وراثت کی منتقلی
سوال: ہمارے والد صاحب کا وطن ناگ پور تھا۔ تین برس قبل ہم پونہ شفٹ ہوگئے تھے۔ والد صاحب کا ارادہ تھا کہ ناگ پور کے گھر کو فروخت کرکے پونہ میں گھر لے لیں گے۔ چھے ماہ قبل ان کا انتقال ہوگیا ہے۔
ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ والدہ ابھی حیات ہیں۔ کیا ہم اپنے آبائی گھر کو فروخت کرکے والدہ کے نام سے پونہ میں نیا گھر لے سکتے ہیں؟
جواب: اسلام میں تقسیم ِوراثت کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ کسی شخص کا انتقال ہو تو اس کی مملوکہ تمام چیزیں ،خواہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ اور ان کی مالیت کم ہو یا زیادہ، اس کے قریب ترین ورثہ میں تقسیم ہونی چاہییں۔ سورۂ نساء میں یہ بیان کیے جانے کے بعد کہ وراثت پانے کا حق جس طرح مردوں کو ہے اسی طرح عورتوں کو بھی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَفْرُوْضاً ( النساء:۷)
’’(یہ مال )خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔‘‘
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے:
’’ میراث بہر حال تقسیم ہونی چاہیے ، خواہ وہ کتنی ہی کم ہو، حتّیٰ کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے ۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے۔ اس آیت سے یہ بات بھی مترشّح ہوتی ہے کہ وراثت کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہوگا، خواہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی، یا کسی اور صنف ِ اموال میں شمار ہوتے ہوں۔‘‘
( تفہیم القرآن، جلد اوّل، سورۂ نساء، حاشیہ نمبر ۱۲)
تقسیم ِ وراثت میں ایک بات یہ بھی قابل ِ ذکر ہے کہ مستحقین کو ان کا حصہ ملنا چاہییے، البتہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنا حصہ کل یا اس کا کچھ جز چھوڑ سکتے ہیں، یا کسی کو دے سکتے ہیں۔
آپ کے والد صاحب کا انتقال ہوا تو ان کی وراثت آپ کی والدہ اور آپ بھائیوں اور بہنوں میں تقسیم ہونی چاہیے۔ سورۂ نساء میں صراحت ہے کہ کسی شخص کا انتقال ہو اور وہ صاحب ِ اولاد ہو اور اس کی بیوی بھی زندہ ہو تو بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا۔(آیت ۱۲) باقی ترکہ اولاد کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر لڑکے کو ہر لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا: لِلذّکَرِ مِثْل حَظِّ الاُنْثَیینِ (آیت:۱۱) بہ الفاظ دیگر آپ کے والد صاحب کی پراپرٹی درج ذیل تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگی:
بیوی کا حصہ 12.5 فیصد
ہر لڑکے کا حصہ 29.2 فیصد دو لڑکوں کا حصہ 58.3 فیصد
ہرلڑکی کا حصہ 14.6 فیصد دو لڑکیوں کاحصہ 29.2 فیصد
البتہ اس کی گنجائش ہے کہ اگر آپ سب بھائی بہن چاہیں تو اپنا اپنا حصہ اپنی والدہ کو دے سکتے ہیں ۔ اس طرح نیا گھر خرید کر اس کی رجسٹری اپنی والدہ کے نام کرواسکتے ہیں۔
قرض دینے سے انکار پر گناہ
سوال: میرے ساتھ ایک کمپنی میں کام کرنے والے کئی ساتھی وقتاً فوقتاً قرض کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وقت پر قرض نہیں لوٹاتے، جب کہ کئی ایک تو واپس کرنا بھول جاتے ہیں۔ بعض ایک ماہ بعد لوٹانے کے وعدے پر قرض لیتے ہیں ، لیکن سال گزرنے کے بعد بھی واپس نہیں کرتے۔ مجھے ان سے تقاضا کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔
اگر میرے پاس کچھ رقم ہو اور میں قرض دینے کی استطاعت رکھتا ہوں ، اس کے باوجود اس اندیشے سے کہ رقم وقت ِ موعود پر واپس نہیں ملے گی، انکار کردوں تو کیا میں گناہ گار ہوں گا؟
جواب: مال اللہ کی نعمت ہے ، ضروریات ِ زندگی کی تکمیل کے لیے قدم قدم پر اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
اَمْوَالَکُمْ الّتِی جَعَلَ اللّٰہ لَکُمْ قِیَاماً (النساء :۵)
’’ تمھارے وہ مال جنھیں اللہ نے تمھارے لیے قیام ِ زندگی کا ذریعہ بنایا ہے۔‘‘
اس دنیا میں تما م انسان آزمائش کی حالت میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو مال و دولت سے محروم کرکے آزماتا ہے تو کسی کو عطا کرکے۔ کسی کوکم دے کر آزماتا ہے تو کسی کو خوب نواز کر۔ قرآن مجید میں ہے:
لَهُ مَقَالِیدُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشآءُ وَ یَقْدِرُ اِنَّهُ بِکَلِّ شَیءٍ عَلِیْمٌ
( الشوریٰ :۱۲)
’’ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے۔ اسے ہر چیز کا علم ہے۔‘‘
جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و دوت سے نوازا ہو انہیں اس کا شکر ادا کرنا چاہییے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے جو بندے غریب و محتاج ہوں ان کی مدد کریں اور ان کی ضروریات پوری کریں۔ حدیث میں انسانوں کے کام آنےا ور ان کا تعاون کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
وَ اللّٰہُ فِی عَوْنِ العَبْدِ مَا کَانَ العَبْدُ فِی عَونِ اَخِیْهِ ( مسلم:۲۶۹۹)
’’ اللہ اپنے بندے کی مدد کرتا ہے جب تک وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔‘‘
مدد اور تعاون کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ اس کا ایک پہلو مالی تعاون ہے۔ ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مال دار شخص اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے غریبوں کو اپنے مال کے ایک حصے کا مالک بنا دے ۔ اسے صدقہ و خیرات اور انفاق کہا جاتا ہے۔ اس کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ذمّے قرض سے تعبیر کرتا ہے، جس کا وہ بھرپوربدلہ روزِ قیامت دے گا۔ قرآن مجید میں ہے:
وَ فِی اَمْوَالَهِمْ حَقٌّ مَعْلُوْمٌ للسّائِلِ وَالمَحْرُوْمِ ( المعارج:۲۴۔۲۵)
’’ اور جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے۔‘‘
اِنَّ المُصَّدِّقِیْنَ وَالمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰہ قَرْضاً حَسَناً یُضَاعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ ( الحدید :۱۸)
’’ مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں اور جنھوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ہے، ان کو یقیناً کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔‘‘
مالی مدد کی دوسری صورت یہ ہے کہ جس شخص کے پاس مال ہو وہ اسے کسی ضرورت مند کے طلب کرنے پر اس کو دے ، اس شرط کے ساتھ کہ وہ اسے ا یک مقررہ مدّت کے بعد یا جب اس کے پاس مال آجائے گا،اس کا دیا ہوا مال واپس کردے گا۔ اسے قرض کہتے ہیں۔ حدیث میں قرض دینے کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے صدقہ کے مثل قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُقْرِضُ قَرْضاً مَرَّتَیْنِ الّا کَانَ کَصَدَقَتِھَا مَرَّۃً ( ابن ماجہ: ۲۴۳۰)
’’ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دو مرتبہ قرض دے اسے ایک مرتبہ صدقہ کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے۔‘‘
جو شخص قرض لے اس کی ذمے داری ہے کہ اس نے جب اسے واپس کرنے کا وعدہ کیا ہو ،اس سے قبل ہی یا اس وقت تک واپس کردے۔اگر اس وقت تک اس کے پاس رقم کا نظم نہ ہو پایا ہو تو قرض دینے والے سے رابطہ کرکے مزید مہلت لے لے۔ یہ بڑی غیر اخلاقی حرکت ہے کہ قرض لے کر خاموش بیٹھ جائے اور اسے واپس کرنے کا خیال دل میں نہ لائے ، یا موعود قت نکل جائے اور وہ قرض کی واپسی سے بالکل بے پروا ہو، یا اس کے پاس رقم تو موجود ہو ، لیکن وہ قرض کی واپسی میں ٹال مٹول سے کام لے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
مَنْ اَخَذَ اَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیْدُ اَدَاءَھَا اَدَّی اللّٰہُ عَنْهُ، وَمَنْ اَخَذَھَا یُرِیْدُ اِتْلَافَهَا اَتْلَفَهَا اللّٰہُ ( بخاری:۲۳۸۷)
’’ جو شخص لوگوں سے مال لے اور اس کی نیت اس کی واپسی کی ہو، اللہ اس کی ادائیگی کی توفیق دیتا ہے اور جو شخص ان کا مال لے اور اس کا ارادہ واپس کرنے کا نہ ہو ،اللہ اس کو برباد کردیتا ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے:
مَطْلُ الغَنِی ظُلْمٌ ( بخاری: ۲۴۰۰ ، مسلم:۱۵۶۴)
’’جس کے پاس رقم ہو ، پھر بھی وہ قرض واپس کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے ،اس نے زیادتی کی ۔‘‘
بہر حال اگر کسی شخص کے پاس کچھ مال ہو اور وہ اس کی ضروریات سے زیادہ ہو،کوئی دوسرا شخص اس سے قرض مانگے تو عام حالات میں اسے قرض دے کر اس کی مدد کرنی چاہیے ۔ ایسا کرنے سے قرض دینے والا اللہ تعالیٰ کی جانب سے جزا کا مستحق ہوگا۔ لیکن اگر اس کو اندازہ ہو کہ قرض لینے والا بھول جائے گا،یا وقت پر واپس نہیں کرے گا،یا ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لے گا توا سے حق ہے کہ قرض نہ دے۔ اس صورت میں وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ البتہ اسے چاہیے کہ جھوٹ نہ بولے ،یہ نہ کہے کہ میرے پاس کچھ رقم نہیں ہے، بلکہ کوئی عذر بتاکر خوب صورتی سے معذرت کرلے ۔
جنسی تسکین کا حق
سوال: ایک صاحب کی عمرپینسٹھ(۶۵) برس اور ان کی اہلیہ کی عمر پینتالیس(۴۵) برس ہے۔ ان کے پانچ بچے (دو لڑکیاں اور تین لڑکے) ہیں۔ تمام بچوں کی عمریں بیس(۲۰) برس سے اوپرہیں۔ اب شوہر اور بیوی دونوں اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ شوہر اپنے کنبہ کی اچھی طرح نگہ داشت کرتا ہے اور بیوی بھی تما م بچوں کا خوب خیال رکھتی ہے۔
شادی کے بعد شوہر نے ملازمت کی وجہ سے خلیج میں زیادہ وقت گزارا ہے اور بیوی بچے ہندوستان میں رہتے تھے۔ وہ بیوی کو کچھ وقت اپنے ساتھ خلیج میں رکھنا چاہتا تھا اور بیوی بھی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی تھی، لیکن مالی حالت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے خلیج میں اپنے ساتھ رکھنے کے متحمل نہیں تھا، اس لیے بیوی بچوں کو ہندوستان میں ہی رہنا پڑا۔ تاہم شوہر تین برس قبل ملازمت سے ریٹائر ہوااور وہ اپنے کنبہ کے ساتھ رہنے کے لیے ہندوستان واپس آیا، تب سے شوہر اور بیوی کے درمیان جھگڑے شروع ہوگئے ۔ اب بیوی کہتی ہے کہ اسے شوہر سے پوری زندگی میں کبھی خوشی نہیں ملی۔ معاملہ اس وقت اور بڑھ گیا جب اس نے کہا کہ اس کا شوہر جسمانی قربت کے دوران جنسی تسکین کے قابل نہیں ہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان عمر کا بڑا فرق ہے۔ اب شوہر اس کے ساتھ ہم بستری کا اہل نہیں ہے، جب کہ عورت اب بھی جنسی احساسات رکھتی ہے۔وہ اب اپنے شوہر سے کہہ رہی ہے کہ وہ اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی،اسے طلاق چاہیے۔ بچوں نے صورت ِ حال کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی۔ انھوں نے اپنی ماں کو بہت سمجھایا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں طلاق کو پسند نہیں کیا جاتا۔علیٰحدگی کے بعد لوگ ہمارے کنبے پر انگلیاں اٹھائیں گے اور ہمارے رشتوں میں دشواریاں پیدا ہوں گی ، لیکن وہ عورت کچھ نہیں سنتی۔ وہ اپنے بچوں سے کہہ رہی ہے کہ تم میری صورت حال کو نہیں سمجھو گے۔
سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں اسلام کیا رہ نمائی کرتا ہے؟ کیا عورت کا اپنے شوہر سے الگ ہوجانے پر اصرار درست ہے ؟یا اسے اپنی جنسی خواہش پر قابو رکھنا چاہیے؟طویل عرصہ ایک ساتھ گزارنے کے بعد اب اگر شوہر جنسی تعلق پر قادر نہیں ہے تو کیا عورت کو اس سے علیٰحد گی حاصل کرنے کا حق مل جاتا ہے؟کیا بچوں یا خاندان کے دوسرے لوگوں کاعورت کو علیٰحدگی کا مطالبہ کرنے سے روکنا صحیح ہے ؟
جواب: سوال میں دریافت کردہ مسئلہ سماجی زندگی کے پیچیدہ مسائل میں سے ہے۔اس پر کئی پہلوؤں سے غور کیا جا سکتا ہے:
۱۔نکاح کے بعد پسندیدہ یہ ہے کہ زوجین زیادہ سے زیادہ ایک ساتھ رہیں ۔اگر شوہر ملازمت یا تجارت کی وجہ سے وطن سے دور رہے تو کوشش کرے کہ وہاں بھی بیوی کو ساتھ رکھے ۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو توکچھ وقفے سے بیوی کے پاس کچھ وقت گزارنے کے لیے چلا جایا کرے یا بیوی کو اپنے پاس بلا لیا کرے۔جو لوگ معاش کی تلاش میں طویل عرصہ خلیج میں گزارتے ہیں اور ان کی بیوی بچے وطن میں رہتے ہیں ان کے درمیان بسا اوقات خوش گوار تعلقات قائم نہیں رہ پاتے، شکایات پیدا ہوجاتی ہیں اور نفسیاتی مسائل سر ابھار لیتے ہیں۔
۲۔ بیوی کی کچھ شکایات بجا ہو سکتی ہیں، لیکن اس کا یہ کہنا کہ اسے پوری ازدواجی زندگی میں شوہر کی طرف سے کوئی خوشی نہیں ملی، درست معلوم نہیں ہوتا۔ شوہر نے اس کی کفالت کی، نفقہ اور سکنیٰ (رہائش) فراہم کی، کسی حد تک اس کی جنسی خواہش کی تکمیل کی، تبھی تو پانچ بچے ہوئے ہیں۔ اس لیے نکاح کے نتیجے میں عورت کو جو تحفظ حاصل ہوا ہے، اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔اس معاملے میں عموماًعورتوں سے کوتاہی ہوتی ہے۔ اگر انہیں اپنے شوہروں سے کچھ شکایات پیدا ہوجائیں تو وہ ان سہولیات کا بھی انکار کردیتی ہیں جو سابق میں انہیں شوہروں سے حاصل تھیں۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں کے مجمع میں خطاب کیا تو فرمایا:’’اے گروہ ِ نسواں! صدقہ کیا کرو، میں نے تمھاری اکثریت جہنم میں دیکھی ہے۔ ‘‘انھوں نے سوال کیا:’’ اے اللہ کے رسول ! ایسا کیوں ہوگا؟‘‘آپ نے فرمایا:
تُکْثِرْنَ اللّعْنَ وَ تَکْفُرْنَ العَشِیر َ ( بخاری:۳۰۴،مسلم:۷۹)
’’ تم بہت زیادہ لعن طعن کرتی ہو اور شوہروں کی ناشکری کرتی ہو۔‘‘
۳۔ عمر کے ہر مرحلے میں جنسی تسکین مرد اور عورت دونوں کا بنیادی حق ہے۔ اسی وجہ سے اگرچہ زوجین کی عمروں میں تفاوت کو شریعت کی روشنی میں گواراکیا گیا ہے۔ لیکن قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان عمروں کی یکسانیت پسندیدہ ہے۔اب اگر عورت کسی مرحلہ میں دعویٰ کرتی ہے کہ شوہر سے اس کی جنسی تسکین نہیں ہو رہی ہے اور اس بنا پر وہ خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا یہ مطالبہ درست ہے۔
۴۔ بچوں کا یہ کہنا بجا ہے کہ سماج میں طلاق کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب زوجین طویل عرصہ ساتھ رہ چکے ہوں۔ طلاق کے بعد لوگ اس خاندان پر انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں اور بالخصوص لڑکیوں کے نکاح میں دشواری پیش آتی ہے۔ عورت کو کوئی فیصلہ کرتے وقت اس سماجی حقیقت کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔اگر وہ اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے اپنے جذبات کی قربانی دیتی ہے تو بارگاہ ِ الٰہی میں اجر کی مستحق ہوگی۔
۵۔ اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ کیا شوہر سے طلاق لینے کے بعد اب اس عمر میں عورت کا دوسرا مناسب نکاح آسان ہے؟ اگر عورت طلاق لینے کے بعد بھی بے نکاح رہے تو طلاق لینے سے کیا فائدہ ہوا؟ اس سے تو بہتر ہے کہ وہ نکاح کو ختم نہ کرے اور اگر شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو اپنے کسی بیٹے کے پاس رہے۔
خلاصہ یہ کہ اس معاملے میں عورت کو سمجھانے بجھانے کی بس ایک حد تک کوشش کرنی چاہیے۔ اگر وہ مان جائے تو بہتر ہے ۔ نہ مانے اورشوہر سے علیٰحدگی کے اپنے مطالبے پر بہ ضد ہو تو خوب صورتی سے علیٰحدگی کی کارروائی کروا دینی چاہیے۔
۶۔ یہاں یہ بھی یاد دلانا مفید ہوگا کہ بسا اوقات فریقین یا کسی ایک فریق کی ضد کی وجہ سے نکاح ختم کرنے کی نوبت آجاتی ہے، لیکن بعد میں دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ شریعت میں اسی لیے ایک طلاق کا طریقہ رکھا گیا اور دو بار نکاح بحال کرنے کا موقع دیا گیا ہے،تاکہ بعد میں دوبارہ رشتہ ازدواج قائم کرنے کی گنجائش رہے۔ اس لیے تفریق کی صورت میں بھی ماحول کو زیادہ سے زیادہ خوش گوار رکھنا چاہیے، تاکہ واپسی کا فیصلہ کرنے میں دشواری پیش نہ آئے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2021