زکوٰۃ کے چند مسائل
سوال: میں ایک فیکٹری کامالک ہوں۔ اس میں بہت سے ملازمین کام کرتے ہیں۔ میں ہر سال رمضان میں اپنی پورے سال کی آمدنی کاحساب کرکے زکوٰۃ نکالتاہوں۔ زکوٰۃ کی ادائی کے بارے میںمیری چند الجھنیں ہیں۔ بہ راہِ کرم شریعت کی روشنی میں انھیں دور فرمائیں:
﴿۱﴾ فیکٹری میں کام کرنے والے ملازمین کے بچوں کی تعلیم، علاج معالجہ، شادی اوردیگر مواقع پر میں ضرورت محسوس کرتاہوں کہ ان کی کچھ مالی مدد کی جائے۔ کیا انھیں زکوٰۃ کی مد سے کچھ رقم دی جاسکتی ہے؟ میراخیال ہے کہ بعض ملازمین ایسے بھی ہیںکہ اگر انھیں رقم دیتے وقت بتادیاجائے کہ یہ زکوٰۃ کامال ہے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکارکردیںگے۔ کیا انھیں بغیراس کی صراحت کے کچھ رقم دی جاسکتی ہے؟ کیا زکوٰۃ کی ادائی درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جسے دی جائے اسے صاف لفظوں میں یہ بھی بتایاجائے کہ یہ زکوٰۃ ہے؟
﴿۲﴾کیا جتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اسے فوراً یک مشت ادا کردینا ضروری ہے؟ یا اسے الگ رکھ کر اس میں سے تھوڑا تھوڑابہ وقتِ ضرورت خرچ کیاجاسکتاہے؟ میں یہ مناسب سمجھتاہوں کہ زکوٰۃ کی رقم الگ کرکے رکھ لوں اور پورے سال اس میں سے تھوڑی تھوڑی رقم ضرورت مندوں کو دیتارہوں۔ لیکن مجھے شبہ ہے کہ جب تک زکوٰۃ کی رقم میری تحویل میں رہے گی میں اس کی عدم ادائی کا گناہ گار ہوںگا۔
﴿۳﴾بعض ملازمین قرض مانگتے ہیں، مگر پھر اسے ادا نہیںکرتے۔ بارہا تقاضوں کے باوجود ان سے قرض کی رقم واپس نہیں مل پاتی۔ کیا رقم زکوٰۃکو اس میں ایڈجسٹ کیاجاسکتا ہے، کہ میں ان ملازمین سے قرض مانگنا چھوڑدوں اور اس کی بہ قدر رقم واجب الادا زکوٰۃ میں سے روک لوں؟
نصرت علی
چنچل گوڑہ، حیدرآباد
جواب: بہ قدر نصاب مال کسی شخص کے پاس ایک سال تک رہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے۔ سال پورا ہونے کے بعد وہ کبھی بھی زکوٰۃ ادا کرسکتاہے۔ اس کے لیے رمضان کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر کسی نے رمضان المبارک میں زکوٰۃ نکالنے کا معمول بنارکھاہے تو یہ بھی اچھا ہے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کے بارے میں آتاہے کہ وہ رمضان میں اپنی زکوٰۃ نکالا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ فرماتے تھے: ’لوگو! یہ تمھاری زکوٰۃ کی ادائی کامہینا ہے، اس لیے اپنے قرض ادا کرلو۔ تاکہ جو مال بچے اس کی زکوٰۃ ادا کرو۔‘ ﴿موطاامام محمد، ص:۱۲۸﴾
آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
﴿۱﴾زکوٰۃ کی ادائی کے لیے ضروری ہے کہ کوئی شخص زکوٰۃ کی نیت سے کچھ مال کسی شخص کو دے۔ اس کے بغیر زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ لیکن جس شخص کو مال دیاجارہاہے اس کے علم میںیہ بات آنی ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے۔
ویشترط علم آخذالزکاۃ انہا زکاۃ
﴿الموموضوعۃ الفقیۃ، ۳۲/۳۹۲، بہ حوالہ المفتی، ۲/۲۴۰، شرح المنہاج، ۲/۴۳﴾
’اداے زکوٰۃ کی صحت کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ اسے قبول کرنے والے کو معلوم ہوکہ یہ زکوٰۃ ہے‘
موجودہ دور کے عالم اسلام کے مشہور فقیہ شیخ وہبۃ الزحیلی نے لکھاہے:
’اگرمسلمان اپنی زکوٰۃ کسی ایسے شخص کو دے دے جس کو وہ غریب گمان کرتا ہو یا وہ بہ ظاہر ضرورت مند دکھائی دیتا ہو تو اس کو یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ ہے‘
﴿الفقیہ الاسلامی وادلّتہ، دارالفکر دمشق، ۲/۷۸۹﴾
مولانا مجیب اللہ ندویؒ فرماتے ہیں:
’کسی مستحق کو اگرزکوٰۃ کا روپیہ دیاجائے تو اس کو بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوٰۃ کا روپیہ ہے اور اگر بتانے میں اس کو رنج پہنچنے کا اندیشہ ہوتو نہ بتاناہی بہتر ہے۔ خاص طورپر اپنے قریبی اعزّہ اور دوستوں کو بالکل ہی نہ بتانا چاہیے۔‘ ﴿اسلامی فقہ، تاج کمپنی دہلی، ۱۹۹۲ء، ۱/۴۴۸﴾
﴿۲﴾ زکوٰۃ فرض ہونے کے بعد اسے فوراً بھی ادا کیاجاسکتاہے اور کچھ تاخیر سے بھی۔ یک مشت بھی اس کی ادائی کی جاسکتی ہے اور اس میں سے تھوڑی تھوڑی رقم بھی حسب ضرورت خرچ کی جاسکتی ہے۔ لیکن محض رقم زکوٰۃ کو الگ رکھ لینے سے وہ اداشدہ متصور نہ ہوگی، جب تک کہ وہ کسی مستحق کے ہاتھ میں نہ پہنچ جائے۔ اس لیے کہ اداے زکوٰۃ کے لیے ’تملیک‘ ﴿ کسی کو مال ِ زکوٰۃ کامالک بنادینا﴾ ضروری ہے۔ جب زکوٰۃ کی وہ رقم کسی مستحق کو مل جائے گی تبھی وہ ادا سمجھی جائے گی۔ اسی وجہ سے فقہاء کہتے ہیں کہ اگر کسی شخض نے قدرت کے باوجود اداے زکوٰۃ میں تاخیر کی تو وہ گنہ گار ہوگا۔ فقہاء ے احناف تاخیر سے ادائی کی اجازت دیتے ہیں، لیکن وہ بھی ایسا کرنے کو مکروہ کہتے ہیں۔ ﴿ملاحظہ کیجیے: قاموس الفقہ، ۴/۹۲﴾
﴿۳﴾کسی شخص نے دوسرے کو ایک رقم بہ طور قرض دی، لیکن وہ اسے واپس نہیں کرپارہاہے تو کیا قرض خواہ ﴿قرض دینے والے﴾ کے لیے جائز ہے کہ اس قرض کو زکوٰۃ میں ایڈجسٹ کردے اور قرض دار سے کہے کہ اب تمھیں قرض واپس کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے تمھیں اس کی بہ قدر زکوٰۃ دے کر اسے واپسیٔ قرض مان لیاہے؟ اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔
احناف، حنابلہ اور مالکیہ ﴿امام شافعیؒ کابھی ایک قول یہی ہے﴾ کہتے ہیں کہ ایسا کرناجائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کاحق ہے ، اس لیے اس کی ادائی کے معاملے میں کوئی ایسی تدبیر اور حیلہ اختیارکرنا مناسب نہیں جس سے اپنا ڈوباہوا مال بچ جائے اور قرض واپس مل جائے۔ اداے زکوٰۃ کے لیے ’تملیک‘ ضروری ہے۔ جب تک اس مال کاکسی دوسرے کومالک نہیں بنایاجائے گا اسے ادا نہ سمجھاجائے گا۔
تابعین میں سے حسن بصریؒ اور عطابن ابی رباحؒ اور فقہاے مالکیہ میں سے اشہبؒ کہتے ہیں ﴿اور امام شافعیؒ کابھی ایک قول یہی ہے﴾ کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ اپنی زکوٰۃ اس کے حوالے کردیتا، پھر اسی رقم کو اپنے قرض کے بدلے واپس لے لیتاتوایساکرنا درست ہوتا۔ اسی طرح رقم حوالے کیے بغیربھی اسے ایڈجسٹ کیاجاسکتا ہے۔
جو لوگ عدم جواز کے قائل ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ اگر بغیر کسی پیشگی شرط اور معاہدے کے قرض خواہ نے قرض دار کو زکوٰۃ کی رقم دی اور قرض دار نے اسی سے اپنا قرض ادا کردیا تو ایساکرنا صحیح ہوگا۔ لیکن اگر اس نے پہلے سے شرط لگالی اور معاہدہ کرلیاکہ میں تمھیں زکوٰۃ دے رہاہوں، تمھیں اسی سے میرا قرض ادا کرناہوگا، تو یہ معاملہ کرنا صحیح نہ ہوگا اور زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
﴿فقہ السنۃ، ۱۷۴-۸۴، الموسوعۃ الفقیۃ، ۳۲/۳۰۰، الفقہ الاسلامی وادلّۃ، ۲/۸۰۲﴾
سوال: زکوٰۃ کے سلسلے میں چند سوالات ارسالِ خدمت ہیں، گزارش ہے کہ ان کی تشفی بخش جواب کی زحمت فرمائیں:
﴿۱﴾ کیا زکوٰۃ اپنے غریب قریبی رشتے داروں ﴿ سگے بھائی، چچاوغیرہ ﴾کو دی جاسکتی ہے؟
﴿۲﴾ کیا اپنی کل زکوٰۃ کسی ایک شخص کو دی جاسکتی ہے؟
﴿۳﴾ ایک شخص خود غریب ہے، لیکن اس کی بیوی کے پاس اتنے زیورہیں کہ اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔ کیا ایسے شخص کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
﴿۴﴾ عورت سروس کرتی ہے، مال دار ہے، صاحبِ نصاب ہے، لیکن اس کاشوہر غریب اور بے روزگار ہے۔ کیا عورت اپنی زکوٰۃ اپنے شوہر کو دے سکتی ہے؟
انور کمال صدیقی
فردوس نگر، علی گڑھ
جواب: اداے زکوٰۃ کی صحت کے لیے ایک بنیادی بات یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے والے اور زکوٰۃ لینے والے کے درمیان ایسا رشتہ نہ ہوکہ وہ مملوکہ اشیاء سے استفادے میں شریک رہتے ہوں یا زکوٰۃ قبول کرنے والے زکوٰۃ ادا کرنے والے کے زیرکفالت ہوں یا ان کے درمیان ولادت کارشتہ نہ ہو۔ اسی بناپر ماں باپ، دادادادی، نانانانی، بیٹوں، پوتوں، بیٹیوںنواسیوں کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔ البتہ دیگر رشتے داروں کو مثلاً بھائی، بہن، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں وغیرہ کو اگر وہ غریب اور مستحق ہوں، زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
﴿الموسوعۃ الفقیہ کویت،۲۳/۳۲۶، فقہ النسۃ، سیدسابق، بیروت،۱/۴۰۱﴾
حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ کسی اجنبی شخص کو زکوٰۃ دینے سے جتنا ثواب ملتاہے، اس کا دوگنا ثواب رشتے داروں کو دینے سے ملتاہے۔ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الصَّدَقَۃُ عَلَی المِسْکِیْنِ صَدَقَۃٌ وَہِیَ عَلٰی ذِی الرَّحِمِ ثِنْتَانِِ صَدَقَۃٌ وَصِلَۃٌ ﴿ترمذی: ۶۵۸﴾
’ مسکین کو صدقہ دینا باعثِ اجر ہے اور رشتے دار کو دینے سے دوہرا اجر ملتا ہے ۔ ایک صدقے کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔‘
﴿۲﴾قرآن کریم میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ اسے جملہ مصارف میں خرچ کیاجائے۔ بل کہ حسبِ ضرورت اور حسبِ موقع ان میں سے کسی ایک یا ایک سے زائد مدّات میں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
اسی طرح زکوٰۃ متعدد افراد کو بھی دی جاسکتی ہے اور کسی ایک شخص کو بھی اس کا مالک بنایاجاسکتا ہے۔ بل کہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو دو چار چار روپے تقسیم کرنے کی بجائے کسی ایک شخص کو زکوٰۃ کی اتنی رقم دے دی جائے کہ اس کی کوئی بنیادی ضرورت پوری ہوجائے۔
فقہاء نے لکھاہے کہ کسی ایک شخص کو زکوٰۃ کی زیادہ سے زیادہ اتنی رقم دی جاسکتی ہے جو اس کے نصاب کو نہ پہنچے۔ لیکن موجودہ دور میں اس بات کی کوئی معنویت نہیں رہ گئی ہے۔ بعض امراض کےآپریشن میں ہزاروں نہیں،لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ بعض دیگر ایسی ضرورتیں ہوسکتی ہیں جن میں نصابِ زکوٰۃ سے کم مقدار کی رقم کفایت نہیں کرسکتی۔ ایسی صورت میں حسب ضرورت کسی ایک شخص کو مقدارِ نصاب سے زیادہ زکوٰۃ بھی دی جاسکتی ہے۔ ﴿اس موضوع پر ملاحظہ کیجیے: قاموس الفقہ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، ۴/۸۷،۸۸﴾
﴿۳﴾کوئی عورت اپنے زیورات کی وجہ سے صاحبِ نصاب ہے، لیکن اس کا شوہر غریب اور ضرورت مند ہے تو ایسے شخص کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے اور یہ شخص اس قم کو اپنی گھریلو ضروریات میںخرچ کرے گا تو اس عورت کے اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عہدنبوی کے ایک واقعے سے ہمیں اس سلسلے میں رہ نمائی ملتی ہے۔
بریرہ نامی ایک باندی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروںمیں آنا جانا تھا۔ لوگ اُسے جو چیزیں بہ طور صدقہ دیتے تھے، وہ اُنھیں بھی ازدواجِ مطہرات کے یہاں لے آتی تھی۔ انھیں ان چیزوں کے استعمال میں تردد ہوتاتھا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاتو آپﷺ نے جواب دیا:
ھُوَعَلَیْہَا صَدَقَۃٌ وَلَکُمْ ہَدِیَّۃٌ فُکُلُوہُ ﴿صحیح مسلم:۱۰۷۵﴾
’وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور تمھارے لیے ہدیہ ہے، تم اسے کھاسکتی ہو‘
ایک مرتبہ آپﷺ گھر میں داخل ہوئے۔ اس وقت ہانڈی میں گوشت پک رہاتھا۔ آپﷺ کی خدمت میںکھانے کے لیے روٹی سالن پیش کیاگیا تو آپﷺ نے فرمایا:ہانڈی میں گوشت بھی تو ہے۔ آپﷺ سے بتایاگیاکہ یہ گوشت بریرہ کو صدقے میں ملاتھا اور آپ چوں کہ صدقہ نہیں کھاتے، اسی لیے اس میں سے آپ کو نہیں دیاگیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
عَلَیْہَاصَدَقَۃٌ وَلَنَا ہَدِیَّۃٌ ﴿بخاری: ۹۷۲۵﴾
’یہ اس کے لیے صدقہ ہے، ہمارے لیے ہدیہ ہے‘
﴿۴﴾ اسلام کے نزدیک عورت کی قدر افزائی کامظہر یہ ہے کہ اس نے اس کی ملکیت تسلیم کی ہے۔ جب کہ بیش تر مذاہب اور تہذیبوں میں وہ اس حق سے محروم رہی ہے اور مغربی ممالک میں بھی اسے یہ حق بیسویں صدی میں جاکر مل سکاہے۔ عورت جو کچھ کمائے اسلام کی نظر میں وہ اس کی مالک ہے۔ شوہر کو حق نہیں کہ اس پر قبضہ جمالے اور اس میں اپنی مرضی سے تصرف کرے۔
فقہاء کااس بات پر اتفاق ہے کہ شوہر اپنی زکوٰۃ اپنی بیوی کو نہیں دے سکتا۔ اس لیے کہ وہ اس کے زیرکفالت ہوتی ہے۔ لیکن بیوی شوہر کو زکوٰۃ دے سکتی ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک نہیں دے سکتی۔ اس لیے کہ شوہر اس رقم کو گھریلو ضروریات میں خڑچ کرے گا تو اس کا فائدہ عورت کوبھی پہنچے گا۔ دیگر فقہاء جن میں امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ ﴿ایک قول کے مطابق﴾ ابن المنذرؒ، امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگرد قاضی ابویوسفؒ اور امام محمدؒ اور اہل ظاہر قابل ذکر ہیں، اس کے جواز کے قائل ہیں۔
﴿الموسوعۃ الفقیہۃ، ۲۳/۳۲۷، فقہ السنۃ،۱/۶۰۴-۴، قاموس الفقہ، ۴/۶۸-۷۸﴾
ان حضرات کی دلیل حضرت ابوسعیدخدریؓ سے مروی وہ مشہور روایت ۴۰۷ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی حضرت زینبؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میرے پاس کچھ زیورات ہیں، آپﷺ نے صدقہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ ان زیورات کو صدقہ کردوں۔ گھر میں تذکرہ کیا تو میرے شوہر ابن مسعودکہتے ہیں کہ وہ اور ان کے بچے اس کے زیادہ مستحق ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
صَدَقَ ابنُ مَسْعُوْدٍ زَوْجُکَ وَوَلَدُکَ اَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بَۃٰ عَلَیْہِم ﴿بخاری: ۲۶۴۱،مسلم:۸۰﴾
’ابن مسعودؓ نے سچ کہا۔ تمھارا شوہر اور تمھارے بچے اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ تم ان پر صدقہ کرو۔‘
اس حدیث میں ’صدقہ‘ کا لفظ آیاہے، جس کااطلاق زکوٰۃ اور نفلی صدقات دونوں پر ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کہتے ہیں کہ حدیث میں نفلی صدقہ مراد ہے۔ جب کہ دیگر فقہاء اسے زکوٰۃ کے معنی میں لیتے ہیں۔
بہ ہرحال اصولی طورپر یہ بات طے ہے کہ زکوٰۃ کسی ایسے شخص کو دینی جائز نہیں ہے جس سے اس کا فائدہ خود زکوٰۃ دینے والے کو پہنچے۔
سوال:بہ راہ کرم زکوٰۃ کے سلسلے میں چند سوالات کے جوابات سے نوازیں:
﴿۱﴾اب عموماً سرکاری ملازمین کامشاہرہ ان کے اکائونٹ میں پہنچ جاتاہے۔ اس طرح ہر ماہ اکائونٹ میں رقم آتی رہتی ہے اور حسبِ ضرورت خرچ ہوتی رہتی ہے۔ زکوٰۃ کا حساب کیسے کیاجائے گا اور زکوٰۃ کس رقم پر دیں گے؟
﴿۲﴾اکاؤنٹ میں انٹرسٹ کی رقم بھی شامل رہتی ہے۔ کیا زکوٰۃ کا حساب کرتے وقت انٹرسٹ کی رقم کو منہا کرکے حساب کیاجائے گا؟ اگر کوئی شخص اکاؤنٹ کی کل رقم بہ شمول انٹرسٹ کے حساب سے زکوٰۃ نکال دے تو وہ گناہ گار ہوگا؟
محمدجنید
ہمدردنگر اے، علی گڑھ
جواب: ﴿۱﴾ ایک سال کی ابتدا اور اختتام پراگر کوئی شخص نصاب زکوٰۃ کامالک ہے تودرمیانِ سال میں اس کے مال میں کمی بیشی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہاں اگر سال کے درمیان میں کسی وقت اس کا مال بالکل ختم ہوگیاہوتو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی اور دوبارہ نصاب ِ زکوٰۃ کامالک بننے کے بعد ازسرنو سال گزرنے کاحساب کیاجائے گا۔
مثال کے طورپر ایک شخص ہر سال رمضان میں اپنی زکوٰۃ نکالتاہے۔ گزشتہ سال ﴿رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ/اگست ۲۰۱۰ ءمیں﴾ اس کے پاس ایک لاکھ روپے تھے۔ چھے ماہ کے بعد ﴿ربیع الاول ۱۴۳۲ھ/فروری ۲۰۱۱ء میں﴾ اس نے یہ پوری رقم کسی کام میں خرچ کرلی ۔ کچھ دنوں بعد پھر اس کے پاس ایک لاکھ روپے آگئے تو اس رمضان ﴿۱۴۳۲ھ ﴾ میں اس پر زکوٰۃ عائد نہ ہوگی۔ جب تک کہ دوبارہ حاصل شدہ اس رقم پر ایک سال نہ گزرجائے۔
لیکن اگر سال کے درمیان کسی وقت پوری رقم خرچ نہیں ہوئی ہے، اس کاکچھ حصہ باقی رہاہے تو سال کے آخر میں جتنی رقم ہوگی اس کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ اگر ایک لاکھ روپے ہیں تو اس کی اور اگر اس سے زیادہ رقم ہے تو اس کے حساب سے زکوٰۃ دینی ہوگی۔
مثال کے طورپر اگر کسی شخص کے پاس سال کی ابتدا میں ایک لاکھ روپے تھے۔ درمیانِ سال اس میں سے کچھ رقم خرچ ہوتی رہی اور کچھ رقم کااضافہ ہوتارہا۔ یہاں تک کہ سال کے آخر میں اس کے پاس تین لاکھ ہیں تو اب اسے تین لاکھ روپے کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ یہ اضافہ شدہ رقم اصل نصاب کے تابع ہوگی۔
یہ حکم احناف کے نزدیک ہے۔ شافعیہ کے نزدیک اضافہ شدہ رقم پر بھی سال کاگزرنا ضروری ہے، تبھی اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔ ﴿ملاحظہ کیجیے: قاموس الفقہ، ۴/۶۴-۶۵، بہ حوالہ: بدائع الصنائع، ۲/۳۱، شرح المہذب:۵/۳۶۴، الفقہ الاسلامی واوّلۃ، ۲/۴۴۷﴾
﴿۲﴾ بینک انٹرسٹ کو عموماً علماء نے ’ربوٰ‘ ﴿سود﴾ قرار دیا ہے، جسے اسلامی شریعت میںحرام کہاگیاہے۔ اس لیے اس کاحساب رکھنا چاہیے اور انٹرسٹ کی رقم کو اپنے ذاتی کاموں میں نہ استعمال کرناچاہیے۔ لیکن اگر کوئی شخص انٹرسٹ کی رقم کو منہا کیے بغیر اکاؤنٹ کی رقم سے حساب کرکے زکوٰۃ نکال دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ظاہر ہے انٹرسٹ کی رقم کو منہا کرکے وہ حساب کرتا تو زکوٰۃ کی جونکلتی، منہا کیے بغیر حساب کرنے سے زکوٰۃ کی رقم اس سے زیادہ بنے گی۔ لیکن یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ایسا کرنے سے نہ انٹرسٹ کی رقم اس کے لیے پاک ہوجائے گی اور نہ اس زائد نکالی گئی رقم کو انٹرسٹ کی رقم میں ایڈجسٹ کرنا اس کے لیے روا ہوگا۔ **
تصحیح
زندگی نو اگست ۲۰۱۱کے رسائل و مسائل کے کالم کے تحت میراث سے متعلق ایک سوال کے جواب میں قرآن کے حوالے سے یہ تحریر ہو گیا ہے:’’ کسی شخص کا انتقال ہو جائے تو اگر وہ صاحب اولاد ہو تو بیوی کا حصہ ایک چوتھائی ہوگا اور اگر لا ولد ہو تو بیوی کا حصہ آٹھواں ہوگا﴿النساء :۱۲﴾۔اس میں بات الٹ گئی ہے۔اسے یوں پڑھا جائے:’’…اگر وہ صاحب اولاد ہو تو بیوی کا حصہ آٹھواں اور اگر لا ولد ہو تو بیوی کا حصہ ایک چوتھائی ہوگا۔‘‘
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2011