رسائل و مسائل

سود کی رقم کو بہ طور قرض دینا

سوال: میرا ایک دوست مقروض ہے۔ اس قرض کی ادائیگی کے لیے وہ مجھ سے قرضِ حسن کا خواہش مند ہے۔ میرے پاس اسے بہ طور قرض دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، البتہ بینک انٹرسٹ کی کچھ رقم موجود ہے۔ کیا میں اسے یہ سودی رقم بہ طور قرض دے سکتا ہوں۔ میرا ارادہ ہے کہ اسے ابھی قرض کہہ کر دے دوں، بعد میں معاف کر دوں گا۔

جواب: بینک میں رکھی ہوئی رقومات پر ملنے والی اضافی رقم (interest amount) کو علما نے  سود (ربا) قرار دیا ہے، جسے قرآن مجید میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ (البقرة: ۲۷۵، ۲۷۶، ۲۷۸، آل عمران:۱۳۰) اس لیے اسے اپنے کسی استعمال میں لانا ایک مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔ اسے بینک میں چھوڑ دینے سے بھی علما منع کرتے ہیں، اس لیے کہ اس کے غلط استعمال کے اندیشے رہتے ہیں۔ اسے نکلوا لینا چاہیے۔ اسے غریبوں اور ضرورت مندوں کو بلا نیت ثواب دیا جا سکتا ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ دیتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ سودی رقم دی جا رہی ہے۔

سودی رقم کو بہ طور قرض دینا درست نہیں ہے۔ اس سے قرض دینے والے کی ملکیت اس مال پر باقی رہتی ہے۔ جب کہ اس کی ذمے داری ہے کہ وہ جلد از جلد اس رقم سے خود کو پاک کرے۔

پیشاب نکل جائے تو کپڑا بدلنا ضروری نہیں

سوال: مجھے بار بار پیشاب نکل جاتا ہے۔ نماز پڑھنے کے لیے کپڑا بدلنا پڑتا ہے۔ بڑی زحمت ہوتی ہے۔ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ کیا کپڑا بدلنا ضروری ہے، یا جہاں پیشاب لگا ہوا ہو صرف اتنا حصہ دھو لینا کافی ہے۔

جواب: انسان کا پیشاب نجس العین ہے۔ اس پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ اس لیے اگر کسی کے کپڑے میں پیشاب لگا ہوا ہو تو اس کے ساتھ اس کی نماز نہیں ہوگی۔

اسے اختیار ہے چاہے تو کپڑا بدل لے اور دوسرا پاک صاف کپڑا پہن لے، یا کپڑے میں جہاں پیشاب لگا ہوا ہو اسے دھو لے۔ ہر حال میں کپڑا بدلنا ضروری نہیں ہے، نجاست دور کرنا ضروری ہے۔ جہاں پیشاب لگا ہوا ہو اس حصے کو دھو لے تو اس کپڑے میں وہ نماز پڑھ سکتا ہے۔

کیا دوران حمل بچے کو دودھ پلایا جا سکتا ہے؟

سوال: میری بیوی حمل سے ہے، جب کہ پہلے سے ایک بچی ہے، جو ابھی ایک برس کی ہوئی ہے۔ کیا وہ اسے دودھ پلانا جاری رکھ سکتی ہے یا اب بند کر دینا چاہیے؟ بعض حضرات دورانِ حمل بچے کو دودھ پلانے سے منع کرتے ہیں۔ بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں۔

جواب: قرآن مجید میں بچے کی ولادت کے بعد دودھ پلانے کی مدت دو سال بیان کی گئی ہے۔ سورہ بقرہ آیت ۲۳۳ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ترجمہ:  “مائیں اپنے بچوں کو مکمل دو برس دودھ پلائیں، اگر باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدّتِ رضاعت تک دودھ پیے۔ “

اس کا تعلق رضاعت سے ہے کہ اس کے شرعی احکام دو سال تک دودھ پینے سے متعلق ہوں گے، ورنہ اگر ضرورت متقاضی ہو تو بچے کو دو برس کے بعد بھی کچھ زیادہ مدت تک دودھ پلایا جا سکتا ہے اور اس سے پہلے بھی دودھ چھڑوایا جا سکتا ہے۔

عہدِ نبوی میں یہ تصوّر عام تھا کہ اگر عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہو، اسی دوران میں وہ حاملہ ہو جائے تو اس کا دودھ فاسد ہو جاتا ہے۔ اس فاسد دودھ کو پینے سے بچے کی صحت متاثر ہوتی ہو سکتی ہے۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے اس تصور کی تردید فرمائی اور دورانِ حمل دودھ پلانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ حضرت جدامة بنت وہب الاسدیةؓ بیان کرتی ہے کہ میں ایک وفد کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے آپؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

“میں نے ارادہ کیا تھا کہ ‘غیلہ’ (دورانِ حمل دودھ پلانے) سے منع کر دوں، لیکن میں نے دیکھا کہ روم و فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ ان کے یہاں عورتیں حمل کے ایام میں بھی اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، لیکن اس سے ان کے بچوں کی صحت متاثر نہیں ہوتی، اس لیے میں نے منع نہیں کیا۔”[مسلم:۱۴۴۲]

اس سے معلوم ہوا کہ شرعی طور پر حمل کے دوران میں بچے کو دودھ پلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بچے کو دودھ پلانے کے ساتھ غذا کا بھی عادی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور جوں جوں غذا میں اضافہ ہو آہستہ آہستہ دودھ کم کرنا چاہیے۔ اوپر کا دوددھ بھی پلایا جا سکتا ہے، تاکہ بچے کی غذائیت میں کمی نہ ہو اور اس کی پرورش و پرداخت احسن طریقے پر ہو۔

تقسیم وراثت کے بعض مسائل

سوال: ہم تین بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ والدین کا انتقال ہو گیا ہے۔ دو بہنوں اور دو بھائیوں کی شادیاں ہو گئی ہیں، چھوٹے بھائی کا ذہنی توازن شروع سے درست نہیں تھا، اس لیے والد صاحب نے اسے بڑے بھائی کی سرپرستی اور نگرانی میں دے دیا تھا۔ اس کی شادی نہیں ہوئی ہے اور ایک چھوٹی بہن کی شادی بھی باقی ہے۔ بہ راہ کرم تقسیم وراثت کے سلسلے میں رہنمائی فرمائیں اور درج ذیل سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں:

کیا معذور بھائی کا حصہ نکالنا ضروری ہے؟ وہ اس قابل نہیں ہے کہ جو جائیداد اس کے حصے میں آئے اس کی حفاظت کر سکے۔

ایک بھائی ڈاکٹر اور دوسرا بھائی انجینیر ہے۔ وہ خود کفیل ہیں۔ کیا وراثت میں ان کا حصہ لگانا ضروری ہے؟

جس بہن کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے، کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ پہلے مال وراثت میں سے اس کی شادی کے اخراجات برداشت کیے جائیں، اس کے بعد وراثت تقسیم کی جائے، یا تمام بھائی مل کر اس کی شادی کرانے میں حصہ لیں اور بعد میں وراثت کی تقسیم کریں۔ یا اس بہن کو مال وراثت کا زیادہ حصہ دے دیا جائے۔ ان میں سے کون سی صورت بہتر ہوگی؟

جواب: قرآن مجید میں وراثت کے احکام بالکل واضح اور صریح ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

لِّلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِیبًا مَّفْرُوضًا [النساء:۷]

(مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرّر ہے۔)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مال وراثت میں تمام وارثوں کا حصہ ہے، چاہے کوئی مرد ہو یا عورت، صحت مند ہو یا مریض، ذہنی طور پر درست ہو یا معذور۔ اس بنا پر آپ کے معذور بھائی کا حصہ لگایا جائے، ان کی سرپرستی بڑے بھائی کریں۔ جیسا کہ والد صاحب نے خواہش اور ہدایت کی تھی۔ اگر انہیں کوئی عذر ہو تو دوسرے بھائی اسے اپنی نگرانی میں لے لیں۔ اُس کے مال میں سے اُس پر خرچ کریں۔ وہ ختم ہو جائے تو صلہ رحمی کے طور پر اس کی کفالت کریں۔

مال وراثت کے استحقاق کی بنیاد ضرورت پر نہیں ہے کہ جو خود کفیل ہو وہ نہ لے، جو ضرورت مند ہو وہ لے لے، یا جسے کم ضرورت ہو وہ کم لے، جسے زیادہ ضرورت ہو وہ زیادہ لے، بلکہ اس کی بنیاد میت سے رشتے داری اور قریبی تعلق پر رکھی گئی ہے۔ کسی شخص کے تین بیٹے ہیں تو وہ سب وراثت میں برابر حصہ پائیں گے، چاہے ان کے درمیان مالی حیثیت سے تفاوت ہو، کوئی مال دار ہو، کوئی غریب۔ مال داری یا غربت کی وجہ سے ان کے حصوں میں کمی بیشی نہیں کی جائے گی۔ البتہ شریعت نے اس کی اجازت دی ہے کہ جس وارث کو، مال کی ضرورت نہ ہو وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنا حصہ کلی یا جزئی طور پر چھوڑ سکتا ہے یا کسی دوسرے ضرورت مند وارث کو دے سکتا ہے۔

مال وراثت پانے میں کمی بیشی ازدواجی حالت کو سامنے رکھ کر بھی نہیں کی جائے گی کہ جس کی ابھی شادی نہ ہوئی ہو اسے زیادہ دیا جائے اور دوسروں کو کم۔ بلکہ شریعت نے تو چھوٹے بچے کا بلکہ اس بچے کا بھی وراثت میں حصہ لگایا ہے جو ماں کے پیٹ میں ہے۔

اس بنا پر جس بہن کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے وہ بھی وراثت میں اپنا متعین حصہ یعنی بھائی کے حصے کا نصف پائے گی۔ قرآن کی اصولی ہدایت ہے: لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیینِ [النساء:۱۱] (مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے)۔

مالِ وراثت کی تقسیم کو شادی کے اخراجات سے منسلک کرنا درست نہیں ہے۔ تمام بھائیوں اور بہنوں کو وراثت میں سے ان کا حصہ دے دیا جائے۔ اس کے بعد بہن کی شادی کے اخراجات میں ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ لے۔ شادی میں شاہ خرچیوں سے بچا جائے اور سادگی کے ساتھ شادی کی تقریب انجام دی جائے۔

مال وراثت کی تقسیم میں اگر ہمدردی، صلہ رحمی اور حسن سلوک پیش نظر رہے تو اختلافات نہیں پیدا ہوتے اور خوب صورتی سے معاملات نپٹالیے جاتے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ مئی 2025

مزید

حالیہ شمارے

اپریل 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223