مسجد میں دوسری جماعت کا حکم
سوال: اگر مسجد میں نماز ہوگئی ہو تو کیا اس میں دوسری جماعت کی جا سکتی ہے؟ اگر ہاں تو دوسری جماعت کس جگہ کرنی چاہیے؟
جواب: نماز اسلام کے ارکان میں سے ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے مسجد میں جماعت کے ساتھ اس کی ادائیگی کا حکم دیا ہے اور انفرادی نماز کے مقابلے میں باجماعت نماز کو افضل قرار دیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
صلاۃ الجماعۃ أفضل من صلاۃ الفذّ بسبع و عشرین درجۃ۔ (بخاری: ۶۴۵، مسلم: ۶۰)
(با جماعت نماز تنہا نمازسے ستائیس (۲۷)گنا افضل ہے۔)
اس لیے صحابۂ کرام باجماعت نماز ادا کرنے کا غیر معمولی اہتمام کرتے تھے اور کھلے منافقین کے علاوہ کوئی اس سے پیچھے نہیں رہتا تھا۔
کسی مسجد میں نما زکے لیے ایک مرتبہ جماعت ہوچکی ہو ،بعد میں کچھ افراد وہاں پہنچیں تو کیا وہ دوسری جماعت کر سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں بعض حالتوں میں فقہاء کا اتفاق ہے اور بعض حالتوں میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ اس کی تفصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہے:
اگر کسی مسجد میں نماز پڑھنے والے متعین نہ ہوں، مثلاً کوئی مسجد بازار میں یا شاہ راہ عام پر ہو، وہاں لوگ برابر آتے جاتے ہوں تو اس میں کسی نماز کی دوسری جماعت کرنا مکروہ نہیں ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ اسی طرح ان کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ کسی مسجد میں امام اور موذن متعین نہ ہوں تو اس میں بھی ایک سے زائد جماعتیں کی جا سکتی ہیں کہ کچھ لوگ جماعت سے نماز پڑھ لیں، بعد میں کچھ اور لوگ آئیں تو وہ دوسری جماعت کریں۔ اسی طرح تمام فقہاء کے نزدیک اس میں بھی کوئی کراہت نہیں ہے کہ اگر کسی مسجد میں باہر سے آئے ہوئے کچھ لوگ کسی وقت کی نماز جماعت سے پڑھ لیں ، اس کے بعد مسجد کے مستقل نمازی آئیں تو وہ بھی باجماعت نماز ادا کر سکتے ہیں۔کسی مسجد میں ایک نماز کے لیے دو جماعتوں کے اوقات متعین کر دیے جائیں ۔ مثلاً طے کر لیا جائے کہ ظہر کی پہلی جماعت ایک بجے اور دوسری جماعت ڈیڑھ بجے ہوگی تو فقہاء نے بالاتفاق اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔
فقہاء کا اختلاف اس مسئلے میں ہے کہ کسی مسجد میں متعین امام اور مؤذن ہوں اور اس کے کچھ مستقل نمازی ہوں۔ یہ لوگ کسی وقت کی نماز جماعت سے ادا کر لیں، اس کے بعد اکاّ دکاّ افراد مسجد میں آئیں ۔ کیا وہ اس وقت کی نماز کے لیے دوسری جماعت کر سکتے ہیں؟ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ بعد میں آنے والے تمام افراد تنہا نماز پڑھیں گے۔ ان کا باجماعت نماز ادا کرنا درست نہیں ہے۔ حسن بصری، ابو قلابہ، قاسم بن محمد، ابراہیم نخعی، سفیان ثوری، عبد اللہ بن مبارک ، سالم، لیث بن سعد، اوزاعی اور ائمۂ اربعہ میں سے ابو حنیفہ، مالک اور شافعی رحمہم اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ان حضرات کا استدلال درج ذیل احادیث سے ہے:
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
والذی نفسی بیدہ، لقد ھممت أن آمر بحطب فیحطب، ثم آمر بالصلاۃ فیؤذن لھا، ثم آمر رجلاً یقوم الناس، ثم أخالف الی رجال فیحرق علیھم بیوتھم(بخاری: ۶۴۴، مسلم: ۶۵۱)
(اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ لکڑیاں جمع کیے جانے کا حکم دوں، پھر اذان کے لیے کہوں، پھر کسی کو حکم دوں کہ وہ نماز پڑھائے، پھر نماز کے لیے مسجد نہ آنے والوں کے گھروں تک جاؤں اور حکم دوں کہ ان لوگوں کے گھروں میں موجود رہتے ہوئے ان میں آگ لگا دی جائے۔)
اگر مسجد میں ایک نماز کی دوسری جماعت کی اجازت ہوتی تو جماعت اولیٰ سے پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ اتنا سخت انداز نہ اختیار فرماتے۔
ایک روایت حضرت ابو بکرہؓ سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ مدینہ کے مضافات میں تشریف لے گئے۔ واپس آئے تو دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں۔ آپ اپنے گھر میں تشریف لے گئے اور وہاں گھر والوں کے ساتھ نماز ادا کی۔ (طبرانی فی الاوسط)
حضرت حسنؓ بیان کرتے ہیں کہ اصحاب رسول کی کوئی جماعت چھوٹ جاتی تھی تو وہ مسجد میں تنہا ادا کرتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ: ۲؍ ۲۲۲)
فقہاء یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر مسجد میں ایک نماز کے لیے کئی جماعتوں کو جائز قرار دیا جائے تو اس سے لوگوں میں سستی پیدا ہوجائے گی۔ وہ پہلی جماعت میں شرکت کے لیے جلدی پہنچنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
بعض دیگر فقہاء کہتے ہیں کہ مسجد میں کوئی نماز باجماعت ہوجائے تو دوسری جماعت بلا کراہت جائز ہے۔ یہ رائے صحابۂ کرام میں حضرت انسؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اور تابعین میں عطا اور قتادہ اور ائمہ اربعہ میں سے امام احمد رحمہم اللہ کی ہے۔ (حسن اور نخعی سے بھی ایک روایت یہی ہے) اس کے لیے وہ درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:
حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آیا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺنماز سے فارغ ہوگئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ایّکم یتَّجِرُ علیٰ ھذا (کون شخص اس کے ساتھ نماز میں شامل ہوکر ثواب کمائے گا؟) یہ سن کر ایک شخص اٹھا اور اس کے ساتھ نماز میں شریک ہوگیا۔ ( ابو دؤد: ۴۷۵، ترمذی: ۲۰۰)
ایک مرتبہ حضرت انسؓ ایک ایسی مسجد میں پہنچے جہاں جماعت ہوچکی تھی۔ انھوں نے دوسری جماعت کروائی (بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ)
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اپنے شاگردوں (علقمہ، مسروق اور اسود) کے ساتھ ایک مسجد میں پہنچے تو وہاں نماز ہوچکی تھی۔ چنانچہ انھوں نے ان کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی۔ (مصنف ا بن ابی شیبہ: ۲؍ ۲۲۱)
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ بعض احادیثِ نبویؐ اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں مسجد میں ایک نماز کے لیے دوسری جماعت کی گنجائش ہے۔ البتہ اسے پہلی جماعت سے سستی کا بہانہ نہیں بنانا چاہیے اور یہ نہیں سوچ لینا چاہیے کہ بعد میں مسجد پہنچ کر جماعت کر لیں گے۔ باجماعت نماز کے متعینہ اوقات میں مسجد میں حاضری کی کوشش کرنی چاہیے، البتہ اگر کسی وجہ سے کئی لوگوں کی جماعت چھوٹ جائے تو وہ مسجد کے کسی کونے میں باجماعت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ دوسری جماعت اس جگہ نہیں کرنی چاہیے جہاں پہلی جماعت ہوتی ہے، تاکہ کسی کو پہلی جماعت کے وقت کے بارے میں کوئی اشتباہ نہ ہو۔
کیا انگریزی میڈیم اسکولوں کے غریب طلبا کوزکوٰۃ دی جا سکتی ہے؟
سوال: انگریزی میڈیم اسکولوں میں (جن میں حکومتی نصاب کے مطابق تعلیم ہوتی ہے۔) پڑھنے والے طلبا میں کچھ غریب ہوتے ہیں۔ ان کے تعلیمی مصارف اسکول والے زکوٰۃ کی رقم سے ادا کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس پر اعتراضات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ طلبا زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہیں۔
بہ راہِ کرم اس سلسلے میں تشفی بخش جواب مرحمت فرمائیں۔
جواب: زکوٰۃ کے مصارف قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں:
إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ(التوبۃ: ۶۰)
‘‘یہ صدقات تو دراصل فقیروں اورمسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو، نیز یہ گردنوں کو چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں، اللہ کی راہ میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔’’
اس آیت میں آٹھ (۸) مصارف کا تذکرہ ہے۔ ان میں سےدو (۲) مصارف ہیں: فقیر اور مسکین، فقیر سے مراد وہ شخص ہے جو اپنی گزر اوقات کے لیے دوسرے کی مدد کا محتاج ہو۔ مسکین سے مراد وہ شخص ہے جو عام محتاجوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہو۔ زکوٰۃ کی رقم فقراء و مساکین کی تمام طرح کی ضروریات میں صرف کی جا سکتی ہے۔ اس سے ان کے لیے کھانے پینے اور پہننے کی چیزیں فراہم کی جا سکتی ہیں، ان کے علاج معالجہ میں لگائی جا سکتی ہے، غریب بچوں اور بچیوں کی شادی کروائی جا سکتی ہے۔
اسی طرح اس سے غریب لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیمی مصارف ادا کیے جا سکتے ہیں، خواہ وہ دینی مدارس کے طلبا وطالبات ہوں یا انگریزی اور عصری مدارس کے طلبا وطالبات ہوں۔ بنیادی شرط فقر و احتیاج ہے۔ اس بنا پر یہ کہنا درست معلوم نہیں ہوتا کہ عصری تعلیم حاصل کرنے والے غریب طلبا زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہیں۔ پورے شرحِ صدر کے ساتھ ان پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جا سکتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2020