نماز یا دینی اجتماع کے لیے مساجد میں عورتوں کی حاضری
سوال ﴿۱﴾: ہمارے شہر میں ایک کالونی بسائی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کے اندر تقریباً سو افراد اور اس کے چبوترے پر پچاس افراد بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں۔ کالونی کی خواتین میں الحمدللہ مذہب کے معاملے میں کافی بیداری اور دینی شعور پایاجاتا ہے۔ دوبرس قبل ان کے مطالبے پر ان کے لیے بھی نماز تراویح کانظم کیاگیا۔ اس کے لیے مسجد سے متصل ایک کمرہ تعمیر کیاگیا، جس میں تقریباً پینتیس ﴿۳۵﴾ خواتین کے نماز ادا کرنے کی گنجایش ہے۔ اس کمرے میں خواتین کے داخلے کا علاحدہ انتظام ہے۔ نماز تراویح کے اس نظم کی وجہ سے دوسری کالونیوں سے بھی خواتین آنے لگیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے مسجد کے مشرقی جانب صحنِ مسجد سے متصل ایک مکان میں ایک صاحب دین نے ایک بڑا کمرہ فراہم کردیا ہے، جس میں تقریباً تیس ﴿۳۰﴾ خواتین نماز پڑھ سکتی ہیں۔ مسجد کے چبوترے سے اس کمرے کا فاصلہ اڑتیس ﴿۳۸﴾فٹ ہے۔
مندرجہ بالا نظم پر چند حضرات نے کافی اعتراض کیا۔ انھوں نے کہاکہ خواتین کا مسجد میں آنا فتنہ ہے۔ انھیں نماز کے لیے مسجد میں نہ آنے دینا چاہیے۔ ایک مقامی عالم دین نے کہاکہ مسجد کے چبوترے سے اس کمرے کا فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ اس بنا پر اُس کمرے میں نماز ادا کرنا صحیح نہیں ہے۔ گزشتہ رمضان میں موسم برسات اور خواتین کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر اس مسجد کے نصف چبوترے پر تین جانب سے قناطیں کھڑی کرکے کوشش کی گئی کہ کچھ خواتین اس پر نماز ادا کرسکیں، لیکن اسے بھی بعض حضرات نے نکال دیا اور مسجد کے پیش امام صاحب نے مائیک سے اعلان کردیاکہ ‘‘مسجد سے متصل مشرقی کمرے میں نماز ادا کرنا صحیح نہیں ہے۔‘‘
مسلم خواتین میں بڑھتے ہوے دینی شعور اور بیداری کو دیکھتے ہوئے اس قسم کے مسائل دوسرے شہروں میں بھی اٹھنے کاامکان ہے۔اس لیے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں:
۱- جس موجودہ صورت میں ہماری کالونی کی مسجد سے متصل کمرے میں خواتین نماز ادا کررہی ہیں وہ صحیح ہے یا نہیں؟
۲-اگر اس کمرے کے اوپر ایک اور منزل تعمیر کرکے وہاں یا موجودہ مسجد پر ایک اور فلور تعمیر کرکے وہاں خواتین کے لیے نماز تراویح کاانتظام کردیاجائے تو ایسا کرنا صحیح ہوگا یانہیں؟ بعض حضرات کاخیال ہے کہ خواتین کے لیے گرائونڈ فلورپر اور مردوں کے لئے فرسٹ فلور پر انتظام کیاجائے۔ اس بارے میں آپ کاکیاخیال ہے؟
۳- مسجد سے متصل مشرقی جانب جس کمرے میں خواتین نماز ادا کررہی ہیں، اس میں ان کانماز ادا کرنا درست ہے یا نہیں؟
۴- صفوں کے درمیان فاصلے (Gap)کاجو اعتراض اٹھایاجارہا ہے، اس کے بارے میں کیا کوئی شرعی ہدایت موجود ہے؟ بعض قدیم مساجد میں مشرق، شمال یا جنوب کی جانب ہال تعمیر کیے گئے ہیں، کنگشن دے دیے جاتے ہیں، ان مساجد میں مردوں کی آخری صف اور ہالوں میں خواتین کی پہلی صف کے درمیان کافی فاصلہ ہوتاہے۔ اکثر پرانی مساجد میں وسط صحن میں وضو کے لیے بڑے بڑے حوض ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے بھی صفوں کے درمیان گیپ ہوجاتاہے، مزید یہ کہ اب بہت سے حضرات تراویح کی آٹھ رکعتیں پڑھ کر چلے جاتے ہیں، اس وجہ سے صفوں کی تعداد کم ہوجاتی ہے اور گیپ بڑھ جاتا ہے۔ بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ کتنا گیپ ہوسکتا ہے؟
آپ سے درخواست ہے کہ اس موضوع پر احکام شریعت کی روشنی میں ہماری رہ نمائی فرمائیں۔
عنایت علی، مہتمم آب پاشی ﴿موظف﴾
مکان نمبر۱-۱۲-۶۴، محلہ گھاٹی، اورنگ آباد، مہاراشٹر
سوال ﴿۲﴾: ادارہ فلاح الدارین کے نام سے ہم بارہ مولہ ، جموںوکشمیر میں ایک ادارہ چلارہے ہیں۔ اس کی سرگرمیوں کا ایک اہم جز مسلمان خواتین میں اسلامی بیداری لانے کی کوشش کرناہے۔ اس حوالے سے خواتین کے بڑے بڑے اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں۔ کسی بڑے اجتماع گاہ یا کمیونٹی ہال کی عدم دستیابی کی وجہ سے خواتین کے یہ اجتماعات مساجد میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں اوقاتِ نماز کا پورا خیال رکھاجاتاہے اور اجتماعات ایسے اوقات میں منعقد کیے جاتے ہیں جب پنج وقتہ نمازیں ڈسٹرب نہ ہوں اور مرد نمازیوں کو کوئی دشواری اور زحمت نہ پیش آئے۔ یہاں کے بعض مقامی علمائ اس پر اعتراض کررہے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ مساجد میں عورتوں کا اجتماع منعقد کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ حنفی مسلک کی رو سے عورت کا کسی بھی صورت میں مسجدمیں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ آپ سے استدعاہے کہ اس مسئلے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں۔ کیا خواتین کے اجتماعات کا مساجد میں منعقد کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اور کیا حنفی مسلک میں عورت کاکسی بھی صورت میں مسجد میں داخل ہوناجائزنہیں ہے۔
عبدالرؤف میر
ادارہ فلاح الدارین، بارہ مولہ، ﴿جموںوکشمیر﴾
جواب :مذکور بالا دونوں مراسلوں سے بہ خوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ مساجد میں نمازوں یا دینی اجتماعات میں شرکت کے لیے عورتوں کی حاضری کے مسئلے پر مسلم معاشرے میں کس قدر بے چینی پائی جاتی ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو مساجد میں عورتوں کے جانے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور اس عمل کو امت کے لیے فتنہ قرار دیتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں اور اسے مسلمان خواتین کے لیے دینی اعتبار سے مفید قرار دیتے ہیں۔ اس مسئلے پر جذبات سے بالاتر ہوکر سنجیدگی کے ساتھ، ٹھنڈے دل سے غورکرناچاہیے۔
۱-احادیث سے ثابت ہے کہ عہدنبوی میںخواتین رات میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جایاکرتی تھیں۔ اس سلسلے میں ان کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ مسجدنبوی کاایک دروازہ ان کے لیے خاص کردیاگیاتھا۔ ان کی صفوں اور مردوں کی صفوں کے درمیان فاصلہ رکھاجاتاتھا اور درمیان میں بچوں کی صفیں ہوتی تھیں۔ نماز کے بعد موقع دیاجاتاتھا کہ عورتیں پہلے نکل جائیں۔ مردکچھ دیر کے بعد نکلتے تھے۔ عورتوں کو تاکید تھی کہ وہ خوشبو لگاکر یا زیب و زینت اختیارکرکے مسجد میں نہ جائیں۔ ایسامعلوم ہوتاہے کہ اس زمانے میں بھی بعض لوگ عورتوں کامسجد جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تاکید کی کہ اپنی پسند و ناپسند کو معیار بناکر عورتوں کو مسجد جانے سے نہ روکیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَاتَمْنَعُواِمَائَ اللّٰہِ مَسَاجِدَاللّٰہِ ﴿سننِ ابی داؤد:۵۶۵﴾
’’اللہ کی باندیوں ﴿خواتین﴾ کو اللہ کی مسجدوں میںجانے سے نہ روکو‘‘
یہ حدیث احمد، عبدالرزاق، دارمی، ابن حزیمہ اور بیہقی نے بھی روایت کی ہے
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِذا استاذنکم نِسائُ کُمْ بِاللَّیلِ اِلیَ المَسَاجِدِ فاَذْنُوالَھُنَّ﴿بخاری: ۵۶۸، مسلم:۴۴۲﴾
‘‘اگر تمھاری عورتیں رات کو مساجد میں جانے کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو انہیں اجازت دے دو’’
دوسری طرف بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ آپﷺنے عورتوں کے لیے اپنے گھروں میں فرض نمازوں کی ادائی کو بہتر قراردیا ہے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خَیْرُمَسَاجِدِ النِّساَئِ قَعْرُبُیْوتِھُنَّ ﴿احمد:۶/۷۹۲، ابن خزیمہ:۳۸۶۱، حاکم:۱/۹۰۲، بیہقی:۳/۱۳۱﴾
عورتوں کے لیے نماز ادا کرنے کی بہترین جگہ ان کے گھروں کااندرونی حصہ ہے
بلکہ بعض احادیث میں آپﷺنے دونوں باتیں ایک ساتھ فرمائی ہیں۔ ایک طرف آپ ﷺنے مردوںکو روکاکہ عورتوں پر اپنی مرضی نہ تھوپیں، دوسری طرف عورتوںسے فرمایاکہ ان کاگھروں ہی میں نماز پڑھ لینا زیادہ بہتر ہے۔ حضرت ابن عمر(رض) سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
لَاتَمْنَعُوا نِسَائَ کُمُ المَساَجِدُ وَ بُیوتُھُنَّ خَیْرلَّھُنَّ ﴿ابودائود:۷۶۵، ابن خزیمہ:۴۸۶۱،احمد:۲/۲۷﴾
اپنی عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکو، لیکن ان کے گھر ہی ان کے لئے بہتر ہیں
کتب حدیث میں یہ واقعہ مذکورہے کہ حضرت عمر بن الخطّابؓ کی زوجہ برابر مسجدمیں فجر اور عشائ کی نمازیں باجماعت ادا کرنے کے لیے جایاکرتی تھیں۔ کسی نے ان سے کہا: عمر(رض)! عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا پسند کرتے ہیں،پھر آپ ایسا کیوں کرتی ہیں؟ انھوںنے جواب دیا: جب تک وہ مجھے صراحت سے منع نہیں کریں گے، میں جاتی رہوںگی۔ اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کرنے سے روکا ہے۔ پھر وہ کیوں منع کریں گے۔ ﴿بخاری:۹۰۰﴾
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ عورتیں اگر چاہیں تو باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جاسکتی ہیں۔ اسی طرح وہ نماز تراویح میںبھی شریک ہوسکتی ہیں۔
۲-عورتیں اگر مساجد میں جاکر نماز باجماعت میں شریک ہونے کی خواہش مند ہیں تو ان کے لیے خصوصی انتظامات کیے جانے چاہئیں۔ مسجد کے شمال یا جنوب کے حصے میں دیوار کھڑی کرکے یا کوئی Partitionکرکے یا موٹا پردہ لٹکاکر یا مسجد سے متصل کوئی کمرہ تعمیر کرکے اس حصے کو اس کے لئے مخصوص کیاجاسکتا ہے۔ مسجد کے مشرقی جانب اس سے متصل کسی کمرے میں بھی وہ نماز ادا کرسکتی ہیں۔ بہ شرطے کہ ایسا انتظام ہوکہ انھیں امام کی نقل و حرکت کاصحیح طریقے سے علم ہوتا رہے۔ بلاضرورت صفوں کے درمیان فاصلہ رکھنا پسندیدہ نہیں ہے۔ البتّہ بہ وقتِ ضرورت اسے گوارا کیاجاسکتا ہے۔
۳- مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ کتنا فاصلہ ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں کوئی صریح نص نہیں ہے۔ فقہائ نے بعض وضاحتیں کی ہیں۔ مثلاً انھوںنے لکھاہے کہ اقتدائ درست ہونے کے لیے مقتدیوں کو امام کی نقل و حرکت صحیح طورپر معلوم ہوتی رہے اور وہ کسی شک و شبہ میں نہ پڑیں۔ اس معاملے میں بعض فقہائ نے مسجد اور غیرمسجد میں فرق کیاہے۔ ان کے نزدیک میدان میں نماز پڑھنے کی صورت میں اگر کہیں دو صفوں سے زیادہ کافاصلہ ہے تو پیچھے کے مقتدیوں کی نماز درست نہ ہوگی۔ ﴿نماز عیدین اس سے مستثنیٰ ہے﴾ مسجد میں اگر پیچھے نماز پڑھنے والے امام یا آگے کے مقتدیوں کو دیکھ رہے ہوں یا تکبیر سن رہے ہوں تو ان کی نماز صحیح ہوگی خواہ درمیان میں کتنا ہی فاصلہ ہو ﴿الموسوعۃ الفقیہۃ کویت ۶/۳۲، بہ حوالہ الفتاوی الھندیہ ۱/۸۸، مفتی مغنی المحتاج ، ۱/۸۴۲﴾
۴-مسجد اگر دومنزلہ ہے تو اس کا گراؤنڈ فلور عورتوں کے لیے خاص کردینا اور مردوں کے لیے فرسٹ فلور پر انتظام کرنا صحیح نہیں۔ مسجد کااصل حصہ گرائونڈ فلور کاہے۔اس میں مردوں کی جماعت ہونی چاہیے۔ عورتوں کے لیے فرسٹ فلور یا اگر کسی مسجد میں تہہ خانہ ہوتو اسے خاص کیاجاسکتا ہے۔
۵- عورتوں کے لیے مخصوص دینی اجتماعات منعقد کیے جاسکتے ہیں۔ عہدنبوی میں اس کی نظیر ملتی ہے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسوال اللہ! زیادہ تر صرف مرد ہی آپ کی باتیں سنتے ہیں۔ اس لیے آپﷺہم عورتوں کے لیے ایک دن خاص کردیجیے۔ جس میں ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفادہ کرسکیں۔ آپﷺنے اس تجویز سے اتفاق کیا اور ان کے لیے ایک دن خاص کردیا۔ عورتیں اس دن اکٹھا ہوئیں اور آپﷺنے ان کے پاس جاکر انھیں وعظ و تلقین کی۔ ﴿بخاری: ۱۰۱، ۹۴۲۱،۰۱۳۷﴾
۶- خواتین کے یہ اجتماعات دیگر مناسب مقامات مثلاً لیکچرہال، کمیونٹی سنٹر وغیرہ میں منعقد کیے جاسکتے ہیں اور مساجد میں بھی ان کاانتظام کیاجاسکتا ہے۔مذکوربالا حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ عورتوں کامخصوص اجتماع کہاں ہواتھا؟ حدیث میں فی مکان کذا وکذا﴿فلاں مقام پر﴾ کے الفاظ ہیں، جس سے معلوم ہوتاہے کہ غالباً وہ جگہ مسجد کے علاوہ کوئی اور تھی۔ لیکن دینی باتیں سننے کے لیے عورتوں کے مسجد جانے کی ممانعت کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے۔ حضرت عمر بن الخطابؓ کے عہد کامشہور واقعہ ہے کہ انھوںنے مسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! عورتوں کے مہر بہت زیادہ نہ رکھو۔ اگر یہ کوئی خوبی کی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ضرور کرتے۔ حالاں کہ آپﷺنے اپنی کسی بیوی یا بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں رکھا۔انھوں نے مزید فرمایاکہ اگر کوئی شخص اس سے زیادہ مہر رکھے گا تو یہ زائد رقم میں اس سے زبردستی لے کر بیت المال میں جمع کرادوںگا۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر عورتوں کی صف سے ایک طویل القامت عورت اٹھی اور اس نے سورۂ نسائ کی آیت ۲۰ کاحوالہ دے کر کہا: ’’اے امیرالمومنین! جب اللہ تعالیٰ نے مہرکی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے تو آپ کون ہوتے ہیں؟ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنی بات سے رجوع فرمالیا۔ ﴿تفسیرابن کثیر، ۱/۲۲۵،۳۲۵﴾
یہ روایت ترمذی، ابن مالکہ اور احمد نے بھی نقل کی ہے۔
۷- یہ کہناصحیح نہیں ہے کہ عورتوں کاکسی بھی صورت میں مسجدمیں داخلہ جائز نہیں ہے۔ احادیث سے ثابت یہ ہے کہ عہدنبوی میںعورتیں نہ صرف نماز باجماعت کی ادائی کے لیے بلکہ دوسرے کاموں کے لیے بھی مسجدجایاکرتی تھیں۔ عہد نبوی میںایک عورت کا کوئی گھر بار نہ تھا۔ اس نے اسلام قبول کیا تو اس کے لیے عارضی انتظام کے تحت مسجد نبوی میں خیمہ لگادیاگیاتھا ﴿ فَکَانَتْ لَھَا خِبَائٌ فِی الْمَسْجِدِ﴾ امام بخاری﴿۹۳۴﴾ نے اس روایت پر یہ ترجمۃ الباب قائم کیاہے: باب نوم المرأۃ فی المسجد ﴿اس چیز کا بیان کہ عورت مسجدمیں سوسکتی ہے﴾ ایک روایت میںہے کہ ایک عورت مسجد میں جھاڑو لگایاکرتی تھی اس کاانتقال ہوگیا تو لوگوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیے بغیر اس کی تدفین کردی بعد میں آپ کوپتاچلاتو آپﷺاس کی قبر پر تشریف لے گئے ﴿بخاری: ۸۵۴- ۰۶۴﴾ رُفیدہ نامی ایک خاتون کو علاج معالجہ کی خاصی معلومات تھیں۔ غزوہ احزاب کے بعد اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد نبوی میں ایک خیمہ لگوادیاتھا اور حضرت سعد بن معاذؓ کے علاج کی انھیں ذمے داری سونپی تھی۔ ﴿سیرۃ ابن ہشام، ۷۳۹۱ئ، ۳/۸۵۲﴾ غزہ احزاب کے بعد ایک دوسری خاتون حضرت کُعیبۃ بنت سعد کابھی خیمہ مسجد نبوی میں نصب کیاگیاتھا اور انھیں زخمیوں کے علاج کی ذمے داری دی گئی تھی۔ ﴿طبقات ابن سعد، ۶/۲۱۲﴾
البتہ یہ ملحوظ رہے کہ عورتوں کی مسجدمیں حاضری پاکی کی حالت میں ہونی چاہیے اور یہ عورتوں کے ساتھ مخصوص نہیں۔ مردوں کے لیے بھی ناپاکی کی حالت میں مسجد میں داخل ہوناجائز نہیں۔
۸-گزشتہ سطور میں یہ بات آچکی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف عورتوں کو مسجد جانے سے روکنے سے منع کیاہے، دوسری طرف عورتوں کے لیے گھر ہی میں نماز پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ اس بنا پر احناف نے نماز باجماعت کے لیے مسجد جانا عورتوں کے لیے مکروہ کہا ہے۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاویٰ عالم گیری میں ہے: ’’عورتوں کے لیے نماز باجماعت میں حاضری مکروہ ہے۔ ہاں بوڑھی عورت کے لیے فجر، مغرب اور عشائ میں اجازت ہے۔ آج کے دور میں فتویٰ یہ ہے کہ کراہت تمام نمازوں کے لیے ہے۔ اس لیے کہ فساد عام ہوگیا ہے۔ الکافی میں یہی مذکور ہے۔ یہی قول مختار ہے جیساکہ التبیین میں بیان کیاگیا ہے۔ ﴿فتاویٰ عالم گیری، طبع دیوبند، ۱/۹۸﴾ مذکورہ فتویٰ میں جس فساد کی طرف اشارہ کیاگیا ہے، اس کی بنیاد ام المومنین حضرت عائشہ(رض) کے اس قول میں موجود ہے۔ وہ اپنے زمانے کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ’’اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی وہ صورت حال دیکھ لیتے جو ہم نے دیکھی ہے تو آپ انھیں اسی طرح مسجد جانے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کو روک دیاتھا۔‘‘ ﴿بخاری: ۹۲۸، مسلم: ۵۴۴﴾
۹-اس مسئلے میں غور اور فیصلہ کرتے وقت روح شریعت کو ضرور اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔ دین کا مزاج اجنبی مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کو ناپسند کرتا ہے۔ ساتھ ہی عورتوں کے لیے پردے کے حدود متعین کرتاہے۔ جن مساجد میں عورتوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہوں اور اختلاط کے مواقع مسدود کردیے گئے ہوں، ان میں وہ پردہ اور دیگر شرعی حدود و قیود کے ساتھ نماز باجماعت کی ادائی کے لیے جاسکتی ہیں۔ لیکن جن مساجد میں ایسا کوئی انتظام نہ ہو، ان میں انھیں جانے سے حتی الامکان احتراز کرنا چاہیے۔ اسی طرح پردہ اور عدم اختلاط کے بنیادی اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے مساجدمیں عورتوں کے مخصوص اجتماعات کے انعقاد میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2010