فرائضِ منصبی میں کوتاہی کی تلافی کیسے ہو؟
سوال:میں ایک سرکاری کالج میں تقریباً بیس سال تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد ابھی حال میں ریٹائر ہوا ہوں۔ آخر میں چند سال میں نے وائس پرنسپل کی حیثیت سے بھی گزارے ہیں۔ ہمارے کالج میں بیش تر اساتذہ عموماً وقت کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ کالج کا وقت شروع ہوجانے کے بعد تاخیر سے آتے تھے اور وقت ختم ہونے سے قبل ہی چلے جایا کرتے تھے۔ بعض اساتذہ تو کئی کئی روز کالج نہیں آتے تھے، پھر جب آتے تھے توگزشتہ دنوں کی بھی حاضری لگادیاکرتے تھے۔ اس معاملے میں مجھ سے بھی کوتاہی ہوتی رہی ہے۔
میرا تعلق ایک دینی جماعت سے ہے۔ میرے اوپر اس کی بعض ذمہ داریاں رہی ہیں۔ کالج کے کچھ اوقات میں نے ذاتی کاموں میں صرف کیے ہیں تو کچھ اوقات میں جماعت کاکام کیاہے۔ بسااوقات میں نے شہر کے باہر بعض اجتماعات میں شرکت کی ہے، ان ایام میں میں نے کالج سے رخصت نہیں لی، بلکہ بعد میں جاکر حاضری رجسٹر میں ان ایام کے خانوں میں بھی دستخط کردیے۔
اب مجھے احساس ہورہاہے کہ میں نےوقت کی پابندی نہ کرکے اور غیرحاضری کے ایام میں بھی حاضری کے دستخط کرکے غلطی کی تھی۔ اسی طرح مجھے یہ احساس بھی ستارہاہے کہ جن اوقات یا ایام میں تدریسی کام نہ کرکے میں نے اس کا مشاہرہ لیا ہے وہ میرے لیے جائز نہ تھا۔ اب اس کی تلافی کیسے کروں؟ سوچتاہوں کہ اتنی رقم کا اندازہ کرکے اس کا صدقہ کردوں۔ کیا اس سے میری کوتاہی کی تلافی ہوجائے گی؟
بہ راہ کرم میری رہ نمائی فرمائیں۔
جواب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ (المائدۃ:۱)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، عہدو پیمان کو پورا کرو‘‘
اس آیت کی تفسیر میںمفسرین کرام نے لکھاہے کہ اس میں وہ عہدو پیمان بھی شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں نے کیے ہیں اور وہ عہدو پیمان بھی جو مختلف دنیاوی معاملات میں لوگ آپس میں کرتے ہیں۔
ملازمت کے ضمن میں ہونے والا عہدو پیمان دو طرح کاہوسکتا ہے: ایک کام کا، یعنی ملازم اِس چیز کاپابند ہو کہ اسے جو کام دیاگیا ہے اسے پورا کرے، خواہ کتنے ہی کم وقت میں اسے کرڈالے یا کتنا ہی زیادہ وقت اس میں لگے۔ دوسرا وقت کا، یعنی جتنے وقت کا اس سے معاہدہ کیاگیا ہے، اتنا وقت ضرور گزارے، چاہے اس نے اپنامفوضہ کام اس سے کم وقت میں نمٹالیاہو۔
عموماً کالجوں، یونی ورسٹیوں، فیکٹریوں اوردیگر اداروں میں ملازمین کام کے ساتھ وقت کے بھی پابند ہوتے ہیں اور ان کے لیے متعینہ اوقات جائے ملازمت پر گزارنا ضروری ہوتا ہے۔ اس صورت میں یہ تو سراسر فراڈ اور دھوکہ بازی ہے کہ آدمی کام پر نہ جائے اور رجسٹر میں حاضری دکھادے، ساتھ ہی یہ بھی معاہدہ کی خلاف ورزی اور دیانت و امانت کے خلاف ہے کہ وہ متعینہ اوقات کی پابندی نہ کرے، جب چاہے کام پر جائے اور جب چاہے وہاں سے چل دے۔ عموماً سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور دیگر ملازمین اس کاخیال نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں ضابطے موجود ہوتے ہیں، اساتذہ کو تاکید کی جاتی ہے کہ متعینہ اوقات میں وہ کالج یا یونی ورسٹی کے کیمپس میں ہی رہیں، چاہے ان کے پیریڈ خالی ہوں، تاکہ ان کی موجودگی سے طلبہ فائدہ اٹھائیں، لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے اساتذہ ان ضوابط کی پابندی نہیں کرتے۔ وہ خالی پیریڈ میں کیمپس میں موجود رہنا ضروری نہیںسمجھتے۔ شروع کے پیریڈ خالی ہوں تو دیر سے کالج یا یونی وسٹی پہنچتے ہیں اور آخر کے پیریڈ خالی ہوں تو کالج یا یونی ورسٹی کاوقت پورا ہونے سے پہلے ہی وہاں سے نکل لیتے ہیں، حالاں کہ یہ معاہدۂ ملازمت کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض دین دار حضرات بھی اس مجرمانہ کوتاہی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اگر وہ کسی دینی جماعت سے وابستہ ہوں تو تدریسی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا نہ کرکے اور اپنی ملازمت کے فرائض سے غفلت برت کر جماعت کے کاموں کی انجام دہی کو کارِ خیر سمجھتے ہیں، حالاںکہ اس طرح حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی دھوکہ کرتے ہیں اوراپنی ملازمت کے معاملے میں بھی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
آدمی کو جب بھی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس ہوجائے اسے توبہ اور بارگاہِ الٰہی میں مغفرت طلب کرنی چاہیے۔ امید ہے، اللہ تعالیٰ ضرور درگزر فرمائے گا۔ وہ ملازمت میں ہوتو ساتھ ہی یہ بھی پختہ عزم کرے کہ آئندہ وہ اپنے کارہائے مفّوضہ ٹھیک ٹھیک انجام دے گا اور کسی طرح کی خیانت کاارتکاب نہیں کرے گا۔ دورانِ ملازمت بہ طور مشاہرہ جو رقم حاصل ہوئی ہے اس میں سے کتنی جائز ہے اور کتنی ناجائز، اس کاحساب آسان نہیں ہے اور ناجائز رقم کی واپسی میں ٹیکنیکل دشواریاں ہیں، اس لیے جہاں تک ہوسکے صدقہ وخیرات کرتا رہے۔ امید ہے، اس طرح اس کی کوتاہیوں کی تلافی ہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ اس کی لغزشوں کو درگزر فرمائے گا۔
رخصتی سے قبل شوہر کا انتقال ہوجائے تو مہر اور عدت کا حکم
سوال:ایک لڑکی کا نکاح ہوا، لیکن رخصتی سے قبل ہی اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا وہ مہر کی مستحق ہوگی؟ اور کیا اس صورت میں اسے عدّت گزارنے کی ضرورت ہے۔
جواب : نکاح کے ضمن میں جن چیزوں کا حکم دیاگیاہے ان میں سے ایک مہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃٍ (النساء:۴)
’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتےہوئے) ادا کرو۔‘‘
نکاح منعقدہوتے ہی لڑکی مہر کی مستحق ہوجاتی ہے اور اگر بروقت شوہر مہر ادا نہ کرسکے تو وہ اس کے ذمّے قرض رہتاہے۔ اس لیے اگر رخصتی سے قبل شوہر کا انتقال ہوجائے تو بھی لڑکی پورے مہر کی مستحق ہوگی۔
قرآن کریم میں عدّتِ وفات کاتذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے:
وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا (البقرۃ: ۲۳۴)
’’تم میں سے جو لوگ مرجائیں، ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کوچار مہینے دس دن روکےرکھیں۔‘‘
یہ حکم عام ہے، اس لیے اس میں ہرطرح کی عورتیں شامل ہیں۔ وہ بھی جن کانکاح تو ہوگیا ہو، لیکن ابھی رخصتی نہ ہوئی ہو۔ عدّتِ وفات کا حکم اصلاً شوہر کی وفات پر اظہارِ غم کے لیے دیاگیا ہے۔
وصیت کی شرعی حیثیت اور اس کے حدود
سوال:ایک صاحب کا دینی کتابوں کا بڑے پیمانے پر پرنٹنگ اور پبلشنگ کا کاروبار ہے۔ ان کی کوئی اولادنہیں ہے۔ انھوںنے ایک لڑکی کو گود لے کر اس کی پرورش کی تھی۔ اب اس کی شادی کردی ہے۔ ان کی اہلیہ ابھی حیات ہیں۔ رشتہ داروں میں صرف ان کے ایک حقیقی بھائی اور ایک باپ شریک بھائی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بعد یہ کاروبار چلتا رہے۔ اس لیے انھوںنے ایک وصیت نامہ تیار کیاہے، جس میں لکھاہے کہ ان کے انتقال کے بعد ان کی گود لی ہوئی لڑکی اور اس کاشوہر ان کی اہلیہ کی شرکت میں کاروبار چلانے کے مجاز ہوںگے اور اس کے انتقال کے بعد پورے کاروبار کے مالک بن جائیںگے۔
کیا اس طرح کا وصیت نامہ تیار کرنا شریعت کی رو‘ سے جائز ہے؟
جواب : شریعت میں وراثت اور وصیت دونوں کے احکام کھول کھول کر بیان کردیے گئے ہیں، اس لیے وصیت کی بنیاد پر وراثت کے احکام کو معطل نہیں کیاجاسکتا۔ وصیت کسی وارث کے حق میں جائز نہیں اور غیروارث کے لیے کل ترکہ کے ایک تہائی سے زائد مال کی وصیت نہیں کی جاسکتی۔
صورتِ مسئولہ میں گود لی ہوئی لڑکی اور اس کے شوہر کے حق میں صرف ایک تہائی مال و جائداد (پراپرٹی) کی وصیت کی جاسکتی ہے۔ سائل کا انتقال ہونے کی صورت میں ان کی اہلیہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ایک چوتھائی ترکہ کی حق دار ہوںگی (النساء:۱۲) بقیہ ترکہ عصبہ ہونے کی وجہ سے ان کے بھائیوں کو ملے گا۔
میراث کا ایک مسئلہ
سوال:ایک صاحب کا انتقال ہوگیاہے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ ان کی بیوی کا پہلے انتقال ہوچکاتھا۔ ان کے رشتہ داروں میں صرف ان کے والد اور تین بھائی ہیں۔ بہ راہ کرم مطلع فرمائیں، ان کا ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا؟ ان کے اوپر نوّے ہزار روپے کا قرض بھی ہے۔
جواب : ترکہ کی تقسیم سے قبل قرض کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس کے بعد جو کچھ بچے گا وہ پورے کاپورا والد کاہوگا۔ والد کی موجودگی میں بھائیوں کا کچھ حصہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلِاَبَوَيْہِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَہٗ وَلَدٌ۰ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ۰ۚ فَاِنْ كَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّۃٍ يُوْصِيْ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ (النساء:۱۱)
’’اگر میت صاحبِ اولاد ہوتو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیاجائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حق دار ہوگی۔ (یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیںگے) جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو، پوری کردی جائے اور قرض جو اس پر ہو، ادا کردیاجائے۔‘‘
اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱۔ ترکہ کی تقسیم وصیت کی تکمیل اور قرض کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی۔
۲۔ اگر میت کی اولاد ہو اور اس کے والدین بھی زندہ ہوں تو والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔
۳۔ اگر میت کی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین زندہ ہوں تو ماں کو ایک تہائی ملے گا۔
۴۔ اگر میت کے بھائی بہن ہوں اور اس کے والدین بھی زندہ ہوںتو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔
مذکورہ بالا صورتوں میں سے موخرالذکر دو صورتوں میں باپ کے حصے کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس سے علماء نے یہ استنباط کیاہے کہ ان صورتوں میں باپ کاکوئی متعین حصہ نہیں ہے، بلکہ ماں کا حصہ نکالنے کے بعد جو کچھ بچے وہ سب باپ کاہوگا۔
کسی شخص کے انتقال کے وقت اگر اس کے والدین زندہ ہوں اور اس کے بھائی بہن بھی ہوں تو بھائیوں بہنوں کو کچھ نہ ملے گا، پورا ترکہ ماں باپ میں تقسیم ہوجائے گا۔ اگر والدہ کا انتقال پہلے ہوچکا ہو اور والد زندہ ہوں تو وہ پورے ترکے کے مستحق ہوںگے، اس صورت میں بھی بھائیوں بہنوں کاکچھ حصہ نہ ہوگا۔
غیرمسلموں سے تعلقات کے حدود
سوال:ہم ہندوؤں کے محلے میں رہتے ہیں۔ تعلقات اچھا رکھنے کی خاطر ان کے تہواروں میں کچھ حد تک شامل ہونا، حصہ لینا، چندہ دینا پڑتا ہے۔ تہواروں کے موقع پر وہ لوگ گھر پر پرساد بھی بھیجتے ہیں، کیا بسم اللہ پڑھ کر اسے کھانا صحیح ہے؟
جواب : غیرمسلموں سے تعلقات کے ضمن میں یہ اصول ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان کے مشرکانہ کاموں میں شرکت اور تعاون کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، البتہ ان کے غیرشرکیہ کاموں اور تہواروں میں شرکت کی جاسکتی ہے اور انھیں تعاون بھی دیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک پرساد کا معاملہ ہے، اگر وہ بتوں کا چڑھاوا ہو تو کسی مسلمان کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔ بسم اللہ پڑھ کر بھی وہ جائز نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم میں حرام ماکولات کی جو فہرست بیان کی گئی ہے ان میں یہ بھی ہے:
وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِ (البقرۃ: ۱۷۳)
’’وہ چیز جس پر اللہکے سوا کسی اور کا نام لیاگیا ہو۔‘‘
غیرمسلم اس طرح کی کوئی چیز دیں تو ان سے دریافت کیاجاسکتاہے اور اگر وہ بتوں کا چڑھاوا ہو تو اسے لینے سے معذرت کی جاسکتی ہے۔ انھیں بات سمجھادی جائے تو وہ اسے دینے پر اصرار نہیں کریں گے، آئندہ احتیاط کریں گے اور اس کا بُرابھی نہیں مانیں گے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2014