بیوی کی کمائی میں شوہر کا حصہ
سوال:بہ راہ کرم ایک مسئلے میں رہ نمائی فرمائیں:
شوہر بے روزگار ہے، بیوی ملازمت کرتی ہے۔ اس کی تنخواہ سے ہی گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ شوہر کی سسرال والے اسے لعنت ملامت کرتے ہیں کہ تم حرام کھاتے ہو، بیوی کی کمائی پر جی رہے ہو۔ کیا بیوی کی کمائی سے شوہر کا کھانا پینا جائز ہے یا نہیں؟ بیوی کی کمائی شوہر کے لیے حلال ہے یا حرام؟ یہ بھی بتائیں کہ دونوں لاولد ہیں تو بیوی کے مرنے کے بعد اس کی جائداد کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ کیا شوہر کے علاوہ بھی اس میں کسی کا حصہ ہوگا؟
شیخ موسیٰ۔ جلگاؤں﴿مہاراشٹر﴾
جواب:عام حالات میں اسلامی شریعت نے گھر کا خرچ اٹھانے کی ذمے داری شوہر پر عائد کی ہے اور بیوی کو اس سے آزاد رکھا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَی النساء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ ۔ ﴿النساء :۳۴﴾
’’مرد عورتوں پرقوام ﴿یعنی نگہبان﴾ ہیں۔ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔
اس لیے اگر بیوی مال دار ہوتو بھی شوہر سے نان ونفقہ پانے کی مستحق ہے۔ لیکن ایسے حالات پیش آسکتے ہیں کہ بیوی کو کسب معاش کے لیے مجبور ہونا پڑے۔ مثلاً وہ مطلقہ یا بیوہ ہوجائے اوراس کی کفالت کرنے والا کوئی نہ ہو، یا شوہر بے روزگار ہو اور باوجود کوشش کے کسب معاش میں کامیاب نہ ہو پا رہا ہو، یا بچے زیادہ ہوں اور شوہر کی آمدنی کفایت نہ کرتی ہو۔ ان حالات میں عورت کسب معاش کے لیے جدوجہد کرسکتی ہے۔ اسلام نے اس کی اجازت دی ہے۔
اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے عورت کا حقِ ملکیت تسلیم کیا ہے۔ بعض دیگر مذاہب اور تہذیبوں میں اسے یہ حق حاصل نہیں تھا۔ کافی جدوجہد کے بعد گزشتہ صدی میں وہ اس سے بہرہ ور ہوپائی ہے۔بیوی جو کچھ کمائے اس میں اسے تصرف کرنے کی پوری آزادی ہے۔ شوہر کو حق نہیں کہ اس پر قبضہ جمائے، یا اپنی مرضی کے کاموں میں خرچ کرنے پر بیوی کو مجبور کرے۔ لیکن اگر بیوی اپنی خوشی سے اپنی کمائی گھر کے کاموں پر خرچ کرتی ہے، یا کچھ رقم شوہر کے حوالے کرتی ہے کہ اسے جس طرح چاہے خرچ کرے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بغیر کسی کراہت کے شوہر وہ رقم لے سکتا ہے اور اپنی پسند کی جگہوں پر خرچ کرسکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَآتُواْ النساء صَدُقَٰتِہِنَّ نِحْلَۃً فَان طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْْئ ٍ مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوہُ ہَنِیْٓئاً مَّرِیْٓئاً۔ ﴿النساء :۴﴾
’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دے دو۔ البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ معاف کردیں تو اسے خوشی کے ساتھ شوق سے کھاسکتے ہو‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر عورت کا حق ہے، جس کی ادائی شوہر پر لازم ہے۔ اگر وہ اس کے کچھ حصے سے بہ خوشی دستبردار ہوجائے تو شوہر اسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔ یہی حکم عورت کی ملکیت کی دوسری چیزوں کا بھی ہوگا۔ اگر بیوی اپنی خوشی سے اپنی کمائی شوہر کو دے رہی ہے اور اس کی بے روزگاری کی صورت میں ملازمت کرکے گھر کا خرچ اٹھانے میں اس کی مدد کر رہی ہے تو کسی دوسرے کو اس پر اعتراض کرنے اور شوہر کو لعنت ملامت کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے!
عہد نبوی میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مالی اعتبار سے خوش حال نہ تھے ۔ ان کی اہلیہ حضرت زینبؓ دست کاری میں ماہر تھیں، جس سے وہ اچھا خاصا کما لیتی تھیں۔ ان کی ساری کمائی شوہر اور بچوں پر خرچ ہوجاتی تھی اور صدقہ وخیرات کے لیے کچھ نہ بچتا تھا۔ ایک بار انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا کہ میری ساری کمائی گھر ہی میں شوہر اور بچوں پر خرچ ہوجاتی ہے، اس بنا پر میں دوسروں میں کچھ صدقہ نہیں کرپاتی ۔ کیا مجھے اپنے شوہر اور بچوں پر خرچ کرنے کا اجر ملے گا؟ آپﷺ نے جواب دیا:
اَنْفِقِی عَلَیْہِمْ، فَاِنَّ لَکَ فِی ذٰلِکَ اَجْرُمَا اَنْفَقْتِ عَلَیْہِمْ۔﴿مسنداحمد۱۶۰۸۶﴾
’’ہاں تم ان پر خرچ کرو،تمھیں اس کا اجر ملے گا‘‘۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہمارے لیے نمونہ موجود ہے۔ اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک مال دار خاتون تھیں۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد انھوں نے اپنی پوری دولت آپﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردی اور آپﷺ اس میں سے خرچ کرتے رہے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ بیوی کے مرنے کے بعد اس کی جائداد کس طرح تقسیم ہوگی تو اس کے تفصیلی احکام قرآن وحدیث میں مذکور ہیں۔ اگر بیوی لاولد ہو تو نصف جائداد کا وارث شوہر ہوگا۔﴿النساء :۱۲﴾ بقیہ کی تقسیم دیگر مستحقین وراثت ﴿ذوی الفروض، عصبہ وغیرہ﴾ میں ان کے حصوں میں مطابق ہوگی۔ اس کی تفصیل کتب فقہ میں دیکھی یا علمائ سے معلوم کی جاسکتی ہے۔
لباس کے حدود وقیود
سوال:لباس کے بارے میں ایک مضمون نظر سے گزرا، جس میں لکھا گیا ہے کہ’’ اس میں اصل پہلو جواز کا ہے، ایک مسلمان اپنے علاقے کی عادات و اطوار کے مطابق اسلامی شرائط کی رعایت کے ساتھ کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے‘‘ ۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں، کیا یہ معاملہ پینٹ شرٹ کے ضمن میں بھی ہے، جب کہ یہ لباس مسلم غیر مسلم سب کے لیے عام ہے؟ لباس کے بارے میں ایک ہدایت یہ ملتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ٹخنوں تک رہے۔ یہ بھی ملتا ہے کہ جولباس تکبر کی نیت سے ٹخنوں سے نیچے ہو وہ حرام ہے۔ آج کے دور میں عام مسلمان مقامی ماحول اور رواج کے مطابق جو پینٹ پہنتے ہیں وہ عموماً ٹخنوں سے نیچے ہوتا ہے ، اس میں فخر اور تکبر کی نیت یا علامت نہیں ہوتی، اسے خاص وعام، امیر وغریب، مسلم غیر مسلم سب استعمال کرتے ہیں۔ کیا اسے استعمال کرنا جائز ہے؟
محمد مسعود مجاہد، عادل آباد﴿اے پی﴾
جواب:اسلامی شریعت میں لباس کے سلسلے میں چند حدود متعین کردی گئی ہیں۔ ان کی پابندی ضروری ہے۔ اس کے بعد آزادی ہے کہ علاقے کی عادات واطوار کے مطابق کوئی بھی لباس پہنا جاسکتا ہے۔
اول : لباس ستر چھپانے والا ہو۔ مرد کے لیے ستر ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصۂ جسم ہے اور عورت کے لیے اس کے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ مکمل جسم ستر ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ لباس اتنا باریک اور چست نہ ہو کہ اعضائ جسم نمایاں ہوں۔
دوم: مردوں کے لیے عورتوں کے لباس پہننا اور عورتوں کے لیے مردوں کے لباس پہننا ممنوع ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت جیسا لباس پہننے والے مرد اور مرد جیسا لباس پہننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔ ﴿ابودائود:۹۸۴۰، احمد،۲/۳۲۵﴾—اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں اور عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت کی ہے‘‘۔ ﴿بخاری:۵۸۸۵﴾ احادیث میں مردوں کے لیے ریشم اور سرخ رنگ کا لباس، اسی طرح سونے کا زیور، زنجیر، انگوٹھی وغیرہ پہننے کی ممانعت آئی ہے۔
سوم: ایسا لباس پہننے کی بھی ممانعت ہے، جو کسی غیر مسلم قوم کا شعار ہو، یا اسے پہن کر آدمی غیر مسلم قوم کا فرد معلوم ہو، مثلاً گیروا رنگ کا لباس، جسے ہندو سادھو پہنتے ہیں، مخصوص طرز کی پگڑی، جو سکھوں کی پہچان ہے، یا اس طرح کا لباس، جو عیسائی راہب پہنتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمِِ فَھُوَمِنْہُمْ۔ ﴿ابوداؤد: ۴۰۳۱﴾
’’جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انھی میں سے ہے‘‘۔
چہارم: احادیث میں مردوں کے لیے اس کی بھی ممانعت آئی ہے کہ ان کا زیریں لباس ٹخنوں سے نیچے ہو۔ اس سلسلے میں سخت وعید آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا اَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الاِزَارِ فِی النَّارِ ﴿بخاری: ۵۷۸۷﴾
’’تہبند کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ آگ میں ہوگا‘‘۔
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت تین طرح کے آدمیوں سے نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف نظر کرم کرے گا، نہ ان کا تزکیہ کرے گا،بل کہ انھیں دردناک عذاب دے گا۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہوگا جو اپنا زیریں لباس ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہوگا۔ ﴿مسلم: ۱۰۶، ابودائود:۴۰۸۷﴾
اگرچہ بعض احادیث میں یہ سخت وعید اس شخص کے لیے آئی ہے جو ایسا تکبر کی وجہ سے کرے گا، مثلاً حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَایَنْظُرُاللّٰہُ اِلٰی مَنْ جَرَّ اِزَارَہ بَطْراً۔ ﴿بخاری: ۵۷۸۸، مسلم: ۲۰۸۷﴾
’’اللہ اس شخص کی جانب نگاہ نہیں اٹھائے گا جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند گھسیٹ کر چلے گا‘‘۔
مگر دیگر احادیث میں یہ وعید عمومی انداز میں آئی ہے، اس لیے زیریں لباس کو ٹخنوں سے نیچے رکھنا کراہت سے خالی نہیں۔ پینٹ شرٹ ایسا لباس نہیں، جو کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ خاص ہو، اس لیے مذکورہ بالا حدود وقیود کے ساتھ اُسے بھی پہنا جاسکتا ہے۔
غیرمسلموں کو قرآن پاک دینے کا مسئلہ
سوال:سیرت کی کتابوں میں یہ مشہو رواقعہ درج ہے کہ جب حضرت عمرؓ قبول اسلام سے قبل اپنی بہن بہنوئی کے ہاں گئے اور ان سے مارپیٹ کرنے کے بعد اپنی بہن سے صحیفہ پڑھنے کی درخواست کی تو بہن نے کہا کہ آپ شرک کی نجاست کی وجہ سے ناپاک ہیں، اس لیے غسل کرنے کے بعد ہی اس صحیفے کو ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے نہا دھوکر سورۂ طٓہٓ کی تلاوت کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو قرآن کریم کا نسخہ نہیں دینا چاہیے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم قرآن پاک کسی مشرک کے ہاتھ میں دیتے ہیں تو کیا گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے؟ اس کو اگر ہم غسل کرکے ہاتھ لگانے کی ہدایت دیں تو کیا یقینی ہے کہ وہ ہماری بات پر عمل کرے گا؟ اگر ہم انھیںقرآن پاک نہ دیں تو پھر قرآن کا پیغام ان تک کیوں کر پہنچایا جائے؟ آج کل جماعت اسلامی ہند اکثر غیر مسلموں میں قرآن کریم کے نسخے تقسیم کررہی ہے۔ اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں: ڈاکٹر ایس جلال توقیر، مان سروور۔ جے پور ﴿راجستھان﴾
جواب:غیرمسلموں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا اُمت مسلمہ کی ذمے داری ہے۔ اس کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالتِ جنگ میں بھی حسب موقع کوتاہی نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
وَانْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْلَمُونَ۔ ﴿التوبۃ: ۶﴾
’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے ﴿تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنے﴾ تو اسے پناہ دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے مامن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے‘‘۔
اس آیت کی رو سے مطلوب ومقصود یہ ہے کہ غیر مسلموں تک اللہ تعالیٰ کا کلام پہنچے، خواہ وہ اسے سنیں یا پڑھیں، دونوں تدبیریں اختیار کی جاسکتی ہیں۔ سیرت نبویﷺ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد ۷ھ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سلاطین و امرائ کے نام خطوط لکھے اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔ ان خطوط میں قرآن کریم کی آیات بھی درج تھیں۔ مثلاً آپﷺ نے شہنشاہِ روم ہرقل کو جو خط بھیجا تھا اس میں سورۂ آل عمران کی آیت ۶۴ درج تھی:
یٰآٔہْلَ الْکِتَٰبِ تَعَالَوْاْ الَی کَلَمَۃٍ سَوَائ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ .الآیۃ۔
آپﷺ نے یہ احتیاط نہیں فرمائی کہ وہ خط غیر مسلم کے ہاتھ میں جائے گا، اس لیے اس میں قرآن حکیم کی آیت تحریر نہ کریں۔ بعض حضرات غیر مسلموں کو قرآن کریم نہ دینے پر اس سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ قرآن حکیم میں ان کو ناپاک کہا گیا ہے:
انَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ. ﴿التوبۃ: ۲۸﴾
لیکن ان کی یہ دلیل صحیح نہیں ہے۔ آیت میں نجاست سے مراد جسمانی اور مادی گندگی نہیں ہے، بل کہ عقیدے کی خرابی اور شرک کی آلودگی ہے۔ مشہور محدث امام نووی ؒ فرماتے ہیں: ’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: مشرکین نجس ہیں ، اس سے مراد عقیدے کی نجاست اور گندگی ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ ان کے اعضاء پیشاب پاخانہ جیسی چیزوں کی طرح نجس ہیں۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے‘‘۔ ﴿شرح مسلم للنووی، باب الدلیل علی ان المسلم لاینجس﴾
کسی غیرمسلم کو پورا قرآن دیاجائے یا کسی کاغذ پر لکھی ہوئی قرآن کی ایک آیت، دونوں کا حکم برابر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہمارے لیے حجت ہے۔ حضرت عمرؓ کی بہن کے عمل کے پیش نظر ہمیں چاہیے کہ غیر مسلم کو قرآن کریم دیتے وقت اس سے کہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، اس لیے اس کا تقاضا ہے کہ صفائی ستھرائی کے ساتھ اور پاکی کی حالت میں اسے پڑھا جائے۔ عموماً غیر مسلم بڑے ادب واحترام کے ساتھ اسے قبول کرتے ہیں۔ اس لیے امید رکھنی چاہیے کہ پڑھتے وقت بھی وہ اس کا ادب ملحوظ رکھیں گے۔ ویسے بھی غیر مسلم پہلے ایمان کے مکلف ہیں، پھر جزئی احکام دین کے۔ ایمان لانے سے قبل وہ جزئی احکام کے مکلف نہیں ہیں۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2012