تحریکی خواتین کا دائرہ عمل
سوال: میں الحمدللہ جماعت اسلامی ہند کی رکن ہوں، دس سال سے زیادہ عرصے سے جماعت سے وابستہ ہوں اور اس کی سرگرمیوںمیں حسب توفیق حصہ لیتی ہوں۔ لیکن پچھلے کچھ وقت سے میں ایک الجھن میں مبتلاہوں۔ میری الجھن خواتین کے دائرۂ عمل سے متعلق ہے۔ میں کچھ سوالات آپ کی خدمت میں بھیج رہی ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں میری رہ نمائی کرکے الجھن دور فرمائیں۔
۱-جماعت کے بڑے اجتماعات میں، جو علاقے ، حلقہ یا مرکز کی سطح پر منعقدہوتے ہیں، مردوں کے ساتھ خواتین بھی شریک ہوتی ہیں۔ کیا ایسے مشترک اجتماعات میں کوئی عورت درسِ قرآن یا درسِ حدیث دے سکتی ہے ، تقریر کرسکتی ہے یا مذاکرے میں حصہ لے سکتی ہے؟ کہاجاتاہے کہ نماز باجماعت میں اگر امام سے کوئی غلطی ہوجائے اور اس کو متنبہ کرناہوتو مردوں کو سبحان اللہ کہنے کاحکم ہے، مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صرف دستک دیں، زبان سے کچھ نہ بولیں۔ جب نماز جیسی عبادت میں عورتوں کاآواز نکالنا ممنوع ہے تو مردوں کے درمیان ان کا تقریر کرنا اور درس دینا کیوں کر جائزہوسکتا ہے؟ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ عورت کی آوازکابھی پردہ ہوناچاہیے۔ کیوں کہ اس میں بھی بہ ہرحال کشش ہوتی ہے۔
۲-میں اپنے شہر کی ناظمہ ہوں۔ اس ذمّے داری کی وجہ سے مجھے امیرمقامی، ناظم شہر، ناظم علاقہ اور کچھ دیگر مردارکان سے خواتین کے سلسلے میں فون پر بات کرنی ہوتی ہے اور ان لوگوں کے بھی فون آتے ہیں۔کیا میرا ان سے فون پر بات کرنا صحیح ہے؟ کہیں یہ شرعی حدود سے تجاوز تو نہیں؟
۳-کہاجاتاہے کہ عورت کادائرۂ کار اس کا گھر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: ’اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو‘ ﴿الاحزاب:۳۳﴾ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی کتاب ’پردہ‘ میں اس موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال فرمایاہے۔ انھوں نے لکھاہے : ’عورت کو ایسے تمام فرائض سے سبکدوش کیاگیاہے، جو بیرون خانہ کے امور سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ مثلاً اس پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے، اس پر جہاد بھی فرض نہیں، اس کے لیے جنازوں میں شرکت بھی ضروری نہیں۔ بلکہ اس سے روکاگیاہے۔ اس پر نماز باجماعت اور مسجدوں کی حاضری بھی لازم نہیں کی گئی، اگرچہ چند پابندیوں کے ساتھ مسجد میں آنے کی اجازت ضرور دی گئی، لیکن اس کو پسند نہیں کیاگیا۔ اس کو محرم کے بغیر سفر کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ غرض ہر طریقے سے عورت کے گھر سے نکلنے کو ناپسند کیاگیاہے اور اس کے لیے قانونِ اسلامی میں پسندیدہ صورت یہی ہے کہ وہ گھروں میں رہے۔‘ان باتوں کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے خواتین کو اپنے گھروں میں ٹِک کر بیٹھنے کا حکم دیاہے تو خواتین کامقامی سطح کے ہفتے وار اور ماہانہ اجتماعات اور علاقے اور حلقے کی سطح کے اجتماعات میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنا کس حد تک درست ہے؟ اور وہ دعوتی کاموں میں کس حد تک سرگرم رہ سکتی ہیں؟ کیا ان کا دیگر خواتین کی اصلاح کے لیے اور ان سے انفرادی ملاقاتوں کے لیے بار بار ان کے گھروں میں جانا صحیح ہے۔
حدیث کی رو سے عورت اپنے شوہرکے گھر کی نگراں ہے اور وہ اس کے دائرے میں اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے۔ گویا گھر سے باہر کی خواتین کے درمیان تبلیغ واصلاح کی ذمّے داری ہماری نہیں ہے، تو پھر ہم خواتین کو اپنے گھر سے باہر جاکر دیگر خواتین کو اکٹھا کرکے اجتماعات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
۴-میں نے ایم اے تک پڑھائی کی ہے۔ میرے شوہر چاہتے ہیں کہ آگے بھی پڑھائی جاری رکھوں یا ٹیچنگ کروں۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے گھر سے باہر تو نکلنا پڑے گا۔ بسااوقات ان اداروں میں مخلوط تعلیم کانظم ہوتاہے۔ کیا ان اداروں کو جوائن کیاجاسکتاہے؟ پردے کے اہتمام کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کوشش جائز ہے یاغیرضروری ہے؟
۵-میں نے انٹرکرنے کے بعد جماعت کے ایک پرائمری اسکول میں دو سال ٹیچنگ کی۔ اس وقت تک مجھے دین کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں۔ وہاں پڑھانے کے دوران اسکول کے پرنسپل ، منیجراور بعض دیگر افرادنے میری تربیت کی، مجھ میں دین کا شعور پیداکیا اور میری زندگی کو تحریک سے جوڑدیا۔ ان لوگوں کی حیثیت میرے نزدیک معلّم جیسی ہے۔ آج بھی میں اپنے دینی مسائل کاحل جاننے کے لیے ان حضرات سے مدد لیتی ہوں۔ میں ان سبھی کے سامنے رودر روبیٹھ کر بات کرتی ہوں۔ اس موقع پر میں ساتر لباس میں تو ہوتی ہوں، مگر چہرہ نہیں ڈھانپتی۔ یہ سبھی حضرات تحریک اسلامی کے رکن ہیں اور عمردراز ہیں۔ میری رہ نمائی فرمائیں کہ مجھے اسی طریقے پر رہناچاہیے یا ان لوگوں سے ملنا جلنا ختم کردینا چاہیے؟
محترم!مجھے ڈرلگتاہے کہ جن کاموں کو میں نیکی سمجھ کر کررہی ہوں، کہیں ان سے میرے گناہ تو نہیں بڑھ رہے ہیں؟ میری آخرت تو نہیں خراب ہورہی ہے؟ میں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتی جس سے اللہ کے عائد کردہ حدود پامال ہوں۔ بہ راہِ کرم میری رہ نمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں؟
نوشینہ خاتون
ذاکر کالونی، میرٹھ ﴿یوپی﴾
جواب: اپنے اعمال کے بارے میں ہمہ وقت حسّاس رہنا ایمان کی علامت ہے۔ اللہ کے نیک بندے کو ہر لمحہ یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں اس سے کوئی ایسا گناہ یا ایسی لغزش تو نہیں سرزد ہورہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو دعوت دیتی ہو اور اس کے غضب کو بھڑکاتی ہو۔ جب کہ اللہ کا نافرمان بندہ اس فکر سے بے پروا ہوتا ہے۔ صحابی ِ رسول حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اسی بات کو تمثیل کے انداز میں یوں بیان کیاہے۔ انھوں نے فرمایا:
’’مومن سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتاہے تو اس پر اس طرح خوف طاری ہوجاتاہے گویا وہ کسی پہاڑ کے دامن میں ہے اور وہ پہاڑ اس پر گراچاہتاہے اور فاجر اگر کسی گناہ کاارتکاب کرتاہے تو اس پر اس کی کیفیت بس ایسی ہوتی ہے گویا کوئی مکھی اس کی ناک پر بیٹھی تھی جسے اس نے ہانک دیا۔“ ﴿ترمذی۲۴۹۷﴾
آپ نے جو سوالات دریافت کیے ہیں، وہ عام طور سے تحریکی حلقے کی خواتین کو درپیش رہتے ہیں۔ میں اپنے فہم کے مطابق ان کے جوابات تحریر کررہاہوں۔ امید ہے ان سے آپ کی الجھنیں رفع ہوجائیںگی۔
۱-یہ سوال کہ ایسے اجتماعات میں، جہاں مرد بھی رہتے ہوں، کیا عورت قرآن ،حدیث کا درس دے سکتی ہے یا تقریر کرسکتی ہے؟ دراصل ایک دوسرے سوال پر مبنی ہے کہ کیا عورت کی آواز کاپردہ ہے یا نہیں؟ اگر عورت کی آواز کا پردہ ہے کہ اجنبی مردوں کے لیے اس کا سننا جائز نہ ہو تو ظاہر ہے کہ مشترک اجتماعات میں کسی بھی طریقے سے اس کااظہار ِ خیال کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس مسئلے میں فقہائ کااختلاف ہے، بعض فقہا عورت کی آواز کے پردے کے قائل ہیں۔ علامہ حصکفیؒ حنفی فرماتے ہیں:
ان صوت المرأۃ عورۃ علی الراجح ﴿حصکفی، الدرالمختارمع ردالمحتار، طبع بیروت، ۹/۵۳۱﴾
’’راجح قول کے مطابق عورت کی آواز کابھی پردہ ہے‘‘
اسی طرح مالکی فقہا ء علامہ قرطبیؒ اور قاضی ابن العربیؒ نے لکھاہے:
ان المرأۃ کلہا عورۃ بدنہا وصوتہا ﴿ابوعبداللّٰہ القرطبی، الجامع/احکام القرآن، طبع مصر، ۴۱/۷۲۲، القاضی ابن العربی، احکام القرآن، طبع بیروت، ۳/۱۵۷۹﴾
’’عورت سراپا قابلِ ستر ہے۔ اس کا بدن بھی اور اس کی آواز بھی‘‘
اسی بناپر ان فقہاء نے نماز میں امام کی کسی غلطی پر اسے متنبہ کرنے کی صورت میں عورت کے لیے منہ سے آواز نکالنے کو منع کیا ہے۔ لیکن بعض فقہا کا خیال ہے کہ عورت کی آواز کاپردہ نہیں ہے۔ الموسوعۃ الفقہیۃ میں فقہ شافعی کی مشہور کتاب مغنی المحتاج کے حوالے سے درج ہے:
امّا صوت المرأۃ فلیس بصورۃ عندالشافعیۃ ویجوزالاستماع الیہ عند أمن الفتنۃ ﴿الموسوعۃ طبع کویت، ۱۳/۴۷﴾
’’شوافع کے نزدیک عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے۔ فتنہ کااندیشہ نہ ہوتو اسے سنا جاسکتا ہے۔‘‘
قرآن کی روشنی میں مؤخرالذکر فقہا کی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے حکم دیاہے:
اِنِ اتَّقَیْْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٰ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفا ﴿الاحزاب:۳۲﴾
’’اگرتم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیاکرو کہ دل کی خرابی کامبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑجائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔‘‘
اس آیت میںیہ نہیں کہاگیاہے کہ عورتیں اجنبی مردوں سے بات ہی نہ کریں، بلکہ یہ حکم دیاگیاہے کہ وقت ضڑورت بات کرتے وقت وہ اپنی آواز میں لوچ اور نرمی پیدا نہ کریں اور ان کی باتیں صاف، بے آمیز اور بھلائی پر مبنی ہوں۔ علامہ قرطبیؓ فرماتے ہیں: ‘قول معروف سے مراد وہ درست بات ہے جو نہ شریعت کی نگاہ میں قابل گرفت ہو اور نہ جسے لوگ بُرا سمجھتے ہوں’ ﴿القول المعروف ہو الصواب الذی لاتنکرہ الشریعۃ ولاالنفوس۔ تفسیر القرطبی، ۱۴/۱۷۸﴾ امام رازیؒ نے لکھاہے: ‘اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ عورت اجنبی مردوں سے بدزبانی کرے، بلکہ اس آیت میں وقتِ ضرورت اچھی بات کرنے کا حکم دیاگیاہے’ ﴿ان ذلک لیس امراً بالایذائ والمنکر، بل القول المعروف وعندالحاجۃ ہوالمأموربہ لاغیر۔ تفسیر کبیر، طبع قاہرہ۔۲۵/۱۸۲﴾
عہد نبویﷺ میں عورتیں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتی تھیں۔ وہاں مرد بھی ہوتے تھے، ان کی موجودگی میں وہ آپﷺ سے مختلف سوالات کرتی تھیں۔ ان کی گفتگو کبھی مختصر ہوتی تھی اور کبھی طویل۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس چیز کااظہار نہیں فرمایاکہ مردوں کی موجودگی میں عورتوں کو خاموش رہناچاہیے اور اپنے منہ سے کوئی آواز نہیں نکالنی چاہیے۔ ایک موقعے پر حضرت اسماء بنت زید بن سکنؓ نامی صحابیہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئیں اور دوسری خواتین کی ترجمانی کرتے ہوئے اسلامی معاشرے میں اپنی خدمات اور ان پر اجر کے حوالے سے مفصل گفتگو کی۔ آپﷺ نے حاضرینِ مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ‘کیا تم لوگوں نے کسی عورت کو اپنے دین کے متعلق اس عورت سے زیادہ بہتر انداز میں سوال کرتے سنا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! ہم نے نہیں سنا۔’ ﴿ابن عبداللہ، الاستیعاب فی اسماءالاصحاب، تذکرہ اسمائ بنت زید بن سکن، ۴/۷۳۲، برحاشیہ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، مطبعۃ المعاوۃ مصر﴾
ایک موقعے پر مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند سے یہی سوال کیاگیاکہ عورت کے لیے آواز کاپردہ ہے یا نہیں؟ اس کا انھوں نے یہ جواب دیا:
’’عورت کے لیے اجنبی مردوں سے بلاوجہ بات چیت کرنا ناپسندیدہ ہے۔ لیکن بہت سی علمی، دینی، معاشی ضروریات کے تحت اسے بات چیت کرنی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کی ہدایت یہ ہے کہ کسی نامحرم سے بات چیت کے وقت عورت کی آواز میں لوچ نہ ہو۔ اس کی آواز ایسی نہ ہو کہ غیرمرد کے دل میں کوئی بُراخیال آئے، بلکہ اس کے لب ولہجے میں کسی قدر درشتی ہو اور بات نیکی ، تقویٰ اور دین ودنیا کی بھلائی کی ہو۔‘‘
﴿اسلام کا عائلی نظام، طبع دہلی، ص:۱۸۱﴾
۲-عورت کا اجنبی مردوں سے وقتِ ضرورت بالمشافہ گفتگو کرنا جائز ہے تو فون کے ذریعے بھی اس کا ان سے رابطہ کرنا اور گفتگو کرنا جائز ہوگا۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
۳-عورت کا دائرہ کار اس کا گھر اور مرد کا دائرہ کار بیرونِ خانہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت گھر سے باہر کے کسی کام کی انجام دہی کے لیے نکل ہی نہیں سکتی اور مرد کے لیے اندرونِ خانہ کوئی کام کرنا روا نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام ضروریات کی انجام دہی کے لیے عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔ ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا:
قَدْاَذِنَ اللّٰہُ لَکُنَّ اَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِکُنَّ ﴿بخاری:۵۲۳۷،مسلم:۲۱۷﴾
’’اللہ نے تم عورتوں کو اجازت دی ہے کہ اپنی ضروریات کے لیے گھروں سے باہر جاسکتی ہو‘‘
حوائج ﴿ضروریات﴾ میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ اس میں دُنیوی ضروریات بھی شامل ہیں اور دینی ضروریات بھی۔ اگر عورتیں سودا سلف، گھریلو سامان اور ملبوسات وغیرہ کی خریداری کے لیے بازاروں میں جاسکتی ہیں تو وہ اپنی اپنی دینی معلومات میں اضافے کے لیے اجتماعات اور مذہبی پروگراموں میں بھی شریک ہوسکتی ہیں۔ اگر وہ اپنے والدین اور اعزّہ و اقارب سے ملاقات کے لیے ان کے گھروں میں جاسکتی ہیں تو دینی و تحریکی روابط بڑھانے کے لیے دوسری خواتین کے گھروں میں بھی جاسکتی ہیں۔ قرآن کریم سے ہمیں اس معاملے میں رہ نمائی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَآئ بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ ﴿التوبہ: ۷۱﴾
’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کاحکم دیتے ہیںاور بُرائی سے روکتے ہیں‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ بھلائی کاحکم دینا اور بُرائی سے روکنا مومن مردوں کے ساتھ ساتھ مومن عورتوں کی بھی ذمّے داری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ذمّے داری اپنے آپ کو گھر تک محدود رکھ کر کماحقہ نہیں انجام دی جاسکتی۔ مرد اور عورتیں دونوں سماج کا حصہ ہیں۔ اس کی فلاح و بہبود کے لیے دونوں کو مل کر کام کرنا ہے۔ دین کی تبلیغ و اشاعت، معروفات کاقیام، منکرات کا ازالہ دونوں عورت اور مرد کی مشترکہ جدوجہد اور باہمی تعاون کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے مل جل کر اور ایک دوسرے کے تعاون سے ان کاموں کو انجام دیں۔
۴-تعلیم حاصل کرنا مردوں اور عورتوں دونوں کا بنیادی حق ہے۔ اس میں دینی تعلیم بھی شامل ہے اور دنیوی تعلیم بھی۔ ہرطرح کی تعلیم لڑکوں کی طرح لڑکیاں بھی حاصل کرسکتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ لڑکیوں کے لیے ابتدائی مرحلے سے اعلیٰ سطح تک تعلیم کے علاحدہ ادارے ہوں، جن میں وہ آزادی ، یک سوئی اور اطمینان کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں۔ ایسے ادارے قائم بھی ہورہے ہیں۔ لیکن چوں کہ ابھی وہ بہت محدود تعداد میں ہیں اور ہر علاقے میں نہیں پائے جاتے ہیں، اس وجہ سے مسلم لڑکیوں کو مخلوط تعلیمی اداروں میں داخلہ لیناپڑتاہے۔ جہاں لڑکیوں کے لیے علاحدہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی سہولت نہ ہو وہاں وہ حدود شریعت میں رہتے ہوئے اور پردے کے اہتمام کے ساتھ مخلوط تعلیمی اداروں کو جوائن کرسکتی ہیں۔
۵-خواتین کی غیرمحرم اور اجنبی مردوں سے ملاقات کے سلسلے میں شریعت نے کچھ حدود متعین کی ہیں۔ ان کی رعایت کرتے ہوئے ان سے ملاقات کی جاسکتی ہے اور ان سے گفتگو اورتبادلۂ خیال کیاجاسکتا ہے۔ مثلاً یہ کہ عورت کے لیے ضروری ہے کہ کسی اجنبی مرد سے تنہائی میں ہرگز نہ ملے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکرنے سے سختی سے منع کیاہے۔ ﴿بخاری: ۵۲۳۳، مسلم:۱۳۴۱﴾ وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے، جس میں مرد کے لیے کشش ہو، مثلاً تیز خوشبو، شوخ رنگ کے کپڑے اور زیب و زینت وغیرہ۔گفتگو شریفانہ انداز میں، حیا اور وقار کیساتھ اور اخلاقی حدود میں رہ کرکی جائے۔ ناز، نخرے اور لبھانے والا انداز نہ ہو۔ ﴿الاحزاب:۳۲﴾ اسی طرح اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ساتر لباس میں ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا لباس نہ اتنا تنگ ہو کہ جسم کے نشیب وفراز نمایاں ہوں اور نہ اتنا باریک کہ بدن جھلکے۔ بدن کے سارے اعضاء ڈھکے ہوئے ہوں اور سینے پر دوپٹا ہو۔ ﴿النور:۳۱﴾ جہاں تک اجنبی مردوں کے سامنے عورت کے لیے اپنا چہرہ کھولنے یا نہ کھولنے کامسئلہ ہے تو اس سلسلے میں فقہا کااختلاف ہے۔ بعض چہرہ چھپانے کو واجب قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض کاخیال ہے کہ سورہ النور کی آیت:۳۱اور بعض احادیث سے چہرہ اور ہتھیلی کا استثناء معلوم ہوتاہے۔ مولانا مودودیؒ عورت کے لیے اجنبی مردوں سے چہرہ چھپانے کے قائل ہیں۔ یہ اختلاف عہد صحابہ سے موجود ہے اور دونوں گروہوں کے پاس مضبوط دلائل ہیں۔ اس لیے کسی کے موقف کو یک سر رد نہیں کیاجاسکتا۔ مناسب ہے کہ عورت کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنے لیے جو موقف بہتر سمجھتی ہو، اختیارکرلے۔ تحریکی خواتین کے دائرۂ عمل سے متعلق سطورِ بالا میں جو باتیں عرض کی گئی ہیں، ان کے ساتھ چند اور باتوں کابھی خیال رکھناچاہیے:
۱-مردوں کے پروگراموںمیں خواتین کے ذریعے اور خواتین کے پروگراموں میں مردوں کے ذریعے اظہار خیال کے مواقع شدید ضرورت کے تحت ہی فراہم کیے جانے چاہییں۔ اگر مذہبی اجتماعات میں مطلوبہ موضوعات پر تقریرکرنے کے لیے باصلاحیت مرد موجود ہوں تو خواتین کے ذریعے اسٹیج سے یا پس پردہ تقریر کروانے سے بچنا مناسب ہے۔ بسااوقات قدامت پرستی اور جمود پسندی کے طعنوں سے خود کو بچانے کے لیے ہم اپنے اجتماعات میں ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں تو ان سے ہمیں جتنا فائدہ حاصل ہوتاہے، اس سے کہیں زیادہ ہم مسلم عوام کو اپنے سے دور کردیتے ہیں۔ یہ دانش مندی نہیں ہے۔ کبھی کبھی کسی کام کے جائز ہونے کے باوجود عوام کی ناپسندیدگی کی بنا پر اسے چھوڑنا مصلحت کا تقاضا ہوتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جانتے ہوئے کہ خانۂ کعبہ پورے طورپر ابراہیمی بنیادوں پر قائم نہیں ہے، اسے منہدم کراکے ازسرنوتعمیر نہیں کرایا، اس کے پیچھے یہی مصلحت تھی۔
۲-تحریکی خواتین کو اپنی دینی و دعوتی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے حتی الامکان شبہات کے مواقع سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور ذمّے داروں اور رفقائ سے ملاقات کرتے وقت پوری احتیاط ملحوط رکھنی چاہیے۔ تاکہ کسی کو انھیں بدنام کرنے اور ان کے خلاف باتیں بنانے کاکوئی موقع نہ مل سکے۔ اس سلسلے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے سے رہ نمائی ملتی ہے۔ ایک مرتبہ آپﷺ مسجد میں معتکف تھے۔ آپﷺ کی زوجہ حضرت صفیہ (رض) آپﷺ سے ملنے آئیں، واپسی میں آپﷺ انھیں رخصت کرنے مسجد کے دروازے تک تشریف لے گئے۔ اس وقت وہاں سے دو انصاری صحابی گزر رہے تھے۔ انھوںنے آپﷺ کو کسی خاتون کے ساتھ دیکھا تو اپنی رفتار اور تیز کردی۔ آپﷺ نے انھیں پکارا اور فرمایا: ‘ٹھہرو! یہ میری بیوی صفیہ ہیں۔’ ان دونوں نے عرض کیا: ‘اے اللہ کے رسول(ص)! سبحان اللہ، ہم آپﷺ کے بارے میں کوئی غلط بات کیوں کر سوچ سکتے ہیں۔’ آپﷺ نے فرمایا:
اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الِانْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ ﴿بخاری:۷۱۷۱﴾
‘شیطان انسان کے دل میں وسوسے ڈالنے کے لیے اس طرح سرگرم رہتاہے جس طرح اس کی رگوں میں خون دوڑتا ہے’
۳-اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خواہش ہو یا تحریکی سرگرمیاں انجام دینے اور تحریکی افراد سے روابط کامسئلہ ہو، تحریکی خواتین کے لیے اپنے سرپرستوں ﴿ماں باپ ہوں یا دوسرے رشتے دار یا شوہر﴾ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ وہ جو بھی کام کریں ان کو بتاکر اور ان کے مشورے سے کریں۔ اس طرح انھیں ان کی جانب سے تعاون اور ہم دردی بھی حاصل ہوگی اور کسی قسم کی بدگمانی کو درآنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ بسااوقات انھیں اعتماد میں لیے بغیر یا ان کی عدم رضامندی کے باوجود تحریکی کام انجام دینے سے بڑے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔
۴-ترجیحات کاتعیّن ضروری ہے۔ ہرعورت کے لیے لازم ہے کہ پہلے اپنے گھرپر توجہ دے، پھر دوسرے لوگوں کی فکر کرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
المرأ ۃُ رَاعِیَۃٌ عَلیَ اَھْلِ بَیْتِ زَوْجِھَا وَ وَلَدِہٰ وَھِیَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْہُمْ ﴿بخاری: ۷۱۳۸، مسلم:۱۸۲۹﴾
‘عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگراں ہے، اس سے ان کے بارے میں بازپرس ہوگی’
اس معاملے میں بسااوقات بڑی کوتاہیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ والدین یا ان میں سے کوئی ایک،گھر سے باہر تحریکی سرگرمیاں انجام دینے میں اتنا منہمک ہوتا ہے کہ بچوں پر کماحقہ اس کی توجہ نہیں رہ پاتی اور وہ انھیں پورا وقت نہیں دے پاتا، جس کی بناپر بچوں کی صحیح ڈھنگ سے تربیت نہیں ہوپاتی اور وہ تحریک سے بھی دور ہوجاتے ہیں۔ بہت سے تحریکی گھرانوں کایہی المیہ ہے۔
دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی خدمت کی توفیق عطافرمائے اور ہمیں حدودِ شرع کاپابند بنائے۔ آمین
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2010