رسائل ومسائل

محمد رضی الاسلام ندوی

جمع بین الصلوٰتین اور دوسری جماعت کے بعض مسائل

سوال:  میں ایک دینی مرکز کے کیمپس میں واقع مسجد میں پنج وقتہ نمازیں ادا کرتا ہوں۔ اس مرکز میں آئے دن بڑے پروگرام ہوتے رہتے ہیں، جن میں شرکت کے لیے باہرسے مہمان تشریف لاتے ہیں۔ یہ حضرات جمع بین الصلوٰتین کی نیت سے ظہر کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عصر کی نماز اور مغرب کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عشاء کی نماز باجماعت پڑھنے لگتے ہیں۔ مسجد میں آنےوالوں کی خاصی تعداد مقامی لوگوں کی ہوتی ہے ، جنھیں مرکز میں مہمانوں کی آمد کا علم نہیں ہوتا۔ عام نمازوں کے لیے بھی اکثر دوسری جماعت ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ ان کے لیے یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی نمازپڑھی جارہی ہے؟ جمع بین الصلوٰتین کے تحت عصر یا عشاء کی نماز پڑھی جارہی ہے یا ظہر یا مغرب کی دوسری  جماعت ہورہی ہے؟ عام لوگ ظہر یا مغرب کی دوسری جماعت سمجھ کر اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل سوالات جواب طلب ہیں:

(۱) جب عام نمازیوں کو غلط فہمی کا اندیشہ رہتا ہو تو اس طرح مسجد کے اندر جمع بین الصلوٰتین کہاں تک درست ہے؟

(۲) جو لوگ ظہر یا مغرب کی نیت سے عصر یا عشاء کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں، ان کی نماز ہوگی یا نہیں؟ کیوں کہ امام اور مقتدی دونوں کی نیت الگ الگ ہوگئی۔

(۳)اگر مسجدمیں اذان یا جماعت کے متعینہ وقت سے پہلے باجماعت نماز ادا کی جائے تو درست ہے یا نہیں؟

جواب:مسجد میں وقتِ ضرورت دوسری جماعت کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ ہیئت تبدیل کردی جائے، یعنی پہلی جماعت مسجد کے جس حصے میں ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر کسی اور جگہ دوسری جماعت کی جائے۔ اگر مسجد میں کچھ مسافر موجود ہوں اور وہ جمع بین الصلوٰتین کی غرض سے دوسری نماز جماعت سے ادا کرناچاہیں تو وہ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ اگر کچھ مسافر مسجد میں باجماعت عصر یا عشاء کی نماز پڑھ رہے ہوں اور کوئی شخص اسے ظہر یا مغرب کی نماز سمجھ کر جماعت میں شامل ہوجائے تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟ بہ الفاظ دیگر اگر امام اور مقتدی کی نیتیں الگ الگ ہوجائیں ۔ امام نے کسی نماز کی نیت کی ہو اور مقتدی کی نیت کسی اور نماز کی ہوتو مقتدی کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟

اس سلسلے میں احناف، مالکیہ اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ نماز کی نیت کے معاملے میں امام اور مقتدی کا اتحاد ضروری ہے۔ اگر امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہے اور مقتدی کی نیت ظہر کی ہے۔ یا امام عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے اور مقتدی کی نیت مغرب کی ہے تو مقتدی کی نماز درست نہ ہوگی۔ ان کا استدلال اس حدیث نبویؐ سے ہے:

اِنما جعل الامام لیؤتمّ بہ فلاح تختلفوا علیہ۔ (بخاری: ۷۲۲)

’’امام اسی لیے بنایاگیا ہے کہ اس کی اقتداکی جائے ۔ اس لیےاس سے اختلاف نہ کرو‘‘۔

البتہ شوافع کہتے ہیں کہ نماز کی صحت کے لیے امام اور مقتدی دونوں کی نمازوں کا ایک ہی ہونا ضروری نہیں ہے۔ نماز کے ظاہری افعال میں یکسانیت ہوتو مقتدی کی نماز درست ہوگی ،خواہ اس کی نیت کسی نماز کی ہو اور امام کوئی اور نماز پڑھا رہاہو۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ،کویت: ۶؍۲۲۔۲۳،۳۳)

کسی نماز کا وقت ہوجائے، لیکن ابھی اس کی اذان یا جماعت نہیں ہوئی ہے، کچھ لوگ ہیں۔ جنھیں کسی ضرورت سے فوراً سفر پر نکلنا ہے، وہ مسجد میں اپنی جماعت کرسکتے ہیں۔ البتہ ان کے لیے مناسب ہے کہ مسجد کے جس حصے میں جماعت ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر کسی اور جگہ اپنی جماعت کرلیں۔

کیا طواف اور سعی کے لیے وضو ضروری ہے؟

سوال:کیا طوافِ کعبہ اور سعی بین الصفا والمروہ کے لیے وضو ضروری ہے؟ اگر ہاں تو جس شخص کا وضو اس دوران ٹوٹ جائے وہ کیا کرے؟ کیاوضو کے بعد طواف یا سعی کو وہ ازسرنو دہرائے گا یا جتنا کرچکا ہے اس کےآگے مکمل کرے گا؟

جواب:اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

الطوافُ حول البیت مثل الصلاۃ الا انکم تتکلمون فیہ۔

(ترمذی، کتاب الحج، باب ماجاء فی الکلام فی الطواف، ۹۶۰، دارمی: ۲؍۴۴، ابن خزیمہ: ۲۷۳۹)

’’خانہ کعبہ کے گرد طواف نماز کی طرح ہے۔ سوائے اس کے کہ اس میں بات چیت کی اجازت ہے‘‘۔

اور اُم المؤمنین حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر بیت اللہ کا طواف کیا‘‘۔ (بخاری، کتاب الحج، باب الطواف علی الوضوء: ۱۶۴۱، ۱۶۴۲،مسلم : ۱۲۳۵)

حجۃ الوداع کے دوران حضرت عائشہؓ کو حیض آگیا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اب کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا:

اِفعلی مایفعل الحاج غیر ان لا تطوفی بالبیت حتیّٰ تطہری۔

(بخاری: ۱۶۵۰، مسلم: ۱۲۱۱)

’’ہر وہ کام کرو جو حاجی کرتا ہے۔ بس بیت اللہ کا طواف نہ کرو، جب تک پاک نہ ہوجائو‘‘۔

مذکورہ احادیث کی بنا پر ائمہ وفقہاء طواف کے لیے وضو کو ضروری قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے حکم کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ مالکیہ، شوافع اور حنابلہ وضو کو طواف کے لیے شرط قرار دیتے ہیں ، یعنی ان کے نزدیک بغیر وضو کے طواف نہیں ہوگا۔ احناف کے نزدیک طواف کے لیے وضو واجب ہے، یعنی اگر کوئی شخص بغیر وضو کے طواف کرلے تو اس کا طواف تو ہوجائے گا ، لیکن واجب چھوٹ جانے کی وجہ سے یاتو وہ باوضو ہوکر طواف دہرائے گا یا بہ طور کفارہ ایک جانور قربان کرے۔

اگر دورانِ طواف کسی شخص کا وضو ٹوٹ جائے تو احناف اور شوافع کے نزدیک وہ جاکر وضو کرے اور جتنے چکر باقی رہ گئے ہیں انھیں پورے کرلے۔ازسرنو طواف کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام مالکؒ سے اس سلسلے میں دونوں طرح کے اقوال مروی ہیں۔ حنابلہ کے نزدیک اگر اس نے جان بوجھ کر وضو توڑا ہے تو دوبارہ وضو کرکے ازسرنو طواف کرے اور اگر بے اختیار وضو ٹوٹ گیا ہے تو اس سلسلے میں دونوں طرح کے اقوال ہیں۔

کوئی شخص، چاہے حج کرے یا عمرہ، اسے طواف کے ساتھ صفا ومروہ کے درمیان سعی بھی کرنی ہوتی ہے۔ اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ طواف کے ساتھ سعی بھی باوضو ہوکر کرنا چاہیے، لیکن اوپر مذکور حدیث میں صرف طواف کے ضمن میں پاکی کی صراحت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر طہارت کے سعی کی جاسکتی ہے۔

] تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے الموسوعۃ الفقہیہ ،کویت: ۲۷؍۱۳۰۔۱۳۲، بحث ’طواف‘، ۲۵؍ ۱۹ بحث ’سعی‘[

بغیر اعلان اور گواہ کے نکاح

سوال: ایک صاحب شادی شدہ ہیں۔ ان کی بیوی معزز اور صاحبِ حیثیت گھرانے کی ہے، لیکن بعض اسباب سے وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ ایک مطلقہ عورت سے محبت کرتے ہیں اور اس سے شادی کرناچاہتے ہیں۔ مگر اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ اگر ان کی بیوی کو اس کا علم ہوگیا تو وہ ان سے طلاق لے لے گی اور سیاسی اثر ورسوخ کی وجہ سے ان کو جھوٹے کیس میں پھنسا دے گی۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ خفیہ طریقے سے اس مطلقہ عورت سے نکاح کرلیں۔ نہ اس کے ولی کو پتہ چل پائے، نہ گواہ ہوں، نہ اعلان ہو ۔ کیوں کہ گواہ اور اعلان ہونے کی صورت میں لوگوں کو معلوم ہوجائے گا اور ان کا معاملہ خفیہ نہیں رہ سکے گا، پھر وہ پہلی بیوی کی طرف سے مختلف مسائل کا شکار ہوجائیں گے۔ کیا ان صاحب کے لیے ایسا کرنے کی رخصت ہے؟

جواب:خاندان کی تشکیل مرد اور عورت کی یکجائی سے ہوتی ہے۔ اس کے قانونی جواز کے لیے اسلام نے نکاح کو شرط قرار دیا ہے۔ بغیر نکاح کے کسی اجنبی مرد اور عورت کا ایک ساتھ رہنا اور جنسی تعلق قائم کرنا اسلام کی نظر میں سخت ناپسندیدہ ، موجب گناہ اور لائق سزا عمل ہے۔ نکاح کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ اس کا انعقاد علی الاعلان کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

اَعلنوا ھٰذا النکاح۔(ترمذی: ۱۰۸۹، ابن ماجہ: ۱۸۹۵)

’’نکاح کا اعلان کرو‘‘۔

ایجاب وقبول کے لیے ضروری ہے کہ لڑکی کی مرضی کے ساتھ اس کے ولی کی بھی اجازت حاصل کرلی گئی ہو اور نکاح کا عمل کم سے کم دو بالغ مسلمان گواہوں کے سامنے انجام پائے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

لانکاح الا بولی وشاھدی عدل ۔ (صحیح وضعیف الجامع للالبانی، ۷۵۵۷۔ علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)

’’ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘‘۔

اسلام سے پہلے نکاح کی جو صورتیں رائج تھیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ لوگ چوری چھپے آشنائیاں کرتے تھے۔ اسلام نے جہاں بغیر نکاح کے اعلانیہ جنسی تعلق کو حرام قرار دیا وہیں چوری چھپے آشنائی کو بھی ناجائز قرار دیا۔ قرآن حکیم میں نکاح کے بیان میں یہ شرائط بیان کی گئیں:

مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ۔(المائدۃ:۵)

’’بشرطے کہ تم ان (عورتوں) کے محافظ ہو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو‘‘۔

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ نکاح کے صحیح ہونے کے لیے گواہوں کی موجودگی اور اس کا اعلان کرنا ضروری ہے، تاکہ سماج کو معلوم ہوسکے کہ دو اجنبی مرد وعورت، نکاح کے بندھن میں بندھنے کے بعد ہی اب ایک ساتھ رہنے لگے ہیں۔ مسائل کا شکار ہونے کی کوئی بھی صور ت فرض کرلی جائے، خفیہ طریقے سے بغیر گواہوں کی موجودگی کے نکاح درست نہیں ہوسکتا۔

مرض سے شفایابی پر قربانی

سوال:  زندگی نو جنوری ۲۰۱۵ء میں ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا ہے کہ ’’عام حالات میں حلال جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھایا جاسکتا ہے اور بہ طور صدقہ اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے‘‘ پھر اس سے یہ استنباط کیا ہے کہ ’’کسی مناسبت سے ، مثلاً مرض سے شفایابی پر جانور ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔ یہ بات صحیح نہیں معلوم ہوتی۔

جانور ذبح کرکے اسے کھانے یا ذبح شدہ جانور کے گوشت کو بطور صدقہ تقسیم کرنے میں کوئی کلام نہیں، البتہ سوال یہ ہے کہ کسی مناسبت سے جانور کو بطور تقرب یا بغرض ثواب ذبح کرنا درست ہے یا نہیں؟ جیسا کہ یہ عام رواج بنتا جارہا ہے کہ کوئی شخص کسی جان لیوا حادثے سے بچ گیا تو اس کے بعد قربت کی نیت سے وہ جانور ذبح کرتا ہے اور خون بہانے کو کارـثواب سمجھتا ہے اور اسے جان کی حفاظت کا بدلہ قرار دیتا ہے۔

جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ بغرضِ ثواب جانور ذبح کرنا صرف دو موقعوں پر ثابت ہے۔ ایک عید قرباں میں ، دوسرے عقیقہ میں۔ الاّ یہ کہ دیگر اعمال صالحہ کی طرح کوئی شخص جانور ذبح کرنے کی نذر مان لے تو بحیثیت نذر درست ہے ، کیونکہ کسی بھی عمل صالح کو بشکل نذر اپنے ذمے  لازم کرنا اور اسے ادا کرنا کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور موقع پر بطور تقرب جانور ذبح کرنا ثابت نہیں ہے اور تعبدی امور میں قیاس درست نہیں۔

جواب: حلال جانوروں کا گوشت کھانا اور کھلانا عام حالات میں ، بغیر کسی مناسبت کے، جائز ہے۔ اسی طرح کسی مناسبت سے بھی اس کا جواز ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی مرض سے شفا پاجائے تو بہ طور شکرانہ وہ جانور ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کرسکتا ہے۔ فقہائے کرام نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد فتاویٰ موجود ہیں۔

شیخ محمد صالح المنجد عالم اسلام کے مشہور فقیہ اور مفتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر Islamqa کے نام سے موجود سائٹ پر ان کے فتاویٰ موجود ہیں۔ فتویٰ نمبر ۱۰۷۵۴۹ کے مطابق ایک شخص نے یہ سوال کیا تھا: ’’میرا چچازاد ایک حادثے میں زخمی ہوگیا ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق اس کے بچنے کی پچاس فی صد امید ہے۔ ہمیں کسی نے نصیحت کی کہ ایک بکری اللہ کے لیے ذبح کردو، تو کیا ہمارے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا؟‘‘

اس کا انھوں نے یہ جواب دیا:

’’اگر اللہ کے لیے ذبح کرنے کےبعد اس گوشت کے کچھ حصے کو فقراء اور مساکین پر تقسیم کرنا مقصود ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: داؤوامرضا کم بالصدقۃ (اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو) ابودائود نے اسے مراسیل میں ذکر کیا ہے اور طبرانی اور بیہقی وغیرہ نے اسے متعدد صحابہ کرامؓ سے روایت کیا ہے۔ اس کی تمام تر اسانید ضعیف ہیں، جبکہ البانی ؒ نے اسے صحیح ترمذی (۷۴۴) میں حسن لغیرہ قرار دیا ہے‘‘۔ آگے انھوں نے دو فتاویٰ بھی نقل کیے ہیں:

دائمی کمیٹی برائے فتویٰ کے علمائے کرام سے پوچھا گیا: برائے مہربانی حدیث: ’’داؤود مرضاکم بالصدقۃ (اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو) کا مطلب سمجھا دیں، جسے بیہقی نے السنن الکبریٰ (۳؍ ۳۸۲) میں بیان کیا ہے، لیکن اکثر محدثین کرام مریض کا علاج جانور کو ذبح کرنے کے حوالے سے اسے ضعیف قرار دیتے ہیں ، تو کیا مریض سے مصیبت ٹالنے کے لیے ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟

اس سوال کا انھوں نے یہ جواب دیا:

’’مذکورہ حدیث درست نہیں ہے، لیکن مریض کی جانب سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور شفایابی کی امید رکھتے ہوئے صدقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ صدقہ کی فضیلت میں بہت سے دلائل موجود ہیں اور صدقہ سے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اور بری موت سے انسان دور ہوجاتا ہے‘‘۔ (فتاویٰ اللجنۃ الملدائمۃ: ۲۴؍ ۴۴۱)

شیخ ابن جبرین رحمۃ اللہ کہتے ہیں:

’’صدقہ مفید اور سودمند علاج ہے۔ اس کے باعث بیماریوں سے شفا ملتی ہے اور مرض کی شدت میں کمی بھی واقع ہوتی ہے۔ اس بات کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان (صدقہ گناہوں کو ایسے مٹادیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔) سے ہوتی ہے۔ اسے احمد(۳؍ ۳۹۹) نے روایت کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ مرض گناہوں کی وجہ سے سزا کے طور پر لوگوں کو لاحق ہوجاتے ہوں، تو جیسے ہی مریض کے ورثاء اس کی جانب سے صدقہ کریں تو اس کے باعث اس کا گناہ دھل جاتا ہے اور بیماری جاتی رہتی ہے، یا پھر صدقہ کرنے کی وجہ سے نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں، جس سے دل کو سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے اور اس سے مرض کی شدت میں کمی واقع ہوجاتی ہے‘‘۔(الفتاویٰ الشرعیۃفی المسائل الطبیۃ، جلد۲، سوال نمبر ۱۵)

آخر میں شیخ المنجد نے لکھا ہے:

’’چنانچہ اللہ کے لیے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس قربانی کا مقصد مریض کی جانب سے شفا کی امید کرتے ہوئے صدقہ کرنا ہے، جس سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے شفا دے گا‘‘۔

ہندوستان کے مشہور فقیہ اور مفتی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے دریافت کیا گیا: ’’اگر کوئی شخص بیمار پڑا تو اس کے گھر والے اس کے اچھے ہونے کے بعد جان کی زکوٰۃ میں بکرا ذبح کرتے ہیں۔ یہ گوشت گھر والے کھاسکتے ہیں یا نہیں؟

اس سوال کا انھوں نے یہ جواب دیا:

’’اگر صحت مند ہونے سے پہلے نذر مانی ہو کہ صحت حاصل ہونے پر میں بکرا ذبح کروں گا تو یہ نذر کی قربانی ہے۔ یہ ان  لوگوںکو کھلایا جاسکتا ہے جن کو نذر ماننے والا زکوٰۃ دے سکتا ہو۔ اور اگر پہلے سے نذر نہیں مانی تھی، بلکہ صحت مند ہونے کے بعد اظہار مسرت کے لیے قربانی کی تو یہ شکرانہ کی قربانی ہے۔ اس کا گوشت خود بھی کھاسکتا ہے اور دوسرے اہل تعلق کو بھی کھلایا جاسکتا ہے‘‘۔ (کتاب الفتاویٰ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، ۲۰۰۵ء، ۴؍۱۳۸، فتویٰ نمبر ۱۳۰۶)

پاکستان کی مشہور درس گاہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹائون، کراچی کے مفتی مولانا محمد انعام الحق قاسمی نے لکھا ہے:

’’مریض کی صحت کی نیت سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کوئی جانور ذبح کرنا جائز ہے، البتہ زندہ جانور کا صدقہ کردینا زیادہ بہتر ہے‘‘۔

(قربانی کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا، بیت العمار کراچی، سنہ طباعت ندارد،ص ۹۶)

خلاصہ یہ کہ کوئی شخص کسی جان لیوا حادثہ سے بچ جائے یا کسی موذی مرض سے شفا پاجائے تو اس کے بعد اس کا کسی جانور کا خون بہانے کو کارثواب سمجھنا اور اسے جان کی حفاظت کا بدلہ قرار دینا تو غلط ہے، لیکن بطور شکرانہ زندہ جانور کو صدقہ کرنا یا اسے ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرنا دونوں صورتیں درست ہیں۔

میراث کا ایک مسئلہ

سوال:  میری بیوی کا انتقال ہوگیا ہے۔ میری چھ لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے۔ بہ راہ کرم بتائیے کہ ان کی میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟

جواب:  میراث کے احکام قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ اس میں بتایاگیا ہے کہ’’ اگر بیوی کا انتقال ہو اور وہ صاحبِ اولاد ہو تو شوہر کو میراث کا ایک چوتھائی ملے گا‘‘۔ (النساء: ۱۲) اور اولاد کے درمیان بقیہ میراث اس طرح تقسیم ہوگی کہ ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر ملے گا‘‘۔ (النساء: ۱۱)

صورت مسئولہ میں شوہر کا حصہ (ایک چوتھائی) نکالنے کے بعد بقیہ میراث کےآٹھ حصے کیے جائیں گے ۔ ایک ایک حصہ ہر لڑکی کو ملے گا اور دو حصے لڑکے کو دیے جائیں گے۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2015

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau