بینک انٹرسٹ کی رقم کا مصرف
سوال: میرے ایک عزیز اپنے بینک کھاتے کی رقم سود نہ خود استعمال میں لانا جائز سمجھتے ہیں اور نہ اپنے طورپرکچھ ضرورت مندوں پر خرچ کرنا پسند کرتے ہیں۔ اپنے ایک معتمدعلیہ شخص کو یہ رقم حوالے کرکے اختیار دیتے ہیں کہ اپنی صواب دید پر جہاں اس کاصحیح مصرف ہوسکتاہو، صرف کردیں۔ ایسی صورت میں بتائیے کہ معتمد علیہ اس رقم کو کہاں کہاں صرف کرسکتا ہے؟
کیا بلاتفریق مسلم وغیرمسلم ضرورت مندوں کو برائے نان و نفقہ، بیماری و علاج، رفاہ عام مثلاً راہ گیروں اور مسافروں کے قیام اور پانی پلانے کا نظم قائم کرناوغیرہ امور میں صرف کرنا درست ہوسکتا ہے یا نہیں؟ دوسرے اشاعتِ اسلام کے سلسلے میں لٹریچر تقسیم کرنے کی کوئی گنجایش نکلتی ہے یا نہیں؟ وغیرہ
عبد المجید خاں
وزیر پور، سوائی مادھو پور، راجستھان
جواب: سود فی نفسہٰ حرام ہے۔ بینک کا سود بھی اسی میں آتا ہے۔ اسے اسلام کی تبلیغ اور لٹریچر کی تقسیم جیسے نیک اور پاکیز کام میں صرف کرنا درست نہیں ہے۔رفاہی کاموں میں بھی اس کا استعمال صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ اس لیے کہ اس سے امیر اور غریب سب ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ البتہ ایسے ناداروں اور غریبوں کی، جن کے لیے ناجائز بھی جائز ہوجاتاہے، اس سے مدد کی جاسکتی ہے۔ اس میں مسلم اور غیرمسلم کا فرق نہیں ہے، دونوں ہی کی مدد ہوسکتی ہے۔ اس طرح کی کوئی اسکیم ہوتو اس میں بھی سود کی رقم لگائی جاسکتی ہے۔ البتہ اس ناجائز رقم کے استعمال سے ثواب کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔ واللہ اعلم۔
﴿سیدجلال الدین عمری﴾
نماز عید میں خواتین کی شرکت
سوال:یہاں ہمارے علاقے میں عیدالفطر کی نماز میں خواتین کی شرکت باعثِ نزاع بن گئی ہے۔ چوں کہ نماز عید کے موقع پر کافی تعدادمیں خواتین عیدگاہ میں نماز کے لیے آئی تھیں، مگر یہاں کے ایک مولانا صاحب نے اس پر سخت تنقید کی۔ معاملہ صرف اتنا ہی نہیںرہا، بلکہ سناگیاکہ انھوںنے گھر گھر جاکر خواتین کو توبہ کرنے کو کہا، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کانماز عید میں شریک ہونا جائز نہیں۔اس طرح خواتین کو آئندہ عیدگاہ جانے کی اجازت نہ ملنے کا اندیشہ ہے۔ دوسری طرف کچھ علمائ نماز عید میں خواتین کی شرکت کو جائز ہی نہیں، بلکہ مستحسن قرار دیتے ہیں۔
براہِ مہربانی اس معاملے میں رہ نمائی فرمائیں، تاکہ آیندہ صحیح فیصلہ کیاجاسکے اور نزاع سے بھی بچاجاسکے۔
ام حفصہ
نور پورہ ترال، پلوامہ، کشمیر
جواب: احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ عہدنبوی میں خواتین پنج وقتہ نمازوں اور نماز جمعہ کے لیے مسجد اور عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازوں کے لیے عیدگاہ جایاکرتی تھیں۔ خاص طور سے عیدین کی نمازوںکے لیے عیدگاہ جانے کی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اجازت دے رکھی تھی، بلکہ آپ اس کاحکم دیاکرتے تھے اور تمام عورتوں کو اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔
حضرت ام عطیہؓبیان کرتی ہیں:
اَمَرَناَ ﴿رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم﴾ اَنْ نُخْرِجَ فَیْ العیْدَیْنِ العَوَاتِقُ وَذَوَاتِ الخُدُورِ ﴿بخاری:۹۷۴،مسلم:۸۹﴾
’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیاہے کہ ہم عیدالفطر اور عیدالاضحی میں بالغ اور پردہ کرنے والی ﴿لڑکیوں اورعورتوں﴾ کو ﴿عیدگاہ﴾ لے جایا کریں۔‘
اسی روایت میں آگے ہے کہ ایک عورت نے دریافت کیا: اگر کسی کے پاس ’جلباب‘ نہ ہو تو وہ کیاکرے؟ ﴿جلباب بڑی چادرکو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے، گھر سے باہر نکلنے کے لیے عورتیں اس کا استعمال کرتی تھیں﴾ آپﷺ نے جواب دیا: اپنی کسی بہن سے مانگ لے۔ ایک دوسری راویت میں ہے کہ کسی نے دریافت کیا: کیا حائضہ عورتیں بھی عیدگاہ جائیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
یَعْتَزِلْنَ الصَّلاَۃَ وَیَشْہَدْنَ الخَیْرَوَ دَعْوَۃَ المُسْلِمِیْنَ ﴿بخاری:۴۷۰﴾
’’وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیںگی اور خیر کی مجلسوں اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوںگی۔‘‘
آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تاکید اپنے گھر کی خواتین کے لیے بھی تھی۔ حضرت ابن عباسؓاس کی گواہی ان الفاظ میںدیتے ہیں:
اِنَّ النَّبی صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یُخرِجُ بَنَاتَہ‘ ونِسائَ ہ فِی العِیْدَیْنِ ﴿ابن ماجہ: ۱۳۰۹، مسند احمد، ۱/۲۳۱﴾
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحب زادیوں اور خواتین کو عیدین میں ﴿عیدگاہ﴾ لے جایا کرتے تھے۔‘‘
عہدنبویﷺ میں خواتین کے عیدگاہ جانے کے دو مقاصد تھے۔ ایک یہ کہ وہ نماز میں شریک ہوں اور اس کے بعد خطبہ سنیں، جس سے ان کی دینی معلومات میںاضافہ ہو اور ان میںاحکامِ شریعت پرعمل کرنے کاجذبہ ابھرے۔ اسی مقصد کی خاطربسااوقات رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز اور خطبے سے فارغ ہوکر عورتوں کے مجمعے کی طرف تشریف لے جاتے تھے اور ان کے درمیان بھی وعظ وارشاد فرماتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓاور حضرت جابر بن عبداللہؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا۔ اس کے بعد عورتوں کے مجمع کی طرف تشریف لے گئے اور انھیں صدقہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ اس وقت آپﷺکے ساتھ حضرت بلالؓبھی تھے۔ آپﷺ کا وعظ سن کرعورتیں بہت متاثر ہوئیں اور اپنے زیور: گلے کاہار،کان کی بالیاں، انگوٹھیاں وغیرہ نکال نکال کر حضرت بلالؓکو دینے لگیں۔﴿مسلم:۸۸۴،۸۸۵﴾
دوسرا مقصد یہ تھا کہ عیدگاہ میں مردوں کے ساتھ عورتوں اوربچوں کی موجودگی سے مسلمانوں کی جمعیت بڑی نظرآئے۔ فقہائ نے ان دونوں مقاصدکاتذکرہ کیاہے۔ امام ابوحنیفہؒ سے دونوں اقوال منقول ہیں۔ ﴿کاسانی، بدائع الصنائع، ۱/۲۷۵-۲۷۶﴾
بعد میں جب مسلمان بڑی تعداد میںہوگئے محض تعداد بڑھانے کے لیے عورتوں کو عیدگاہ میں جمع کرنے کی ضرورت نہ رہی، دوسری طرف مسلمان عورتوں میں پردہ کااہتمام باقی نہ رہا اور خوب بناؤ سنگار کرکے گھر سے باہر نکلنے کا رجحان بڑھا، نیز دوسروںکی طرف سے فتنہ برپا کرنے کے مواقع پیداہوگئے تو عورتوں کا مسجد اور عیدگاہ جانا ناپسندیدہ قرار دیاگیا۔ عہد صحابہ و تابعین ہی میں ایسا ہونے لگاتھا۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہؓسے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’اب عورتوں کا جو حال ہوگیاہے، اگر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیتے تو انھیں اسی طرح مسجد جانے سے منع کردیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کردیاگیاتھا۔‘‘ ﴿بخاری: ۸۶۹، مسلم: ۴۴۵﴾ اور متعدد تابعین اور تبع تابعین کے بارے میں مروی ہے کہ وہ عورتوں کو عیدگاہ جانے سے منع کیاکرتے تھے، مثلاً حضرت عروہ بن الزبیر ؒ ، قاسمؒ ، یحییٰ الانصاریؒ ، امام مالکؒ ، امام ابویوسفؒ وغیرہ ﴿عطیہ خمیس،فقہ النساء ، اسلامک بک فاؤنڈیشن ، نئی دہلی، ص:۲۲۳﴾
فقہائ کاخیال ہے کہ فتنہ کے اندیشے سے جوان، خوب صورت اور سربرآوردہ طبقے کی خواتین کاعیدگاہ جاکر نماز اداکرنا مکروہ ہے۔ رہیں عام عورتیں تو ان کا نکلنا اور مردوں کے ساتھ عید کی نماز اداکرنا مستحب یا مباح ہے۔ البتہ انھیں اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ بھڑکیلے کپڑے نہ پہنیں، خوشبو نہ لگائیںاور بنگاؤسنگار نہ کریں۔ ﴿نووی، المجموع، ۵/۶،۷، ابن قدامۃ، المغنی، ۲/۳۱۰،۳۱۱، حاشیہ الصفتی، ص:۱۰۴، بہ حوالہ الموسوعۃ الفقیۃ کویت ۲۷/۲۴۲﴾
مشہور شافعی فقیہ امام نوویؒ نے لکھاہے:
’’ہمارے اصحاب ﴿یعنی شافعی فقہاء﴾ نے کہاہے کہ سربرآوردہ طبقے کی اور خوب صورت خواتین کے علاوہ دیگر عورتوں کا عیدین میں نکلنا مستحب ہے۔ خوبصورت اور پردہ کی عمر کو پہنچ جانے والی عورتوں کا نکلنا مناسب نہیں، اس لیے کہاب زمانہ خراب ہوگیا ہے، جب کہ عہدنبوی میں حالات پرامن تھے اور فتنہ و فساد کااندیشہ نہیں تھا۔‘‘
﴿نووی، شرح صحیح مسلم، دارالکتب العلمیۃ،بیروت،۱۹۹۵،۵/۱۵۶﴾
اور حنبلی فقیہ حافظ عبدالرحمن بن علی الجوزیؒ فرماتے ہیں:
’عورتوں کا ﴿نماز عیدکے لیے﴾نکلنا مباح ہے، لیکن اگر ا ن کی وجہ سے یا ان کے بارے میںفتنہ کا اندیشہ ہوتو نہ نکلناافضل ہے۔ کیوں کہ صدر اول کی عورتوں کامعاملہ اِس زمانے کی عورتوں سے مختلف تھا۔ اسی طرح صدر اول کے مردوں کامعاملہ بھی آج کے مردوں سے مختلف تھا۔‘ ﴿عبدالرحمن الجوزی، کتاب احکام النساء ، وزارۃ الاوقاف والشؤن الاسلامیۃ قطر ۱۹۹۳ئ، ص:۲۰۱﴾
فقہائے احناف نے عیدگاہ جانے، نہ جانے کے معاملے میں جوان اور بوڑھی عورتوں کے درمیان فرق کیا ہے۔ ان کے نزدیک جوان اور خوب صورت عورتوں کے لیے جمعہ و عیدین کی نمازوں کے لیے نکلنے اجازت نہیں ہے، البتہ بوڑھی عورتوںکے لیے اس کی رخصت ہے۔ بہ ہرحال افضل دونوں کے لیے یہی ہے کہ گھر میں نماز ادا کریں۔ ﴿کاسانی، بدائع الصنائع، ۰۱/۲۷۵،۲۷۶، سرخسی، المبسوط، ۲/۴۱﴾
اس تفصیل سے واضح ہوجاتاہے کہ عورتوں کے عیدگاہ جانے اور مردوں کے ساتھ نمازِعید میں شریک ہونے کے معاملے میں نہ تو بہت زیادہ سختی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور نہ کھلی چھوٹ ہونی چاہیے۔ جن علاقوں میں فتنے کااندیشہ نہ ہو، وہاں کی عیدگاہ یا جامع مسجد میں عورتوں کی نمازکے لیے علاحدہ خصوصی اہتمام ہوتاہو اور مردوں اور عورتوں کے درمیان غیرضروری اختلاط سے بچاجاسکتاہو،وہاں تو عورتیں نماز عید کے لیے جاسکتی ہیں، لیکن جہاں اس کے برعکس معاملہ ہو، وہاں انھیں عیدگاہ نہ جاناچاہیے۔ جو عورتیں عیدگاہ کے لیے نکلیں انھیں بناؤ سنگار، خوشبو اور زرق برق کپڑوں سے اجتناب کرنا چاہیے اور پردے کا پورا اہتمام کرنا چاہیے۔
آخرمیں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ عورتوںکو نماز کے لیے مسجد یا عیدگاہ جانے کی اجازت تو دی گئی ہے، لیکن متعدد احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ ان کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2011