جماعت اسلامی ہند کی ابو الفضل انکلیو ، جامعہ نگر ، نئی دہلی کی مقامی جماعت کے حلقۂ خواتین نے امسال اپنی تعلیم و تزکیہ کے لیے ایک پندرہ روزہ پروگرام ترتیب دیا۔ خواتین روزانہ صبح دو گھنٹے کے لیے جمع ہوتی تھیں اور تجوید و تصحیح تلاوت، کسی دینی موضوع پر گفتگو اور اجتماعی مطالعۂ قرآن کر تی تھیں۔ مولانا عبد السلا م اصلاحی مدنی، معاون شعبۂ تربیت، مولانا انعام اللہ فلاحی، معاون شعبۂ تعلیمات اور ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندو ی، سکریٹری تصنیفی اکیڈمی نے ان پروگراموں کی نگرانی کی ۔ آخری دن عمومی سوالات و جوابات کی نشست رکھی گئی ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے سوالات کے جوابات دیے۔ موصوف کی نظر ثانی کے بعد انھیں افادۂ عام کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ (محمد اسعد فلاحی، معاون شعبۂ تصنیفی اکیڈمی)
کیا عارضی مدت کے لیے نکاح جائز ہے؟
سوال: ایک شخص تعلیم کی غرض سے دوسرے ملک جاتا ہے۔اس کی تعلیم کی مدت چار سال ہے۔وہ گناہ سے بچنے کے لیے چار سال کی مدت کے لیے نکاح کرلیتا ہے۔ فریقین کے درمیان اس کا معاہدہ ہو جاتا ہے۔ چار سال کے بعد اس شخص کی تعلیم مکمل ہو جاتی ہے اور وہ اپنے بیوی بچوں کو کچھ مال و جائداد اور رہائش دے کر طلاق دے دیتا ہے اور اپنے وطن روانہ ہو جاتا ہے۔کیا یہ طریقہ درست ہے؟اس سلسلے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
جواب:اس تعلق سے دو صورتیں ہیں، ان میں فرق کرنا چاہیے۔ سوال میں جو بات کہی گئی ہے کہ ایک شخص چار سال کے لیے نکاح کر رہا ہے،یہ مدت لڑکے کو بھی معلوم ہے اور لڑکی کو بھی۔اس کو اصطلاح میں ’نکاح متعہ‘ کہا جاتا ہے۔ اہل سنت و الجماعت کے نزدیک یہ حرام ہے۔کتب سیرت و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی ؐ میں ایک زمانے تک یہ حلال تھا، لیکن بعد میں اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے ہی میں اس کو حرام قرار دے دیا گیا تھا۔چوں کہ اس کی حرمت کی خبر تمام علاقوں اور تمام لوگوں تک نہیں پہنچی تھی،اس لیے بعد میں حضرت عمرؓ نے اس کا اعلان عام کیا تھا ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ لڑکاعارضی مدت کے لیے نکاح کا ارادہ کرتا ہے،لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرتا۔ نکاح عام نکاحوں کی طرح ہوتا ہے، لڑکی کو اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ لڑکے کے دل میں کیا ہے؟ جہاں تک لڑکی کا تعلق ہے، یہ نکاح جائز ہے۔ اگر لڑکا چار سال کے بعد طلاق دے دیتا ہے اور اس کے جو لوازمات ہیں وہ ادا کر دیتا ہے ، تواس نکاح کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔ گویا ایسا نکاح، جس میں کسی ایک فریق کے دل میں چور ہو کہ میں ایک مدت کے بعد اس کو جاری نہیں رکھوں گا،لیکن دوسرے فریق کو اس کا علم نہ ہو، یہ نکاح جائز ہے۔لڑکے نے عارضی مدت کے ارادے سے نکاح کیا ہے۔ اس ارادے کے سلسلے میں وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ ہوگا، لیکن نکاح کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔
استخارہ اور اس پر عمل
سوال: استخارہ کرنے پر جو خواب نظر آئے اس کی تعبیر کیسے کی جائے؟ کیا کسی ایسے شخص سے، جو خواب کی تعبیر جانتا ہو ، پوچھنا جائز ہے؟
جواب: استخارہ حدیث سے ثابت ہے۔ اس کا ایک طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص دو معاملات میں سے کسی ایک کا فیصلہ نہیں کر پارہا ہے تووہ استخارہ کی نماز ادا کرتا ہے اور دعا کرتا ہے،پھر سو جاتا ہے تو اس بات کا امکان رہتا ہے کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ خواب میں کسی ایک بات کی طرف یکسو کر دے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ شخص استخارہ کے بعد بھی کسی ایک رائے پر یکسو نہ پائے۔ اگر استخارہ کرنے کے بعد اسے کوئی خواب نظر آتا ہے تو اس کی حیثیت ایک عام خواب کی سی ہوگی۔ خواب کی تعبیر ایک مخصوص فن ہے۔ ہر شخص کے لیے اس کی تعبیر بتانا ممکن نہیں ہے۔ کوئی شخص خواب کی تعبیر بتائے تو ضروری نہیں کہ وہ سو فیصد صحیح ہو۔ بعض خوابوں کی تعبیر الٹی ہوتی ہے۔مثلاً کسی شخص نے خواب میں اپنے کسی عزیز کے مرنے کا خواب دیکھ لیا۔ اس کا عین امکان ہے کہ اس کی تعبیر یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس عزیز کی مدت عمر میں اضافہ کرے گا۔ خواب جو دیکھا گیا ہے اس کی تعبیر ویسی ہی ہوگی یا اس کے برعکس، دوسرے یہ کہ کوئی شخص اس خواب کی جو تعبیر بتا رہا ہے، وہ صحیح ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ حدیث میں استخارہ کی اجازت دی گئی ہے۔ استخارہ کیا جا سکتا ہے،لیکن اس کے نتیجہ میں ہمیں جو کچھ دکھائی دے، ضروری نہیں ہے کہ وہ ہمارے لیے واجب اتعمیل ہو۔
زکوٰۃ کو قرض میں ایڈجسٹ کرنا
سوال: ایک خاتون زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ہر ماہ کچھ رقم پس انداز کرتی رہی۔ اس دوران کسی ضرور ت مند نے قرض مانگا تو اس رقم کو اسے قرض دے دیا۔ اب جب کہ اس کو زکوٰۃ ادا کرنی ہے اور قرض خواہ رقم واپس نہیں کر رہا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ اس کے پاس زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے کوئی رقم نہیں ہے، اس صورت میں اگر قرض میں دی گئی رقم کو زکوٰۃ تصور کرلیا جائے اور قرض کو معاف کر دیا جائے تو کیا اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟
جواب:بعض فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے کہ اگر ہم نے کسی کو قرض دیا ہے اور وہ اسے لوٹا نہیں رہا ہے، ہم پرزکوٰۃ فرض ہے تو ہم قرض کو معاف کردیں اور سمجھ لیں کہ ہم نے زکوٰۃ ادا کر دی۔ لیکن زیادہ تر فقہاء اس کوجائز نہیں قرار دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ہم نے حقیقت میں زکوٰۃ نہیں دی، بلکہ اپنی ڈوبی ہوئی رقم نکالی ہے۔ زکوٰۃ میں یہ ہوشیاری نہیں چلتی ہے۔یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ زکوٰۃ اس ایڈجسٹمنٹ سے ادا نہیں ہوگی۔ کسی کو دیا ہوا قرض آپ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے، واپس مل جائے تو ٹھیک ہے، نہ ملے تو معاف کر دیجیے، لیکن آپ کے ذمے جو زکوٰۃ ہے وہ آپ کو ادا کرنی ہوگی۔
رقم نہ ہو تو زکوٰۃ کیسے ادا کریں؟
سوال: کسی شخص پرزکوٰۃ واجب ہے، لیکن اس کے پاس رقم نہیں ہے، وہ زکوٰۃکیسے ادا کرے؟
جواب: ایک ہے زکوٰۃ کا واجب ہونا اور دوسرا ہے اس کا ادا کرنا۔ زکوٰۃ واجب ہونے سے پہلے بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ ہمارے اوپر زکوٰۃ ایک سال کے بعدفرض ہوگی ، لیکن ہمارے پاس غریب آتے رہتے ہیں، ہم ان کو کچھ رقم زکوٰۃ کی نیت سے دیتے رہیں، سال بھر کے بعد ہم اس کا حساب کر لیں۔ جتنی زکوٰۃ واجب ہوئی ہے، اس میں سے اس رقم کو کم کر دیں، یہ جائز ہے۔اسی طرح زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد کچھ تاخیر سے اس کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً ہمارے اوپر دو ہزار (۲۰۰۰) روپے واجب ہوئے،ہم نے اس رقم کو اپنے پاس الگ رکھ لیا اور سوچا کہ آئندہ جو بھی غریب آتے رہیں گے، ان کو اس میں سے تھوڑا تھوڑا ادا کرتے رہیں گے ،ایسا کر نا بھی جائز ہے۔ اگر ہمارے اوپر زکوٰۃ فرض ہو گئی ہے،لیکن ہمارے پاس رقم نہیں ہے،تو ظاہر ہے کہ ہم انتظار کریں گے اور بعد میں جب رقم کا انتظام ہو جائے گا تو اس میں سے زکوٰۃ ادا کر یں گے۔
کیا حمل کے ابتدائی ایام میں اسقاط کی اجازت ہے؟
سوال: حمل کے ابتدائی تین مہینوں میں چوں کہ بچے میں جان نہیں پڑتی ، اس لیے کیا اس مدت میں حمل کو ضائع کروانا کوئی گناہ نہیں ہے؟اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیے۔ بہت سی خواتین اس مدت میں اسقاط کر وانے کو گناہ نہیں سمجھتی ہیں۔
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ جنین میں روح پڑنے کی مدت حدیث میں تین ماہ نہیں، بلکہ ایک سو بیس (۱۲۰) دن یعنی چار ماہ بتائی گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عام حالات میں اسقاط کروانا کسی بھی وقت جائز نہیں ہے۔ فقہاء نے ایک سو بیس(۱۲۰) دن سے قبل اسقاط کی اجازت دو شرائط کے ساتھ دی ہے: ایک تو یہ کہ کسی ذریعہ سے جنین میں کسی نقص کا پتا چل گیا ہو۔ یہ نقص جسمانی بھی ہو سکتا ہے اور دماغی بھی۔ یہ معلوم ہو جائے کہ دواران حمل جنین کا نشوو نما صحیح طریقے سے نہیں ہو رہا ہے۔جب بچہ پیدا ہوگا تو دماغی طور سے بہت کم زور ہوگا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حمل کو جاری رکھنے کے نتیجہ میں زچہ (حاملہ) کی جان کو خطرہ ہو، یا اس کی صحت کے بہت زیادہ متأثر ہونے کا اندیشہ ہو۔ ان دونوں صورتوں میں بعضـ علماء ایک سو بیس دن کے اندر اسقاط حمل کو جائز قرار دیتے ۔ بعض علماء تو کسی بھی صورت میں اور کسی بھی مدت میں اسقاط کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ بہ ہر حال عام حالات میں بغیر کسی حقیقی عذر کے ابتدائی ایام میں اسقاط حمل کروانا جائز نہیں ہے۔
طلاق بہ طور ہتھیار
سوال: شوہر بیوی کے درمیان ناخوش گواری کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ شوہر بات بات پر گالم گلوچ کرتا ہے اور بیوی کو زبان سے اذیت پہنچاتا ہے۔ وہ بات بات پر کہتا ہے کہ میں تجھ کو طلاق دے دوں گا۔ کیابار بار طلاق کا لفظ دہرانے سے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا؟
جواب: اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ’ میں نے طلاق دے دی‘ تبھی طلا ق نافذ ہوگی۔ وہ بیوی سے ہزار بار کہے کہ میں تجھ کو طلاق دے دوں گا، اس کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ اصل میں بعض لوگ طلاق کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں بیوی سرکشی پر آمادہ ہوتی ہے تو اس کو قابو میں کرنے کے لیے دھمکی دیتے ہیں کہ میں تجھے طلاق دے دوں گا۔ اس دھمکی سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔لیکن اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ میں نے طلاق دے دی تو وہ طلاق نافذ ہوجائے گی۔
شوہر کے مفقود الخبر ہونے کی صورت میں خلع کا طریقہ
سوال: ایک شخص اپنی بیوی پر دبائو ڈال کر اس کے میکے سے بار بار رقم منگواتا رہا۔ جب اس کا مطالبہ پورا نہ ہوا تو بغیر اطلاع دیے ہوئے وہ کہیں چلا گیا۔ عورت اپنے میکے میں ہے۔ ایک سال سے زاید عرصہ ہو گیا ہے۔ اس نے دار القضاء میں اپنامعاملہ رکھا تو اس کے شوہر کو مفقود الخبرقرار دیتے ہوئے سات سال انتظار کرنے کو کہا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی لڑکی کو منصوبہ بند طریقہ سے ستانے کے لیے خود کو روپوش کر لے یا بغیر اطلاع کے بیرون ملک چلا جائے تو کیا اس کو مفقود الخبر قرار دیا جائے گا؟ اس صورت میں اگر لڑکی خلع لینا چاہے تو اس کا کیا طریقہ ہوگا؟
جواب: ایک شخص اچانک غائب ہو گیا ہے یا اسے کسی نے غائب کر دیا ہے، دونوں صورتوں میں عملاً کوئی فرق نہیں ہے۔عورت شوہر سے محروم ہو گئی ہے۔ اب دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ وہ صبر کرے ، جس طرح وہ عورت صبر کرتی ہے جس کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہو اور دوسری شادی نہ کرے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ اس کا نکاح ہو۔ شریعت نے ایسی عورت کو دوسرے نکاح کا حق دیا ہے۔ لیکن یہ حق اسے اس طرح حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جب چاہے کسی دوسرے سے نکاح کر لے یا اس کا نکاح کروا دیا جائے،بلکہ شریعت یہ کہتی ہے کہ پہلا نکاح ختم کرنا ضروری ہے۔کوئی نکاح اسی صورت میں ختم ہو سکتا ہے جب شوہر خود طلاق دے دے ، یا بیوی خلع لے لے۔ دونوں صورتوں میں شوہر کی موجودگی ضروری ہے۔ شوہر موجود نہیں ہے تو عورت دار القضاء میں کیس کرے گی۔قاضی تحقیق کی جتنی صورتیں اختیار کر سکتا ہے، کرے گا۔ جب شوہر کا پتا نہیں چلے گا تو وہ اس نکاح کو فسخ کر ادے گا۔ اس کے بعد عورت دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔تحقیق و انتظار کی مدت امام مالکؒ کے یہاں چار سال ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ مدت بہت طویل (اسّی سال) ہے، لیکن بعد کے فقہائے احناف نے امام مالکؒ کی رائے کو اختیار کر لیا ہے۔ عام طور سے دارالقضاء میں ہوتا یہ ہے کہ جب عورت کی طرف سے شوہر کے مفقود الخبر ہونے کا کیس کیا جاتا ہے تو قاضی شوہر کے پتے پر خط بھیجتا ہے۔ کوئی جواب نہیں آتا تو دوسری بارخط بھیجتا ہے۔ پھر بھی جواب نہیں آتاتو تیسری مرتبہ شوہر کے قریبی رشتہ داروں میں سے کسی کے پتے پر خط بھیجا جاتا ہے۔ پھر بھی کوئی سراغ نہیں لگتا اور تحقیق کی تمام ممکنہ صورتیں اختیار کر لی جاتی ہیں تو قاضی نکاح کے فسخ کا اعلان کر دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ عورت دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔
مساجد میں خواتین کی حاضری
سوال: رسو ل اللہ ﷺنے خواتین کو مسجد میں جانے کی اجازت دی تھی تو حضرت عمرؓ اسے ناپسند کیوں کرتے تھے؟ اور اپنی اہلیہ کو کیوں روکنے کی کوشش کرتے تھے؟
جواب: اللہ کے رسول ﷺنے خواتین کو نماز کے لیے مسجد جانے کی اجازت دی ہے، حکم نہیں دیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہ نکلے‘‘۔ گھر سے باہر نکلنا نماز کے لیے بھی ہو سکتا ہے اور دوسرے کاموں کے لیے بھی۔ اگر شوہر بیوی کو گھر سے باہر نکلنے سے روک دے تو اس کے لیے نکلنا جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے مردوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے: ’’لوگو! اللہ کی باندیوں (یعنی عورتوں)کو اللہ کے گھروںمیں جانے سے نہ روکو۔ لیکن ان کا اپنے گھروں میں نماز پڑھنا بہتر ہے‘‘۔ اس حدیث میں دو جملے ہیں،لیکن ہم میں سے اکثر لوگ ایک جملہ کو پکڑ لیتے ہیں اور دوسرے کو چھوڑ دیتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ عورتوں کو مسجد میں جانے کی بہ صراحت اجازت دی گئی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ان کا گھر میں نماز پڑھنا زیادہ پسندیدہ ہے۔ حضرت عمرؓ عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے تھے، چنانچہ انھیں ان کا مسجد جا کر نماز پڑھنا بھی پسند نہ تھا، لیکن اللہ کے رسولﷺ کی مذکورہ بالا ہدایت کی وجہ سے انھوں نے کبھی اپنی اہلیہ کو مسجد جانے سے نہیں روکا۔ بیان کیا گیا ہے کہ ان کی اہلیہ حضرت عاتکہؓ ہر نماز کے لیے ان سے پوچھتی تھیں کہ میں نماز کے لیے مسجد جائوں یا نہ جائوں؟ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ ہر نماز کے لیے کیوں اپنے شوہر سے پوچھتی ہیں؟ انھوں نے جواب دیا:میں یہ دیکھنا چاہتی ہوں کہ حضورﷺ کی اجازت کے بعد وہ ہمیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں یا نہیں۔
عہد نبوی میں پردہ کا معمول
سوال: عہد نبوی میں خواتین کے درمیان کس طرح کا پردہ رائج تھا؟
جواب: ہمارے یہاں پردہ کے معاملہ میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جو عورت کالا بر قع اوڑھتی ہے وہ با پردہ ہے اور جو برقع نہیں اوڑھتی وہ بے پردہ ہے۔ حالاں کہ یہ برقع، جو آج ہمارے یہاں مروج ہے، اس کی مدت سودوسو سال سے زیادہ کی نہیں ہے۔مروجہ برقع سے بہتر طور پر پردہ کے تقاضے پورے ہوتے ہیں، اس لیے اس کا استعمال پسندیدہ ہے، لیکن اس کو اوڑھے بغیر بھی اسلامی شریعت کے مطابق پردہ کیا جا سکتا ہے اور ایک عورت با پردہ رہ سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک عورت چمک دمک والا برقع پہن کر بھی بغیر پردہ والی ہو سکتی ہے۔ آج کل تو مارکیٹ میں ایسے ایسے فیشن والے برقعے آگئے ہیں کہ اگر عام حالات میں کسی شخص کی نگاہ نہ اٹھتی ہو تو اس برقع کی طرف ضرور اٹھ جاتی ہے۔خلاصہ یہ کہ عورت اپنے سادہ لباس میں بھی اسلامی شریعت کے مطابق پردہ کا التزام کر سکتی ہے۔
اس سلسلے میں ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ چہرہ کا پردہ ہے یا نہیں؟ مولانا مودودیؒ نے بہت زور دے کر کہا ہے کہ چہرے کا بھی پردہ ہونا چاہیے، کیوں کہ اصل پردہ تو چہرے ہی کا ہے۔ لیکن دوسرا موقف جو علامہ ناصر الدین البانیؒ، ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور بعض دیگر علماء کا ہے، یہ ہے کہ چہرے کا پردہ عورت کے لیے واجب نہیں ہے،ہاں پسندیدہ ضرورہے۔لہٰذا اگر کوئی عورت اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہے تو وہ گناہ گار نہیں ہے۔ عہد نبویؐ میں دونوں طریقے رائج تھے۔ جب پردہ کا حکم نازل ہوا تو عورتوں نے اپنے جسم کے ساتھ چہرے بھی چھپانے شروع کر دیے، لیکن بعض عورتیں اس دور میں ایسی بھی تھیں جو اپنا چہرہ نہیں چھپاتی تھیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان کو تنبیہ نہیں کی۔ اگر چہرہ چھپانا عورتوں کے لیے لازم ہوتا تو اللہ کے رسولﷺ ان کو لازماً ٹوکتے کہ تم اپنا چہرہ کیوں نہیں چھپاتی ہو؟ اس زمانے میں چہرہ کھلا رکھنے والی عورتوں کی تعداد کم تھی، چہرہ چھپانے والی عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ لیکن دونوں رویے اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں پائے جاتے تھے۔ اس کی متعدد مثالیں علامہ البانی ؒنے اپنی کتاب (حجاب المرأۃ المسلمۃ فی ضوء الکتاب والسنۃ) میں پیش کی ہیں۔
کیا موجودہ دور کی جنگوں میں گرفتار خواتین کی حیثیت ملک یمین کی ہوگی؟
سوال:قرآن نے جنسی تعلق جائز ہونے کے لیے نکاح کے علاوہ دوسری صورت ’ملک یمین‘ کی بتائی ہے۔ مولانا مودودیؒکی تفسیر ’تفہیم القرآن‘ کے مطالعہ سے ہمیں یہی بات معلوم ہوئی ہے۔ تو کیا آج کے دور میں عرب ممالک میں جو جنگیں ہو رہی ہیں ، ان میں گرفتار خواتین کی حیثیت’ ملک یمینـ‘ کی ہوگی؟
جواب:بعض علماء کا خیال ہے کہ کسی زمانے میں بھی ملک یمین یعنی لونڈیوں سے جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ان سے بھی نکاح کرنا ضروری تھا، لیکن جمہور علماء کا خیال ہے (اورمولانا مودودیؒ کا بھی یہی موقف تھا) کہ جو حیثیت نکاح کی ہے، وہی حیثیت ملک یمین کی بھی ہے۔ موجودہ زمانے میںجو جنگیں ہو رہی ہیں ، جن میں دونوں فریق (فوجیں) مسلمان ہیں،ان میں گرفتار ہونے والے مسلمان مردوںاور عورتوں کوکسی بھی صور ت میں غلام اور لونڈیاں نہیں بنایا جا سکتا۔ حضرت عثمان ؓکی شہادت کے بعد جو جنگیں ہوئی تھیں،حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کی فوجوں کے درمیا ن (جنگ جمل)اور حضرت معاویہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان (جنگ صفّین) ، ان مواقع پر صحابہ کرامؓ کے اقوال صراحت کے ساتھ موجود ہیں کہ کسی بھی مسلمان کو قیدی (غلام اور لونڈی) نہیں بنایا جا سکتا۔ دونوں جنگوں میں ہزاروں افراد قتل ہوئے تھے، لیکن ان میں سے کسی کو بھی قیدی نہیں بنایا گیا تھا۔
ایک بات یہ بھی غور کرنے کی ہے کہ قرآن مجید میں جو احکام و تعلیمات تدریجاً بیان ہوئے ہیں، ان کو واپس نہیں لوٹایا جا سکتا۔ مثلاً اس زمانے میں غلامی کا رواج تھا۔ اسلام نے غلامی کو ختم کرنے کے لیے تدریجاً احکام بیان کیے، روزہ اور ظہار کے کفارہ میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا، غلام آزاد کرنے کی فضیلت بیان کی،یہاں تک کہ ایک زمانہ ایسا آیا کہ غلامی بالکل ختم ہو گئی۔ اب پھر سے غلامی کو رواج نہیں دیا جا سکتا۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2016