زکوٰة کا بہ طور قرض استعمال
سوال : ۱۔ ہمارے علاقے میں کچھ لوگوں نے مل کر بیت المال قائم کیا ہے۔ اس میں مختلف مدات میں رقوم آتی ہیں۔ کیا بیت المال میں داخل ہونے کے بعد ان کی حیثیت میں کوئی بدلاؤ آتا ہے یا نہیں؟
۲۔ بیت المال میں دو، تین، بلکہ کبھی چار سال تک رقوم جمع رہتی ہیں، پوری طرح خرچ نہیں ہوپاتیں۔ اس طرح کل بچت کی رقم میں ہر سال اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ تمام بچی ہوئی رقم عموماً زکوٰة کی ہوتی ہے۔
کیا اس بچی ہوئی رقم میں سے کسی غریب کو روزگار کے لیے بہ طور قرض کچھ رقم دی جا سکتی ہے، اس طور سے کہ اس رقم کو اس سے قسطوں میں واپس لے لیا جائے اور اسے زکوٰة کی مد میں جمع کر لیا جائے؟
اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ جن غریب لوگوں کو روزگار کی ضرورت ہوتی ہے ان کو امداد کے نام پر رقم دینے سے ان کا خود کفیل ہوجانا مشکوک ہوتا ہے اور انھیں قرض کے نام پر کچھ رقم دی جائے تو انھیں یہ احساس رہے گا کہ قرض کی رقم واپس لوٹانی ہے، اس بنا پر وہ جی لگا کر روز گار کریں گے۔ پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صاحبِ نصاب ہوتے ہیں، مگر روزگار کے لیے ان کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا، وہ زکوٰة لے نہیں سکتے، یا لینا نہیں چاہتے تو کیا ایسے افراد کو زکوٰة کی رقم سے کچھ مدت کے لیے قرض دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
جواب: قرآن مجید میں زکوٰة کی آٹھ مدات بیان کی گئی ہیں۔(التوبة: ۶۰) جس آیت میں یہ بیان ہے اس کا آغاز لفظ ‘انّما’ سے ہوا ہے، یعنی زکوٰة صرف انھی مدات میں خرچ کی جا سکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیت المال میں جو رقوم آتی ہیں ان کا ریکارڈ لازماً دو حصوں(catagories) میں کیا جانا چاہیے: ایک زکوٰة، دوسرے غیر زکوٰة، جس میں دیگر تمام مدات آتی ہیں اور اسی اعتبار سے ان کی تقسیم بھی ہونی چاہیے۔ زکوٰة کی رقوم کو لازماً صرف انھی مدّات میں صرف کیا جانا چاہیے جن کا تذکرہ قرآن میں کیا گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اموالِ زکوٰة کو جلد از جلد متعین مدات میں خرچ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کوئی جماعت، تنظیم یا ادارہ، جس نے زکوٰة کے جمع و تقسیم کا نظام قائم کر رکھا ہو، اس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ کئی کئی سال تک مالِ زکوٰة کو اپنے پاس روکے رکھے۔
زکوٰة کا ایک مصرف ’غارمین‘ (مقروض لوگ) ہیں۔ اس سے مراد وہ مقروض ہیں جو اگر اپنے مال سے اپنا قرض چکا دیں تو ان کے پاس نصاب سے کم مال بچے۔ یہ روزگار سے لگے ہوئے افراد ہوسکتے ہیں اور بے روزگار بھی۔ ان حضرات کی امداد زکوٰة سے کی جاسکتی ہے، لیکن ضروری ہے کہ انھیں مالِ زکوٰة کا مالک بنا دیا جائے، انھیں کوئی رقم قرض کے طور پر دے کر قسطوں میں اس کی واپسی کی شرط نہ لگائی جائے۔ جب زکوٰة دینے والوں نے ایسی کوئی شرط نہیں لگائی ہے تو زکوٰہ جمع اور صَرف کرنے والے ادارے کو بھی اس کا حق نہیں ہے۔
مالِ زکوٰة کے بہتر استعمال کے لیے تعلیم و تلقین کی مختلف تدابیر اختیار کرنی چاہئیں، تاکہ جن لوگوں کو زکوٰة کی رقم دی جائے وہ اسے بے توجہی سے اُڑا نہ دیں، بلکہ صحیح مصرف میں لائیں اور اس کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔ اسی طرح جو لوگ غریب ہونے کے باوجود زکوٰة کی رقم لینا نہیں چاہتے، ان کے لیے دیگر ذرائع اختیار کرنا چاہیے۔ صاحبِ نصاب لوگوں کو روزگار میں سہارا دینے کے لیے بھی الگ سے فنڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
منی ٹرانسفرکرنے کی اجرت
سوال : دو سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
(۱) میں رقم ٹرانسفر کا کام کرتا ہوں۔ میرے پاس لوگ اپنے اکاؤنٹ سے پیسے نکلوانے، جمع کروانے اور ٹرانسفر کروانے آتے ہیں۔ میں اس کام پر ان سے ایک ہزار روپے پر دس روپے وصول کرتا ہوں۔ کیا یہ صورت جائز ہے؟
(۲) میرے پاس کچھ لوگ ایسے آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا پیسہ فلاں جگہ سے آنے والا ہے۔ آپ ہمارے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کر دیجیے۔ ہمارا پیسہ آجائے گا تو ہم آپ کو واپس کردیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آج ہی پیسہ لوٹا دیا تو ایک ہزار روپے پر دس روپے لوں گا۔ اگرایک دو روز کے بعد واپس کیا تو اس کا دوگنا لوں گا۔ یہ معاملات میں لین دین کرتے وقت طے کرلیتا ہوں۔ کیا یہ صورت جائز ہے؟
جواب: (۱) رقم ٹرانسفر کرنے کی طے شدہ اجرت لینا درست ہے۔ اس کی نظیر منی آرڈر ہے۔ جس طرح کچھ رقم منی آرڈر کے ذریعے کہیں بھیجی جائے تو اس کی اجرت ادا کی جاتی ہے، اسی طرح رقم ٹرانسفر کرنے کی صورت میں بھی اجرت لی جا سکتی ہے۔
(۲) یہ صورت قرض کی ہوگئی۔ اس میں رقم ٹرانسفر کرنے کی اجرت مثلاً دس روپے فی ہزار لینا تو درست ہے، لیکن ایک دو روز کے بعد رقم واپس ملنے کی صورت میں دوگنی اجرت لینا سود کے حکم میں ہے، اس لیے درست نہیں ہے۔
لیز کی زمین پر مسجد کی تعمیر
سوال : براہِ کرم درج ذیل سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں:
۱۔ کیا لیز پر لی گئی زمین پر محدود وقت کے لیے مسجد تعمیر کی جا سکتی ہے؟
۲۔ لیز کا وقت ختم ہونے کے بعد مسجد کی عمارت کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا؟
جواب: مسجد شرعی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی زمین وقف کی جائے اور وہ وقف کرنے والے کی کامل ملکیت میں ہو۔ فتاویٰ شامی ہے:
ان الواقف لا بد ان یکون ملکه وقت الوقف ملکاً باتاًّ (کتاب الوقف: ۴؍۳۴۰)
‘‘ضروری ہے کہ موقوفہ چیز پر وقف کرنے والے کی ملکیت وقف کرتے وقت مکمل ہو۔’’
جمہور فقہا کے نزدیک وقف کی شرائط میں سے ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے وقف کیا جائے۔ (الموسوعة الفقھیة)
لیز کی زمین چوں کہ کامل ملکیت والی نہیں ہوتی اور وہ ہمیشہ کے لیے وقف نہیں کی جاتی، اس لیے اس پر مسجد بنانا درست نہیں ہے۔ اگر مسجد تعمیر کرلی گئی تو وہ شرعی مسجد کے حکم میں نہیں ہوگی، البتہ اس میں پنج وقتہ نمازیں اور نماز جمعہ پڑھی جا سکتی ہیں۔
قبرستان میں کھیتی باڑی
سوال : ہمارے خاندان کا ایک پرانا بڑا قبرستان ہے۔ خاندان کے بہت سے لوگ دوسرے مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں، اس لیے اس میں تدفین بہت کم ہوتی ہے۔ آبادی میں سات اور قبرستان بھی ہیں، جو آباد ہیں۔ اس قبرستان کے زیادہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے اس میں جھاڑ جھنکاڑ بڑی مقدار میں اُگ آتے ہیں۔ کچھ بیری کے درخت ہیں، لیکن وہ بے کار ہیں، ان میں پھل بہت کم اور خراب آتے ہیں۔
خاندان کے لوگوں کا مشورہ ہے کہ بیری کے درخت کٹوا دیے جائیں اور آئندہ قبریں ایک گوشے میں بنوائی جائیں۔ قبرستان کی باقی زمین میں کھیتی کروائی جائے۔ اس سے جو آمدنی ہو اس سے قبرستان کی صفائی ستھرائی اور ڈیولپمنٹ کے دوسرے کاموں پر خرچ کیا جائے۔ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں، کیا شرعی طور پر اس کی اجازت ہے؟
جواب: اگر قبرستان کو وقف کیا گیا ہو تو اس میں کھیتی باڑی کرنے کو فقہا نے ناجائز قرار دیا ہے، البتہ اگر وہ کسی کی ملکیت میں ہو تو اس میں اس کی اجازت ہے۔ (الہدایہ، کتاب الوقف،2/640، فتح القدیر، کتاب الوقف،6/220، الدرالمختار، باب صلوة الجنازہ،3/145)
اگر موقوفہ قبرستان ویران ہو گیا ہو اور اس میں عرصے سے کوئی تدفین نہ ہو رہی ہو اور آئندہ بھی امید نہ ہو تو اسے کسی دوسرے بہتر اور مقصد وقف سے قریب تر استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
اگر قبرستان کا بڑا حصہ استعمال میں نہ ہو، پرانی قبروں کے نشانات مٹ گئے ہوں اور ویران پڑے رہنے کی وجہ سے اس میں خودرو جھاڑیاں اُگ آئی ہوں اور جنگل جیسی کیفیت ہوگئی ہو تو اس کی صفائی کروائی جاسکتی ہے، درختوں کو کٹوایا جا سکتا ہے اور وقت ضرورت کھیتی کروائی جاسکتی ہے لیکن ضروری ہے کہ اس کی آمدنی وقف کے کاموں میں استعمال ہو۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2023