رسائل و مسائل

کیا عقیقے میں بڑا جانور ذبح کیا جا سکتا ہے؟

سوال: کہا جاتا ہے کہ لڑکے کے عقیقے میں دو بکرے اور لڑکی کے عقیقے میں ایک بکرا ذبح کیا جائے۔ کیا لڑکے کا عقیقہ بڑے جانور سے کیا جا سکتا ہے؟ اگر ہاں تو کیا ایک بڑے جانور میں صرف ایک لڑکے کا عقیقہ ہو سکتا ہے یا سات حصے مان کر اس میں عقیقے کے ساتھ حصے ہو سکتے ہیں؟ کیا دو لڑکوں کا عقیقہ ایک بڑے جانور سے ہو سکتا ہے؟

جواب :

عقیقے کو بعض علماء مسنون اور بعض مستحب قرار دیتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ لڑکے کے عقیقے میں دو بکرے اور لڑکی کے عقیدے میں ایک بکرا ذبح کیا جائے۔ حضرت ام کرز الکعبیةؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجاریة شاة (ابو داؤد:2834، ترمذی: 1516)

’’لڑکے کے لیے دو برابر کے بکرے اور لڑکی کے لیے ایک بکرا عقیقے میں ذبح کیے جائیں۔‘‘

احناف، شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ عقیقہ بڑے جانور سے بھی ہو سکتا ہے۔ مالکیہ کا بھی راجح قول یہی ہے، البتہ ان کا ایک قول یہ ہے کہ عقیقہ صرف چھوٹے جانور سے ہو سکتا ہے۔ جو فقہاء بڑے جانور سے عقیقے کے جواز کے قائل ہیں ان میں سے مالکیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ بڑے جانور سے بھی ایک ہی عقیقہ ہو سکتا ہے،جب کہ احناف اور شوافع کہتے ہیں کہ جیسے قربانی میں بڑے جانور میں سات حصے ہوتے ہیں، اسی طرح عقیقے میں بھی سات حصے ہو سکتے ہیں۔ (الموسوعة الفقہیة، کویت:۳۰؍ ۲۷۹)

اس طرح بڑے جانور میں لڑکے کا دو حصہ اور لڑکی کا ایک حصہ مان کر عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بڑے جانور میں تین لڑکوں اور ایک لڑکی کا عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک بات ملحوظ رہے کہ سات حصوں کی تعداد پوری کرنی ضروری نہیں ہے۔ اس سے کم حصے ہوں تو بھی بڑے جانور کے ذریعے عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔

سودی لون سے کیے گئے کاروبار کی شرعی حیثیت

سوال:بینک سے قرض لے کر کاروبار کرنا کیسا ہے؟ جب کہ قرض پر سود حرام ہے۔ کیا ایسے قرض سے کیے گئے کاروبار کا منافع حلال ہوگا؟

جواب:

اسلام میں ’ربا ‘جسے سود ؍Interest کہا جاتا ہے، حرام ہے۔ کوئی شخص اپنی کسی ضرورت کے لیے کسی سے کچھ رقم قرض لے تو اس سے زیادہ کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے۔ سود لینا اور دینا دونوں کو حرام کیا گیا ہے۔ قرض کا معاملہ کسی بنیادی ضرورت کی تکمیل کے لیے کیا جائے یا تجارت کے لیے اور اسے کسی فرد سے لیا جائے یا بینک سے ،برابر ہے۔ تمام صورتوں میں سودی قرض حرام ہے۔

کاروبار کرنے کے لیے سودی قرض لینے سے حتی الامکان احتراز کرنا چاہیے۔ شرکت و مضاربت کے اصولوں پر اپنے کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے ،یا کہیں سے غیر سودی قرض لینا چاہیے۔ لیکن اگر کاروبار کا آغاز کرنا ہو اور کوشش کے باوجود کہیں سے غیر سودی قرض نہ مل پا رہا ہو تو کاروبار کھڑا کرنے کے لیے کسی حد تک سودی قرض لینے کی گنجائش ہوگی۔ کاروبار چلتا ہوا ہو تو محض اسے بڑھانے کے لیے سودی قرض لینا درست نہ ہوگا۔

اگر کسی شخص نے سودی قرض لے کر کاروبار کیا تو اس نے گناہ کا کام کیا، لیکن اس کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی اس کے لیے حلال ہوگی۔

بہرحال، گناہ سے بچنا  چاہیے اور حلال کمائی کے راستوں کی جستجو کرنی چاہیے۔

کریڈٹ کارڈ کا شرعی حکم

سوال:کیا کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہے؟

جواب:

کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے ادارے اور اسے لینے والے شخص کے درمیان یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ اگر وہ لی جانے والی رقم کو مقررہ مدت میں واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ سود ادا کرے گا۔ یہ معاملہ چوں کہ سود کی بنیاد پر طے ہوتا ہے اور سود کا لین دین اسلام میں حرام ہے، اس بنا پر اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس کر دے تو بھی معاہدے کے سودی ہونے کی بنا پر اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال ناجائز ہوگا۔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کےپندرہویں فقہی سیمینار، منعقدہ میسور کرناٹک 11 تا 23 مارچ 2006 میں ایک تجویز یہ منظور کی گئی تھی:

کریڈٹ کارڈ کی مروّج صورت چوں کہ سودی معاملے پرمشتمل ہے، لہٰذا کریڈٹ کارڈ یا اس قسم کے کسی کارڈ کا حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ (جدید مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے،طبع جون 2024، ص 226)

البتہ اگر کسی نے کریڈٹ کارڈ لے رکھا ہو تو کوشش کرے کہ لی گئی رقم متعین مدت کے اندر ادا کر دے ،تاکہ اسے سود ادا نہ کرنا پڑے۔

کیا باپ کی زندگی میں اس کا مالی تعاون نہ کرنے والا بیٹا وراثت کا مستحق ہوگا؟

سوال:میری کل جائیداد ایک عدد رہائشی مکان ہے، جس کا کل رقبہ 15 مرلے ہے۔ یہ مکان پہلے کچا تھا، اب نئے سرے سے کچھ میری کمائی اور کچھ تین بیٹوں کی کمائی سے بنایا گیا ہے۔ چوتھے بڑے بیٹے نے اس کی تعمیر میں حصہ نہیں ڈالا، کیوں کہ وہ ہم سے الگ رہتا ہے اور اپنا الگ گھر بنا چکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ میرا وہ بیٹا جس نے اس مکان کی تعمیر میں کچھ بھی حصہ نہیں ڈالا، کیا میری وفات کے بعد  میرے باقی بیٹوں کی طرح اس میں وراثت کا حق دار ہوگا یا نہیں؟

جواب:

بچے جب بڑے ہو جائیں اور کچھ کمانے لگیں تو ان کے ذمہ داری ہے کہ باپ کا سہارا بنیں اور جو کچھ کمائیں اس میں سے اپنی ضرورت بھر اپنے پاس رکھ کر باقی باپ کے حوالے کریں  ،تاکہ وہ سکون اور اطمینان کے ساتھ گھر کا خرچ چلا سکے۔

بچے جو کچھ ماں باپ کو دیں، اگر وہ صراحت کر دیں کہ اس کی ملکیت انہی کی ہے، وہ صرف ماں باپ کو استعمال کے لیے دے رہے ہیں تو ان کی بات مانی جائے گی اور اسے مال وراثت میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ صراحت نہ کریں تو اس کا مالک ماں یا باپ (جس کو وہ چیز دی جائے) کو سمجھا جائے گا اور ان کے انتقال کے بعد اسے تمام ورثہ کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کےانیسویں فقہی سمینار منعقدہ گجرات، 12 تا 15 فروری 2010 ءمیں ایک تجویز یہ منظور کی گئی تھی:

باپ کی موجودگی میں اگر بیٹوں نے اپنے طور پر مختلف ذرائع ِکسب اختیار کیے اور اپنی کمائی کا ایک حصہ والد کے حوالے کرتے رہے تو اس صورت میں باپ کو ادا کردہ سرمایہ باپ کی ملکیت شمار کیا جائے گا۔(جدید مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، طبع سوم،2024ء، ص 264)

بیٹوں کا اپنے باپ کو مالی تعاون برابر برابر کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ جس سے جتنا ممکن ہو تعاون کرے۔ کسی کے لیے تعاون کرنا ممکن نہ ہو تو نہ کرے۔

باپ کے انتقال کے بعد اس کی ملکیت کی تمام چیزیں: زمین، جائیداد، گھر، دکان، نقدی، شیئر وغیرہ سب کچھ تمام ہی  ورثہ کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ اس بنا پر اس کی زندگی میں گھر کی تعمیر میں بیٹوں میں سے کسی نے مالی تعاون کیا ہو یا نہ کیا ہو، سب وراثت کے حق دار ہوں گے۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2025

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2025

Dec 25شمارہ پڑھیں

نومبر 2025

Novشمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223