کیا عمرہ کرنے کے بعد حج فرض ہوجاتاہے؟
سوال:مجھے الحمدللہ گزشتہ دنوں عمرہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص عمرہ کرلے تو اس پر حج فرض ہوجاتا ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلِلہِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا۰ۭ(آل عمران:۹۷)’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، استطاعت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس بیت اللہ تک سفر کے مصارف کا انتظام ہو اور وہ وطن میں اتنا کچھ چھوڑ کر جائے جو اس کے غائبانے میں اس کے متعلقین کی گزر بسر کے لیے کافی ہو۔ ایسے شخص پر حج فرض ہے۔ اب جو شخص اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس پر حج فرض نہیں ہے، خواہ اس نے کسی موقع پر کسی مناسبت سے عمرہ کرلیاہو۔ حج اور عمرہ دونوں الگ الگ اعمال ہیں۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ عمرہ کرلینے سے حج فرض ہوجاتا ہے۔
دینی پروگرام میں ناپاکی کی حالت میں شرکت
سوال :بعض مساجد میں عورتوں کے لیے کوئی گوشہ مخصوص کردیاجاتا ہے۔ جہاں جاکر وہ باجماعت نماز میں شرکت کرتی ہیں۔ مسجد میں کوئی دینی پروگرام ہوتا ہےتو اس سے بھی وہ اس گوشے میں رہ کر استفادہ کرتی ہیں۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں کیا عورتیں ناپاکی کی حالت میں اس حصے میں جاسکتی ہیں؟
جواب :اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا۰ۭ (النساء ۴۳)’’اے لوگو! جو ایمان لائےہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہئے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔ اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک غسل نہ کرلو۔ الا یہ کہ راستے سے گزرتے ہو۔‘‘
بعض مفسرین اور فقہاء فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جنابت یعنی ناپاکی کی حالت میں نماز سے قریب ہونے یعنی نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، اسی طرح اس میں نماز کی جگہوں یعنی مساجد سے قریب ہونے کی مخالفت بھی شامل ہے۔ (ملاحظہ کیجئے تفسیر قرطبی، تفسیر آیت مذکورہ بالا) ناپاکی کی حالت میں کوئی شخص نہ نماز پڑھ سکتا ہے نہ مسجد میں جاسکتا ہے۔ جب تک کہ وہ غسل کرکے پاکی نہ حاصل کرلے۔ یہ ممانعت جس طرح مسجد میں جاکر نماز پڑھنے کے سلسلے میں ہے اسی طرح مسجد میں منعقد ہونے والے کسی دینی پروگرام میں شرکت کے سلسلے میں بھی ہے۔
گناہ سے توبہ
سوال :ایک صاحب بڑے شریف النس ہیں، پنج وقتہ نمازی ہیں۔ مالی حیثیت سے کم زور ہونے کے باوجود ناداروں کی امداد میں پیش پیش رہتے ہیں کسی وجہ سے ان کی شادی نہیں ہوسکی ہے۔ کچھ روز پہلے وہ ایک غلط کام میں ملوث ہوگئے۔ انہوں نے ایک عورت سے ناجائز جنسی تعلق قائم کرلیا۔ یہ گناہ سرزد ہونے پر اب وہ بڑے شرمندہ ہیں۔ بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ توبہ کی کیا صورت ہوگی؟ کیا صرف توبہ کرنے سے اس گناہ کی تلافی ممکن ہے یا اس کاکوئی کفارہ ادا کرنا ہوگا؟
جواب :کسی شخص سے بڑے سے بڑا گناہ سرزد ہوجائے، اگر وہ سچے دل سے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے۔ قرآن کریم میںہے:اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۰ۚ (النساء ۴۸) ’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتاہے۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:۞ قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۵۳ (الزمر۵۳)’’اے نبی ! کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتاہے، وہ تو غفور ، رحیم ہے۔‘‘
گناہ کی معافی اور بخشش کے لیے شرط یہ ہے کہ بندہ اپنے کیے پر پشیمان ہو، اُس برے عمل سے بالکل تعلق ختم کرلے اور پختہ عزم کرلے کہ آئندہ اس سے دُور رہے گا اور اس سے بالکلیہ اجتناب کرے گا(ریاض الصالحین للنووی، باب التوبۃ)
گناہ کی بخشش کے لیے صرف توبہ کافی ہے۔ اس کا کوئی کفارہ نہیںہے، ہاں صدقہ وخیرات اور دیگر نیک کام کرنے سے بعض گناہوں کا ازالہ ہوتا ہے اور ان کے اثرات محو ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْ ھِبْنَ السَّیِّاٰتِ۔(ہود:۱۱۴)
’’درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دُور کردیتی ہیں۔‘‘
میراث کا ایک مسئلہ
سوال :ایک صاحب کی بیوی کاانتقال ہوگیا۔ دوسری شادی کے وقت دوسری بیوی نے یہ شرط رکھی کہ جائداد اس کے نام کردی جائے۔ چنانچہ انہوں نے جائداد اس کے نام منتقل کردی۔ کچھ عرصے کے بعد اس عورت کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کی کئی اولادیں ہیں۔ اب وہ صاحب تیسری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ بہ راہِ کرم بتائیں کہ اب اس جائداد پر کس کاحق ہوگا؟ کیا وہ جائداد تیسری بیوی کو دی جاسکتی ہے؟
جواب :اسلام کا امتیازیہ ہے کہ اس نے عورت کو بھی ملکیت کا حق دیا ہے۔ شوہر نے اپنی جائداد دوسری بیوی کے نام کردی تھی تو اس پر شوہر کا حق ختم ہوگیااور اس کی مالک بیوی ہوگئی۔ اس کے انتقال کے بعد اب شوہر کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس جائداد کو تیسری بیوی کے نام منتقل کردے۔ بلکہ اس کی تقسیم شریعت کے بتائے ہوئے طریقے پر ہونی چاہئے۔
کسی عورت کا انتقال ہو اور اس کے ورثاء میں شوہر اور بچے ہوں تو اس کی میراث اس طرح تقسیم ہوگی کہ شوہر کو ایک چوتھائی (پچیس فیصد حصہ ملے گا اور بقیہ میراث اس کی اولاد کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر لڑکے کو ہر لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا۔ سورۂ نساء کی آیات ۱۱-۱۲میں یہ احکام مذکور ہیں۔
مشمولہ: شمارہ جون 2014