ہم کیسے بنیں؟

معاشرے میں آپ کو ایسے بے شمار لوگ نظر آئیں گے، جن کا اپنا ایک مقام ہے۔ان میں بیشتر ایسے ہوں گے جن کا مقام، ان کے اپنے لیے زیادہ اور دوسروں کے لیے کم فائدہ مند محسوس ہوگا۔ کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے افراد کا یہ طرزعمل ایک مہلک مرض ہے۔ آپ خود غور کریںکہ کسی ملازم کا کرپشن میں ملوث رہنا کیا یہ ظاہر نہیںکرتاکہ اس کامقام، لوگوں کے استحصال کے لیے ہے نہ کہ ان کی بے لوث خدمت کے لیے؟کسی سیاست داں کا اپنے حلقہ اثر پر ہی توجہ مرکوز رکھنا اور ان کی واجبی ضروریات کی تکمیل میں تساہل برتنا، کیاظاہر نہیںکرتا کہ ا س کے مقام نے اسے عوام کا بے لوث خادم باورنہیں کرایا؟ پھر اس کے علاوہ بعض پوزیشنز ایسی ہوتی ہیں، جن سے از خود ذمّے داری کا تصور ابھر آتا ہے۔ ملک کا شہری ہونا، روزگار کی خاطر کوئی پیشہ اختیار کرنا، درس و تدریس کی خدمات انجام دینا وغیرہ۔اگر ان حیثیتوں پر بھی آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ کن سے کن کو اور کس حد تک فائدہ پہنچ رہا ہے؟ ایک شہری کی ذمے داری ہوتی ہے کہ ملک کی ترقی میں اپنا رول ادا کرے۔ اگر شہری خود فتنہ و فساد میں ملوث ہوں تومطلب یہی ہوگا کہ انھیں اپنے مقام کا شعور نہیں۔ اس تناظر میں ہمیں اس طرح بننے کی ضرورت ہے، کہ ہم اپنی ذات کے لیے بھی مفید ہوں اور دوسروں کے لیے بھی۔

ہمیں ایسا بنناہے کہ ہم سے اللہ بھی خوش ہو اور اس کے بندے بھی۔ اللہ کی خوشی کے لیے ضروری قرار دیا گیا کہ اخلاق و کردار کا ہمیشہ اعلیٰ معیاررہے۔تمام معاملات اللہ کی خوشی کے لیے انجام دیے جائیں۔لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے ان سے کسی نفع کی توقع کیے بغیر بے لوث خدمت انجام دی جائے۔لوگو ںکے پاس جو کچھ ہے اس سے بے نیاز رہنا چاہیے۔دنیا میں رہ کر دنیا کی لذتوں سے خود کم اور دوسروں کو زیادہ فائدہ اٹھانے کے مواقع فراہم کرنا آسان کام نہیں۔ ایسا جذبہ یوں ہی بیدار نہیں ہوتا ، اس جذبے کا بیدار ہونا ایسا ہی ہے جیسے کسی مشکل چیز کا حاصل کرنا۔اسی لیے انسانوں کے حقوق کی ادائی کو دشوار گزار گھاٹی کہا گیا۔

﴿۱﴾ آپ ایسا بنیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مانگنے والوں سے بڑھ کر عطا کرے

اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ ہر چھوٹی بڑی چیز اسی سے طلب کی جائے۔ خدا اور بندے کا تعلق، حاجت روا اور حاجت مند کاہے۔ بندہ، اپنے رحیم و کریم آقا سے طلب کرتا ہے، آقا عطا کرتا ہے۔ بندہ اس کے حضور شکر بجا لاتے ہوئے اپنی زندگی گزارتاہے۔اِس راہ میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے لیے اپنے آپ کو فنا کردیتا ہے۔ اللہ کا اس قدر دلچسپی اور انہماک سے ذکر کرتا ہے کہ اپنی حاجتو ں کا طلب کرنا بھی اسے یاد نہیں رہتا۔ایسے بندے کے بارے میں اللہ رب العالمین کہتا ہے کہ میں اسے مانگنے والوں سے زیادہ دوں گا۔معاشرے پر نگاہ ڈال کر دیکھیے اور خاموشی سے جائزہ لیجیے کہ ایسے کتنے لوگ ہوں گے، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ ایسا کہتا ہوگا؟کیا روکھی اور بے رونق عبادتوں سے یہ مقام حاصل ہوگا؟ کیا دنیا کے پیچھے پڑے رہنے سے ایسی خوش خبری نصیب ہوگی؟ کیا اخلاق و کردار کے کم تر درجے میں رہ کر ایسے مقام کی تمنا کی جاسکے گی؟نہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی کا پیکر ہی اللہ تعالیٰ کی اس خوش خبری کا مستحق ہوگا۔اس کی تو پہچان ہوگی کہ وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دینے والا ہوگا۔اپنے پاس جو کچھ ہے اس سے بڑھ کر جو اللہ کے پاس ہے اس پر بھروسا کرنے والاہوگا۔اس کی آنکھیں ڈھیر سارے وسائل ملنے پر ٹھنڈی نہیں ہوں گی۔ بل کہ بندگی رب سے اس کے دل کوسکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوگی۔بندگی رب کے اس اعلی مقام کے شایان شان اپنے کو بنائیے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے برسنے کا سلسلہ کبھی نہ ختم ہواور نعمتیں مانگنے پر بھی ملیں اور نہ مانگنے پر اور زیادہ میسر آئیں۔

﴿۲﴾ ایسا بنیے کہ آپ کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے

کسی کا نیک کام کرنا اور برے کام سے بچے رہنا، اسی لیے ممکن ہے کہ اسے اللہ یاد ہے۔ کسی کو دیکھنے سے اللہ یاد آنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہاں ہو وہاں نیکیوں کا چلن ہو اور برائیوں کا ازالہ ہو۔وہ جہا ں رہتا ہے، جہاں اس کی بیٹھک ہوتی ہے، وہ جہاں سے خرید و فروخت کرتا ہے، وہ جن سے معاملات کرتا ہے، سب کے سب سراپاخیر ہوں ۔شر کی گنجایش نہ رہے ۔ وہ نہ صرف نیک عمل کرنے والا اور برائیوں سے بچنے والا رہے، بل کہ ایسا ماحول بنائے کہ لوگ نیک کاموں کو انجام دینے کے لیے تحریک پاتے ہوں۔ایسے شخص کے بارے میں  رسول اکرم ﷺنے فرمایا : ’’اللہ کے بندوں میں وہ سب سے بہتر ہے۔،، معاشرے میں نیک انسان تو نظر آتے ہیں، لیکن ان کا دائرہ اثر بڑا محدود ہوتا ہے۔ حالاں کہ کارخیر کا لازمی طور پر دوہرا نتیجہ برآمد ہونا چاہیے ۔ایک یہ کہ کار خیر کرنے والا، خیر کے کاموں میں بتدریج آگے بڑھتا رہے اور دوسرا یہ کہ کارخیر جہاں انجام پائے،وہاں وہ اپنے وسیع الاطراف اثرات چھوڑے ۔ ماحول روشن ہوجائے۔لوگ اُسے نیک کام کرتا دیکھ کر نیکی کی طرف بڑھنے کے لیے ترغیب پائیں اور برائیوں سے بچنے والوں کو دیکھ کر خود بھی برائیوں سے دور رہیں۔ اگر کسی شخص کا ایسا معاملہ ہو تووہ لازماً لوگوں میں سب سے اچھا ہوگا کہ خود بھی نیک ہے، ماحول بھی سراپا خیر ہے اور لوگ بھی بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں۔خلاصہ کلام یہ کہ آپ کو دیکھنے سے اللہ اس وقت یاد آئے گا جب آپ کی ساری زندگی اللہ کے لیے ہو۔اللہ کے لیے آپ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے والے ہو ںوَالْْمُتَجَالِسِےْْنَ فِیَّ۔ اپنے بھائی سے اللہ کی خاطر ملاقات کرنے والے ہوں﴿وَالْْمُتَزَاوَرِےْْنَ فِیَّ﴾۔ دوسروں پر اللہ کی خاطر خرچ کرنے والے ہوں۔  وَالْْمُتَبَاذِلِےْْنَ فِیَّ ﴿ترمذی﴾

﴿۳﴾ ایسا بنیے کہ دوسروں کو آپ جیسا بننے کی خواہش ہو

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی کو ایسا بننا چاہیے کہ اس جیسا بننے کی دوسروں کے دل میں خواہش پید ا ہو، تو اس کا مطلب انسانی فطرت کو اجاگر کرناہوتا ہے۔ کسی کے اچھے اخلاق و کردار کو دیکھ کر اگر کوئی اس جیسا بننا چاہے تو مطلب یہ ہوگا کہ اس نے اپنی فطرت کو نیکی کی طرف جھکا دیا ہے۔ایک بامقصد دین کے ماننے والوں کی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت یہ بھی ہے کہ انہیں دوسروں کے لیے نمونہ بننے جَعَلْْنَا لِلْْمُتَّقِینَ اِمَاماً ا﴿الفرقان:۷۴﴾کی تمنا ہو ۔ ایک باپ ایسا ہوجو اپنے بچوں سے پیار، محبت، ان کی تربیت اور ان کی ضروریات کی تکمیل پر بھرپور توجہ دیتا ہو کہ اس کی اولاد اس جیسا کرنے کی سوچیں۔ایک استادکو اس قدر دیانت داری کے ساتھ اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے کہ استاد کی شفقت و محبت اور انداز تدریس سے متاثر ہوکر ہر طالب علم اس جیسا بننے کی کوشش کرے۔ایک ماں ایسی بنے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے مثالی ہو۔ایک ساس ایسی بنے کہ اس جیسی اس کی بہو بننے کی تمنا کرے۔ایک پڑوسی ایسا بنے کہ اس کے دوسرے پڑوسی اس جیسا بننے کی خواہش اپنے دل میں پیدا کریں۔کیوں کہ اللہ کو ایسے ہی پڑوسی پسند ہیں  خَےْْرُ الْْجِےْْرَانِ عِنْْدَ اللّٰہِ خَےْْرُھُمْْ لِجَارِہٰ۔ ایک باکردار شخص کا ایسا ہی دائرہ اثر ہوتا ہے کہ وہ جہاں ہوگا اطراف و اکناف کے ماحول کو متاثر کرے گا۔ اسلامی اخلاقی اقدار پر عمل درآمد کا یہ لازمی نتیجہ ہے۔

﴿۴﴾ ایسا بنیے کہ آپ کی جدائی پراچھے تاثر ات کا اظہار ہو

کسی کا نیک ہوناتو ظاہر ہوجاتا ہے لیکن کس کے اندر کتنے قابل اصلاح پہلو ہیں، ان کا صحیح اندازہ ممکن نہیں۔ہر فردخوب جانتا ہے کہ وہ کیا ہے؟ غالباً اسی وجہ سے ایک خدشہ ہمیشہ لگا رہتا ہے کہ کہیں کم زوریاں دوسروں پر واضح نہ ہوجائیں۔چاہے کوئی ہمارا بھائی ہو، دوست ہو یا پھر کچھ اور، رشتے اور تعلق کے لحاظ سے تووہ ہم سے قریب ہوتا ہے، لیکن اس کے اندرون میںچھپی شخصیت کے لحاظ سے وہ ہم سے اتنا ہی دور رہتا ہے ۔اس حال میں ایسا بننے پر توجہ ہونی چاہیے کہ ظاہر او ر باطن یکساں ہو۔جودل میں ہو وہی لبوں پر ۔ایسے شخص کی ایک مخصوص پہچان بتائی گئی کہ لوگ اس کی موجودگی اور عدم موجودگی ، دونوں صورتوں میں اس کے بارے میں اچھے تاثرات کا اظہار کریں۔آپ کاکسی محفل سے اٹھ کر چلے جانااور دوسروں کا آپ کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کرنا، اس بات کی پہچان ہے کہ آپ میں جو خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں وہ ان میں نہیں ہیں یا آپ جیسی نہیں ہیں۔آپ کا کچھ دیر رہنا اور کسی سے گفتگو کرنااس قدر موثر رہا کہ لوگ آپ کے اس احسن طرز عمل کے معترف ہوگئے۔ ہمارا معاشرہ ایسے ہی ماحول سے مزین رہنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے سلسلے میں اظہار خیال مثبت ہو۔اگر کسی سے متعلق اظہار خیال نامناسب ہو تو یہ دونوں حالتوں میں قابل اصلاح ہوجائے۔ جو کہیں، ان کی اصلاح، حقیقت حال معلوم کر کے کی جائے اور جس کے بارے میں کہیں اس کی فی الواقع خامی کو دور کیا جائے۔آپ کے اخلاق و کردار کا اثر اس قدر وسیع ہو کہ چاہے آپ کسی دو افراد سے مل کر چلے جائیں یا کسی محفل سے رخصت ہوں، لوگ آپ کو اچھے الفاظ سے یاد کریں۔کسی کا یہ مقام اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ وہ اخلاق و کردار کے لحاظ سے بڑا نمایاں ہو۔ دین کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو۔معاملہ فہم ہو اور لوگوں کی بے لوث خدمت کرتا ہو۔دوسروں کے بارے میں بڑے ہی محتاط انداز سے اظہار خیال کرتا ہو۔ اپنے کوحقیر سمجھنے والا ہو اور اپنے گناہوںپر کثرت سے رونے والا ہو۔اور وَانْْظُرِ الَّذِیْْ تَکْْرَہ، اَنْْی اقُوْْلَ لَکَ الْْقَوْْمُ اِذَا قُمْْتَ مِنْْ عِنْْدِھِمْْ فَاجْْتَنِبْْہاور تم جن باتوں کو ناپسند کرتے ہو، کہ تمہاری عدم موجودگی میں لوگ ان کا تذکرہ کریں تو تم ان سے پرہیز کرو۔

﴿۵﴾ ایسا بنیے کہ لوگ آپ سے ہمیشہ خیر کی توقع رکھیں

انسانی ضرورتوں کی کوئی حد نہیں۔ روپے پیسے سے بھی ضرورت پوری ہوتی ہے اور لبوں پرکھلنے والی مسکراہٹ بھی کسی نہ کسی ضرورت کو پورا کرجاتی ہے۔اس لیے ان دونوں کے متعلق کہا کہ ان کا شمار صدقے میں ہوگا۔مال کا خرچ کرنا بھی اور مسکرانا بھی۔اس لیے ہمار اایک دوسرے کے سلسلے میں توقعات باندھنا بالکل فطری ہے ۔آپ ایسے بن جائیے کہ آپ سے ہمیشہ خیر ہی کی توقع ہو۔جس طرح کسی دیوار کو ٹیک بڑے اطمینان سے لگائی جاتی ہے، بالکل اسی طرح آپ کی مدد لینا، مشورہ کرنا، کسی کام پر لگانا، اچھی توقعات کی بنا ہوناچاہیے۔کوئی آپ سے معاملہ کرے تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو کہ آپ سے کسی نقصان کی توقع ہوسکتی ہے۔کوئی آپ سے مشورہ کرے تو اس یقین کے ساتھ کہ آپ کی باتیں مبنی برحقیقت اور قابل عمل ہوتی ہیں۔ اگرکوئی آپ کو ذمے داری دے تو پورے اطمینان کے ساتھ کہ آپ احسن طریقے سے اس کواداکریں گے۔غرض ہر معاملے میں آپ سے خیر ہی کی توقع ہو۔اللہ کے رسول ﷺفرماتے ہیں کہ تم میں سب سے اچھے وہ ہیں : خَیرُکُمْْ مَنْْ یرْْجٰی خَیرُہ، وَ یوْْمِنُ شَرُّہ، ﴿ترمذی﴾۔ کہ جن سے ہمیشہ خیر کی توقع ہوتی ہے اور ہر طرح کے شر سے امان میسر آتا ہے۔

﴿۶﴾ ایسا بنیے کہ آپ کا دل مسلم ہو

دل ،جذبات و احساسا ت کا آئینہ ہوتا ہے۔ کسی کو دیکھنا، کسی سے بات کرنا، کسی کی طرف اشارے کرنا حتیٰ کہ چپ چاپ بیٹھے رہنا،دل میں اٹھنے والے جذبات کو ظاہر کرتا ہے۔دل کی حفاظت کی جائے تو نیک بنے رہنا ممکن ہے۔اگرکوئی چیز مسلسل حرکت میں ہو تو اس کی حفاظت زیادہ جتن سے ہونی چاہیے۔ دل، ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے۔ رسول اکرم ﷺنے دل کی مثال دی کہ جیسے کسی کھلے میدان میں پرَ پڑا ہو:  مَثَلُ الْْقَلْْب ِکَرِےْْشَۃٍ بِاَرْْضٍ فَلَاۃٍ … ﴿مسنداحمد﴾ ﴿جیسے پر کو ہوائیں ادھر سے ادھر اڑاتی رہتی ہیں﴾ دل کو بھی مختلف خواہشات و جذبات اور پیش آنے والے حوادث متاثر کرتے رہتے ہیں۔ایسے بنیے کہ آپ کا دل مسلم ہو، دل پر مکمل کنڑول ہو،یہ اللہ کی بے پناہ محبت اور یادکا مسکن ہو۔آپ کا دل پاکیزہ خیالات اور جذبات کی آماجگاہ ہو۔گناہوںسے سخت نفرت کرنے والا۔دوسروں کے بارے میں حسن ظن رکھنے والا۔اگر کسی کے بارے میں کچھ کہا جائے تو برملا اظہار کرنے والا کہ ایسی گفتگو پسند نہیں۔ جب کوئی صحابی ؓ  کسی کے متعلق کچھ نامناسب بات کہتے تو رسول اکرم ﷺمنع فرماتے: فَاِنِّی اُحِبُّ اَنْْ اَخْْرُجَ اِلَےْْکُمْْ وَ اَنَا سَلِےْْمُ الصَّدْْرِ﴿ابوداؤد﴾ ﴿مجھے چاہیے کہ میں تمہارے درمیان سے ایسا چلا جائوں کہ میرا دل تم سب کے سلسلے میں پاک ہو﴾ ہمارے ماحول میں ایسے پاکیزہ دل رکھنے والوں کی کثرت ہونی چاہیے۔ تب ہی تو ایک دوسرے سے لاتعلقی اور عدم تعاون کی فضا ختم ہوگی۔ دلوں کو پھاڑنے والے الفاظ کی گونج سنائی نہیںدے گی۔ان پر روک لگے لگی اور جائزہ و احتساب لیا جائے گا۔دل کو ہرطرح کے تعصبات اور برائیوں سے پاک رکھنا، بھولی بھالی سیرت کے مالک بننا نہایت پسندید ہ ہے : الْْمُؤْْمِنُ غِرٌّ کَرِیْمٌ﴿ترمذی﴾۔﴿ مومن بھولا بھالا اور شریف النفس ہوتا ہے ﴾ پرندہ جیسے معصوم دل والوں کے لیے تو جنت کی بشارت ہے  یدْْخُلُ الْْجَنَّۃَ اَقْْوَامٌ اَفْْئِدَتُہُمْْ مِثْْلُ اَفْْئِدَۃِ الطَّیْرِ ﴿مسلم﴾ ﴿جنت میں بعض ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل پرندوں کے دلوں جیسے ہوں گے﴾

﴿۷﴾ ایسا بنیے کہ آپ کی زبان مسلم ہو

آپ ایسا بنیے کہ آپ کی زبان آپ کے پاکیزہ جذبات اور نیک سیرت کی ترجمان بنی رہے۔آپ کے ساتھ آپ کی زبان بھی مسلمان ہو۔رسول اکرم ﷺفرماتے ہیں:‘‘ کوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل او ر اس کی زبان مسلم نہ ہوجائے۔،،  لاَ یسْْلِمُ عَبْْدٌ حَتّٰی یسْْلِمَ قَلْْبُہ، وَلِسَانُہ، ﴿مسلم﴾ آپ کی دل نشیں گفتگو، لوگوں کے دلوں میں آپ کے لیے محبت میں اضافے کا باعث بنے۔کوئی نشست، کوئی گفتگو، اللہ کے ذکر سے خالی نہ ہو۔زبان دل کی پاکیزگی ہی سے مسلم ہوگی۔ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ ذکر کے بغیر کثرت کلام، سخت دلی ﴿الْْقَلْْبُ الْْقَاسِیْْ﴾ کی وجہ سے ہے ۔آپ ذرامشاہدہ کرکے دیکھ لیں کہ زبان کی بے احتیاطی نے کیا کیا گل کھلائے ہیں؟بارہا ایسا ہوا کہ زبان کی بے احتیاطی نے دوستوں کو آپس میں دشمن بنادیا ہے۔یا کم سے کم درجے میں بدگمانی ضرور پھیلائی ہے۔ زبان کے پھسلنے سے جو نقصان اٹھانا پڑا وہ پیروں کے پھسلنے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔معاشرہ،لوگوں سے آباد نظر آتا ہے، لیکن ایسا محسو س ہوتاہے کہ بے لگام زبانوں نے اسے ایک بیاباںکی شکل دے دی ہو۔کسی سے گفتگو، بغیر سوچے سمجھے ہوجاتی ہے، اگر کسی کی غیرموجودگی میں بات ہورہی ہو تو پوچھو مت، زبان پر کنڑول ہی نہیں رہتا۔بڑے مزے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں۔کسی کے بارے میں گفتگو ہو تو یہ خیال بھی نہیں رہتا کہ جو باتیں ہورہی ہیں وہ کہیں غیبت میں تو شمار نہیںہوں گی ؟یہ معاملہ بڑا تشویش ناک ہے کہ زبان سے نکلنے والے الفاظ کا باعث اجر یا عذا ب ہونے کا احساس بھی نہیں رہتا۔جو دین، اخلاقی اقدار کی آبیاری کے لیے آیا ہو، اس کے ماننے والوں کا، بنیادی اخلاق سے بھی عاری رہنا، انحطاط کی علامت ہے۔آپ ایسا بنیے کہ آپ کا شمار سچی زبان والوں﴿صُدُوْْقُ اللِّسَان﴾ میں ہونے لگے ۔آپ کی زبان ہمیشہ اللہ کی یاد سے تر رہے۔آپ کے الفاظ نہایت جچے تلے، اپنے منشا میں پورے اترتے ہوں اور آپ کی گفتگو قول سدید ہو۔کسی کے بارے کچھ کہنا ہو تو بہت محتاط رہیے ۔زبان کو قابو میں رکھیے اور جان لیجیے کہ اس سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ آپ کو یا تو جنت کا مستحق بنائے گا یا جہنم سے قریب کردے گا۔

رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں :‘’ آدمی ایک بھلائی کا لفظ﴿کلمۃ﴾ منہ سے نکالتا ہے اور اس کی قدر و قیمت نہیں جانتا تو اس کے باعث ےَکْْتُبُ اللّٰہُ لَہ، بِھَا رِصْْوَانَہ، اِلٰی یوْْمٍ یلْْقَاہُ۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے قیامت تک کی رضا مندی لکھ دیتا ہے۔ اور ایک آدمی برا لفظ نکالتا ہے اور اس کی حقیقت کو نہیں جانتا تو اس کے باعث۔ ےَکْْتُبُ اللّٰہُ بِھَا عَلَےْْہِ سَخَطَہ، اِلٰی ےَوْْمٍ ےَّلْْقَاہ۔  اللہ تعالیٰ اس کے لیے ملاقات کے دن تک ناراضگی لکھ دیتا ہے ﴿ترمذی، ابن ماجہ﴾۔ عافیت اسی میں ہے کہ ہم رسول رحمت ﷺ کی اس نصیحت کو کثرت سے یاد کرتے رہیں: اَمْْلِکَ عَلےْْکَ لِسَانَکَ﴿ترمذی﴾ ﴿اپنی زبان کو قابو میں رکھو

﴿۸﴾ آپ ایسا بنیے کہ آپ گھر والوں کے لیے باعث رحمت ہوں

کسی کے اچھے ہونے کا یہ معیار متعین کیا گیا کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو۔گھر والوں کے لیے اچھا ہونا، اسی وقت ممکن ہے، جب کہ ظاہر اور باطن ایک جیسا ہو۔نمازوں کی پابندی، آپ کا اندرون ہو تو اس کا ظاہر ، اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرنے کی صورت میں ہوگا۔ وقت کی قدرشناسی کرنے والے ہو ں، تو گھر والوں کے اوقات کے صحیح استعمال پر متوجہ رہیں گے۔جنت میں جانے کے حریص ہوں اور اس کے لیے ہر وقت عمل پر توجہ دیتے ہوں تو، اہل و عیال اور دوست احباب کو بھی جنت کا حریص بناسکیں گے۔گھر والوں کے لیے اچھا ہونا، آپ پر عبادتوں کے ذریعے پڑنے والے اثرات کو بھی ظاہر کرے گا۔ جو شخص نماز کے ذریعے فحش و منکر سے دور رہتا ہو تو بھلا اس کے گھر میں منکر کا کیا کام؟جو شخص دنیا والوں کو اللہ کے دین کی دعوت دینے کا عزم رکھتا ہواور یہ سمجھتا ہو کہ یہ دین ہی نجات کا ذریعہ ہے اور اسی کام کے ذریعہ اللہ کی رضا حاصل کی جاسکتی ہے تو پھر وہ کیسے اپنے اہل و عیال کو اس جانب متوجہ نہیں کرے گا؟ ا س کی تودل کی صدا ہوگی کہ اس کے گھر والے بھی اورآنے والی نسلیںبھی ، بندگی رب کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیں:رَبِّ اجَعْْلَنٰی مُقِیمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْْ ذُرِّیتِیٰ ﴿ابراھیم:۴۰﴾۔ سوچیے کہ آج کے گھر ، کہیں قول وعمل میں تضاد کی آماجگاہ تو نہیں بنے ہوئے ہیں؟ کیا کسی باپ یا ماں میں یہ اخلاقی جرأ ت پائی جاتی ہے، کہ وہ اپنے بچوں سے کہے، کہ مجھ جیسے بنو؟ کیا بچے اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے اپنے والد یا والدہ سے بلا تکلف رجوع کرتے ہیں؟کیا روز مرہ کی گفتگو سے گھر کے ماحول میں بہتری محسوس ہوتی ہے ؟اگر گھر میں کوئی غلط کام ہوجائے تو اس کی اصلاح کے لیے گھر کے سرپرست یا بچوں کی جانب سے کوشش ہوتی ہے؟کیا کوئی شوہررات کوگہری نیند میں سورہی اپنی بیوی کو پانی کے چھینٹے مار کر اٹھا سکتا ہے؟اس یقین کے ساتھ کہ وہ عبادت کے لیے اٹھے گی اور کچھ برا بھلا نہیں کہے گی؟ کیا ایسا ہی عمل کوئی بیوی کرسکتی ہے؟ کیا ہمارے گھر، سمجھنے اور سمجھانے کے لیے تربیت گاہ بنے ہوئے ہیں؟ گھر کا خوشگوارماحول، آپ کے اچھے رہنے پر بڑی حد تک منحصر ہے۔ آپ اچھے بن جائیے، آپ کا گھر آپ کے لیے وسعت اختیارکرے گا۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ کسی کا گھر اس کے لیے وسعت دے:وَلْْیسَعْْکَ بَْتُکَ  ﴿ترمذی﴾ تو یہ ایک بڑی نعمت ہے۔گھر میں دینی ماحول کوباضابطہ فروغ دینے کی کوشش ہوگی۔اہل و عیال کی تربیت کا موثر اہتمام ہوگا۔گھر کے افراد سے مختلف امور پر گھل مل کر بات کرنے میں آمادگی ہوگی۔گھر پہنچتے ہی ایک قسم کا سکون میسر آئے گا۔باہر کی دنیا کے مسائل کے حل کی تدابیر ، گھر کے اندرونی ماحول میں میسر آئیں گے۔

﴿۹﴾ ایسا بنیے کہ آپ ہروقت کار خیر میں مصروف رہنے والوںمیں شمار ہوں

نیکی کو پسند کرنا، نیکی کرنااو ر نیک کام کرنے والوں کو پسند کرنا، اللہ تعالیٰ کے محبوب ہونے کی پہچان ہے۔اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ نیکی کے کاموں میں نہ صرف مصروف رہا جائے، بل کہ مسابقتی جذبہ ہو۔جو بندہ کارخیر میں مصروف رہے گا، وہ حقیقت میں اللہ رب العالمین کے اسی منشاکو پورا کرنے کی شعوری کوشش کرنے والا ہوگا۔ اس لیے اس جانب بار بار توجہ دلائی گئی کہ ایمان لانے کا اولین تقاضا عمل صالح ہے۔ اَلَّذِینَ ٰ امَنُوْْاوَعَمِلُوْْا لصَّالِحَات کے ذریعے ہی قرآن کریم ہمیں خوش خبریاں سناتا ہے اور عمل کے لیے قرآنی ترغیب :وَلْْتَنْْظُرُنَفْْسٌ مَّا قَدَّمَتْْ لِغَدٍ ﴿الحشر:۱۸﴾  اصل میں خوشخبری ہی کا ایک دوسرا پہلو ہے، جس میں ہر شخص کو عمل پر ابھارا گیا ہے۔ کار خیرکی کوئی حد نہیں۔یہ مقام اور وقت کی قید سے آزاد ہے۔عبادات کی ظاہری اور باطنی محاسن کے ساتھ ادائی تو کارخیر کا نہایت ہی عمدہ نمونہ ہے۔ ایسے اعمال بھی کارخیر میں شمار ہوتے ہیں ، جن کو بظاہر اہمیت نہیں دی جاتی۔ وہ آخرت میں نتائج کے اعتبار سے عظیم عبادتوں جیسے معلوم ہوں گے۔کسی کو پینے کے لیے ایک گلاس پانی دینا، کسی کو وضو کے لیے پانی کا لوٹادینا، کسی کام کرنے والے کی مدد کرنا، جو کام صحیح ڈھنگ سے نہیں کرتا اس کی مدد کرنا،کسی سے متعلق حسن ظن رکھنا، کسی کے لیے دعا کرنا،کسی کے عزائم میں ساتھ دینا،اپنی خوبیوں کو یاد کرنا اور انہیں بروے کار لانے کی کوشش میں لگے رہنا، اپنے اچھے کاموں کو یاد کرتے ہوئے راہِ خدامیں مزید آگے بڑھنے کاعزم کرنا،جائز خواہشات کو جائز طریقے سے پوری کرنا،معمولی سے معمولی کام بھی کیا جائے تو اس کے اجر ملنے کی توقع رکھنا،کسی کی ضرورت کی تکمیل کے لیے دوڑ بھاگ کرنا۔ موت سے پہلے آخرت کی ایسی تیاری اور عمل کی استعداد:وَالِاسْْتِعْْدَادِ لِلْْمَوْْتِ قَبْْلَ نَزُوْْلِہٰ﴿ ترمذی﴾رب کا خاص فضل ہے ۔کار خیر کی یہ وسعت ، بغیر تھکے ، کام کا تقاضا کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کی پہچان بتاتا ہے کہ وہ ہر حال میں اس کی راہ میں مصروف رہتے ہیں اورکہا: وَمَاضَعُفُوْْا وَمَاسْْتَکَانُوْْا ﴿آل عمران:۶۴۱﴾ ۔ ﴿ انہیں کمزوری اور تکان لاحق نہیں ہوتی﴾ کارخیر میں آگے بڑھنے کے فقدان ہی نے معاشرتی مسائل کو لا ینحل بنادیا ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ صاحب استطاعت زیادہ ہونے کے باوجود قلیل تعداد میں موجود بھیک مانگنے والوں کا پیشہ نہیں بدلتا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ اسلام کی بیٹیاں ، شادی کی عمروں کو پار کرنے کے باوجود اپنے ہی گھر وںکی زینت بنی ہوئی ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ملت کی مائیں ، بیٹیاں اور بیٹے اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے ،لوگوں کے آگے اپنے دامن پھیلاتے نظر آتے ہیں؟آخر کیا وجہ ہے کہ اتحا د جس ملت کی پہچان ہو وہ منتشر نظر آرہی ہے ؟ آخر کیوں عوام کی اکثریت ہونے کے باوجود چند کرپٹ ذمہ داروں کی اصلاح نہیں ہوپارہی ہے؟آخر کیوں احساس ہونے کے باوجود محلوں کی صفائی اور بیماروں کے بروقت علاج کا انتظام ہو نہیں پاتا؟آپ ایسا بنیے کہ اچھا کام کرنا اور دوسروں کو اس کی ترغیب دلانا ، آپ کی پہچان بن جائے۔

﴿۱۱﴾ ایسا بنیے کہ لوگ آپ کے اچھے ہونے کی گواہی دیں

دین اسلام کی حیات بخش تعلیمات کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کو اخلاق وکردار کا پیکر بنادیتا ہے۔لوگ اس بات کی شہادت دیے بغیر رہ نہیں سکتے کہ دین اسلام کے ماننے والے فی الواقع کیسے ہیں؟رسول اکرم ﷺکے دور میں یہی ابھراہوا پہلو معلوم ہوتا ہے۔اسلام کی آمد سے قبل ہی لوگ آپ ﷺ کو صادق و امین کی حیثیت سے جانتے تھے۔ غلط فہمیوں اور غلط پروپیگنڈوں کا بازار گرم تھا ، لیکن رسول اکرم ﷺ اور حضرات صحابہ کرام ؓ  کی زندگیوں کامشاہدہ اہل عرب کے قلب پر اثر انداز ہورہا تھا، جس سے مشرکین کے ناپاک ارادوں کو زبردست نقصان پہنچا۔اسلامی تعلیمات کے حیات بخش ہونے کو ظاہر کرنے والا آپ کا حیات آفریں کردار ہونا چاہیے۔ آپ ایسا بنیے کہ لوگ آپ کے اخلاق و کردار کی مناسبت سے آپ کو اچھے القاب سے یاد کریں۔ آپ نیک کاموں کو انجام دینے والے ہیں، آپ گھر اور خاندان کے ایک اچھے فرد ہیں،ایک اچھے دوست ہیں،آپ کے معاملات میں شفافیت ہے،آپ ایک دیانتدارملازم اور تاجر ہیں،آپ ایک اچھے اور دردمند پڑوسی ہیں، آپ کی رائے نہایت قیمتی ہوتی ہے،آپ انسانوں کے سچے ہمدرد ہیں،بیوائوں اور مسکینوں کی خبر گیری کرنے والے ہیں،آپ کا مسائل پر اظہار خیال نہایت مدلل ہوتا ہے،آپ معاشرے میں احسن تبدیلیوں کے لیے کوشاں ہیں،انسانوں کو نجات سے ہم کنار کرنے والی اسلامی تعلیمات کی وضاحت کرنااور کسی مسلم کا حقیقی معنوں میں مسلم ہونا ، اطراف و اکناف کے ماحول سے بڑی مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔اسی لیے تو حسن اخلاق کی اس قدر اہمیت بتائی گئی ۔اور بشارت دی گئی کہ اعلیٰ اخلاق والوں کو رسول اکرم ﷺ  کی رفاقت میسر آئے گی۔اخلاق کے اعلیٰ نمونے کے ساتھ زندگی گذرانے والا شخص جب اس دنیا سے رخصت ہوگا، تو لوگوں کی زبانوں سے اس کی خوبیاں بیان ہوں گی، جو بلاشبہ اس کی نجات کا ذریعہ بنیں گی۔کسی شخص کے انتقال پر لوگوں کا اچھے خیالات کا اظہار کرنا مروت ، ہمدردی اور وقتی جذبے سے بڑھ کر اس کی بااخلاق زندگی کی بنا ہوتا ہے۔آپ ایسا بنیے کہ یہ بات لوگوں کے دلوں کی آواز بن جائے کہ آپ اچھے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ جولائی 2010

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223