مسنون روزوں کی پابندی کس حد تک؟
سوال: بعض افراد پیر اور جمعرات کو پابندی سے روزہ رکھتے ہیں۔ اُس دن اگر انھیں دعوت دی جائے تو روزہ کا عذر بتاکر دعوت قبول نہیں کرتے ، جب کہ دعوت انھیں کئی روز قبل دی جاچکی ہوتی ہے۔ ایسے شخص کو مسنون روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے یا دعوت میں شریک ہونا چاہیے؟ کہا جاتا ہے کہ اگر دعوت دینے والے کو تکلیف نہ ہوتو عدم شرکت میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر کسی شخص کی دعوت قبول نہ کی جائے تو اسے تکلیف تو یقیناً ہوتی ہے، چاہے وہ خاموش رہے۔ کہیں سے دعوت ملنے کے باوجود اگر آدمی روزہ سے ہوتو اس میں ریاکاری کا خدشہ رہتا ہے۔براہ کرم جواب سے نوازیں۔
جواب: اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں:
اِنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَتَحَرّیٰ صِیَامَ یَوْمِ الِاثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ۔(ترمذی: ۷۴۵، نسائی: ۲۳۶۰، ابن ماجہ:۱۷۳۹)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام کرتے تھے‘‘۔
اس بناپر مذکورہ دنوں میں روزہ رکھنا مسنون اور پسندیدہ ہے۔ اب اگر کوئی شخص سنتِ نبویؐ پر التزام کی وجہ سے ان دنوں میں کسی کی دعوت کو قبول نہ کرے تو اسے موردِ الزام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ دعوت دینے والے کو اس کا عذرشرحِ صدر کے ساتھ قبول رلینا چاہیے۔ اگر وہ مدعو و اپنی دعوت میں شریک ہی رناچاہتا ہے تو اسے کوئی اور دن طے کرنا چاہیے۔ وہ تو اپنے متعینہ پروگرام سے ذرا بھی نہ ہٹے اور مدعو سے چاہے کہ وہ سنت کااہتمام ختم رکے لازماً اس کی دعوت قبول کرے، یہ رویہ درست نہیں ہے۔
روزے کی وجہ سے کوئی دعوت قبول نہ کرنے پر ریا کاری کا الزام لگانا بھی خوب ہے۔ عبادات میں روزہ ایک ایسا عمل ہے، جس میں ریا کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ نفل روزہ رکھنے والا اگر کسی سے اپنے روزہ دار ہونے کا تذکرہ نہ کرے یا کوئی اس سے نہ پوچھے تو کسی کو خبر ہی نہیں ہوسکتی۔ کسی کے منھ پر تو نہیں لکھا ہوتا کہ وہ روزے سے ہے۔
آج کے دور میں، جب کہ مسلمانوں میں سنتوں پر عمل کی رغبت کم سے کم ہورہی ہے، اگر کوئی شخص کسی مسنون عمل کا اہتمام کرتا ہے تو اس کی تحسین کی جانی چاہیے، نہ کہ اس کے بارے میں ایسی باتیں کہی جائیں جو اسے سنت سے دور کرنے والی ہوں۔ ہرشخص کے دل کا حال جاننےوالا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی اس سے باخبر ہے کہ اس کا کون بندہ مخلص ہے اور کون ریاکار۔
کرنسی کے ایکسچینج کا کاروبار
سوال:ایک صاحب کرنسی کے ایکسچینج کا کاروبار کرتے ہیں۔ اس سے انھیں فائدہ ہوتا ہے۔ کیایہ کاروبار جائز ہے؟ اس کاروبار کے لیے انھوں نے کچھ رقم اپنے ایک ساتھی سے لے کر لگائی۔ اس کے عوض منافع کے طور پر وہ انھیں پندرہ سو روپے فی ہفتے ادا کرتے ہیں۔ کیا یہ منافع رقم دینے والے کے لیے لینا جائز ہے؟
جواب: مختلف ممالک کی کرنسیاں الگ الگ اجناس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے ان کا باہم تبادلہ کمی وبیشی کے ساتھ جائز ہے۔ اسلام فقہ اکیڈمی نئی دہلی کے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا:
’’دو ملکوں کی کرنسیاں دو اجناس ہیں، اس لیے ایک ملک کی کرنسی کا تبادلہ دوسرے ملک کی کرنسی سے کمی وبیشی کے ساتھ حسبِ رضائے فریقین جائز ہے‘‘۔ (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے، طبع دہلی، ۲۰۱۱ء ، ص ۱۲۶)
اسی طرح کرنسیوں کے ایکسچینج کا کاروبار بھی جائز ہے، البتہ اس کاروبار میں کسی سے کچھ رقم لے کر لگائی جائے اور اس کے منافع کے طور پر کوئی رقم متعین (Fixed) کرکے ادا کی جائے، یہ جائز نہیں ہے۔ اس کے بجائے رقم کی مناسبت سے فیصد طے کرلینا چاہیے اور پورے منافع پر اتنا فیصد ادا کرناچاہیے۔
جان اور مال کا بیمہ
سوال: ملک میں آئے دن ہونے والے فسادات میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر جان ومال کا نقصان ہوتا ہے۔ مظفر نگر کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ کیا اس پس منظر میں جان و مال کابیمہ کرایا جاسکتا ہے؟
جواب: بیمہ (Insurance) عام حالات میں ناجائز ہے، اس لیے کہ اس میں سود، جوا اور دیگر شرعی قباحتیں ہیں۔ لیکن ملک کے غیر معمولی حالات میں، جب کہ مسلمانوں کو اپنی جانوں اور اموال کے سلسلے میں خطرات درپیش ہوں، حکومت ان کے تحفظ اور قیامِ امن کی ذمےد اریوں سے غافل ہو۔ وہ نہ صرف مسلمانوں کی جان ومال کو پہنچنے والے نقصانات کی تلافی میں کوتاہی کر رہی ہو ،بلکہ فسادیوں کے جرائم سے چشم پوشی کرتے ہوئے ایک طرح سے ان کی ہمت افزائی کر رہی ہو، کیا ان حالات میں بیمہ کی کچھ گنجائش ہے؟ اس موضوع پر اسلامک فقہ اکیڈمی، نئی دہلی کے متعدد اجلاسوں میں غور کیاگیا۔ بالآخر ۱۹۹۲ء کے اجلاس منعقدہ اعظم گڑھ میں یہ فیصلہ کیاگیا:
’’مروجہ انشورنس اگرچہ شریعت میں ناجائز ہے، کیوں کہ وہ ربوٰ، قمار، غرر جیسے شرعی طور پر ممنوع معاملات پرمشتمل ہے، لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات میں ، جب کہ مسلمانوں کی جان ومال ،صنعت وتجارت وغیرہ کو فسادات کی وجہ سے ہرآن شدید خطرہ لاحق رہتا ہے ، اس کے پیش نظر الضرورات بتیح المحظوات رفعِ ضرر،دفعِ حرج اور تحفظِ جان ومال کی شرعاً اہمیت کی بنا پر ہندوستان کے موجودہ حالات میں جان ومال کا بیمہ کرانے کی شرعاً اجازت ہے‘‘۔ (نئے مسائل اورفقہ اکیڈمی کے فیصلے، ص ۱۴۹۔۱۵۰)
اس فیصلے پر ترپن (۵۳) علمائے کرام کے دستخط ہیں۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اجلاس میں شریک علماء کی اکثریت اس فیصلے سے متفق نہیں تھی۔ اس کے نزدیک ان حالات میں بھی جان ومال کا بیمہ کرانا جائز نہیں ہے۔)
مذکورہ فیصلے کے ضمن میں ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی گئی ہے: ’’واضح رہے کہ فقہ اکیڈمی کی طرف سے یہ تجویز اور سیمینار میں شریک اہلِ علم کی طرف سے اس کی تائید کا یہ مطلب نہیں کہ انشورنس مسلمانوں کی حفاظت کاضامن ہے۔ اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ اس انشورنس کے بعد جو بھی صورت پیش آئے اس میں ملنے والی سب رقم انشورنس کرانے والوں کے لیے جائز و درست ہوگی، بلکہ اس میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ صرف فسادات کی صورت میں جان ومال کے نقصان کےبعد جو کچھ ملے اور جو حق قانون وضابطے میں بتایا جائے، اس کے مطابق ملنےوالا مال تو انشورنس کرانے والوں کے لیے جائز ودرست ہوگا اور بقیہ صورتوں میں صرف اپنی جمع کردہ رقم کے بقد ر لینا اور استعمال کرنا جائز ہوگا، زائد کا نہیں۔ اور انشورنس کی صورت میں زائد کے جواز کی جہت حکومت کی نااہلی اور غیر ذمے داری کی وجہ سے اس کی طرف سے اور اس پر ضمان کی ہے‘‘۔ (نئے مسائل۔ صفحہ ۱۵۰)
زندگی میں جائداد کی تقسیم
سوال: ایک بزرگ گائوں میں رہتے ہیں، صاحبِ جائداد ہیں۔ ان کے تین لڑکے ہیں۔ تینوں کو انھوںنے تعلیم دلوائی۔ دو لڑکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اچھی ملازمتوں سے لگ گئے اورگائو ں چھوڑ کر شہرمیں رہنے لگے۔ دونوں نے اپنے بیوی بچوں کو بھی اپنے ساتھ رکھا۔ تیسرا لڑکا ابھی تعلیم کے مرحلے میں ہی تھا کہ موصوف کی طبیعت خراب رہنےلگی لہٰذا وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر نہ جاسکا۔ اس نے خود کو والدین کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔
اب وہ صاحب چاہتے ہیں کہ اپنی پوری جائداد اِس چھوٹے لڑکے کے نام کردیں۔ وہ ضرورت مند بھی ہے ۔ کیا وہ شرعاً ایسا کرنے کے مجاز ہیں؟
جواب: کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائداد یا دیگر مملوکہ چیزیں اپنی اولاد میں تقسیم رنا چاہتا ہو تو عام حالات میں شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ وہ ان کے درمیان برابر برابر تقسیم کرے، یہاں تک کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان بھی فرق نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر وہ ان کے درمیان تفریق کرے گا ، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دے گا تو اس کے معاملے میںاسی اعتبار سے ان لوگوں کا بھی رویہ بدل جائے گا۔ جس کو کم ملےگا اس کو شکایت ہوجائے گی اور وہ اس کے حقوق کے معاملے میں غفلت برتنے لگے گا۔
عہد نبویؐ میں ایک صحابی نے داد و دہش کے معاملے میں اپنے لڑکوں کے درمیان فرق کیا تو اللہ کے رسول ﷺنے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا اور اس کی یہی حکمت بیان کی۔ آپؐ نے فرمایا:
’’اَیَسُرُّکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا اِلَیْکَ فِی البِرّ سَوَاءٌ‘‘ (مسلم)
’’کیا تم کو اس بات سے خوشی ہوگی کہ تمھارے تمام لڑکے یکساں طور پر تمھارے ساتھ حسن ِ سلوک کریں‘‘۔
یہ معاملے کا اخلاقی پہلو ہے۔ قانونی اعتبار سے آدمی اپنے مال کا مالک ہے۔ وہ اپنی زندگی میں اس میں سے جتنا بھی کسی کو دینا چاہے، دےسکتا ہے۔ وہ چاہے اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو دے، چاہے اپنے رشتے داروں کو دے،چاہے صدقہ وخیرات کرے، چاہے رفاہی کاموں کیلئے وقف کردے۔
مذکورہ معاملے میں بہتر صورت یہ ہے ےکہ آدمی اپنے تمام لڑکوں کو اعتماد میں لے۔ اس کا ایک لڑکا معاشی اعتبار سے کمزور اور ضرورت مند ہے، جب کہ دیگر لڑکے اعلیٰ تعلیم یافتہ،اچھی ملازمتوں سے وابستہ اور معاشی اعتبار سے مضبوط ہیں۔ اس صورت میں اگر وہ اپنے دیگر لڑکوں کو اعتماد میں لے کر اپنی پوری جائداد معاشی اعتبار سے کمزور لڑکے کے نام منتقل کردے گا تو انھیں کوئی شکایت نہ ہوگی اور وہ بخوشی اس پرتیار ہوجائیں گے۔
میرا کا ایک مسئلہ
سوال: ہم تین(۳) بھائی اور نو(۹)بہنیں ہیں، سب کی شادی ہوچکی ہے۔ والدہ کا انتقال بیس سال قبل ہوچکاتھا۔ بڑے بھائی کا انتقال بھی والد صاحب کی زندگی میں ہوگیا تھا۔ ان کی بیوی اور چار لڑکے ہیں۔ والد صاحب کی جائداد میں ایک ذاتی مکان ہے اور ایک چھوٹی سی دوکان کرائے پر لی ہوئی ہے۔ میری ایک بہن کےشوہر شادی کے کچھ سال بعد انہیں اور تین بچوں کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ والد صاحب نے ان بچوں کی پرورش کی اور ان کی شادیاں بھی کیں۔ وہ بہن اور ان کا ایک لڑکا بھی اسی مکان میںرہتے ہیں۔
والد صاحب کا کچھ دنوں قبل انتقال ہوگیا ہے۔ ہم شرعی طور سے ان کے ترکے کا بٹوارہ چاہتے ہیں۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔
جواب: کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی ملکیت کی تمام چیزوں (مکان، زمین، دوکان پلاٹ وغیرہ) کی تقسیم ضروری ہے۔ چاہے وہ زیادہ سے زیادہ ہوں یا کم سے کم (القرآن، سورۂ نساء، آیت نمبر ۷) کسی شخص کی زندگی میں اس کےبیٹے یا بیٹی کا انتقال ہوجائے تو وہ اپنے پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کو اپنی زندگی میں حسبِ ضرورت کچھ دے سکتا ہے لیکن اگر نہ دے تو اس کے انتقال کے بعد ان کا وراثت میں کچھ حصہ نہ ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں دادا کی میراث میں پوتوں پوتیوں کا اور نانا کی میراث میں نواسوں نواسیوں کا حصہ نہیں ہوتا۔ اگر کسی شخص کے وارثوں میں صرف اس کے بیٹے اور بیٹیاں ہوں تو میرا اس طرح تقسیم ہوگی کہ بیٹوں کو بیٹیوں کےمقابلے میں دوگنا ملے گا۔
اوپر کی تفصیل کے مطابق میت کے دو بیٹے اور نوبیٹیاں زندہ ہیں۔ اس لیے کل جائداد کے تیرہ(۱۳) حصے کیے جائیں۔بیٹیوںکو ایک ایک حصہ اور بیٹوں کو دو دو حصے ملیں گے۔
بیٹوں اور بیٹیوں کی اولادوں کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2014