل عرب جاہلیت کے اس خیال خام کا رد کیا گیا ہے جوسمجھتے تھے کہ عمرہ اور حج کے لیے الگ الگ سفر کرنا ضروری ہے۔ ایک ہی سفر میں دونوں کی انجام دہی گناہ ہے ۔ اس سہولت سے ان لوگوں کو مستثنیٰ کردیا گیا ہے جومکہ کے آس پاس میقاتوں کی حدود میںرہتے ہوں ، اس لیےکہ ان کے لیے عمرہ اورحج دونوں کے لیے الگ الگ سفر کرنا کچھ مشکل نہیں ۔

اس سے یہ استنباط کرنا صحیح نہیں ہے کہ میقات کے اندر رہنے والوں کے لیے ایام حج (شوال، ذی قعدہ اورذی الحجہ کی ابتدائی ۱۲،۱۳ دن ) میں عمرہ کرنا درست نہیں ۔ وہ بھی  ان ایام میںعمرہ کرسکتے ہیں: علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے:

اختلف العلماء فیمن اعتمرفی أشہر الحج، ثم رجع الی بلدہ ومنزلہ، ثم حج من عامہ، فقال الجمہور من العلماء : لیس بمتمتع ، ولا ہدی علیہ ولا صیام   (الجامع لاحکا م القرآن،۳؍۳۰۷)

’’جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرے ، پھر اپنے علاقہ اورگھر کی طرف لوٹ جائے ، پھراسی سال حج کرےتو جمہور علماء کہتے ہیں کہ وہ متمتع ( حج تمتع کرنے والا) نہیںہوگا۔ نہ اس پر قربانی واجب ہوگی، نہ اس کے ذمے روزے لازم ہوں گے۔‘‘

البتہ یہ بات صحیح ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک حج تمتع اورحج قران کی سہولت صرف میقات سے باہر رہنے والوں کے لیے ہے ۔ میقات کے اند ررہنے والے صرف حج افراد کریں گے، اگروہ حج تمتع یا حج قرآن کریں تو وہ بھی دم دیں گے (یعنی قربانی کریں گے) ، لیکن وہ دم تمتع کا نہ ہوگا۔ بلکہ جنایت کا ہوگا، چنانچہ خودان کے لیے اس کا گوشت کھانا جائز نہ ہوگا۔جب کہ امام شافعیؒ کے نزدیک وہ بھی حج تمتع اورحج قرآن کرسکتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ آیت میں اشارہ ھدی(قربانی) اورصیام (روزہ) کی طرف ہے کہ اس کا حکم صرف میقات کے باہر رہنےوالوں کے لیے ہے۔ (تفسیر قرطبی،۳؍۳۱۸)

آیت کے آخر میں ’واتقو ا اللہ واعلموا ان اللہ شدید العقاب‘ عمومی بیان ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواحکام  دیے گئےہیں ان پر عمل کرو، ورنہ اس کی سزا سے نہیں بچ سکتے۔

سال گرہ پر مبارک باد دینا

سوال:

سال گرہ سے متعلق چند سوالات ہیں۔ بہ راہِ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں:

-کیا کوئی مسلمان اپنی سالگرہ منا سکتا ہے؟

-کیا کوئی غیر مسلم ہماری تاریخ پیدائش پر ہمیں مبارک باد دے تواسے قبول کرنا چاہیے؟

– کیا کسی غیر مسلم کی سالگرہ پر اسے مبارک باد دینا، شال اورپھولوں کے گل دستے سےاس کا استقبال کرنادرست ہے؟

جواب:

مسلمانوں نے دوسری اقوام کی نقّالی میں جو بہت سی رسمیں ایجاد کرلی ہیں ان میں سےایک سال گرہ منانا اور اس کی مبارک باد دینا بھی ہے۔ اسلامی شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ بچے کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ مسنون عمل ہے۔ اس کا مقصد خوشی کا اظہار اوررشتے داروں اوراحباب کی خاطر تواضع ہے ۔اس کے علاوہ ہر سال یومِ ولادت پر خوشی کا اظہار کرنا، تقریب منعقد کرنا، شال اوڑھنا اور گل دستہ پیش کرنا ، تحفے تحائف دینا، دعوتیں کرنا اورجشن منانا، ان چیزوں کا ثبوت خیر القرون میں نہیں ملتا، دوسری قوموں کی نقّالی میںان کا رواج ہوگیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری قوموں کی تہذیبی مماثلت ومشابہت کونا پسند فرمایا ہے (ابوداؤد:۴۰۳۱، ترمذی: ۲۶۹۵) اس لیے مسلمانوں کو ایسے کاموں سے بچنا چاہیے۔ چوں کہ ایسے کاموں کودینی اعمال سمجھ کر نہیں انجام دیا جاتا، اس لیے انہیں  مطلق ناجائز اورحرام تو نہیں کہا جاسکتا، البتہ غیر قوموں سے مشابہت کی وجہ سے ناپسندیدہ ضرور ہیں۔ ان سے احتراز کرنا چاہیے۔رہا کسی کی یومِ ولادت پر اسے مبارک با دینا تو اگرچہ یہ بھی اسلامی تہذیب میں ایک در آمد چیز ہے، لیکن چوں کہ اس کا مطلب یہ لیا جاسکتاہے کہ اللہ آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے، اس لیے اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔

میراث کا ایک مسئلہ

سوال:

میرے چچا کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے۔ چچی ابھی زندہ ہیں۔ان کی چار لڑکیاں ہیں ۔ لڑکا کوئی نہیں ہے ۔ مرحوم کا ایک بھائی اوردوبہنیں بھی حیات ہیں۔ رہائشی مکان کے علاوہ ان کی کچھ زمین جائیداد ہے اورکچھ نقدرقم بھی ۔ اسے وارثین میں کیسےتقسیم کریں گے؟ کیا بیوہ اور لڑکیوں کی موجودگی میںبھائی اوربہنوں کا بھی کچھ حصہ ہوگا؟

بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں۔

جواب:

وراثت کے احکام قرآن مجید میں سورۂ نساء میں بیان کردیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق:

۱۔ اگر اولاد ہوتو بیوی کوآٹھواںحصہ ملے گا۔فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ (النساء: ۱۲)

۲۔ اولاد میں اگر لڑکیاں ہوں اوروہ دو یا دو سے زائد ہوں تو ان کا حصہ دو تہائی ہوگا۔

فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ( ا لنساء :۱۱)

۳۔ وارثین میں بھائی بہن بھی ہوں تو اصحاب الفرائض (جن کے حصےمتعین ہیں) کو دینے کے بعد جوکچھ بچے گا وہ ان کے درمیان اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ عورت کا حصہ اکہرا اور مرد کا حصہ دوہرا  ہوگا۔وَاِنْ كَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّنِسَاۗءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَـيَيْنِ   (النساء: ۱۷۶)

مذکورہ حصوں کواگر فی صد میں بیان کرنا ہوتو چاروں لڑکیوں کو 66.7% (ہر لڑکی کو 16.7%ملے گا) بیوہ کو 12.5% ، بھائی کو 10.4%اور دونوں بہنوں کوبھی 10.4% ملے گا۔ (ہربہن کے حصے میں 5.2%آئے گا۔)

ایک حدیث کی تحقیق

سوال:

ایک حدیث  یہ بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ ہر عمل کے اللہ تعالیٰ کے یہاں پہنچنے کے لیے درمیان میں حجاب ہوتا ہے ، مگر لا الہ الا اللہ اورباپ کی دعا بیٹے کے لیے۔ ان دونوں کے لیے کوئی حجاب نہیں‘‘۔

بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ یہ حدیث کیا درجہ اورمقام رکھتی ہے؟ کیا اسلام میں صرف لڑکے ہی خصوصیت واہمیت رکھتے ہیں اوربھلائیوں اوررحمتوں کےمستحق ہیں؟ لڑکیوںکی کوئی حیثیت واہمیت ؟ اگر باپ اپنی بیٹیوں کے لئےدُعا کرے تو کیا  بہ راہِ راست  اللہ تک نہیں پہنچتی؟ پھر اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کیا مقام رکھتا ہے کہ اس نے عورت اورمرد کو برابر کا مقام عطا کیا ۔

امید ہے ، اس اشکال کا ازالہ فرمانے کی زحمت گوارا کریں گے۔

جواب:

یہ حدیث حضرت انس بن مالک ؓ کے واسطے سے مختلف کتبِ حدیث میںمروی ہے ۔ مثلاً الجامع الصغیر للسیوطی(۶۳۰۶)، المعجم لابی یعلیٰ (۲۵۷)، مسند الفردوس للدیلمی(۴۷۴۶) وغیرہ۔ لیکن یہ ضـعیف ہے ۔ ا سی لیے علامہ البانیؒ نے جب سیوطی ؒ کی الجامع الصغیر میں مذکورصحیح اورضعیف احادیث کوالگ الگ کیاتو اس روایت کوانہوںنے ضعیف الجامع (۴۲۳۱) میں جگہ دی۔

اس کے الفاظ یہ ہیں:

کُلُّ شَیِئٍ بَیْنَہُ وَبَیْنَ اللہِ تَعَالیٰ حِجَابٌ اِلاَّ شَہَادَۃَ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ ، وَدُعَاءَ الْوَالِدِ لِوَلَدِہِ

لیکن اس کے متن پر آپ نے جواشکال وارد کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ عربی زبان میں ’والد‘ کا اطلاق ماںباپ دونوں پر ہوتا ہے ۔ اسی طرح ’ولد ‘ میں لڑکا اورلڑکی دونوں شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ نے دُعَاءَ الْوَالِدِ لِوَلَدِہِ کا جوترجمہ کیا ہے (باپ کی دعا بیٹے کے لیے) وہ درست نہیںہے۔ اس کا درست ترجمہ یہ ہوگا: ’ ماں باپ کی دعا اپنی اولاد کے لیے‘‘۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2019

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau