رسائل و مسائل

محمد رضی الاسلام ندوی

گود لینے کا شرعی حکم

ایک مسلم جوڑا، جس کی شادی کو سات آٹھ برس ہوگئے ہیں، اب تک اس کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی ہے۔ وہ کسی بچہ کو گود لینا(adoption)چاہتے ہیں۔ کیا وہ ایسا کر سکتے ہیں؟

جواب: کسی جوڑے کی شادی کو ایک برس سے زائد عرصہ گزرچکا ہو، لیکن اس کے یہاں اولاد نہ ہوئی ہو تو اسے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ بسا اوقات مرد یا عورت میں کوئی معمولی نقص ہوتا ہے، جو علاج سے دور ہو سکتا ہے۔

اگر کوئی جوڑا اولاد سے محروم ہو اور وہ کسی رشتے دار یا اجنبی بچے کو گود لینا چاہے تو ایسا کر سکتا ہے۔ شریعت میں اس کی اجازت ہے، البتہ وہ حقیقی اولاد کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا اور گود لینے والا اس کی ولدیت میں اپنا نام نہیں لکھ سکتا۔ قرآن مجید میں صراحت سے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَائَ کُمْ أَبْنَاء کُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ وَاللَّہُ یَقُولُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِیْ السَّبِیْلَ۔ اُدْعُوہُمْ لِآبَائِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَائَ ہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُم(الاحزاب: ۴۔ ۵)

’’ اور نہ اس نے تمھارے منھ بولے بیٹوں کو تمھارا حقیقی بیٹا بنایا ہے۔ یہ تو وہ باتیں جو تم لوگ اپنے منھ سے نکال لیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حق ہے اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہ نمائی کرتا ہے۔ منھ بولے بیٹوں کو ان کے باپ کی نسبت سے پُکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے اور اگر تمھیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمھارے دینی بھائی اور رفیق ہیں ‘‘۔

عہد جاہلیت میں لوگ منھ بولے بیٹے کو حقیقی درجہ دیتے تھے، لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اس بات کو حرام قرار دیا گیا کہ کوئی شخص اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنا نسب منسوب کرے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنِ ادَّعیٰ اِلیٰ غَیْرِ اَبِیْہِ وَھُوَ یَعْلَمُ اَنَّہُ غَیْرُ اَبِیْہِ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَام (بخاری: ۶۷۶۶، مسلم: ۶۳)

’’جو شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے، اس پر جنت حرام ہے ‘‘۔

اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت زیدؓ کی پرورش کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح انھیں پروان چڑھایا تھا۔ اسی لیے انھیں لوگ زید بن محمد کہنے لگے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انھیں ان کے باپ کی طرف منسوب کرکے زید بن حارثہؓ کہنے لگے۔ (بخاری: ۴۷۸۲، مسلم: ۲۴۲۵)

جس بچے کو گود لیا جائے اس پر وہی احکام نافذ ہوں گے جو اجنبی کے ہوتے ہیں۔ وہ بچہ گود لینے والے کا وارث نہیں ہو سکتا، ہاں گود لینے والا اس کے حق میں ایک تہائی مال تک کی وصیت کر سکتا ہے اور اپنی زندگی میں جتنا چاہے ہبہ کر سکتا ہے۔ اسی طرح نکاح اور وراثت کے مسائل میں اسے ’اجنبی‘ سمجھتے ہوئے معاملہ کیا جا ئے گا، حقیقی اولاد کی حیثیت نہیں دی جائے گی۔

===

خلع کا طریقہ

ایک صاحب نے دوسری شادی کرلی اور کئی برس سے دوسری بیوی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ پہلی بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ الگ رہ رہی ہے۔ شوہر سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اب وہ خلع چاہتی ہے۔ براہِ کرم بتائیں کہ خلع کا طریقہ کیا ہے؟ کیا شوہر اس کی بات مان لے تو خلع ہوجائے گا یا اسے طلاق دینا ہوگی؟ اگر ہاں تو وہ کتنی طلاق دے گا؟ براہِ کرم یہ بھی بتائیں کہ خلع کے بعد عدت کی مدت کتنی ہوگی؟

جواب: اگر کوئی عورت کسی وجہ سے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ وہ شوہر سے علٰیحدگی کا مطالبہ کرے تو شوہر کو اس کے مطالبے پر طلاق دے دینی چاہیے۔ البتہ اسے شوہر سے نجات حاصل کرنے کے لیے کچھ قربانی دینی ہوگی اور وہ یہ کہ شوہر نے اسے مہر کی جو رقم دی تھی اسے پورا واپس کر دے، یا اس کا ایک حصہ واپس کردے، اگر شوہرکم پر راضی ہوجائے۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ(البقرۃ: ۲۲۹)

’’اگر تمھیں یہ خوف ہو کہ دونوں (میاں بیوی) حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضایقہ نہیں کہ عورت شوہر کو معاوضہ دے کر علٰیحدگی حاصل کر لے ‘‘۔

فقہاکہتے ہیں کہ شوہر نے عورت کو جو مال دیا ہو، اس سے زیادہ اس سے بہ طور فدیہ وصول کرنا پسندیدہ نہیں ہے، لیکن اگر شوہر اس سے زیادہ لیے بغیر طلاق نہ دے رہا ہو تو اس پر بھی معاملہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب علٰیحدگی کا مطالبہ عورت کی طرف سے ہو، لیکن اگر شوہر کی طرف سے کسی زیادتی یا حقوق کی عدم ادائیگی کی بنا پر عورت اس سے علٰیحدگی چاہتی ہو تو شوہر کا اس سے کچھ لینا جائز نہیں ہے۔

خلع کے مطالبے کو منظور کرتے ہوئے شوہر عورت کو صرف ایک طلاق دے گا۔ یہ طلاق بائن ہوگی، یعنی شوہر کو اس سے رجوع کرنے کا حق نہ ہوگا، البتہ اگر بعد میں دونوں پھر سے ایک دوسرے سے راضی ہوجائیں اور دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو یہ جائز ہوگا۔

خلع کی عدت امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک طلاق کی عدت کے مثل تین ماہ ہے۔ صحابۂ کرام میں سے حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور تابعین میں سے حضرت سعید بن المسیبؒ کی بھی یہی راے تھی، جب کہ امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور داؤد ظاہریؒ کے نزدیک یہ ایک مستقل معاملہ ہے، اس لیے اس کی مدت صرف ایک ماہ ہوگی۔ حضرات صحابہ میں سے حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی بھی یہی راے تھی۔

 

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2019

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau