رضاعت کا اثر کن رشتے داروں پر؟
سوال: اگر ایک لڑکے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو اور اس عورت (لڑکے کی رضاعی ماں)کی حقیقی لڑکی نے بھی ساتھ میں دودھ پیا ہو ،کیا دونوں کے درمیان بھائی بہن کا رشتہ صرف انہی تک محدود رہے گا ،یا اس لڑکے کا رشتہ لڑکی کی ساری بہنوں سے بھائی بہن کا ہوجائے گا اور اس کا نکاح ان میں سے کسی کے ساتھ ناجائز ہوگا ؟
جواب : لڑکے کا نکاح رضاعی (دودھ شریک )بہن کی کسی بہن سے نہیں ہوسکتا ۔اس لیے کہ وہ سب رضاعی ماں کی لڑکیاں ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:’’رضاعت سے وہ کچھ حرام ہوجاتا ہے جو نسب سے حرام ہوتا ہے ۔‘‘ (بخاری :۲۶۴۵،مسلم :۱۴۴۷)
البتہ لڑکی کا نکاح رضاعی بھائی (وہ لڑکا جس نے لڑکی کی ماں کا دودھ پیا ہو )کے کسی بھائی سے ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ ان سے لڑکی کا رضاعت کا رشتہ نہیں ہے۔
رضاعت کی ایک دوسری صورت بھی ہے ۔
ایک عورت اپنے لڑکے کے ساتھ کسی دوسری لڑکی کو دودھ پلائے تو ان دونوں کے درمیان رضاعت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے ۔ان کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا ۔اسی طرح لڑکی کا نکاح لڑکے کے کسی بھائی کے ساتھ نہیں ہوسکتا ۔اس لیے کہ وہ سب اس کے رضاعی بھائی ہوئے ۔لیکن لڑکے کا نکاح لڑکی کی کسی بہن سے ہوسکتا ہے ۔اس لیے کہ اس کا لڑکی کی کسی بہن سے رضاعت کا رشتہ نہیں ہے ۔
رضاعت کے ثبوت کے لیے دودھ پینے کی کم از کم مقدار
سوال : میری بہن کو ایک لڑکا پیدا ہوا ۔میں نے اسے صرف ایک مرتبہ دودھ پلایا ۔اب میں اس لڑکے سے اپنی بیٹی کا نکاح کرنا چاہتی ہوں۔کیا یہ رشتہ جائز ہے ؟
جواب: اگر کوئی بچہ یا بچی کسی عورت سے پانچ دفعہ دودھ پی لے تو رضاعت ثابت ہو جاتی ہے ،وہ عورت اس کی رضاعی ماں بن جاتی ہے اور اس کی کسی اولاد سے اس کا نکاح حرام ہوجاتا ہے ۔(عورت دودھ پلانا شروع کرے اور بچہ آسودہ ہو کر از خود پستان چھوڑ دے۔یہ ایک دفعہ ہوا۔)اس سے کم دودھ پیے تو اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے ۔
جمہور فقہاء (احناف ،مالکیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد )اور بہت سے صحابہ و تابعین کے نزدیک بچہ دودھ زیادہ سے زیادہ پیے یا کم سے کم ،خواہ صرف ایک دفعہ پیے ،اس سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے ۔حرمت کی شرط یہ ہے کہ کسی عورت کا دودھ بچے کے پیٹ میں پہنچ جائے ،چاہے اس کی مقدار کتنی ہی کم ہو۔ان کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:’’تم پر حرام کی گئیں ….اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں ‘‘(النساء ۲۳)اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :’’رضاعت سے وہ کچھ حرام ہوجاتا ہے جو نسب سے حرام ہوتا ہے ‘‘۔(بخاری :۲۶۴۵،مسلم:۱۴۴۷)
امام شافعی ؒ اور( ایک قول کے مطابق) امام احمد ؒ کے نزدیک رضاعت ثابت ہونے کے لیے بچے کا کم از کم پانچ دفعہ دودھ پینا ضروری ہے ۔اس سے کم پر رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔صحابہ کرام میں حضرت عائشہ ؓ ، حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت ابن زبیر ؓ اورتابعین میں حضرت عطاؒء اور حضرت طائوس ؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ ان کی دلیل ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی وہ روایت ہے جس میں ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:’’ایک دو چسکیوں سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی ۔‘‘ان سے ایک اور حدیث مروی ہے جس میں وہ فرماتی ہیں کہ قرآنی حکم کے مطابق پہلے دس چسکیوں پر رضاعت ثابت ہوتی تھی۔بعد میں تخفیف کرکے پانچ دفعہ پینے کی حد مقرر کردی گئی۔(مسلم :۱۵۵۲)
تفصیل کیلیے ملاحظہ کیجئے الموسوعۃ الفقہیۃ ،کویت،۲۲؍۲۴۴۔۲۴۵،قاموس الفقہ،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ،کتب خانہ نعیمیہ ،سہارن پور ،یوپی ،۲۰۰۶ء جلد سوم ،ص ۴۸۴۔۴۸۵
میراث کا ایک مسئلہ
سوال: میری اہلیہ کا چند ایام قبل انتقال ہوگیا ۔ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔میرے والدین (میری اہلیہ کی ساس اور سسر)با حیات ہیں اور میری اہلیہ کے والدین بھی ہیں اور ان کے تین بھائی بھی ہیں۔بہ راہ کرم بتائیں کہ ان کی میراث کیسے تقسیم ہوگی ؟
یہ بھی بتائیں کہ اگر مستحقین ِ میراث میں سے کوئی اپنا حصہ نہ لینا چاہے تو کیا اس کی اجازت ہے؟
جواب: میراث کے احکام قرآن مجید میں مذکور ہیں۔
کسی عورت کا انتقال ہو اور اس کی اولاد ہو تو اس کے شوہر کو ایک چوتھائی (۲۵فیصد)ملے گا،(النساء:۱۲)اور اس کے والد ین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ(۶۶ء ۱۶فیصد) ہوگا ۔(النساء :۱۱)
جو کچھ باقی بچے گا اسے اولاد کے درمیان اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے۔(النساء :۱۱)صورت مسئولہ میںہر لڑکے کو ۶۶ء ۱۶فی صد اور ہر لڑکی کو ۳۳ء۸ فی صد ملے گا ۔
اس صورت میں بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا ۔ساس سسر مستحقینِ میراث میںسے نہیں ہیں۔
مستحقینِ میراث میں سے کوئی اپنا حصہ نہ لینا چاہے تو اس کی اجازت ہے ۔اِسی طرح وہ اپنا حصہ لے کر دوسرے کو بھی دے سکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2019